تحفہ کے مسائل

س- ‘‘جنگ’’ اخبار میں ‘‘آپ کے مسائل اور ان کا حل’’ کے کالم میں آپ نے جو جواب ‘‘تحفہ یا رشوت’’ کے سلسلے میں شائع کیا ہے، اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ادارے میں ملازم ہے اور اپنے کام میں وہ بھرپور محنت کرتا ہے تو ادارہ اس کی خدمات سے خوش ہوکر اگر اسے اضافی تنخواہ یا کوئی تحفہ دیتا ہے تو یہ رشوت میں شامل نہیں ہوگا، حالانکہ اگر یہ اسی عہدے پر قائم نہیں ہوتا تو یقینا نہیں ملتا، کیونکہ اسے اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ لیکن اب چونکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ محنت اور خلوص سے کام کر رہا ہے اور انتظامیہ اس کی حوصلہ افزائی کے لئے انعام دیتی ہے تو یہ رشوت میں شامل نہیں ہوگا، کیونکہ اسلام ہمیشہ محنت کشوں کی حوصلہ افزائی کی تاکید کرتا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ کام کرنے کا جذبہ بڑھتا ہے بلکہ انسان مزید بْرائیوں سے بھی بچتا ہے، لہٰذا مجھ گنہگار کی ناقص رائے ہے کہ آپ مزید اپنے اعلیٰ علمی تجربوں کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

ج- حکومت کی طرف سے جو کچھ دیا جائے، اس کے جائز ہونے میں کیا شبہ ہے؟ مگر سرکاری ملازم لوگوں کا کام کرکے ان سے جو ‘‘تحفہ’’ وصول کرے وہ رشوت ہی کی ایک صورت ہے۔ ہاں! اس کے دوست احباب یا عزیز و اقارب تحفہ دیں تو وہ واقعی تحفہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ گورنمنٹ یا انتظامیہ اپنے ملازمین کو جو کچھ دیتی ہے، خواہ تنخواہ ہو، بونس ہو، یا انعام ہو، وہ سب جائز ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ہر وہ چیز جو لڑکی کو والدین اور شوہر والوں کی طرف سے ملی ہے وہ اس کی ملکیت ہے، شوہر کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ماں باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کئی چیزیں عنایت کرجاتے ہیں، ایسے ہی اُنہیں کسی بیٹے یا بیٹی سے طبعاً زیادہ محبت بھی ہوتی ہے لیکن اسلامی شریعت نے اس سلسلے میں چند ایک اُصول مقرر فرمائے ہیں جن کو پیشِ نظررکھنا مسلم والدین کے لیے ضروری ہے۔ اس نوعیت کے مسائل مسلم معاشرہ میں اکثروبیشتر پیش آتے رہتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں ایسے ہی احکام سوال و جواب کی صورت میں بیان ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ ہبہ کا لفظ عربی زبان میں کسی شے کو تحفہ دینا، گفٹ کردینا، عطیہ دینا وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ بعض جزوی اصلاحات، حوالہ جات اور ترتیب کے بعد یہ مضمون ہدیۂ قارئین ہے۔ (ح م)

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: ایسا معاف کرنا دراصل ہبہ کی قسم سے ہے، اس کے خریدنے میں بظاہر کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ کسی حدیث میں مجھے ہبہ کے خریدنے سے ممانعت تو یاد نہیں پڑتی، ویسے بغیر خریدنے کے رجوع کی ممانعت آئی ہے، البتہ اگر معاف کرنے والے نے اپنے بھائی پر صدقہ کی نیت کی تھی تو اسے خریدنا منع ہے۔ جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرؓ کو منع کرتے ہوئے فرمایا:

لَا تشترِہ وَ ان اعطاکہُ بدرھمٍ واحدٍ فانَّ العائِدَ فِی صدَقتہِ کالکلبِ یَعُودُ فِی قیئِہِ (صحیح بخاری: ۲۶۳۲، صحیح مسلم: ۴۱۳۹) ‘‘اگر وہ تمہیں یہ گھوڑا ایک درہم کے عوض بھی دے، تب بھی مت خریدنا کیونکہ صدقہ کرکے اسے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے اور پھر خود ہی اسے چاٹ لیتا ہے’’۔ (فتاویٰ اہلحدیث: ۳؍۸۴)

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب : تحفے کو نبی کریم ﷺ نے بڑی خوبی کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جب کچھ لوگ اس طرح کے تحفے لے کر آئے تھے تو آپ ﷺ نے کہا کہ ان تحائف کو مسجد میں کیوں نہیں تقسیم کیا ؟ لوگوں نے جب یہ کہا کہ ہم یہ تحائف گورنر کی حیثیت سے یا فلاں حیثیت سے فلاں جگہ سے لے کر آئے تھے اور لوگوں نے یہ بطور تحفے ہمیں دیے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ تحائف تم لوگوں کو گھروں میں بیٹھے ہوئے کیوں موصول نہیں ہو گئے؟ اگر آپ کے ایسے ہی تعلقات اور روابط تھے تو گھروں میں بیٹھ جاتے اور یہ وہیں مل جاتے۔اگر کسی ذمہ داری یا کسی منصب کی وجہ سے لوگ آپ کو تحائف دیتے ہیں تو آپ کے منصب سے رعایت یا فائدہ اٹھانے کے لیے دیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)