ج: صالحین نماز جنازہ پڑھنے سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ نماز جنازہ تو ہو جائے گی ۔ نماز جنازہ ہر مسلمان کی پڑھ لینی چاہیے ۔ اس کے لیے احناف کا طریقہ بہت بہتر ہے۔یعنی جنازے کی عمومی دعا پڑھی جاتی ہے اللھم اغفرلحیّنا…… بس وہ پڑھ لیجیے اور اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجیے ۔ کوئی اگر اجتناب کرنا چاہے توبھی کوئی حرج نہیں ، حضورﷺ ایسا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کا جنازہ خود پڑھنے سے اجتناب کر لیتے تھے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اگر تو آپ نے واقعی انہیں دے دیا اوروہ اب اس کی مالک ہیں تو مسلہ ختم ہو گیا لیکن اگر تقسیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ویسے تقسیم کر کے رکھ دیا لیکن خود بھی پہن لیا تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ دھوکہ بازی ہے ، اس سے آدمی کو پناہ مانگنی چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس وہم کودور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالکل بے پروا ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیں۔ وہم کی بیماری آدمی کو دین سے دور لے جاتی ہے اور ایک ایسا آدمی بنا دیتی ہے جس سے لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس بات کو بالکل نہ سوچیں ، نماز پڑھیں ، جب آپ اس طرح بے پروا ہو جائیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کا وہم بھی ختم ہو جائے گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ویسے اجازت کی ضرورت نہیں لیکن ہماری خواتین کی تربیت ایسی ہے کہ وہ بالکل اس کو برداشت نہیں کرتیں ۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ جب تک کوئی بہت ناگزیر صورت نہ ہو یہ کام نہ کریں کیونکہ اس سے آپ کا بڑھاپا بالکل رسوا ہو کر رہ جائے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: طالبعلمانہ رویے سے مراد یہ ہے کہ آدمی ہر وقت بات سمجھنے اور ہمدری کے ساتھ سننے کے لیے تیار ہو ۔ اس پر نظر ثانی کرنے کے لیے بھی تیار ہو۔ ایک اچھے طالب علم میں یہی خصوصیات ہونی چاہیےں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اللہ کی مخلوق سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔یعنی ماں باپ ، بہن بھائیوں ، بیوی بچوں کی محبت۔دین اس سے نہیں روکتا صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ان سے بڑھ کر ہو۔انہی رشتوں کی محبت سے تو دنیا کی رونق قائم ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: انبیاؑ کی نماز کی کیا نوعیت رہی اور وہ کس طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے ، اس کا کوئی ذکر ہمارے پاس تصدیق کے ساتھ موجود نہیں۔بیت المقدس تو خود بیت اللہ کے رخ پر تعمیر کیا گیا ہے ، اس کی نوعیت ایک ثانوی مسجد کی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آپ معاش کی جیسی بھی جدوجہد کر رہے ہیں بہرحال کچھ نہ کچھ وقت تو بچتا ہو گا ۔ جو وقت آپ تفریح وغیر ہ میں صرف کرتے ہیں اسی میں اگر ہفتے میں ایک گھنٹہ نکال سکیں تو آہستہ آہستہ آپ کے اندر شوق پیدا ہو جائے گااور وہی وقت جو آپ کو بہت تنگ لگتا تھاوہ بہت لگنے لگے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
س: اس میں ایک مغالطہ ہے جو سمجھ لینا چاہیے ۔ مسلمانوں کی حکومت اس وقت تقریبا ً۵۵ ممالک میں قائم ہے ۔ ان حکومتوں کو دین اور شریعت کا پابند بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ کسی نئی خلافت کو قائم کرنے کی۔ آپ کسی بھی اسلامی ملک میں رہتے ہوں آپ کویہ کوشش کرنی چاہیے یعنی ہمیں اپنی حکومت کو یہ بتانا چاہیے کہ جس طرح فرد پر شریعت کی اطاعت ضروری ہے اسی طرح نظم اجتماعی پر بھی ضروری ہے اور اس آیت میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ایک مسلمان حکومت کی صرف یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ امن امان قائم کر دے ، دفاع کا بندوبست کر دے بلکہ مسلمان حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ایسا نظام قائم کرے جو بھلائی کو پھیلانے والا ہو اور برائی کے روکنے والا ہو ۔ اہل سیاست کو یہ ذمہ داری ادا کرنی چاہیے کہ وہ حکومت کو متوجہ کریں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بالکل کر سکتا ہے ، اگر آدمی میں ضد اور ہٹ دھرمی نہ ہو تو انبیا کا معجزہ ایسا واضح ہوتا ہے کہ ایک سلیم الطبع آدمی اسے جادو قرار نہیں دے سکتا چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ فرعون کے خوف سے لوگ ایمان نہیں لائے لیکن جب جادوگروں نے ہمت کی تو بہت سے لوگوں کے دلوں میں ا یمان اترا ہو گا ۔ قرآن کریم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قریش کے سرداروں کے خوف کی وجہ سے مکے کے لوگ ایک عرصے تک ایمان نہیں لائے لیکن سورہ فتح میں اللہ تعالی کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ دل سے مان چکے تھے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اللہ تعالی سے بہت زیادہ معافی اور توبہ کرنی چاہیے ۔ اللہ کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے ، اگر وہ تلف کیا ہے تو یہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے ۔ معافی مانگتا رہے لیکن یہ حقوق العباد کی چیز ہے تو قیامت کے دن معاملہ پیش ہو جائے گا ، اگر والد معاف کر دیں گے تو اللہ بھی معاف کر دے گا اور اگر معاف نہیں کریں گے تو پھر اپنی نیکیاں دے کے اور ان کی برائیاں لے کر ہی جان چھڑانی پڑے گی ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نبی اور رسول سے جانب نفس کوئی غلطی نہیں ہوتی جیسے ہم اور آپ نفس کے میلانات غالب آنے سے غلطی کر تے ہیں ۔ان سے اگر غلطی ہوتی بھی ہے تو وہ جانب حق میں ہوتی ہے۔ یعنی بعض اوقات حق کی حمیت ،غیرت اور فروغ میں مطلوب حد سے آگے بڑھ گئے ۔ان کے لیے یہ بھی غلطی شمار ہوتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: صحابہ کرامؓ کوئی شک نہیں آپس میں رحمدل ہی تھے اور کفار کے مقابلے میں سخت تھے ۔ اس سختی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انہیں کفر کے حق میں رام نہیں کر سکتا تھا ۔ جنگ صفین جوہوئی وہ بھی حق کے لیے ہوئی یعنی دونوں گروں سمجھتے تھے کہ وہ حق کے لیے لڑ رہے ہیں ۔حق کے معاملے میں وہ ہمیشہ سخت رہے ۔ رحمدلی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ چور کا ہاتھ کاٹنے یازانی کو سنگسار کرنے سے انکار کر دیں ۔نبیﷺ نے بھی مجرموں کو سزائیں دی ہیں اور حق کے لیے لڑائیاں لڑی ہیں حالانکہ آپ رحمت اللعالمین تھے ۔رحمدل ہونے سے مراد ہے کہ آپس میں ان میں محبت کے تعلقات تھے ۔لیکن اگرکسی موقع پر حق کے لیے آپس میں اختلاف ہوا ہے تو وہ سخت ہی ہونا چاہیے تھا اور وہ ہوا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: انہوں نے پیغمبروں کے ا تمام حجت کے باوجود پیغمبروں کا انکار کیا اور اپنی قوم کے دین کو اختیار کیا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ریاست زکوۃ کو جبراً وصول کر سکتی ہے ۔ اسلامی ریاست میں اس کی نوعیت لازمی ٹیکس کی ہے ۔ یہ لازماً آپ کو دینا پڑے گی ورنہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی طرح حکومت تلوار اٹھا سکتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج:یہ دونوں متضاد چیزیں نہیں ۔ آپ دونوں بھی کر سکتے ہیں۔بس حکمت عملی طے کرنا ہو گی اور صحیح راستہ متعین کرنا ہو گا۔ والدین جب آپ سے کہتے ہیں کہ ایسی تعلیم حاصل کیجیے کہ جس سے آپ اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے کسی بہتر جگہ پر کھڑا کر سکیں تو آپ کی بھلائی میں کہتے ہیں ۔ حفظ کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کیجیے اور اگر آپ سمجھیں کہ یہ معاملہ موخر کیا جا سکتا ہے اس سے آپ کا کوئی نقصان نہیں ہو گا تو سال دوسال موخر کر کے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا لیجیے اور اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ کام بعد میں ہو سکتا ہے تو بعد میں کر لیں۔ لیکن یہ کوئی دو متضاد چیزوں کا معاملہ نہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہے ۔ آپ نے دنیا میں رہنا ہے اس کی تیاری بھی ضروری ہے اور آخرت کی تیاری بھی ضروری ہے توازن ہی کو اختیار کرنے سے صحیح زندگی وجود میں آتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بالکل ٹھیک ہے ۔ خدا کے پیغمبر کے ہوتے ہوئے کوئی اور امامت کی کیسے جسارت کر سکتا ہے؟ البتہ ایسا ضرور ہوا کہ حضورﷺ کو کوئی معذوری لاحق ہو گئی یا آپ کو آنے میں تاخیر ہو گئی ، آپ وضو کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے یا کہیں اور مجلس میں شریک تھے تو اس میں نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا تو کسی صحابی نے کھڑے ہو کر جماعت کرادی اور جب حضورﷺ کی آہٹ بھی سنی تو انہوں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی ،تو آپ نے اشارے سے کہا کہ نہیں ایسے ہی مکمل کر لو۔ حضور کے ہوتے ہوئے کوئی جسارت نہیں کر سکتا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: حدیث رسالت مآبﷺ کی سیرت ، سوانح اورآپ کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے اور آپ سے دین کے بارے میں جو باتیں پوچھی گئی ہیں ا ن کا علم و عمل اس میں بیان ہوا ہے ۔اس وجہ سے دین میں اس کی بڑی اہمیت ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نصیب کوسمجھ لینا چاہیے ۔اللہ تعالی کی طرف سے جو چیزیں ملتی ہیں توان کے بارے میں یہ طے ہوتا ہے کہ فلاں فلاں چیز محنت کے بغیر مل جائے گی اور فلاں فلاں چیز محنت کے ساتھ ملے گی ۔چونکہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی چیز محنت کے بغیر مل جائے گی اس لیے ہمیں تو محنت بہر حال کرنی ہے ۔رزق کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ رزق کا کچھ حصہ آپ کو محنت کے بغیر ملے گا اور کچھ حصہ محنت کے ساتھ مشروط ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، اصل میں شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ٹوٹ نہ گیا ہوتو اس میں مناسب یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وضو کر لیا جائے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس معاملے سے تو باپ نے اپنی حیثیت کھو دی ہے اور اب وہ حترام کا مستحق نہیں رہا۔ مگر یہ بڑی بات ہے اس لیے آپ کو ہر اعتبار سے اطمینان کر لینا چاہیے ورنہ سنگین الزام ہے جس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا ہو گا۔البتہ اگر ثابت ہے تو ایسے باپ سے الگ ہو جائیے کیونکہ وہ اپنے باپ ہونے کی حیثیت ہی کھو بیٹھا ہو۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سستی کوئی وجہ نہیں ۔ آپ اگر معقولیت سے محسوس کرتے ہیں کہ پانی اتنی دور ہے کہ آپ کے لیے زحمت کا باعث بن جائے گا تو آپ تیمم یا مسح کر سکتے ہیں ۔اصل اصول زحمت ہے ۔ دین میں کوئی خاص مسافت مقرر نہیں کی گئی اور یہ حالات کے لحاظ سے ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ مثال کے طور پر گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ کو نماز پڑھنی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ پانی ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ہو لیکن وہاں جانا اور وضو کرنا گاڑی چھوٹنے کا باعث بن جائے گا تواس وجہ سے اگر دین اس کی مسافت مقرر کرتا تو یہ حالات کے خلاف معاملہ ہو جاتا۔ آپ اپنے طور پر اس کا فیصلہ کر لیجیے۔اور اس فیصلے کا جواب آپ نے اللہ کو دینا ہے۔ اگر نیک نیتی سے آپ نے کوئی اجتہاد کیا ہے اور غلط بھی کیا ہے تو اللہ تعالی کے ہاں اس کا اجر ملتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ تو پانی کا ریلا ہے ۔ اس سے بچاؤ کاطریقہ یہی ہے کہ اپنے اندر اور اپنے گھر والوں میں دینی اقدار کا صحیح شعور پیدا کیجیے ۔ جنت کی صحیح طلب پیدا کیجیے ۔ اس امر کو ذہن نشین کر لیجیے کہ روح کی پاکیزگی ہی جنت ملنے کا باعث بنے گی ۔ جتنا زیادہ آپ یہ شعور پیدا کریں گے ، اتنے زیادہ یہ اثرات کم ہوتے چلے جائیں گے ۔ اگر آپ اس کو بند کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ منفی اقدام ہو گا جس کے نتائج الٹے نکلیں گے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: شہادت کے بارے میں اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جب آدمی کسی حق کی خاطر محض اللہ کی خوشنودی کے لیے جان دیتا ہے تو تبھی شہادت کے اجر کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر وہ ماں کی خدمت کے لیے ، اپنے مال کی حفاظت کے لیے جان تو دے رہا ہے لیکن کسی اور جذبے سے تویہ شہادت نہیں۔شہادت کے اجر کا تعلق آدمی کی نیت پر ہے ، کسی خاص عمل پر نہیں ۔اگر میدان جنگ میں بھی آدمی کی نیت خدا کی راہ میں جان دینے کی نہ ہو بلکہ بہادر کہلانا مطلوب ہو یا کوئی اورجذبہ ہو تو اسے بھی شہادت کا اجر نہیں ملے گا۔جس نیت کے تحت آدمی جس چیز کے لیے میدان میں اترتا ہے وہ نیت فیصلہ کرے گی ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ‘سرزد ہو جاتا ہے’ ،ان الفاظ پر غو رکیجیے ۔ یعنی جذبات کے غلبے میں آدمی خود پر قابو نہیں پاسکا ، لیکن وہ خدا سے ڈرتا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو لیکن پھسل گیا ۔یہ سرکشی نہیں ہے ، اس کے بعد ایسا آدمی نادم ہو گا اور فوراً رب کی طرف رجوع کرے گا ، معافی مانگے گا ۔اور اللہ تعالی نے قرآن میں کہا ہے کہ جب کوئی آدمی اس طرح جذبات کے غلبے میں آکر کوئی گنا ہ کر لیتا ہے اور فوراً معافی مانگ لیتا ہے تو اللہ نے لازم کر رکھاہے کہ اس کی توبہ کو قبول کرے ۔ یہ خدا کی بڑی رحمت اور بڑا کرم ہے لیکن آدمی اگر منصوبہ بندی کر رہاہو کہ گناہ کر کے معافی مانگ لوں گا تو یہ سرکشی ہے۔ ایک چیز ہے کہ انسان سے ہو گئی اور ایک چیز ہے کہ وہ کرنے پر مصر ہو گیا۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن مجید نے بڑا سادہ اصول بتایا ہے کہ الذین اذا انفقو لم یسرفو ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما یعنی اللہ نے آپ کو جودیا ہے ، اس حیثیت سے خرچ کیجیے جس میں نہ کہ بخل ہو نہ اسراف اعتدال اورتوازن کا رویہ ہی اصل رویہ ہے۔ یہ چیز آپ بڑی آسانی سے متعین کر لیتے ہیں، بازار میں آپ کوئی چیز خریدنے جائیں گے تو اس میں بڑی مہنگی اور بڑی سستی چیزیں بھی ہونگی تو آدمی کو ہمیشہ متوسط کاا نتخاب کرنا چاہیے۔ پیمانہ ہے وکان بین ذلک قواما۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اردو میں مروت کا مطلب ہے آدمی کے اندر لحاظ ہونا چاہیے، حیا ہونی چاہیے اور دوسروں کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے ،اسے ترش رو اور انتقام کے جذبے میں نہیں جانا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آپ ایسا محسوس کرتے ہیں تو اجتناب کر سکتے ہیں لیکن رد عمل میں کوئی بری بات نہ کہیے ، بس اعراض کر کے چلے جائیے ۔ دینا آپ پر لازم نہیں
(جاوید احمد غامدی)
ج: دنیا کی اصل حقیقت کی یاد دہانی روز موت کراتی ہے اور روز اٹھنے والا جنازہ بتا دیتا ہے کہ دنیا کی اصل حقیقت کیا ہے ۔ اس کے بعد بھی اگرانسان تنبہ حاصل نہیں کرتا تو آسمانی کتابیں موجود ہیں ، ان کی تذکیر کرنے والے لوگ موجود ہیں وہ بتاتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ راستہ بند ہو گیا ہے ۔ یہ دنیا عارضی ہے اور آدمی کو بہرحال اپنے رب کے سامنے جواب دینا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بالکل لازم ہے لیکن کوئی ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ جہاں قبلہ کا تعین ممکن نہ ہوجیسے گاڑی میں یا جہاز میں تو ایسے موقع پر اللہ تعالی کی اس بات پر عمل کرنا چاہیے جدھر بھی رخ کرو گے ادھر اللہ ہی کا رخ ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: عورتوں کے اس طرح کے معاملات میں اصولی بات جان لینی چاہیےں جس کے بعد آپ کو بہت سی چیزوں کا خود ہی جواب مل جائے گا۔ ہر وہ زیبائش جس سے دوسروں کو دھوکا دیاجاتا ہے جیسے خواتین دوسروں کے بال ساتھ ملا کر اپنے بال لمبے کر لیتی ہیں ، حضورﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔ اللہ نے انسان کو جو ہئیت دی ہے اس میں کسی کمزوری یا کمی کا علاج کرنا ایک چیز ہے اور اس میں نمائش کا پہلو پیدا کر کے اسے دوسروں کے لیے فریب کا ذریعہ بناد ینا بالکل دوسری چیز ہے ۔اس کو پسند نہیں فرمایا گیا۔ اسی طرح بعض بد ہئیتی کی چیزیں عورتیں بناؤ سنگھار میں اختیار کرلیتی ہیں جیسے جسم پر نام کھدوانا ، طرح طرح کے نقش و نگار بنانا، یہ سب ناپسندیدہ ہیں۔ باقی بناؤ سنگھار کی چھوٹی موٹی چیزیں جو خواتین کرتی ہیں اس کے بارے میں کوئی حرج نہیں ۔ یعنی بناؤ سنگھار اس حدتک نہ ہو کہ ہیئت ہی تبدیل ہو جائے اور دوسروں کو دھوکا لگے یا یہ کہ بد نمائی اختیار کی جائے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ بے ایمانی دوسروں کو بتادینا آپ پر واجب نہیں ۔ اگر آپ نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے تو خاموشی اختیار کیجیے ۔ اگر آپ کے پاس واضح اور قطعی ثبوت ہیں تو عدالت جائیے اور پریس سے رجوع کیجیے ۔تا ہم خود کو خواہ مخواہ نقصان میں نہ ڈالیے ۔ ان کے لیے دعا کیجیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سب سے پہلی چیز قومی مزاج کا تبدیل کرنا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دنیا پر ایک ہزارسال تک حکومت کرتے رہے تو اس وجہ سے فخر کی نفسیات سے ہم ابھی تک نکل نہیں پائے۔ زمینی حقائق کو بالعموم نظر انداز کرتے ہیں اور حقائق کے خلاف زندگی بسر کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے یعنی وہ چیزیں جن کو ہم موخر کر سکتے تھے ان کو خواہ مخواہ ہم نے مسئلہ بنا لیا دوسری بڑی وجہ کرپشن ہے ۔جب ایک سوسائٹی کرپٹ ہو جاتی ہے تو پھر اس پر اللہ تعالی کی طرف سے ایک سزا قرضوں کی صورت میں نافذ کر دی جاتی ہے ۔ تورات میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے یہود سے یہ کہا ہے کہ قرض میرا عذاب ہے جو میں نافذ کر دیتا ہوں کسی قوم پر۔یہ عذاب اسی وقت نازل ہوتا ہے جب کسی قوم کی اخلاقی حالت انتہائی پستی کو پہنچ جائے ۔ہمارا معاشرہ انفرادی اور اجتماعی طور پر کس اخلاقیات کو پہنچا ہوا ہے ہم سب جانتے ہیں ۔ جہاد اور قتال کی بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں لیکن معمولی معمولی اخلاقیات سے بھی ہم عاری ہیں۔ وہ چیزیں جو ہم پر نافذ ہونی چاہیےں ہم انہیں سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے جبکہ ساری دنیا پرخدائی فوجدار بن کر شریعت نافذ کرنے کے لیے ہم میں سے ہر شخص تیار ہوتا ہے۔ یہ اخلاقی انحطاط انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ یہ اخلاقی انحطاط جب تک ہم دور نہ کریں گے قرضوں کی لعنت سے چھٹکارانہیں مل سکتا۔
(جاوید احمد غامدی)