سنت پر عمل کرنے کا حکم

جواب: قرآن مجید کے متعدد مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ انھی آیات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ سنت پر عمل کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً یاایہا الذین آمنوا اطیعواللہ واطیعواالرسول……(النساء۴:۵۹) وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ جب کسی ہستی کو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کرتے ہیں تو وہ دین میں ان پر ایمان لانے والوں کے مقتدا ہوتے ہیں۔یہ بات آپ سے آپ واضح ہے اس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (النساء۴:۶۴) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

محترم ڈاکٹر حامدی صاحب!                السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

سوال: اللہ کی پکار کی میں نے ایجنسی لے رکھی ہے۔ہر شمارہ بغور پڑھتا ہوں ، اس کے افادی پہلوؤں کو بنظر اتفاق دیکھتا ہوں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک معاملے میں تنقید کی جرأت کررہاہوں آپ نے ایک شمارے میں لکھا ہے کہ فرض نمازوں کے علاوہ جتنی نمازیں ہیں، سب نوافل کا درجہ فرائض اور واجب کے برابر نہیں ہے، یہ چھوٹ جائیں تو ان کی قضا بھی نہیں ہے اور ان پر مواخذہ بھی نہیں ہے۔ یہ تحریر آنے پر میں نے دل میں اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اس سے غیر فرض نمازوں سے بے رغبتی پیدا ہوگی،وہ خواہ مخواہ نیکیوں سے محروم ہوں گے۔ ویسے بھی آج کا انسان بہت مصروف ہے۔ وہ سنتوں اور خصوصاً ان سنتوں کو چھوڑے گا ، جنہیں فقہا نے سنتِ مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ کی دوقسموں میں باٹنا ہے۔ یعنی ان سنتوں کی ادائیگی ایک فاضل چیز سمجھ لی جائے گی۔ میرا یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔ ایک صاحب آپ کا رسالہ پڑھ کرسختی سے اصرار کرتے ہیں کہ نمازیں یا فرض ہیں یا نفل ، سنت کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اسی دوران وہ گزشتہ سال حج بھی آکرئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوپاکستان اور بنگلہ دیش کے سوا وہاں عرب اور عجم ساری دنیا کے مسلمان فرض نمازوں پر اکتفا کرتے ہیں اور سنت نہیں پڑھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا منشا وہ نہیں ہوگاجو وہ سمجھ رہے ہیں۔ آپ نے ایک خالص علمی نکتہ بیان کیا ہے، یعنی فرائض کے بعد دیگر نمازیں اصطلاحاً نفل یا تطوع کہلاتی ہیں۔فقہائے کرام ان نمازوں کو سنت کے لفظ سے موسوم کرتے ہیں، جن پر عمل مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں بانٹا جاتا ہے۔ مؤکدہ کو بالالتزام پڑھا جائے اور غیر مؤکدہ کو یہ سمجھ کر پڑھا جائے کہ ان میں ثواب ہے ، جیسا حدیثِ قدسی میں ہے۔ان عبدی یتقرب الی بالنوافل۔

میرا خیال ہے کہ ایسی علمی موشگافی عوام الناس پر غلط اثرات ڈالتی ہے ، اس لیے اس سے احتراز بہتر ہے۔ کس نماز کوکیا کہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے، اور عبادات میں استخفاف اور ان کی پابندی میں کمی آجانا دوسری بات ۔ میرا خیال ہے آپ کے دوسرے قارئین نے بھی وہ کھٹک محسوس کی ہو گی جو مجھے ہوئی ہے۔ مناسب سمجھیں تو اس بارے وضاحت فرمائیں۔

تاج الدین اشعررام نگری

جواب: ہمارے بزرگ مراسلہ نگار نے اپنے مراسلے میں وہ سب کچھ تحریر کردیا ہے، جو عام طور سے لوگوں میں غلط مشہور ہے، جس کی تردید میں اور صحیح بات کی وضاحت میں نے قرآن و احادیث ہی سے نہیں ، بلکہ فقہ حنفی کی سب سے اولین مشہور کتاب ‘‘ القدوری’’ سے بھی حوالے کے ساتھ اللہ کی پکار جنوری ۲۰۱۰ء کے شمارے میں کی ہے۔ اس پوری عبارت کو معمولی فرق سے یہاں دوبارہ نقل کیا جارہاہے۔ تاکہ مراسلے میں اٹھائی ہوئی بہت سی باتیں واضح ہو جائیں:

‘‘ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں نماز وں کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں۔

۱۔ فرض جن کا ادا کرنا لازمی ہے اور جن کا ادا نہ کرنا شدید گناہ ہے۔ یہ فرض نمازیں دیگر فرائض اُمور کی طرح اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں۔

۲۔ وہ نمازیں جو فرض کے علاوہ ہیں ، جن کو ادا کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ وہ نماز پڑھنے والے کی مرضی پر ہے۔ وہ ان کو چاہے تو ادا کرے اور چاہے تو نہ ادا کرے۔ ادا کرے گا تو ثواب کا مستحق ہوگا اور ادا نہ کرے گا تو ثواب سے محروم رہے گا۔انہیں نفل ، جمع نوافل (زائد) اور تطوع(راضی ، خوشی اپنی مرضی ) والی نماز کہا گیا ہے۔ ان کی ادائیگی کی طرف اس لیے ترغیب دلائی گئی ہے کہ بندہ اگر اللہ سے مزید قریب ہونا چاہتا ہے ، تو وہ نوافل (فرض نمازوں سے زائد نمازوں ) کو ادا کرے۔ ان کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ قیامت میں جب دیگر فرائض میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب ہو گا ، تو ان فرض نمازوں میں جو کمی ہوگی ، تو وہ کمی اللہ کے حکم سے نوافل نمازوں سے پوری کی جائے گی۔ لیکن غیر فرض نمازیں آدمی کی مرضی پر ہیں، ان کو ادا نہ کرنے پر گناہ نہیں ہے، اس سلسلے میں یہاں ایک ایسی حدیث کو نقل کررہا ہوں ، جس کا ذکر تقریباً تمام محدثین نے اپنی کتبِ حدیث میں کیا ہے۔ یہاں میں اس حدیث کو صحیح البخاری سے نقل کررہاہوں:‘‘ طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ ایک بدّو جس کے بال بکھرے ہوئے تھے ، اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا ۔ اس نے آپ سے دریافت کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے بتائیں کہ اللہ نے نمازوں میں سے مجھ پر کیا فرض (لازمی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : پانچ فرض نمازیں، اس کے علاوہ جو تم چاہو ، خوشی خوشی(بطورنفل) پڑھو۔ (اس کے بعد) اس نے کہا، رمضان کے مہینے کے روزے ، اس کے علاوہ جو تم چاہو، خوشی خوشی (بطورنفل)رکھو۔ (اس کے بعد)اس نے کہا، آپ مجھے بتائیں کہ اللہ نے مجھ پر زکوٰۃ میں سے کیا فرض ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے اسلام کے تعلق سے (اس سلسلے میں)اس پر عائد ہونے والے اُمور بتائے (اس کے بعد) اس بدّو نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت وتکریم سے نوازا ہے ! میں اپنی خوشی سے کچھ بھی مزید (یعنی نفل) نہیں ادا کروں گا اور نہ ہی اللہ کی طرف سے عائد کیے گئے فرائض میں کچھ کم کروں گا۔ (اس پر) اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : اگر اُس نے ایسا صحیح کہا ہے تو وہ فلاح یاب ہوگیا اور اگر اس نے صحیح کہا ہے تو جنت میں داخل کیا جائے گا۔’’

نماز کی مذکورہ بالا دونوں قسموں کو واضح کرنے والی ایک حدیث جو کہ جامع الترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ میں آئی ہے،کا ترجمہ دیا جارہاہے، جو شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلویؒ نے کیا ہے:‘‘بنی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب کیا جائے گا۔ اگر نماز اچھی نکلی تو وہ شخص کا م یاب ہوگا، اور بامراد اگر نماز بے کار ثابت ہوئی تو وہ نامراد و خسارے میں ہوگا۔اور اگر نماز میں کچھ کمی پائی گئی تو ارشادِ خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں، جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے۔ اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائے گی، اس کے بعد اسی طرح باقی اعمال روزے ، زکوٰۃ وغیرہ کا حساب ہوگا۔’’(فضائلِ اعمال ، حصہ اوّل ، فضائلِ نماز، ص۲۵۰، نومبر ۱۹۸۶ء ، نئی دہلی)

فرض نمازوں کے بعد نفل نمازوں میں سب سے اہم نماز تہجد کی نماز/وتر/تراویح ہے ، جسے صلوۃاللیل /قیام باللیل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس نفل نماز کا ذکر قرآن میں کہیں تفصیلاً ، کہیں اجمالاً اور کہیں اشارۃً آیا ہے۔(القرآن، بنی اسرائیل ۱۷:۷۸۔السجدۃ۳۲:۱۶، الذّاریات ۵۱:۱۷، المزمل ۷۳:۲۔۴،۶،۲۰،الفرقان ۲۵:۶۴،ھود۱۱:۱۱۴،۲:۱۸۵)

اس نماز کو احادیث میں بھی فرض نمازوں کے بعد سب سے اہم نمازقرار دیا گیا ہے۔(صحیح البخاری، صحیح مسلم) اس نماز کا اللہ کے رسول ﷺ اور السابقون الأولون صحابہ دونوں نہایت اہتمام فرماتے تھے ۔ شروع میں جب کہ صرف دو وقت کی نمازیں تھیں، اس زمانے میں تہجد فرض تھی،لیکن بعد میں پانچ نمازیں فرض ہونے پر اُمت پر سے اس کی فرضیت ختم کردی گئی، البتہ اللہ کے رسولﷺ اس کی نہایت پابندی کرتے تھے، اور مفسرین و محدثین کے نزدیک تہجد کی نماز اللہ کے رسولﷺ کے لیے ضروری تھی۔

اس کے بعد غیر فرض/نفل نمازوں میں جو نماز سب سے زیادہ اہم ہے ، وہ فجر کی دو رکعت فرض سے پہلے کی دو رکعت نفل نماز ہے۔اس کے بارے میں آیا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اس کی ادئیگی کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے، چنانچہ‘‘ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نفلوں میں کسی نماز کا اتنا اہتمام نہیں کرتے تھے ، جتنا اہتمام فجر کی دو رکعت کا کرتے تھے۔’’ (ترجمہ حدیث صحیح البخاری و صحیح مسلم)

سنتِ مؤکدہ، سنتِ غیر مؤکدہ کا مطلب ہے وہ نفل نمازیں ، جو اللہ کے رسولﷺ نے پابندی سے پڑھی ہیں۔ آج کل جن نمازوں کو سنتِ مؤکدہ قرار دے کر ضروری بتایا جاتا ہے، ان کو فقہ حنفی کی اولین کتاب‘‘ القدوری’’ میں نوافل قرار دیتے ہوئے باب النوافل کے تحت دیگر سنتِ غیر مؤکدہ کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ پھر حاشیے میں اس کی اس طرح تشریح کی گئی ہے:جمع نافلۃ وھی فی الغۃ الزیادۃ و فی الشرع عبارۃ عن فعل لیس نفرض ولا واجب الا مسنون و کل سنۃ نافلۃولیس کل نافلۃ سنۃ فلھذا القبہ بالنوافل۔

نوافل نافلۃ کی جمع ہے۔لغت میں اس کے معنیٰ زیادہ (یا مزید) کے ہیں اور شریعت میں یہ ایک ایسا فعل ہے ، جو نہ فرض ہے ،نہ واجب اورنہ مسنون۔ ہر سنت نفل ہوتی ہے، لیکن ہر نفل سنت نہیں ہوتی، اس لیے اس کو نوافل کہا گیاہے۔(ترجمہ عبارتِ مذکورہ)

افسوس تو اس بات کا ہے کہ کچھ علماء نے غلط طور سے سنتِ مؤکدہ کو قرآن و احادیث کے علی الرغم ضروری قرار دیتے ہوئے اس کو ادا نہ کرنے والے کے لیے گناہ لازم کردیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ دین میں اضافہ ہے، جس کو نہ اللہ نے نہ اللہ کے رسول ﷺ نے بتایا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج کے علماء عام مسلمان کو وہ بات بتاتے ہیں جو کہ شریعت کے مطابق نہیں ہوتی ہے۔سوائے ان علماء کے جن پر اللہ کا خصوصی کرم ہوتا ہے۔‘‘واضح رہے کہ مسنون نفل نمازیں جن کو آج کل کی اصطلاح میں سنتِ مؤکدہ کہا جاتا ہے، اس کا اجرو ثواب احادیث میں بہت زیادہ بتایا گیاہے۔’’(اللہ کی پکار جنوری ۲۰۱۰ء، سوالات-جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں، ص85-88)

اوپر مذکورہ عبارت ایک مستفسر کے جواب میں ‘‘فقہ القرآن والسنۃ’’کالم کے تحت تحریر کی گئی ہے۔اللہ کی پکار میں اول روز سے اس بات کی پابندی کی گئی ہے کہ دین کے تعلق سے جو بات بھی پوچھی جائے، اسے حالات یا لوگوں کو معمول سے متاثر ہوئے بغیر قرآن و سنت کی روشنی میں بتایا جائے۔ایک عالمِ دین سے اس بات ہی کی توقع رکھی جانی چاہیے۔اس کے علاوہ اگر اس نے دین کو قرآن وسنت سے ہٹ کر بیان کیا تو نہ صرف یہ کہ دین و شریعت کی غلط ترجمانی ہوگی۔بلکہ آخرت میں باعثِ مؤخذاہ بھی، پھر میں نے اس بات کو نہایت وضاحت سے بتایا ہے کہ نماز سنتِ مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ کی تفصیل بہت بعد کی پیداوار ہے اور اب جو اس کی تشریح کی جاتی ہے کہ سنت مؤکدہ وہ ہے ، جس کو نہ پڑھنے سے گناہ ہوگا، وہ قرآن و سنت اور خودفقہائے احناف امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ اور پانچویں صدی ہجری میں تحریر کی گئی فقہ حنفی کی اولین کتاب ‘‘القدوری’’ جو کہ قرآن و سنت کے بہت حدتک قریب تھی،اس میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ہے، بلکہ فجر کے فرض سے پہلے کی دو رکعتوں ، فرض ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں ، فرض ظہر کے بعد کی دورکعتوں ، فرض عصر سے پہلے کی چار یا دورکعتوں،اور فرض عشاء سے پہلے چار اور فرض عشاء کے بعد چار یا دو رکعتوں، سب کو بغیر سنتِ مؤکدہ اور غیر مؤکدہ کی تخصیص کے بغیر‘‘ باب النوافل’’ ہی کے تحت بیان کیا ہے۔(القدوری، ص۳۱)

حاشیہ لکھا ہے ، اس میں بھی ‘‘نوافل ’’ کی اس طرح صراحت کی ہے:‘‘نوافل شریعت میں ایک ایسا فعل ہے، جو نہ تو فرض ہے، نہ واجب اور نہ مسنون۔ ہر سنت نفل ہوتی ہے، لیکن ہرنفل سنت نہیں ہوتی ، اس لیے اس کو ‘‘نوافل ’’ کہا گیا ہے۔’’ (ترجمہ حاشیہ کتاب القددری، ص ۱۳)

اس طرح مذکورہ عبارت سے بھی یہ بات واضح ہے کہ سنت نماز (چاہے وہ مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ) کا تعلق نفل ہی سے ہوتا ہے ، یعنی وہ نفل نماز، جس کو رسولﷺ نے پڑھا ہو، سنت کہلاتی ہے۔ لیکن ہر نفل نماز کا سنت ہونا ضروری نہیں ہے۔

گویا میری بات قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ فقہ حنفی کے بھی مطابق ہے۔ اب یہ بات مراسلہ نگار بتائیں کہ وہ جید فقہا، جن کا بتایا ہوا مسئلہ قرآن کے مطابق ہے، اسے مانا جائے گا یااسے جو کہ قرآن و سنت کے مطابق تو نہ ہو ، لیکن کسی بھی وجہ سے وہ لوگوں کے ذہن و دماغ میں بیٹھ گیا ہو۔

اس سب میں دل چسپ بات یہ ہے کہ سنتِ مؤکدہ کی تعریف یہ بتائی جاتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ان نمازوں کو بالالتزام ادا کیا ہے، اس لیے ان کا ادا کرنا ضروری ہے، جب کہ دوسری طرف ان احادیث کو نظرانداز کردیا جاتا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ سنت نفل نمازیں ہیں، اس کے باوجود اگر لوگوں پر لازم کرنے اور کسی چیز کو ضروری قرار دینے کی یہی بنیاد ہے تو اللہ کے رسول ﷺنے تو نفلی روزے کے سلسلے میں بھی التزام کیا ہے، تو انہیں سنتِ مؤکدہ روزے کہہ کر لوگوں کے لیے کیوں ضروری نہیں قرار دیا جاتا، مثلاً:

‘‘حفصہؓ سے روایت ہے کہ چار چیزیں وہ ہیں ، جن کو رسولﷺ کبھی نہیں چھوڑتے تھے:

۱۔ عاشورہ کا روزہ ۲۔ عشرۂ ذی الحجہ(یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العرفہ نویں ذی الحجہ تک) کے روزے ۳۔ ہر مہینے کے تین روزے ۴۔ اور فجر کی نماز سے پہلے کی دو رکعتیں۔’’ (ترجمہ حدیث سنن النسائی)

‘‘قتادہ بن طلحان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ ہم لوگوں کو امر فرماتے تھے کہ ہم ایام بیض یعنی مہینے کی تیرہویں ، چودھویں، پندرہویں کو روزہ رکھا کریں اور فرماتے تھے کہ مہینے کے ان تین دنوں کو روزے رکھنا اجر و ثواب کے لحاظ سے ہمشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔’’(ترجمہ حدیث سنن ابی داؤد ، سنن النسائی)

ان دونوں احادیث میں اللہ کے رسول ﷺ کی سنتِ مؤکدہ کے تحت مخصوص دنوں کے روزے اور فجر کی نماز سے قبل کی دورکعتیں شامل ہیں ، لیکن کچھ لوگوں نے فجر کی دورکعتیں لے لیں اور انہیں سنتِ مؤکدہ کہہ کر لوگوں کے لیے لازم کردیا اور ان احادیث میں بیان کردہ روزوں کو فراموش کردیا۔حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ احادیث میں بیان کردہ (نماز اور روزے) یہ دونوں نفل ہیں، جو کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اگرچہ بالالتزام انجام دیے ہیں، مگر یہ بات واضح کردی ہے کہ ان کے کرنے پر اجر ہے، اور نہ کرنے پر اجروثواب بھی نہیں ہے، اور گناہ بھی نہیں ہے۔مراسلہ نگار نے جو حدیث کا ٹکڑا نقل کیا ہے، اس سے پہلے والا ٹکڑا جب تک نہ کیاجائے ، بات پوری نہیں ہوتی ہے۔

۔۔۔وما تقرب الی عبدی بشیء احب الی مما افترضت الیہ وما یزال ال عبدی یتقرب الی بالنفوافل حتی احببتۃ۔۔۔۔

‘‘ ۔۔۔اور میرا بندہ جن اعمال کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے، اس میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ اعمال ہیں ، جو میں نے اس پر فرض کیے ہیں ، پھر نوافل کے ذریعے مجھ سے برابر قریب سے قریب تر ہوتا رہتاہے۔۔۔۔’’(ترجمہ حدیثِ مذکورہ)

اس حدیث میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ، نماز سمیت تمام عبادات کے لیے فرض اور نفل ہی کا تذکرہ ہے، کسی اور کا نہیں۔

 نوافل کی اہمیت کا کوئی منکر نہیں ہے۔ احادیث میں ان کی بڑی فضیلت آئی ہیں۔لیکن جس اللہ کے رسولﷺ نے ان کی فضیلتیں بتائی ہیں، اس نے ان کی حیثیت و مقام اور درجہ بھی بتایا ہے۔ جہاں تک استخفاف کا معاملہ ہے تو یہ الزام تو اس وقت عائد کیا جاسکتاتھا، جب کہ نمازوں کے سلسلے میں قرآن و سنت سے ہٹ کر کوئی بات کہی جارہی ہو۔ پھر اگر اس کے باوجود استخفاف پر زور دیا جاتا ہے تو اس میں مجھ سے پہلے تو فقہائے کرام، محدثینِ عظام، تابعین، صحابۂ ہی نہیں بلکہ معاذاللہ، اللہ کے رسول خودآتے ہیں کہ وہ اس بدّو کو جنت کی خوش خبری سناتے ہیں کہ جو کہ اللہ کو رسولﷺ کے سامنے یہ عہد کرکے جاتا ہے کہ وہ فرضوں میں کسی قسم کی کمی نہیں کرے گا، لیکن زائد یعنی غیر فرض/نوافل میں سے کچھ بھی ادا نہ کرے گا۔ (صحیح البخاری)

اس حدیث سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ فرض و لازم و ضروری کون سی نماز ہے۔ ان سے غیر فرض یعنی نفل نمازوں اور ان کے اجر و ثواب کی نفی نہیں ہوتی، البتہ ان کے مقام و حیثیت کا پتا چلتا ہے۔ تہجد سمیت تمام نفل نمازوں کے بارے میں احادیث میں بے انتہا اجروثواب کو بیان کیا گیا ہے اور اہلِ ایمان کو ان کی ترغیب دلائی گئی ہے۔

فرض و نفل کے فرق کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں اکثر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ کسی بے نمازی کو جب نماز کی تر غیب دی جاتی ہے تو فرض کے ساتھ اس پر غیر فرض یعنی سنت نفل (سنتِ مؤکدہ ، سنتِ غیر مؤکدہ ) نمازوں کی بھی پابندی کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر و پیش تر افراد فرض سمیت تمام نمازوں سے ہی غافل ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہی حکمت ہے کہ اُسے پہلے فرض نمازوں کی پابندی پر زور دیا جائے اور اس کے پابند ہونے پر اجر و ثواب بتاکر نوافل کی ترغیب دی جائے۔

اس سلسلے میں ایک اہم بات بتانی اور ضروری ہے ۔وہ افراد جو کہ سروس پیشہ ہیں، سروس کے اوقات کے دوران میں فرض نماز اور اس میں لگنے والا وقت تو اللہ کا ہے، لیکن غیرفرض نماز میں سروس والا وقت لگانا سروس و خدمات کے سلسلے میں خیانت ہے، الَّا یہ کہ مالک/باس نے خود خوش دلی کے ساتھ اس کی اجازت دی ہو۔واللہ اعلم بالصواب واللہ ھو الموفق و ھو الھادی الی سبیل الرشاد۔

(بشکریہ ، ماہنامہ اللہ کی پکار دہلی مئی ۲۰۱۰)

(پروفیسر خالد حامدی)

ج: سنت رسول اللہﷺ کا وہ طریقہ ہے جسے آپ نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ، اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے قرآن مجید ہے ۔سنت بھی قرآن کی طرح بالکل متعین ، ہر شک و شبہ سے بالا اور صحابہ کے اجماع سے ملی ہے ۔حدیث رسول اللہﷺکے علم و عمل کا ریکارڈ ہے ۔ اس کے اندر ہر طرح کی چیزیں بیان ہوتی ہیں ۔ واقعات و ہدایات بھی بیان ہوتی ہیں، سوالات کے جوابات بھی بیان ہوتے ہیں ۔ حدیث کا تعلق تاریخ سے ہے اور سنت کا تعلق دین کے ماخذ سے ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)