شراب

جواب۔  پہلی بات تو یہ جان لیں کہ قرآن و حدیث رائے نہیں دیا کرتے،بلکہ حکم دیتے ہیں۔

جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو شراب کے بارے میں اس نے درج ذیل حکم دیا ہے:‘‘ اے ایمان والو، یہ شراب ، ---- سب گندے شیطانی کام ہیں، اس لیے ان سے الگ رہو تاکہ تم فلاح پاؤ’’۔ ( المائد ہ: ۹۰)

            احادیث میں بھی شراب کو ہر پہلو سے حرام قرار دیا گیا ہے۔

            جابر بن رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ کو فتح مکہ کے دن یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب کی خریدو فروخت، سور، مردار اور بتوں کو حرام قرار دیاہے۔(بخاری، رقم:۲۰۸۲)

            انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا میں ابو طلحہ کے مکان میں لوگوں کا ساقی تھا (شراب پلا رہا تھا) ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے، پھر نبی ﷺ نے ایک شخص کو یہ منادی کرنے کا حکم دیا ، سن لو، شراب حرام ہو گئی ہے۔(بخاری، رقم: ۲۲۸۴)

            ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے بیچنے والے پر ، اس کے خریدنے والے پراو رکشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کر لے جانے والے پر اور جس کے لیے وہ ڈھو کر لے جائی گئی ہو۔(ابو داؤد، رقم:۳۱۸۹)

            جہاں تک اس کی حد کا تعلق ہے تو قرآن میں اس کی کوئی متعین حد بیان نہیں ہوئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہیں تھی ۔ جو شخص اس جرم کے ارتکاب میں پکڑا جاتا اسے کجھور کے سونٹے وغیرہ سے یا جوتوں وغیرہ سے مارا جاتا ۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں اس کی سزا چالیس کوڑے کر دی گئی ۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت کے آغاز میں اس کی سزا چالیس کوڑے ہی تھی ، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آ رہے تو آپ نے صحابہ کے مشورے سے اس سزا کو بڑھا کر اسی کوڑے کر دیا۔چنانچہ اس بنیاد پر ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ موجود ہ دور میں حکومت حالات وواقعات کے اعتبار سے اس سزا میں کوئی بھی کمی بیشی کر سکتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ محض میوزیکل پروگرامز کا ہونا تو کوئی حرام چیز نہیں ہے، لیکن یہ دیکھ لیں کہ اگر ان پروگراموں میں فحاشی کا پہلو موجود ہے تو پھر بے شک یہ پروگرام حرمت کے درجے میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں تک شراب serve کرنے کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے یہی رائے دی جا سکتی ہے کہ آپ ضرور کوئی دوسری ملازمت تلاش کریں، اس میں ٹھنڈے پیٹوں ملازمت کرتے چلے جانا ایمان کے منافی ہے۔ہماری اس رائے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :

وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان واتقوا اللہ، ان اللہ شدید العقاب۔ (المائدہ: ۲)

تم نیکی اور تقوی میں تعاون کرو، گناہ اور تعدی میں تعاون نہ کرواور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ سخت پاداش والا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)