اقوام عالم کے لیے ہدایت کا اہتمام

جواب: یہ سوال پیدا ہونے کی دو وجہیں ہیں۔ایک وجہ عقلی ہے اور وہ یہ کہ تمام دنیا کی اقوام کے لیے ہدایت کا اہتمام ہونا چاہیے۔یہ اہتمام ہوا ہے تو اس کے آثار کیا ہیں۔ اور اگر اس کے آثار نظر نہیں آتے اور واقعہ بھی یہ ہے کہ بہت سارے خطوں میں پیغمبروں کی بعثت کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں تو پھر ان کے ناحق پر ہونے کا انجام کیا ہوگا۔

دوسری وجہ قرآن مجید کے ایک آیت ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے۔ لکل قوم ہاد(رعد:7)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمام اقوام کے لیے ایک پیغمبر بھیجا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مختلف اقوام کے لیے جو پیغمبر بھیجے گئے ان کے نام کیا تھے اور ان کی تعلیمات کیا تھیں۔

قرآن مجید اور بائیبل میں جن پیغمبروں کا ذکر ہے ان کا تعلق اس علاقے سے ہے جو نیل وفرات سے ملحق ہیں اور انھی میں آباد اقوام میں انھوں نے دعوت کا کام کیا۔ اس وجہ سے ہمیں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ ہم قرآن کی بنیاد پر باقی اقوام کے بارے میں کوئی حتمی بات کہہ سکیں۔

اس صورت حال کو دو طریقوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک یہ ہے کہ اصل میں تمام اقوام میں پیغمبر آئے تھے لیکن مرور زمانہ سے ان کی شخصیات اور تعلیمات اصل تعارف اور صورت میں باقی نہیں رہیں۔ چنانچہ یہ نقطہ نظر قیاساً بدھا، کرشنا، زرتشت اور کنفیوشش جیسی شخصیات کو اسی دائرے میں رکھتا ہے اور جہاں اس طرح کی شخصیات کا تذکرہ نہیں ملتا اسے تاریخ کی ستم آزمائیوں کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔

دوسرا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے لیے دو طریقے اختیار کیے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں مختلف اقوام میں رسول بھیجے اور اس زمانے میں زیادہ تر یہ ہوا کہ ان پیغمبروں کی قوموں کو آسمانی سزا نے صفحہ ہستی سے نابود کر دیا۔ لہذا ان کے کسی باقاعدہ ریکارڈکے دستیاب ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔حضرت ابراہیم کے بعد ان کے خاندان کو دعوت کی ذمہ داری دی گئی اور انھی پر یہ فرض تھا کہ یہ باقی اقوام تک خدا کا دین پہنچائیں۔ لہذا حضرت سلیمان، داؤد علیہم السلام کے زمانے میں اس وقت کی اقوام تک یہ دعوت پہنچائی گئی اور ان کے زوال کے بعد اس خاندان کی دوسری شاخ نے اس کام کو سنبھالا اور حضورﷺاور صحابہ کی قائم کردہ ریاست نے ایک بار پھر ساری دنیا تک اس حق کردہ حق کو پہنچانے کا کام کیا۔باقی رہا کچھ لوگوں کا حق کی دعوت سے محروم رہنا تو اس کے بارے میں یہ دونوں نقطہ نظر اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا مؤاخذہ فطرت میں ودیعت ہدایت کی بنیاد پر ہو گا۔

(مولانا طالب محسن)