مسا فر کی نماز

جواب:احناف کے نزدیک اگر کسی شخص کاحالتِ سفر میں کسی جگہ پندرہ دن  ٹھہرنے کاارادہ ہوتو وہ نمازمیں قصر کرے گا۔ اگر اس نے ٹھہرنے کاارادہ توچند دنوں کا کیاتھا، لیکن اس کاکام نہ ہونے کی وجہ سے قیام کی مدت بڑھتی رہی اور اسے متعین طورپر معلوم بھی نہ ہو کہ اسے مزید کتنے دن ٹھہرنا پڑسکتا ہے تو وہ قصر کرتا رہے گا، خواہ کتنے ہی دن اسے ٹھہرنا پڑے۔ مولانا مجیب اللہ ندوی نے لکھاہے:”اگر کہیں راستے میں یا منزل پر دوچار دن ٹھہرنے کا ارادہ تھا، مگر دوچار دن کے بعد نہ جاسکے اور دوچار دن پھر رک گئے۔ اس طرح اگر یک بارگی پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ ہوتو چاہے جتنے دن ٹھہرے وہ مسافر رہے گا اور قصرِ نمازکرے گا۔“ 
 

()

ہماری قدیم کتبِ فقہ میں لکھا تھا: مکہ الگ مقام ہے، منیٰ و عرفات و مزدلفہ الگ مقامات ہیں، لہٰذا جب حجاجِ کرام ۸ ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے مِنیٰ کی طرف جائیں گے تو اگر کوئی حاجی اس سے پہلے مکہ میں پندرہ دن کے لیے مقیم نہیں تھا، تو وہ مسافر ہوگا اور ان مقامات پر قصر نماز پڑھے گا۔ لیکن اب چونکہ بلدیہ مکۃ المکرمہ کی حدود وسیع ہو چکی ہیں اور منیٰ و عرفات و مزدلفہ حدودِ بلدیہ میں آچکے ہیں، لہٰذا اب یہ مکہ مکرمہ میں شامل ہیں اور الگ مقامات نہیں ہیں۔ مکہ مکرمہ میں رہنے والے علمائے کرام نے اس مسئلے کی جانب متوجہ کیا، لہٰذا ہم نے یہ فتویٰ دیا: ‘‘اگر حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام، ایامِ حج میں منیٰ و عرفات و مزدلفہ میں قیام اور بعدالحج مکہ مکرمہ میں قیام کی مجموعی مدت کم از کم پندرہ دن یا اس سے زیادہ بنتی ہو تو ان تمام دنوں میں وہ پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ اس پر سفرکا نہیں، بلکہ اِقامت کا حکم عائد ہوگا۔ پاک و ہند کے کئی علماء نے اس رائے کو اختیار کیا ہے۔
ہمارے مفتیانِ کرام میں سے علامہ مفتی محمد رفیق حسنی صاحب نے بھی اسی مؤقف کو اختیار کیا ہے اور انہوں نے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے استفسار کے جواب میں سابق امامِ حرم شیخ عبداللہ بن سبیل کے مندرجہ ذیل مکتوب کاحوالہ دیا ہے: ‘‘ہمارے لیے جو ظاہر ہے وہ یہ کہ آج جب کہ مکہ مکرمہ کی عمارات نے منیٰ کی حدود کا احاطہ کر لیا ہے اور وہ عرفات تک پھیل گئی ہیں، اس بنا پر منیٰ عرفات وغیرہ مکہ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہے، سو مکہ سے منیٰ جانے والے کو مسافر شمار نہیں کیا جاتا، اس بنا پر حاجی کے لیے جائز نہیں ہے کہ منیٰ میں قصر کرے اور نہ اس کے لیے عرفات میں نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے، یہ مسئلہ اُن علماء کی رائے کے مطابق ہے جو یہ کہتے ہیں کہ منیٰ میں قصر کی علّت مسافر ہونا ہے، کیونکہ منیٰ جانے والا حدودِ مکہ سے خارج نہیں ہوا۔ البتہ جن علماء کا کہنا یہ ہے کہ منیٰ وغیرہ میں قصر ایک مستقل عبادت ہے، جیسا کہ مالکیہ کا مذہب ہے، سو آپ پر مخفی نہیں کہ حکم ثابت ہے۔ رہا آپ کا یہ سوال کہ آیا سعودی عرب کی حکومت ان دونوں مقامات کے ساتھ ایک شہر جیسا معاملہ کرتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ منیٰ مکہ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہے، صرف اتنی بات ہے کہ حکومت کا منیٰ میں عمارتیں بنانے سے منع کرنا مصلحتِ عامہ کی بنا پر ہے، کیونکہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ کا مالک ہو اور منیٰ و دیگر مَشاعر (مزدلفہ وعرفات) میں سے کوئی شے اس کے ساتھ خاص ہو، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: منیٰ ہر اس شخص کے لیے جائے قرار ہے جو پہلے وہاں پہنچے’’۔ علامہ علی القاری نے لکھا ہے: ‘‘مالکیوں کا مذہب یہ نہیں ہے کہ قصر فی نفسہٖ عبادت ہے، بلکہ اُن کا مذہب یہ ہے کہ نمازوں کو جمع کرنا نُسُک ہے اور یہ سفر کے ساتھ خاص نہیں ہے، غیرِ مسافر بھی عرفہ میں نمازیں جمع کر سکتا ہے’’۔
مفتی محمد شریف الحق امجدی لکھتے ہیں: ‘‘جو لوگ مکہ معظمہ میں حج کی نیت سے حاضر ہوں اور بشمول منیٰ و عرفات مکہ معظمہ میں بلکہ حج کے بعد کے ایام بھی ملا کر پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ رکھتے ہوں، تو وہ مکہ معظمہ میں بھی قصر پڑھیں گے اور منیٰ وغیرہ میں بھی اور جو حضرات ان تمام ایام یعنی ایامِ حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام، ایامِ حج اور حج کے بعد مکہ مکرمہ میں قیام کے ایام کو ملا کر مکہ معظمہ میں پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کا ارادہ رکھتے ہوں، وہ مکہ معظمہ میں بھی پوری نماز پڑھیں گے حتیٰ کہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ ہر جگہ پوری پڑھیں گے۔ (نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج:2،ص: 650،بتصرف)’’۔

(مفتی منیب الرحمان)