سٹاک ایکسچینج کی حیثیت

جواب۔ سٹاک ایکسچینج اصل میں ایک منڈ ی ہے جہاں شیئرز کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔کسی کمپنی کے شیئرز خرید کر آپ اصل میں اس کے کاروبار میں حصہ دار بنتے ہیں۔اور اگر اس کمپنی کے کاروبار کی نوعیت شریعت سے متصادم نہیں ہے تو اس کا حصے دار بننے اور منافع حاصل کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اسی طر ح کسی وقت آپ اگر اپنے اس حصے کو بیچ دیتے ہیں اور اپنا اصل زر واپس لے لیتے ہیں تو یہ بھی درست ہے۔تا ہم جب معاملات شیئرز کی اس حقیقی خرید وفروخت سے آگے بڑھتے ہیں تو مسائل کا آغاز ہوتا ہے اور شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔

اصل تو یہ ہے کہ شیئرز کی قیمت کمپنی کی حقیقی معاشی کارکردگی سے وابستہ ہو۔لیکن مارکیٹ میں موجود سٹے باز جنہیں انویسٹرز کہا جاتا ہے وہ طلب و رسد میں مصنوعی بگاڑ پیدا کرکے قیمتوں کو اپنے مفاداتی طریقوں سے کنٹرول کرتے ہیں۔اور نتیجتاساری مارکیٹ ہی سٹے پر چل پڑتی ہے۔کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک کمپنی کے شیئرز کی قیمت بڑھ رہی ہوتی ہے کہ یکدم گرنا شروع ہو جاتی ہے جبکہ دوسر ی طرف ایک کمپنی کے شیئرز کی قیمت گھٹ رہی ہوتی ہے کہ یکدم بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔اس طرح یہ سٹے باز لاکھوں کا کھیل،کھیل رہے ہوتے ہیں جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور عام طور پر معاشرے کے کمزور طبقے کو ان منفی اثرات کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔۱۹۔اکتوبر ۱۹۸۷ جسے کہ بلیک منڈے کہا جاتا ہے اسی طرح کی سٹے بازی کا برا ترین دن تھا۔انویسٹرز کی بے چینی کی وجہ سے وال سٹریٹ کی مارکیٹ بری طرح کریش ہوئی۔اور ایک ہی دن میں اربوں روپیہ ڈوب گیا۔بعض اوقات وقت سے قبل ہی شیئر ز کی خریدوفروخت شروع ہو جاتی ہے یعنی کمپنی نے اصل میں ابھی شیئر ز مارکیٹ میں نہیں بیچے ہوتے۔اور عام طور پر ادھار کے سرمائے پر یہ سارا کاروبار چلتا ہے اور اندازوں میں معمولی سی غلطی دور رس اثرات مرتب کرتی ہے اور اثرات در اثرات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اور نتیجے میں ملک کی پوری معیشت متاثر ہوتی ہے۔دوسری طرف محنت کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اخلاقی و معاشی بگاڑ معاشرے میں سرایت کر جاتا ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں معاشی سرگرمی محنت اور سرمائے کے اشتراک سے اخلاقی اصولوں کی حدود میں رہتے ہوئے پروان چڑھے۔جبکہ سٹے بازی اعلی اخلاقی اقدار اور حقیقی معاشی محنت سے اجتناب کا نام ہے۔ان تمام کے پیش نظر تقوی یہی ہے کہ سٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے اجتناب کیا جائے۔کیونکہ اس سے اسلامی معاشرے کی حقیقی قدر ، انفاق بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

اسلامی ریاست ایسی قانون سازی کر سکتی ہے کہ جس کی روسے باہمی معاہدوں میں دھوکا دہی کا عنصر ختم کیا جا سکے اور فریقین کو نقصان سے بچایا جا سکے ۔جب تک ایسا قانون وجو د پذیر نہیں ہوتا یہ فرد پر ہی ہے کہ وہ ایسے معاشی معاملات سے اجتناب کرے جن سے یہ خدشہ ہو کہ وہ اس کے تزکیے اور طہارت پر اثرانداز ہوں گے۔

(آصف افتخار)