بالوں کی پیوند کاری اور وگ وغیرہ کی شرعی حیثیت

جواب: راقم نے نہ صرف اس موضوع سے متعلقہ لٹریچر کا براہ راست مطالعہ کیا ہے بلکہ ہئیر ٹرانسپلانٹیشن کے ماہرین اور بالوں کی پیوند کاری کروانے والے افرادسے بذات خود ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ بالوں کی پیوند کاری سے متعلقہ تمام مراحل کا مشاہدہ کرنے کے بعد راقم اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں کہ انسان اپنے عیب کو چھپانے کے لیے اپنی ہی جلد کے ایک حصہ کے بال دوسرے حصہ میں لگوائے۔ علاوہ ازیں اسے تغییرلخلق اللہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ انسان کی فطرتی تخلیق سر کے بالوں کے ساتھ ہے اور جس کے سر کے بال گر جائیں وہ علاج معالجہ کی راہ اختیار کرنے کا پورا شرعی حق رکھتا ہے اور بالوں کی پیوند کاری بھی ایک جدید طریق علاج ہے جو میڈیکل سائنس میں ترقی کی وجہ سے دریافت ہوا ہے اور اس کی تائید اس حدیث نبویؐ سے بھی ہوتی ہے:‘‘ما انزل اللہ داء الا انزل لہ شفاء’’ (یعنی اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی پیدا نہیں کی جس کی شفا نہ اتاری ہو۔) بالوں کی پیوند کاری کے ذریعے اگنے والے نئے بال چونکہ قدرتی بالوں کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اس لیے ان کی موجودگی میں طہارت،نماز اور حج و عمرہ وغیرہ کے حوالہ سے کوئی نیا شرعی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ اس میں صرف ایک چیز قابل غور ہے اور وہ ہے اس عمل کے لیے سر پر زخم لگوانا۔ لیکن یہ بھی اس لیے جائز معلوم ہوتا ہے کہ علاج معالجہ کے لیے اس طرح کے چھوٹے موٹے زخم اور تکلیفیں دیگر امراض کے طریقہ ہائے علاج میں بھی پائی جاتی ہیں اور جب انھیں علاج کی ضرورت یا حصہ سمجھ کر جائز تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر اسے بھی جائز تسلیم کیا جانا چاہیے اور ویسے بھی جس شخص کی چند دنوں کی معمولی تکلیف کے بعد شخصیت بن جائے اور گنجے پن کی وجہ سے متاثر ہونے والی وجاہت پھر سے بحال ہو جائے، اسے نہ اتنی تکلیف کا کوئی احساس ہوتا ہے اور نہ ہی اس مقصد کے لیے ایک بڑی رقم صرف کرنے کا کوئی افسوس نہوتا ہے۔

            ہئیر ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے سر پر جو بال اگائے جاتے ہیں وہ چونکہ سر کے اصل (قدرتی) بالوں کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، اس لیے طہارت کے حصول، نماز کی ادائیگی اور حج و عمرہ کے موقع پر بال کٹوانے یا منڈوانے کے حوالہ سے ان کی صورتِ حال وہی ہوگی جو قدرتی بالوں کی طرح ہوتی ہے جب کہ وگ اور ہیئر یونٹ وغیرہ استعمال کرنے کی صورت میں شرعی احکام کی نوعیت کچھ اس طرح ہوگی:

۱۔ وگ اتارنے میں آسانی ہوتی ہے اس لیے وضو میں اسے اتار کر سر کا مسح کرنا چاہیے تاہم بعض احادیث کے مطابق چونکہ عمامے اور پگڑی وغیرہ پر بھی مسح ہو جاتا ہے، اس لیے عمامے پر قیاس کرتے ہوئے وگ پر مسح کرنا بھی اسی طرح جائز قرار دیا جائے گا جس طرح مہندی لگے سر پر مسح کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ جب کہ وگ کے علاوہ ہئیر یونٹ جسے بآسانی اتارا بھی نہیں جا سکتا، اسے اتارے بغیر اس پر مسح کرنا بطریق اولیٰ جائز قرار دیا جائے گا۔

۲۔ غسل مسنون کی صورت میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچایا جائے جیسا کہ حدیث نبویؐ ہے: ‘‘تحت کل شعر جنابۃ فاغسلوا الشعر’’(ہر بال کی تہہ میں جنابت (کا اثر) ہے لہٰذا بالوں کو دھویا کرو۔) اس لیے اگر وگ اور ہئیر یونٹ کی صورت یہ ہو کہ اس میں مساموں کے ذریعے ہوا ، پانی وغیرہ جلد تک پہنچنے کا امکان ہو تو پھر اسے اتارے بغیر بھی غسل کیا جا سکتا ہے اور اگر اس میں مسام نہ ہوں یا پانی کا سر کی جلد تک پہنچنا نا ممکن ہو تو پھر اسے بہر صورت اتار کر غسل کیا جائے، ورنہ غسل کے شرعی تقاضے پورے نہ ہوں گے۔ واضح رہے کہ مارکیٹ میں دستیاب ہئیر یونٹس کا راقم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ اس میں جس جھلی پر بال چپکائے گئے ہوتے ہیں، اس میں ہوا اور پانی وغیرہ کے گزرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے مسام ہوتے ہیں۔ لہٰذا انھیں اگر پہنا ہوتو پھر غسل کے لیے انہیں اتارنا ضروری نہیں۔

۳۔ حج و عمرہ کے آخر میں سر کے بال کٹوانا یا منڈوانا‘مناسک’ میں شامل ہے۔ مرد کے لیے بال کٹوانا یا منڈوانا دونوں صورتیں جائز ہیں البتہ بال کٹوانے کی نسبت منڈوانے کو افضل قرار دیا گیا ہے، جب کہ عورت کے لیے بال منڈوانا حرام ہے، اس لیے وہ صرف تھوڑے سے بال کٹوائے گی۔ ہئیر ٹرانسپلاٹینشن میں بال چونکہ قدرتی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اس لیے انھیں کٹوانے یا منڈوانے کے حوالے سے کوئی نیا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن وگ اور ہئیر یونٹ میں بال سر کا حصہ نہیں ہوتے، اس لیے انھیں اتار کر مناسک حج و عمرہ کی ادائیگی کرنا چاہیے اور بال کٹوانے یا منڈوانے کے موقع پر گنجا شخص اپنے اصل گنجے سر پر استرا پھروالے، ہئیر یونٹ یا وگ وغیرہ پہن کر اس پر سے بال کٹوا دینا کافی نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم!

(حافظ مبشرحسین لاہوری)