جواب: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا ہو اسے چاہئے کہ وہ شکرانے کے طور پر دوسرے غریب اور ضرورت مند انسانوں پر خرچ کرے۔ قرآن میں ہے:
وَفِی اَموَالِہِم حَقّ لِّلسَّاءِلِ وَالمَحرْومِ۔ (الذاریات: ۱۹)
”اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لئے“
مال خرچ کرنے کو ’انفاق‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں انفاق کی ترغیب دی گئی ہے اور اللہ کی خوش نودی کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ اس کی انتہا یہ ہے کہ آدمی کے پاس اس کی اپنی بنیادی ضروریات سے زیادہ جتنا مال ہو، سب خرچ کردے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”پوچھتے ہیں: ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو“۔
انفاق کی ایک مخصوص صورت زکوٰۃ کی ہے۔جس شخص کے پاس کم از کم مال کی ایک متعین مقدار ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ان میں سے کسی ایک کی مالیت کے بقدر نقد رقم ہو اور وہ سال بھر اس کے پاس محفوظ رہے تو اس میں سے ڈھائی فیصد نکالنا اور اس کی مخصوص مدات میں اسے خرچ کرنا اس پر فرض ہے۔ اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔
جس شخص پر جتنی رقم بطور زکوٰۃ عائد ہوتی ہے وہ اس سے زیادہ خرچ کرسکتا ہے۔ اس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کا مستحق ہوگا، لیکن ڈھائی فیصد سے اوپر کی رقم کو زکوٰۃ نہیں کہا جاسکتا۔ اسے صدقہ، خیرات، عطیہ، ہبہ، اعانت، کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں اور ہرفرض کی رکعتیں بھی متعین کردی ہیں۔ اب کوئی شخص ان اوقات میں مزید نمازیں پڑھ سکتا ہے، لیکن ان کی حیثیت نوافل کی ہوگی، وہ فرض رکعتوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرسکتا۔
زکوٰۃ اور صدقات کو الگ الگ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ زکوٰۃصرف مخصوص مدات میں خرچ کی جاسکتی ہے، جن کی صراحت قرآن کریم (التوبۃ:) میں کردی گئی ہے۔ جبکہ صدقات کی رقمیں ہر کارِ خیر میں صرف کی جاسکتی ہیں۔ جو تنظیمیں یا ادارے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں وہ بھی زکوٰۃ اور صدقات کا الگ الگ حساب رکھتے ہیں، اس لئے انھیں کوئی رقم حوالے کرتے وقت یہ صراحت مناسب، بلکہ ضروری ہے کہ اس میں سے اتنی رقم زکوٰۃ کی ہے اور اتنی عطیہ ہے۔
جواب: زکوٰۃکی جو مدات قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک ’وفی الرقاب‘ (التوبۃ) ہے،یعنی گردنوں کو چھڑانے میں۔ نزولِ قرآن کے عہد میں غلامی کا رواج تھا۔ انسانوں کی گردنیں اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھیں۔ قرآن نے ان کی گلوخلاصی کو کارثواب قرار دیا۔ جمہور علماء و مفسرین کا خیال ہے کہ ’فی الرقاب‘ سے مراد غلام ہیں۔ چوں کہ غلامی کی یہ رسم الحمد للہ اب ختم ہوگئی ہے،اس لیے زکوٰۃ کا یہ مصرف اب باقی نہیں رہا۔اْس زمانے میں ایسے قیدی بھی پائے جاتے تھے، جو مختلف جنگوں میں گرفتار کرلیے جاتے تھے، اس لئے کتبِ فقہ میں ایک بحث یہ ملتی ہے کہ کیا زکوٰۃ قیدیوں کو چھڑانے میں صرف کی جاسکتی ہے؟ جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ قیدی کو چھڑانے میں زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی، لیکن بعض علماء، جن میں ابن عبدالحکم مالکی، قاضی ابن العربی مالکی، امام احمد(ایک روایت کے مطابق) اور علامہ ابن تیمیہ قابل ذکر ہیں، اس کی اجازت دیتے ہیں۔ادھرکچھ عرصے سے ہندوستانی مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے نوجوانوں کو بلاکسی قصور کے جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔ ان پر اتنے مقدمات لا ددیے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی میں برسوں گزر جاتے ہیں اورجیلوں سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہوپاتی۔ ان کی رہائی کے لئے قانونی چارہ جوئی کرنا، ان کے مقدمات کی پیروی کرنا، انھیں قید وبند سے چھٹکارا دلانا اور ان کی فلاح وبہبود کے دیگر کام انجام دینا وقت کااہم تقاضا ہے۔ امت کے سربرآوردہ طبقے کو اس کی فکر کرنی چاہیے اوراس کے لیے ہرممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔کیا ریاستی دہشت گردی کے شکار ان اسیران کے مقدمات کی پیروی اور ان کو رہائی دلانے کی کوششوں میں زکوٰۃکی رقم خرچ کی جاسکتی ہے؟فقہائے کرام کو اس موضوع پر غور کرنا چاہئے۔ راقم کی رائے ہے کہ مذکورہ معاملہ زکوٰۃ کا مصرف بن سکتا ہے۔ قرآن نے ’وفی الرقاب‘ (گردنیں چھڑانے میں) کی جامع تعبیر اختیار کی ہے۔ زمانہ قدیم میں اس کا انطباق غلاموں پر ہوتا تھا۔ موجودہ دور میں ہندوستان کے اسیرانِ بلا کی حالت ان سے مختلف نہیں ہے۔ان مظلومین کے سلسلے میں کرنے کے دو کام اور ہیں، جو شاید ان کے مقدمات کی پیروی سے زیادہ اہم ہیں:اول یہ کہ یہ نوجوان عام طور پر اپنے گھروں کا سہارا ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعہ معاش پر ان کے پورے خاندان کا انحصار ہوتا ہے۔ قیدوبند کی بنا پر ان کا سلسلہ معاش منقطع ہوجانے کی وجہ سے ان کے خاندان بڑی آزمائش میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ بسا اوقات ان کے افراد خانہ دانے دانے کو محتاج ہوجاتے ہیں۔ ایسے موقع پر ضروری ہے کہ متمول حضرات ان خاندانوں کی خبر گیری کریں اور ان کی معاشی کفالت کی ذمے داری لیں۔ دوم یہ کہ جیلوں میں ان نوجوانوں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے، ان کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں اور ان کو جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ ایسے میں ان نوجوانوں کی راحت رسانی کی بھی کوشش کرنی چاہئے، ممکن ہوتو انھیں کچھ سہولیات مثلاً پہننے کے کپڑے اور غذائی اشیاء وغیرہ پہنچائی جائیں۔ دینی لٹریچر، کتب ورسائل بھی پہنچائے جائیں، تاکہ ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہو اور ذہنی ونفسیاتی سکون بھی مل سکے۔
()
جواب:کوشش کرنی چاہیے کہ زکوٰۃ کی رقم صحیح طریقے سے مستحقین تک پہنچے۔ اسے فوراً خرچ کرنا ضروری نہیں ہے۔ مولانامجیب اللہ ندوی نے لکھاہے:
”اگر کسی نے زکوٰۃ کی نیت سے روپیہ نکال کر علیٰحدہ کردیا اور یہ ارادہ کیاکہ سال بھر کے اندر تھوڑا تھوڑا غریبوں پر خرچ کردے گا تو یہ جائز ہے۔“
یہی معاملہ اداروں اور جماعتوں کا ہے۔ ان کی حیثیت مستحقین کے نمائندہ اور وکیل کی ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کی جو رقم ان کے پاس جمع ہو، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمان داری کے ساتھ اور صحیح طریقے سے ان تک پہنچائیں۔ مالِ زکوٰۃ کو تقسیم کرنے کے لیے کسی ادارہ یا جماعت کے حوالے کرنے سے صاحبِ نصاب کا فرض ادا ہوجاتا ہے اور وہ بری الذمہ ہوجاتاہے۔ اب ادارہ یا جماعت کی ذمہ داری قرار پاتی ہے کہ وہ ایک نظم بناکر اسے مستحقین تک پہنچائے۔ ایک رمضان میں جمع کی گئی رقم اگلے رمضان سے قبل خرچ کردی جائے تو بہتر ہے، لیکن اگر اس میں سے کچھ بچ رہے اور اسے بعد میں خرچ کرنے کی نوبت آئے تو اس میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے۔
جواب:اس معاملے میں اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں قرآن وسنت میں کوئی قطعی چیز نہیں ہے جو اس میں مانع ہو۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ ہمارا رجحان یہی ہے کہ غیر مسلم کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج : تقسیم کرنے سے مراد کیا ہے ، اگر آپ نے واقعی دے دیا ہے تو مسئلہ ختم ہو گیا لیکن اگر تقسیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ویسے توتقسیم کر کے رکھ دیا لیکن خود پہن لیا تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ دھوکہ بازی ہے ، اس سے آدمی کو پناہ مانگنی چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: زکوۃ ریاست جبراً وصول کر سکتی ہے ، اسلامی ریاست میں اس کی نوعیت ٹیکس کی ہے ، یہ لازماً آپ کو دینا پڑے گی ورنہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی طرح حکومت بھی تلوار اٹھا سکتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: ۱۔ اگر کسی شخص کے پاس سونے اور چاندی کے زیورات اتنی مقدار میں ہوں کہ دونوں الگ الگ نصاب کو نہ پہنچتے ہوں تو ان پر وجوب زکوٰۃ کے معاملے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ احناف اور مالکیہ کے نزدیک دونوں کو ملاکر اگر کسی ایک کا نصاب پورا ہوجائے تو زکوٰۃ واجب ہوجائے گا۔ یہی امام ثوری اور امام اوزاعی کی بھی رائے ہے۔ امام شافعی کے نزدیک دونوں کو ملایا نہیں جائے گا۔ زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب دونوں یا ان میں سے کسی ایک کا نصاب پورا ہوجائے۔ امام احمد سے دورائیں مروی ہیں۔ فقہاء کے اپنے اپنے دلائل ہیں، تفصیل کتبِ فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
۲۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک زیورات میں زکوٰۃ عائد ہوتی ہے دیگر ائمہ کے نزدیک استعمالی زیورات پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ زکوٰۃ کی ادائی اس کے ذمے ہوگی جو ان کا مالک ہو۔ کسی عورت نے اپنی ہونے والی بہو کے لیے زیورات خریدے تو شادی سے قبل تک اسی کو زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اور شادی کے بعد جب بہو ان کی مالک ہوجائے گی تو زکوٰۃ کی ادائی اس کے ذمے ہوگی۔
۳۔ سونا چاہے سکوں کی شکل میں ہو یا زیورات کی شکل میں، دونوں صورتوں میں اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔
()
جواب : کسی زمین کی خریداری کے وقت اگر اس کی تجارت کی نیت نہیں تھی تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اسے فروخت کرنے کے بعد جو رقم ملے، دوسرے اموال زکوٰۃ کے ساتھ اس پر بھی زکوٰۃ عائد ہوگی، اگر وہ رقم اْس وقت موجود ہو جب اس کا مالک صاحبِ نصاب ہوا ہو۔
اگر کوئی زمین ابتدا ہی میں تجارت کی نیت سے خریدی جائے تو سال گزرنے کے بعد اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔ اس صورت میں قیمتِ خرید کا نہیں بلکہ اس کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔
()
جواب : اس معاملے میں اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں قرآن وسنت میں کوئی قطعی چیز نہیں ہے جو اس میں مانع ہو۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ ہمارا رجحان یہی ہے کہ غیر مسلم کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : شادی کی ضرورت ایک معتبر ضرورت شمار ہوتی ہے، اور بعض اوقات تو شادی کی ضرورت بالکل اس طرح ہوتی ہے جس طرح کھانے پینے اور رہائش کی ضرورت ہوتی ہے. اس لیے تنگ دست کی شادی کے لیے زکوۃ دینا جائز ہے ۔
(عبداللہ صالح المنجد)
جواب :آپ نے صدقہ، فطر، زکوۃ اور خیرات میں فرق پوچھا ہے اور مصیبت میں صدقہ دینے کی حقیقت دریافت کی ہے۔یہ تمام الفاظ ایک پہلو سے مشترک المعنی ہیں۔ وہ پہلو انفاق فی سبیل اللہ کا ہے اور یہ لفظ اس مشترک پہلو سے بھی لکھے اور بولے جاتے ہیں۔ انفاق سبیل اللہ ہی کی مختلف صورتوں کے لیے ان میں سے کچھ لفظ مختص بھی ہیں۔ مثلا بچتوں پر شریعت کی طرف سے لازم کیے گئے اڑھائی فیصد انفاق کے لیے زکوۃ کا لفظ مستعمل ہے۔ عید الفطر سے پہلے تمام افراد خانہ پر ایک دن کا کھانا عائد ہوتا ہے، جس کی مقدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع مقرر کی تھی، اسے فطرانہ یا صدقہ فطر کہا جاتا ہے۔ صدقہ اور خیرات کا لفظ نفلی خیرات کے لیے آتا ہے۔
ان میں سے صدقے کا لفظ ہمارے ہاں ایک نئے تصور کے ساتھ متعلق ہو گیا ہے۔ وہ تصور یہ ہے کہ کسی مصیبت کو ٹالنے کے لیے کوئی چیز خیرات کی جائے۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ ایک حقیقت کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر تکلیف یا آزمایش ہوتی ہے یا تنبیہ۔ اس لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی طرف متوجہ ہو اور توبہ اور اصلاح کے راستے کو اختیار کرے۔ اصلاح عمل میں نماز ہے۔ حمد و تسبیح ہے۔ گناہوں سے اجتناب ہے اور اسی طرح خیرات اور دوسرے نیکی کے کام بھی ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم کوئی ایسا راستہ نکال لیں جس میں زندگی میں کوئی تبدیلی نہ کرنی پڑے اور مشکل سے جان بھی چھوٹ جائے۔ صدقے کے اس تصور کی ایک وجہ تو یہ ہے۔ دوسری وجہ عامل حضرات ہیں جنھوں نے لوگوں کو توہم پرستی کی چاٹ لگا رکھی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: بالکل دے سکتے ہیں اور ایسی صورت میں زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ یہ ایک خدمت ہے اور زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف ہے۔ زکوٰۃ کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر حکومت مانگے تو پھر تو اسی کو دینی چاہیے، اگر حکومت نہیں مانگتی اور آپ ذاتی طور پر ادا کر رہے ہیں تو پھر اس کا ایک مصرف فی سبیل اللہ بھی ہے یعنی دین کی خدمت یا لوگوں کی بہبود کا کوئی کام ہو تو اس میں آپ زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: صرف وہ زیور مستثنی ہے جو عورتیں شب و روز پہنے رکھتی ہیں۔ جو گھر میں ان کے عام استعمال کا زیور ہے۔باقی سب پہ آپ زکوۃ دیں گے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بیوی اپنے زیورات پر خود زکوۃ ادا کرے ، اگر شوہر سمجھتا ہے تو وہ اس کی طرف سے ادا کر دے یا باپ ، بھائی ، بیٹا کوئی بھی ادا کر دے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: زکوۃ تو ایک لازمی کٹوتی ہے جو اللہ تعالی نے عائد کر دی ہے ، انفاق فی سبیل اس سے آگے کی چیز ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آپ نے کرائے پر دینے کا ارادہ کیا ہوا ہے تو اس دوران میں وہ زکوۃ سے مستثنی رہے گی لیکن جونہی وہ کرائے پر اٹھے گی اس پر پیداوارکی زکوۃ عائد ہو جائے گی۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اگر تو آپ نے واقعی انہیں دے دیا اوروہ اب اس کی مالک ہیں تو مسلہ ختم ہو گیا لیکن اگر تقسیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ویسے تقسیم کر کے رکھ دیا لیکن خود بھی پہن لیا تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ دھوکہ بازی ہے ، اس سے آدمی کو پناہ مانگنی چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ریاست زکوۃ کو جبراً وصول کر سکتی ہے ۔ اسلامی ریاست میں اس کی نوعیت لازمی ٹیکس کی ہے ۔ یہ لازماً آپ کو دینا پڑے گی ورنہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی طرح حکومت تلوار اٹھا سکتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: والدین کی خدمت کی ذمہ داری آپ پر فرض ہے ۔ اس وجہ سے ان کوزکوۃ نہ دیں بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر پورا کریں ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ گھریلو ملازمین، اگر زکوٰۃ کے حق دار ہوں ( اور ہمارے معاشرے میں اکثر وہ حق دار ہی ہوتے ہیں)، تو اُن کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ لیکن اِس کے عوض اُن سے ذرہ بھر اضافی کام کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ اُن سے کسی شکریے کی توقع رکھنی چاہیے، ورنہ اجر ضائع ہو سکتا ہے۔ زکوۃ کی رقم سے کپڑے وغیرہ خرید کر بھی دیے جا سکتے ہیں اور کسی اور صورت میں بھی مدد کی جا سکتی ہے ۔مثلا شادی بیاہ ،تعلیم ،دوا وغیرہ کا خرچ۔ زکوۃ بہن بھانجے اور خالہ کو دی جا سکتی ہے،جب کہ اُنھیں اِس کی ضرورت ہو۔دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب۔ یہ نیکیاں الگ ہیں، مگر اس کے علاوہ بھی تو وہ کئی نیکیاں کما سکتے ہیں۔ پتا نہیں امیر آدمی زکوٰۃ، خیرات کرتا ہو، لیکن اس نے کتنے جرائم کیے ہوں، نیکی کمانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے کسی کودولت کا محتاج نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار راستے رکھے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ زکوۃ میں مالک بنانے کی شرط کوئی ضروری نہیں ہے ۔یہ مسئلہ اصل میں ایک آیت کا مدعا غلط سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہواہے۔ زکوۃ سے آپ ادارے بھی بنا سکتے ہیں اورنظام بھی۔تملیک کی شرط تو ایسی ہے کہ بقول ہمار ے جلیل القدر استاد کے الفاظ میں کہ اب اگر کسی لاوارث مردے کو کفن دینا ہو تو پہلے اس کو زندہ کر کے مالک بنائیں گے پھر اس کے بعد کفن دیں گے ۔تملیک کوئی چیز نہیں ہے ۔ آپ زکوۃ لوگوں کو دے بھی سکتے ہیں اوران کی بہتری کے کاموں میں بھی صرف کر سکتے ہیں ۔تملیک کی شرط نے حیلے کی بدترین قسم کو ایجاد کرنے پرمجبور کر دیا ہے۔مدارس میں حیلہ یہ کیا جاتا ہے کہ جب آپ زکوۃ کی رقم لیکر جاتے ہیں تو کہتے ہیں لے آئیے اور پھر کسی طالب علم کو اس کا مالک بناتے ہیں اور پھر اس سے اندر خانے وعدہ لے لیتے ہیں کہ تم مدرسے کو اعانت کر دو گے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آپ کی زکوۃ کے سب سے زیادہ مستحق وہی ہیں ۔ ضرور ان کی مدد کریں اور زکوۃ کے معاملے میں یہ ذہن میں رکھیں کہ قریبی اعزہ ہی سب سے زیادہ اس کے حقدار ہوتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ کوئی لازمی بات نہیں ہے۔ اس بات کو پسندیدہ قرار دیا گیا تھا کیونکہ حضورﷺ کے زمانے میں سادہ نظام تھا اور حکومت کے لیے بھی بہت بڑے پیمانے پر جس طرح آج ہوتا ہے پلاننگ کرنا ممکن بھی نہ تھا تو اس میں یہ چیز روا رکھی گئی یا اس کو زیادہ قابل ترجیح سمجھا گیا کہ جہاں کی زکوۃ ہے وہیں پر خرچ کی جائے۔ یہ کوئی قانونی بات نہیں ۔اب حکومت مجموعی صورت حال کو سامنے رکھ کر پلاننگ کر سکتی ہے۔ مثلاً اگر بلوچستان کی زکوۃ صرف بلو چستا ن میں اورپنجاب کی زکوۃ صرف پنجاب میں خرچ کی جائے تو کتنا عدم توازن پیدا ہو جائے گا اس لیے مجموعی نظام کو سامنے رکھ کر ہی پلاننگ کرنی چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ زکوۃ صرف اڑھائی فیصد نہیں ہے ، زکوۃ مال میں اڑھائی فیصد ہے ، پیداوار میں پانچ فیصد ، دس فیصداور بیس فیصد ہے۔ پیداوار کی موجودہ زمانے میں ایسی قسمیں وجود میں آگئی ہیں جو قدیم زمانے میں نہیں تھیں ۔ زرعی پیداوار بھی پیداوار ہے اور صنعتی پیداوار بھی پیداوار ہے ، ڈاکٹر کی فیس بھی پیداوار ہے ، یہ کالجوں کی فیسیں بھی پیداوار ہے۔ پیداوار کے ذرائع لامحدود ہو گئے ہیں۔ زکوۃ مال میں اڑھائی فیصد ہے ۔ اسلام میں زکوۃ حکومت کا ٹیکس ہے جو اس نے بالجبر لے لینا ہے ۔ اسلام کااصل حکم انفاق ہے او رانفاق کے بارے میں اللہ تعالی کے مطالبہ جو کچھ ضرورت سے زیاد ہ ہے وہاں تک ہے۔ یعنی آپ کی ذاتی کاروباری ضرورتوں سے جو کچھ زیادہ آپ کے پاس موجود ہے، یہ اصلاً معاشرے کاحق ہے اور آپ کے ذمے ہے کہ معاشرے کویہ حق لوٹائیں۔ آپ کے پاس مال پڑا ہوا ہے تو امانت ہے ۔جیسے ہی انفاق کا کوئی موقع آپ کے سامنے آجائے آپ فراخدلی کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کیجیے اورقرآن یہ کہتا ہے کہ جو آدمی انفاق کا موقع پیدا ہونے کے بعد بھی اپنی ضروریات سے زائدمال اللہ کی راہ میں نہیں دیتا وہ جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اسکی سزا قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ اس کاوہ مال آگ میں تپایا جائے گااور اس سے اس کی پیٹھ کو اور اس کی پیشانی کو قیامت میں داغ دیا جائے گا ۔ اس لیے صرف یہ خیال نہ کریں کہ قرآن نے صرف اڑھائی فیصد زکوۃ عائد کی ہے ، زکوۃ بھی اڑھائی فیصد ، پانچ فیصد، دس فیصد اور بیس فیصد ہے اور یہ تو ایک لازمی ٹیکس ہے جو حکومت قانون کی قوت سے لے لے گی ۔ اصل حکم انفاق کاہے اور انفاق ہی پر قرآن نے تمام درجات کی بنیاد رکھی ہے اور جب لوگوں نے پوچھا کہ اس کی آخری حد کیا ہے تو کہا یسئلونک ما ذا ینفقون قل العفو کہ سارے مطالبات ہمارے اس زائد مال میں ہیں جو تمہاری ضرورتوں سے فاضل تمہارے پاس ہے ۔ ضرورتیں کیا ہوتی ہیں وہ ذاتی بھی ہوسکتی ہیں ، کاروباری بھی ہو سکتی ہیں ، حال اور مستقبل کی بھی ہو سکتی ہیں۔ ان کے علاوہ جوبھی مال ہے وہ آپ کے پاس اصل میں معاشرے کی امانت ہے ۔مال کے بارے میں اسلام کا قاعد ہ قانون یہ ہے کہ وہ حلال ذرائع سے کمایا گیا ہو۔ اس میں کسی پر ظلم یازیادتی نہیں ہونی چاہیے ۔اور دوسری چیز بتا دی ہے کہ جو کچھ بھی آپ نے کمالیا ہے تو اپنی ذات پر خرچ کرنے میں بھی آپ کو اسراف کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے یعنی فضول خرچی نہیں ہونی چاہیے اور تیسری بات یہ کہی ہے کہ جو ضرورتوں سے زیادہ ہے وہ معاشرے کا حق ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب:عُشر دسویں حصہ کو کہتے ہیں جو زرعی پیداوار پر ادا کیا جاتا ہے اور نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ بھی اس اطلاق میں شامل ہے دراصل عُشر زکوٰۃ کی طرح ایک ایسا مقررہ حصہ ہے جو زرعی پیداوار پر دینا واجب ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:فِیمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُونُ اَوْ کَانَ عَثَرِیًّا الْعُشْرُ؛ وَمَا سُقِیَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ.
وہ زمین جسے آسمان یا چشمہ سیراب کرتا ہو یا وہ خود بخود نمی کی وجہ سے سیراب ہو جاتی ہو تو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے؛ اور جسے کنوئیں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔بخاری، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب العشر فیما یسقی من ماء السمآء، وبالمآء الجاری، 2: 540، رقم: 1412
عشر چونکہ پیداوار کی زکوٰۃ کا نام ہے اس لئے اس کے مصارف بھی وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں؛ یعنی فقراء، مساکین، عاملینِ عشر، غلاموں کی آزادی، غارِمین، فی سبیل اللہ اور مسافر۔ زکوٰۃ کی طرح عشر کی جنس یا قیمت بنی ہاشم کو، حقیقی والدین یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اور حقیقی اولاد یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی کو اور میاں بیوی ایک دوسرے کو نہیں دے سکتے۔ اگر بہن بھائی، داماد، بہو، ساس سسر یا رشتہ دار وغیرہ مستحقِ زکوٰۃ ہوں تو ان کو عشر دیا جاسکتا ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
جواب:عشر کی ادائیگی میں اصل حکم تو زرعی پیداوار میں سے مخصوص مقدار فی سبیل اللہ دینے کا ہی ہے، تاہم اگر عشر کے بقدر جنس کی قیمت دے دی جائے، تب بھی عشر ادا ہوجائے گا۔
جواب:اگر وہ شخص واقعی عشر، زکوٰۃ یا صدقہ خیرات لینے کا حقدار ہے تو کوئی حرج نہیں، لے سکتا ہے اور امامت بھی کروا سکتا ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ امامت کے لیے صحیح العقیدہ اور بنیادی دینی مسائل کا جاننے والا ہونا ضروری ہے، نہ کہ دولت مند، اَن پڑھ جاہل ہونا۔باقی رہا حجام تو اس میں بھی کوئی شرعی ممانعت نہیں جو امامت کے مانع ہو۔ جو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، یہ ان کی جہالت ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔