رخصتی

جواب : نکاح کے ضمن میں جن چیزوں کا حکم دیاگیاہے ان میں سے ایک مہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاٰتْواالنِّسَاء صَدْقٰتِہِنَّ نِحلَۃٍ                                                (النساء:۴)
”اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو۔“
نکاح منعقدہوتے ہی لڑکی مہر کی مستحق ہوجاتی ہے اور اگر بروقت شوہر مہر ادا نہ کرسکے تو وہ اس کے ذمّے قرض رہتاہے۔ اس لیے اگر رخصتی سے قبل شوہر کا انتقال ہوجائے تو بھی لڑکی پورے مہر کی مستحق ہوگی۔
قرآن کریم میں عدّتِ وفات کاتذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے:
وَالَّذِینَ ْتَوَفَّونَ مِنہْم وَتذَرْونَ اَزوَاجًا َّتَرَبَّصنَ بِاَنفْسِہِنَّ اَربَعۃََ اَشہْرٍ وَّعَشرًا                                                         (البقرۃ:)”تم میں سے جو لوگ مرجائیں، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کوچار مہینے دس دن روکے رکھیں۔“
یہ حکم عام ہے، اس لیے اس میں ہرطرح کی عورتیں شامل ہیں۔ وہ بھی جن کانکاح تو ہوگیا ہو، لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی ہو۔ عدّتِ وفات کا حکم اصلاً شوہر کی وفات پر اظہارِ غم کے لیے دیاگیا ہے۔

()

س- آج کل اس اسلامی معاشرے میں چند نہایت ہی غلط اور ہندوانہ رسمیں موجود ہیں، افسوس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب کسی رسم کو اَجر و ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ مثلاً: لڑکی کی رْخصتی کے وقت اس کے سر پر قرآن کا سایہ کیا جاتا ہے، حالانکہ اس قرآن کے نیچے ہی لڑکی (دْلہن) ایسی حالت میں ہوتی ہے جو قرآنی آیات کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور پامالی کرتی ہے۔ یعنی بناو سنگھار کرکے غیرمحرَموں کی نظر کی زینت بن کر کیمرے کی تصویر بن رہی ہوتی ہے۔ اگر لڑکی کہتی ہے کہ یوں دْرست نہیں بلکہ باپردہ ہونا لازم ہے جو کہ اسی قرآن میں تحریر ہے جس کا سایہ کیا جاتا ہے، تو اسے قدامت پسند کہا جاتا ہے۔ اور اگر کہا جاتا ہے کہ پھر قرآن کا سایہ نہ کرو، تو اسے گمراہ کہا جاتا ہے۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں تحریر فرمائیں کہ دْلہنوں کا یوں قرآن کے سایہ میں رْخصت ہونا، غیرمحرَموں کے سامنے کیسا ہے؟ قرآن کیا اسی لئے صرف نازل ہوا تھا کہ اس کا سایہ کریں، چاہے اپنے اعمال سے ان آیات کو اپنے قدموں تلے روندیں؟

ج- دْلہن پر قرآنِ کریم کا سایہ کرنا محض ایک رسم ہے، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، اور دْلہن کو سجاکر نامحرَموں کو دِکھانا حرام ہے، اور نامحرَموں کی محفل میں اس پر قرآنِ کریم کا سایہ کرنا قرآنِ کریم کے اَحکام کو پامال کرنا ہے، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)