بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسئلہ کی نوعیت سمجھے بغیر دونوں پر ایک ہی حکم جاری کر دیتے ہیں جو عوام الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہم ذیل میں دونوں موضوعات پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ادْعُوہُمْ لِآبَاءِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاء ہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ ۔۔۔۔۔
تم اْن (مْنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔(الاحزاب، 33: 5)
آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اْن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (بخاری، الصحیح، 3: 1292، رقم: 3317، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامۃ)
جان بوجھ کر ولدیت تبدیل کرنے کا حکم:
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘
بخاری، الصحیح، 6: 2485، رقم: 6385
مسلم، الصحیح، 1: 80، رقم: 63
باپ دادا سے منہ پھیرنے والے کا حکم:
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے آبا ؤ اجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔(بخاری، الصحیح، 6: 2485، رقم: 6386مسلم، الصحیح، 1: 80، رقم: 62)
باپ کی بجائے غیر کی طرف نسب ظاہر کرنا بھی باعث لعنت ہے:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔(ابن ماجہ، السنن، 2: 870، رقم: 2609، بیروت: دار الفکر)
مذکورہ بالا قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً پاکستانی، عربی، دمشقی، کوفی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشندی، چشتی، سہروردی، شازلی، سلفی دیوبندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا اِمْرَأَۃَ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃَ لُوطٍ۔۔۔۔
اللہ نے اْن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت (واعلہ) اور لوط (علیہ السلام) کی عورت (واہلہ) کی مثال بیان فرمائی ہے۔( التحریم، 66: 10)
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے۔ اور درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے:
وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا اِمْرَأَۃَ فِرْعَوْنَ ۔۔۔۔اور اللہ نے اْن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجہِ فرعون (آسیہ بنت مزاحم) کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 11
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔بخاری، الصحیح، 2: 531، رقم: 1393
اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔ اور حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:
یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔بخاری، الصحیح، 5: 1950، رقم: 4780
جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے اْن کے والد کی بجائے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کی، اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہرات کی نسبت متعدد بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔
لہٰذا عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا میں ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔ تحقیق کئے بغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
نکاح کے معاملہ میں شریعت نے مردو عورت کو پسند اور ناپسند کا پورا اختیار دیا ہے اور والدین کو جبر و سختی سے منع کیا ہے۔ دوسری طرف لڑکے اور لڑکی کو بھی ترغیب دی کہ وہ والدین کو اعتماد میں لے کر ہی کوئی قدم اٹھائیں۔بہتر یہی ہے کہ والدین کو راضی کر لیں تاکہ آنے والی زندگی میں وہ آپ کا ساتھ دے سکیں، اور خدا نہ کرے کوئی مسئلہ بن جائے تو آپ کو والدین کی حمایت حاصل ہو۔ ان کو شادی میں بھی شامل کریں۔ انہیں قرآن وحدیث کا حکم سنائیں اور دکھائیں کہ شرعی طور پر یہ حکم ہے۔ امید ہے راضی ہو جائیں گے۔ اگر کسی صورت بھی وہ آپ کی پسند کی شادی نہیں کرتے تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن والدین کا احترام کرنا اور ہر صورت ان کی خدمت کرنا آپ کا فرضِ اولین ہے
جواب:اسلام میں نکاح کی ترغیب دی گئی ہے اور اسے آسان تر بنایاگیا ہے اور زنا و بدکاری کے بارے میں سخت وعید سنائی گئی ہے اور ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں کہ اس کاارتکاب دشوار تر ہوجائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نکاح کو بہت بابرکت قرار دیا ہے جس کے مصارف کم سے کم ہوں۔ قرآنی ہدایات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پرعمل کے نتیجے میں عہد نبوی میں نکاح بہت آسان تھا۔ کنواری لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ شوہر دیدہ عورتیں بھی اگر نکاح کرناچاہتیں تو اس میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ کسی خاتون کی طلاق ہوجاتی یا اس کا شوہر کسی غزوہ میں شہید ہوجاتا یا اس کی طبیعی موت ہوجاتی تو عدّت پوری ہوتے ہی اس کے پاس نکاح کے متعدد پیغامات آجاتے اور اسے فیصلہ کرناپڑتاکہ وہ کس کے ساتھ نکاح کرے؟
اسلام میں نکاح کے مصارف برداشت کرنا مرد کے ذمے کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:”اے نوجوانوں کے گروہ! تم میں سے جو نکاح کرسکتا ہو اسے ضروراس کی کوشش کرنی چاہئے۔“
لڑکی اور اس کے خاندان پر نکاح کے مصارف کا کوئی بارنہیں ڈالا گیا ہے، بلکہ اسلامی احکام و تعلیمات پر عمل ہو تو اس موقع پر لڑکی خاطرخواہ رقم پاتی ہے۔ اسے مہر ملتا ہے، شوہر اس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری لیتا ہے، رشتے داروں کی طرف سے اسے تحائف دیے جاتے ہیں۔
غیراسلامی اثرات کے نتیجے میں اب لڑکیوں کی شادیاں دشوار ہوگئی ہیں۔ منگنی، بارات، جہیز،تلک اور دیگر بے بنیاد رسموں کی مارلڑکیوں کے خاندان والوں پر پڑتی ہے۔ خاطرخواہ رقم جمع نہ ہونے کے سبب شادیوں میں تاخیر ہوتی ہے،بہت سی لڑکیاں کنواری بیٹھی رہ جاتی ہے اور نتیجے میں معاشرہ فتنہ وفساد کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔اس صورت حال میں معاشرہ کے سنجیدہ اور باشعور طبقہ کو اس سماجی مسئلے کے حل کے لیے فکرمند ہوناچاہئے۔ ایسے میں اگر کچھ لوگ کسی ادارے کے تحت غریب مسلم بچیوں کے نکاح کا انتظام کررہے ہیں تویہ ایک بڑا کارِ خیر ہے، جس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (یا فرمایا کہ) رات میں مسلسل عبادت کرنے والے اور دن میں مسلسل روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“
دوڑ دھوپ میں ان کی خبرگیری کرنا، ان کی ضروریات پوری کرنا، ان کی پریشانیاں دْور کرنا اور وقتِ ضرورت ان کے نکاح کے انتظامات کرنا سب شامل ہے۔
ایک مجلس میں نکاح خواہ ایک جوڑے کا ہو، یا بہت سے جوڑوں کی اجتماعی طور سے شادی کردی جائے، دونوں صورتیں شرعی اعتبار سے جائز ہیں۔ بس ضروری ہے کہ نکاح کے تمام ضابطے پورے کرلیے گئے ہوں۔ مثلاً دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ہو، مہر طے کیا گیا ہو۔ وغیرہ۔ اس موقع پراگر کوئی ایک فردیا چند افراد مل کر یاکوئی ادارہ نکاح کے مصارف برداشت کرلے، گھریلو ضروریات کی کچھ چیزیں فراہم کردے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ پسندیدہ کام ہے۔ محض یہ بات کہ عہد نبوی میں اس انداز سے شادیاں نہیں ہوتی تھیں، اس کام کے غیر شرعی ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔
جواب :سوال امیری اور غریبی کا نہیں ہے۔ اصل سوال فیملی کے کلچر کے فرق کا ہوتا ہے۔ اصل مطلوب موافقت ہے۔ آپ کی اور اس کی آمدنی میں کافی فرق ہے۔ ہمارے معاشرے کے مرد بیوی پر فائق رہنا چاہتے ہیں۔ جب وہ کسی پہلو سے بیوی سے کم ہوں تو یہ چیز ان کے رویوں کو متوازن نہیں رہنے دیتی اور وہ کسی نہ کسی پہلو سے اوور ری ایکٹ کرنے لگ جاتے ہیں جس سے گھریلو زندگی ناخوشگوار ہو جاتی ہے۔ تعلیم کا فرق ذوق کا فرق بھی پیدا کر دیتا ہے اور سوچ کا فرق بھی۔ یہ چیز بھی عدم موافقت کا سبب بن سکتی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس شخص کی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اگر آپ یہ سمجھیں کہ آپ کے اور اس کے علمی، ذہنی اور مالی سٹیٹس کا فرق اس کی شخصیت کے دوسرے محاسن میں ایڈجسٹ ہو سکتا ہے تو رشتہ کر لیجیے اور اگر نہیں تو بہتر ہے کہ یہ شادی نہ کی جائے۔ شرعی اعتبار سے شادی ہو سکتی ہے۔ لیکن فقہا نے ہم رتبہ ہونے کو مناسب اہمیت دینے پر اصرار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی کو ناکام ہونے سے بچانا بھی شریعت کے مقاصد کا حصہ ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :سید اور غیر سید کی باہم شادی ہو سکتی ہے۔ اسلام میں اس طرح کی کوئی ممانعت نہیں۔پچھلی صدیوں میں اس خاندان کی ہر شاخ میں یہ کام ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ شادی نہ کرنے کا تصور برصغیر میں جاگیردارانہ کلچر کی پیداوار ہے۔ میرے علم کی حد تک عربوں میں اس طرح کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ شاید اب پایا جاتا ہے۔ اسلام کسی ہستی کے ساتھ وابستگی کی بنا پر کسی فضیلت کو روا نہیں رکھتاصرف تقوی اور اعمال کی بنا پر فضیلت کو روا رکھتا ہے ۔ جہاں تک سید ہونے کے مدعی شخص کی عزت کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا مظہر ہے۔ اس سے عزت کرنے والے مسلمانوں کو توان شاء اللہ فائدہ حاصل ہوتا ہے لیکن اس کا اس سید کو کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔ باقی رہا آپ کا یہ اشکال کہ سید زکوۃ نہیں لے سکتاچنانچہ یہ بچے زکوۃ لے سکیں گے یا نہیں؟ عرض ہے کہ ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو زکوٰۃ لینے سے روکنے کا ایک خاص سبب تھا جو اب موجود نہیں اس لیے ان کے زکوۃ لینے میں کوئی حرج نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے اور اپنے خاندان کے لوگوں کے لیے زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ لینے کی ممانعت فرمائی تو اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ تھی کہ اموال فے میں سے ایک حصہ آپ کی اور آپ کے اعزہ واقربا کی ضرورتوں کے مقرر کر دیا گیا تھا۔ یہ حصہ بعد میں بھی ایک عرصے تک باقی رہا۔ لیکن اس طرح کا اہتمام، اب موجو د نہیں لہذا بنی ہاشم کے فقراومساکین کی ضرورتیں بھی زکوٰۃ کے اموال سے اب بغیر کسی تردد کے پوریی کی جا سکتی ہیں۔قیامت کے روز ماں کے نام سے پکارے جانے کا معاملہ اگر یہ خبر درست ہے تو ہر انسان سے متعلق ہے اور قیامت کے ساتھ خاص ہے۔ اس سے دنیا کے معاملات میں استنباط کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ محققین کے نزدیک یہ بات درست نہیں۔
آپ کا یہ خیال درست ہے کہ ہمارے ہاں خاندان باپ کی نسبت سے طے ہوتا ہے۔ یہ ایک کلچرل مسئلہ ہے۔ اسلام نہ اسے درست قرار دیتا ہے اور نہ غلط ۔
(مولانا طالب محسن)
ج: ہماری خواتین کی تربیت ایسی ہے کہ وہ بالکل اس کو برداشت نہیں کرتیں اور میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ جب تک کوئی بہت ناگزیر صورت نہ ہو یہ کام نہ کریں کیونکہ اس سے آپ کا بڑھاپا بالکل رسوا ہو کر رہ جائے گا۔ اصولاً اجازت کی ضرورت نہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب : میری بہن نے پوچھا ہے کہ اسلام میں کثرت ازدواج کی اجازت کیوں دی گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں مرد ایک سے زیادہ بیویاں کیوں رکھ سکتا ہے؟ بہن نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے Polygamy۔ پولی گیمی کا مطلب ہے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ ایک لفظ ہے Polygamy جو ایک مرد کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور دوسرا لفظ ہے Polyandry جو عورت کے ایک سے زائد شوہر رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا دو طرح کی کثرت ازدواج ممکن ہے جن میں سے ایک کے بارے میں بہن نے سوال پوچھا ہے۔ یعنی یہ کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کیوں کر سکتا ہے؟
میں سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہوں گا کہ قرآن دنیا کی واحد الہامی کتا ب ہے جو ایک ہی شادی کی ترغیب دیتی ہے اور کوئی ایسی مقدس کتاب موجود نہیں ہے جو ایک شادی کا حکم دیتی ہو۔
آپ پوری "گیتا" پڑھ جائیں، پوری "راماین" پڑھ لیں، پوری "مہا بھارت" پڑھ لیں۔ کہیں آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ ایک شادی کرو حتٰی کہ بائبل میں بھی آپ ایک شادی کا حکم تلاش نہیں کر سکیں گے۔بلکہ اگر آپ ہندوؤں کے متون مقدسہ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بیشتر راجوں، مہاراجوں کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ "وشرتھ" کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ کرشنا کی بھی بہت سی بیویاں تھیں۔اگر آپ یہودی قانون کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہودیت میں گیارھویں صدی عیسوی تک مرد کو کثرت ازدواج کی اجازت حاصل رہی ہے۔ یہاں تک ربی گرشم بن یہوداہ نے اس پر پابندی عاید کر دی۔ اس کے باوجود عرب علاقوں میں آباد یہودی ۱۹۵۰تک ایک سے زیادہ شادیاں کرتے رہے لیکن 1950ء میں اسرائیل کے علما نے کثرت ازدواج پر مکمل پابندی لگا دی۔اسی طرح عیسائی انجیل بھی کثرت ازدواج کی اجازت دیتی ہے۔ یہ تو چند صدیاں پہلے عیسائی علما نے ایک سے زاید شادیوں پر پابندی لگائی ہے۔
اگر آپ ہندوستانی قانون کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پہلی دفعہ 1954ء میں کثرت ازدواج پر پابندی لگائی گئی۔ اس سے قبل ہندوستان میں قانونی طور پر بھی مرد کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔
1954ء میں ہندو میرج ایکٹ کا نفاذ ہوا جس میں ہندوؤں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی عاید کر دی گئی۔
اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو صورتِ حال آپ کے سامنے واضح ہو جائے گی۔ یہ اعداد و شمار "اسلام میں عورت کا مقام" کے عنوان سے تحقیق کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں شامل ہیں۔ 1975ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے صفحہ 66 اور 67 پر ایک سے زاید شادیوں کے حوالے سے اعداد و شمار دیے گئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں میں ایک سے زاید شادیوں کی شرح پانچ اعشاریہ چھپن فی صد تھی جبکہ مسلمانوں میں یہ شرح چأر اعشاریہ ۳۱ فی صد تھی۔
لیکن چھوڑیئے اعداد و شمار کو۔ ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ آخر اسلام میں مرد کو ایک سے زاید شادیوں کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا اس وقت قرآن ہی دنیا کی واحد مذہبی کتاب ہے جو ایک شادی کا حکم دیتی ہے۔
سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے : وَاِن خِفتْم اَلاَّ تْقسِطْوا فیِ الیَتَامَی فَانکِحْوا مَا طَابَ لکْم مِّنَ النِّسَاءِ مَثنَی وَثْلاَثَ وَرْبَاعَ فَاِن خِفتْم اَلاَّ تَعدِلْوا فَوَاحِدۃً اَو مَا مَلکَت اَیمَانْکْم ذَلِکَ اَدنَی اَلاَّ تَعْولْوا۔ (سورہ،نسا آیہ 3)
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔"
یہ حکم کہ پھر ایک ہی شادی کرو، قرآن کے علاوہ کسی صحیفہ مقدسہ میں نہیں دیا گیا۔ عربوں میں اسلام سے قبل مرد بہت سی شادیاں کیا کرتے تھے۔ بعض مردوں کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں۔
اسلام نے ایک تو بیویوں کی حد مقرر کر دی اور زیادہ سے زیادہ تعداد چار معین کر دی اور ایک سے زاید شادیوں کی صورت میں ایک بہت سخت شرط بھی عاید کر دی وہ یہ کہ اگر آپ ایک سے زاید شادیاں کرتے ہیں تو پھر آپ کو اپنی دونوں، تینوں یا چاروں بیویوں کے درمیان پورا عدل کرنا ہو گا بصورتِ دیگر ایک ہی شادی کی اجازت ہے۔
اللہ تبارک و تعالٰی سورہ نسا آیت ۱۲۹ میں فرماتا ہے : "اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کر سکو اگرچہ تم کتنا بھی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلان طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کر لو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔"
گویا ایک سے زیادہ شادیاں کوئی اْصول نہیں ہے بلکہ ایک استثنائی صورتحال ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ شادیوں کا حکم دیتا ہے۔لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسلام میں اعمال کے پانچ درجے یا اقسام ہیں :
پہلا درجہ "فرض" ہے۔ یعنی وہ کام جن کا کرنا ضروری اور لازمی ہے۔
دوسرا درجہ مستحب اْمور کا ہے۔ ان کاموں کا جنہیں فرض تو نہیں کیا گیا لیکن ان کے کرنے کی تاکید یا حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
تیسرے درجے میں وہ کام آتے ہیں جن کی نہ حوسلہ افزائی کی گئی اور نہ روکا گیا ہے۔
چوتھے درجہ میں مکروہ اْمور آتے ہیں۔ اور
پانچواں درجہ حرام کاموں کا ہے یعنی جن سے قطعی طور پر منع کر دیا گیا ہے۔
ایک سے زیادہ شادیوں کا معاملہ تیسرے یا درمیان والے درجے میں آتا ہے۔ یعنی وہ کام جن کے کرنے کی نہ تو قرآن و سنت میں تاکید کی گئی ہے اور نہ ہی منع کیا گیا ہے۔ پورے قرآن میں اور اسی طرح احادیث میں بھی وہ ہمیں کوئی ایسا بیان نہیں ملتا جس میں کہا گیا ہو کہ جو مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو ایک ہی شادی کرتا ہے۔
آئیے تجزیہ کرتے ہیں کہ اسلام مرد کو ایک سے زاید شادیوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
قدرتی طور پر مرد اور عورتیں تقریباً مساوی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں لیکن جدید علم طب ہمیں بتاتا ہے کہ بچیوں میں قوت مدافعت بچوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی جراثیم اور بیماریوں کا مقابلہ بہتر طریقے سے کر سکتی ہے بہ نسبت ایک بچے کے۔لہذا ہوتا یہ ہے کہ شیر خوارگی کی سطح پر ہی بچیوں کی تعداد بچوں سے کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔
دنیا میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ دورانِ جنگ مردوں کی اموات عورتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ حالیہ دور میں ہم نے دیکھا کہ افغانستان میں ایک طویل جنگ ہوئی۔ اس جنگ کے دوران تقریباً پندرہ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ان مرنے والوں میں غالب اکثریت مردوں کی تھی۔ شہداء کی کثیر تعداد مردوں پر ہی مشتمل تھی۔
اس طرح اگر آپ حادثات کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی اکثریت بھی مردوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ منشیات کے استعمال سے ہونے والی اموات میں بھی غالب اکثریت مردوں ہی کی ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا تمام عوامل و اسباب کے نتیجے میں دنیا میں مردوں کی آبادی عورتوں کے مقابلے میں کم ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے چند ایک ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں ہی عورتوں کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے۔ جن ممالک میں عورتوں کی آبادی کم ہے ان میں سے ایک اہم ملک ہندوستان ہے۔ اور ہندوستان میں عورتوں کی آبادی مردوں کے مقابلے میں کم ہونے کا بنیادی سبب ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ یہاں ہر سال دس لاکھ سے زیادہ اسقاطِ حمل کیے جاتے ہیں اور یہ معلوم ہوتے ہی کہ پیدا ہونے والی بچی ہو گی اسقاط کرواد دیا جاتا ہے۔ اور اس طرح بچیوں کو قتل کیے جانے کی وجہ سے ہی مردوں کی آبادی زیادہ ہے۔
اگر آج یہ کام بند ہو جائے تو چند ہی دہائیوں میں آپ دیکھیں گے کہ ہندوستان میں بھی عورتوں کی تعداد مردوں سے بڑھ جائے گی۔ جیسا کہ باقی ساری دنیا میں ہے۔اس وقت صرف امریکہ کے شہر نیویارک میں عورتوں کی تعداد مردوں سے ایک لاکھ زیادہ ہے۔ پورے امریکہ میں صورتِ حال یہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں 78 لاکھ خواتین زیادہ ہیں۔ مزید برآں کہا جاتا ہے کہ نیویارک میں ایک تہائی مرد ہم جنس پرست ہیں۔ پورے امریکہ میں ہم جنس پرست مردوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔برطانیہ کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ وہاں بھی مردوں کے مقابلے میں چالیس لاکھ عورتیں زیادہ ہیں۔ جرمنی میں یہ فرق اس سے بھی زیادہ ہے۔ وہاں مردوں کے مقابلے میں پچاس لاکھ عورتیں زیادہ موجود ہیں۔ روس میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں ستر لاکھ زیادہ ہے۔اسی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا میں مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کس قدر کم ہے۔ فرض کیجیے میری بہن امریکہ میں رہتی ہے اور تعداد کے اس فرق کی وجہ سے وہ ان خواتین میں شامل ہے جنہیں شادی کے لیے شوہر نہیں مل سکتا۔ کیونکہ تمام مرد ایک ایک شادی کر چکے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اس کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں۔پہلی صورت تو یہ ہے کہ وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کر لے اور دوسری یہ کہ وہ عوامی ملکیت بننے کے راستے پر چل پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ اور یہی دونوں راستے باقی بچتے ہیں۔ میں نے بے شمار لوگوں سے یہ سوال پوچھا سب نے ایک ہی جواب دیا کہ ایسی صورتحال میں وہ پہلی صورت کو ہی ترجیح دیں گے۔ آج تک کسی نے دوسری صورت کو پسند نہیں کیا۔ البتہ بعض ذہین لوگوں نے یہ جواب دیا کہ وہ پسند کریں گے کہ ان کی بہن ساری عمر کنواری ہی رہے۔لیکن علم طب ہمیں بتاتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ مرد یا عورت کسی کے لیے بھی ساری عمر کنوارا رہنا بہت مشکل ہے اور اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ بدکرداری ہی کی صورت میں برآمد ہو گا۔ کیونکہ اور کوئی صورت ہے ہی نہیں۔
وہ "عظیم" جوگی اور سنت جو تارک الدنیا ہو جاتے ہیں اور شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں کی جانب نکل جاتے ہیں ان کے ساتھ دیوداسیاں بھی نظر آتی ہیں، کیوں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ایک رپورٹ کے مطابق چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ پادریوں اور ننوں کی اکثریت، جی ہاں اکثریت بدکرداری اور ہم جنس پرستی وغیرہ میں ملوث ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی تیسرا راستہ موجود ہی نہیں یا تو شادی شدہ مرد سے شادی ہے اور یا جنسی بے راہ روی ہے۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے لیے کیا کیا شرائط ہیں۔ ایک ہی شرط عاید کی گئی ہے اور وہ یہ کہ شوہر اپنی دونوں، یا تینوں یا چاروں بیویوں میں پورا انصاف کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ عدل کر سکتا ہے تو اسے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ بصورت دیگر اسے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا ہو گا۔
متعدد ایسی صورتیں ہیں جن میں مرد کے لیے ایک سے زاید شادیاں کرنا بہتر ہوتا ہے۔ پہلی صورت تو وہی ہے جس کا ذکر گزشتہ سوال کے جواب میں کیا گیا۔ چونکہ خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اس لیے خواتین کی عفت اور عصمت کی حفاظت کے حوالے سے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ بھی متعدد صورتیں ہیں۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے ایک نوجوان خاتون کی شادی ہوتی ہے اور شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ کسی حادثے کا شکار ہو کر معذور ہو جاتی ہے، اور اس کے لیے وظایف زوجیت ادا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اب اس صورت حال میں شوہر کے پاس دو راستے ہیں یا تو وہ اپنی اس معذوربیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لے اور یا اس بیوی کو بھی رکھے اور دوسرے شادی کر لے۔میں آپ سے پوچھتا ہوں ، فر ض کر لیجیے کہ خدانخواستہ یہ بدقسمت خاتون جو حادثے کا شکار ہوئی ہے، آپ کی بہن ہے۔ آپ ان دونوں صورتوں میں سے کون سی صورت پسند کریں گے؟ یہ کہ آپکے بہنوئی دوسری شادی کر لیں یا یہ کہ وہ آپ کی بہن کو طلاق دے کر پھر دوسری شادی کرے؟اسی طرح اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے بیوی اپنے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہو جاتی ہے تو اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ شوہر دوسری شادی کر لے۔ اور یوں یہ دوسری بیوی نہ صرف اپنے شوہر کی بلکہ پہلی بیوی کی بھی دیکھ بھال کرے اور اگر پہلی بیوی کے بچے موجود ہیں تو ان بچوں کی بھی پرورش کرے۔بہت سے لوگ یہاں یہ کہیں گے کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ شوہر اس مقصد کے لیے، یعنی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی ملازمہ یا آیا وغیرہ رکھ لے۔ بات درست ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں، بچوں اور معذور بیوی کا خیال رکھنے کے لیے تو ملازمہ رکھی جا سکتی ہے لیکن خود شوہرکا خیال کون رکھے گا؟عملاً یہی ہو گا کہ بہت جلد ملازمہ اس کا بھی "خیال رکھنا" شروع کر دے گی۔ لہذا بہترین صورت یہی ہے کہ پہلی بیوی کو بھی رکھا جائے اور دوسری شادی بھی کر لی جائے۔اسی طرح بے اولادی بھی ایک ایسی صورت ہے جس میں دوسرے شادی کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔ طویل عرصے تک اولاد نہ ہونے کی صورت میں جب کہ شوہر اور بیوی دونوں اولاد کی شدید خواہش بھی رکھتے ہوں بیوی خود شوہر کو دوسری شادی کا مشورہ دے سکتی ہے۔یہاں بعض لوگ کہیں گے کہ وہ کسی بچے کو گود بھی تو لے سکتے ہیں۔ لیکن اسلام اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان وجوہات کی تفصیل میں، میں یہاں نہیں جاؤں گا۔ لیکن اس صورت میں بھی شوہر کے پاس دو ہی راستے باقی بچتے ہیں یعنی یا تو وہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرے اور یا پہلی شادی کو برقرار رکھتے ہوئے دوسری شادی کرے اور دونوں کے ساتھ پورا عدل کرے۔میرے خیال میں یہ کافی وجوہات ہیں۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : سورہ مائدہ میں اس حوالے سے ارشاد ہوتا ہے "آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (اِلہامی) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ ہے کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔"
اس آیت کی روشنی میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ مسلمان مرد اہل کتاب عورت سے شادی کر سکتا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک اہل کتاب عورت، یہودی یا عیسائی عورت ایک مسلمان مرد سے شادی کرے گی تو اس کا خاوند یا اس کے خاوند کے اہل خاندان اور گھر والے اس عورت کی مقدس ترین ہستیوں یعنی انبیائے کرام کی توہین یا ان کی شان میں کسی گستاخی کے مرتکب نہیں ہوں گے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم یہودیوں اور عیسائیوں کے انبیائے کرام یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔چونکہ اس اہل کتاب عورت کے انبیائے کرام ہمارے لیے بھی محترم ہیں اس لیے مسلمان خاندان میں اس عورت کا مذاق نہیں اْڑایا جائے گا۔ لیکن اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے۔ لہذا اگر ایک مسلمان عورت اہل کتاب خاندان میں جائے گی تو وہاں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور تقدس ملحوظ نہیں رکھا جائے گا اور عین ممکن ہے کہ اس کے عقاید کا مذاق اْڑایا جائے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورت کو اہل کتاب مرد سے شادی کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ مسلمان مرد کو اہل کتاب عورت سے شادی کی اجازت ہے۔اہل کتاب میں سے بھی انہیں خواتین سے شادی کرنے کی اجازت ہے جو ایمان لانے والی ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں بلکہ پیغمبر تسلیم کرتی ہیں۔ اور ایک اللہ پر ایمان رکھتی ہیں۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : اس سلسلے میں آپ کو چند نکات ذہن میں رکھنے چاہییں۔ پہلی بات تو یہ کہ مرد میں جنسی خواہش اور جذبہ عورت کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ دونوں جنسوں کی حیاتیاتی ساخت میں فرق اس نوعیت کا ہے کہ مرد کے لیے ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ زندگی گزارنا آسان ہے جب کہ عورت کے لیے بہت مشکل۔ طبی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ایام حیض کے دوران عورت کچھ ذہنی اور نفسیاتی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان بیش تر جھگڑے انہی دنوں میں ہوتے ہیں۔خواتین کے جرائم کے بارے میں ایک رپورٹ امریکہ میں شایع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجرم خواتین کی اکثریت ایام حیض کے دوران جرائم کی مرتکب ہوئی۔اس لیے اگر ایک عورت کے ایک سے زیادہ خاوند ہوں تو اس کے لیے ذہنی طور پر اس صورتِ حال سے نپٹنا بہت مشکل ہے۔ایک اور سبب یہ ہے کہ جدید علم طب کے مطابق اگر ایک عورت ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ جنسی روابط رکھتی ہے تو اس کے بیماریوں کے شکار ہونے اور یہ بیماریاں پھیلانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ جب اگر ایک مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے تو ایسے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر ایک مرد کی ایک سے زیادہ بیویوں سے اولاد ہے تو اس کے ہر بچے کو اپنی ماں کا بھی علم ہو گا اور باپ کا بھی۔ یعنی یہ بچہ اپنے والدین کی یقینی شناخت کر سکے گا۔ دوسری طرف اگر ایک عورت کے شوہر ایک سے زیادہ ہیں تو اس کے بچوں کو اپنی ماں کا تو علم ہو گا لیکن باپ کا علم نہیں ہو گا۔اسلام والدین کی شناخت کو بھی بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اور ماہرین نفسیات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک بچے کو اپنے والدین کا علم نہ ہو تو یہ بات اس کے لیے ذہنی صدمے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدکردار عورتوں کے بچوں کا بچپن بالعموم بہت برا گزرتا ہے۔اگر ایک ایسے بچے کو آپ سکول میں داخل کروانا چاہیں تو کیا کریں گے۔ ولدیت کے خانے میں دو نام لکھنے پڑیں گے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے بچے کو کیا کہہ کر پکارا جائے گا؟میں جانتا ہوں کہ آپ جواباً کچھ دلائل پیش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر بے اولادی کی وجہ سے، بیوی کے بانجھ ہونے کی وجہ سے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت ہے تو شوہر میں کوئی خرابی ہونے کی صورت میں بیوی کو دوسری شادی کی اجازت کیوں نہیں ہے؟اس سلسلے میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ کوئی مرد سو فیصد نامرد نہیں ہوتا۔ اگر وہ جنسی عمل سر انجام دے سکتا ہے تو اس کے باپ بننے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ خواہ وہ نس بندی ہی کیوں نہ کروا لے۔ لہذا اولاد کی ولدیت میں شک بہرحال موجود رہے گا۔ کوئی بھی ڈاکٹر آپ کی سو فی صد گارنٹی نہیں دے سکتا کہ یہ شخص باپ نہیں بن سکتا۔اسی طرح آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر بیوی کے حادثے کا شکار ہونے یا شدید بیمار ہونے کی صورت میں شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے تو شوہر کے کسی حادثے کا شکار ہونے یا بیمار ہونے کی صورت میں یہی اجازت بیوی کو بھی ہونی چاہیے۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایسی کسی صورتحال کے دو طرح کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ ایک تو یہ ہو گا کہ شوہر کے لیے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہے گا اور دوسرے یہ کہ وہ بیوی کے ازدواجی حقوق ادا نہیں کر سکے گا۔
جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے اسلام ایسی کسی صورتحال کے لیے "زکوٰۃ کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں ان کی مدد زکوٰۃ کی رقوم سے کی جانی چاہیے۔دوسرے مسئلے کا معاملہ یہ ہے کہ طبی سائنس کی تحقیقات کے مطابق عورت میں جنسی خواہش مرد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے لیکن اگر عورت سمجھے کہ وہ غیر مطمئن ہے تو اس کے پاس "خلع" کے ذریعے علیحدگی کا راستہ موجود ہے۔ وہ اپنے شوہر سے خلع لے کر دوسری شادی کر سکتی ہے۔ اس طرح عورت کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ کیونکہ خلع کے ذریعے علیحدہ ہونے والی عورت صحت مند ہوتی ہے۔ اور دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر، اگر وہ خود بیمار یا معذور ہو تو کون اس سے شادی کرے گا۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : اسلام میں مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا پابند نہیں کیا گیا۔قرآن میں ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے ایک ہی شرط عاید کی گئی ہے اور وہ ہے عدل۔ اگر وہ اپنی بیویوں میں عدل کر سکتا ہے تو وہ ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر پہلی بیوی کی اجازت سے دوسری شادی کی جائے تو شوہر اور بیویوں کے تعلقات زیادہ خوشگوار رہیں گے۔صرف ایک ہی صورت ہے جس میں مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینی پڑتی ہے اور وہ یہ کہ اگر بیوی نے شادی کے وقت نکاح کے وقت یہ شرط رکھی ہو کہ شوہر دوسری شادی نہیں کرے گا تو پھر دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت لازمی ہو جاتی ہے۔ بصورتِ دیگر کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : شادی بیاہ کی رسومات ہر سماج میں مختلف ہیں۔ ان کے معاملے میں اصول یہ ہے کہ شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان پر عمل کرنے میں حرج نہیں ہے۔ بارات کا کھانا ہم اپنے سماجی مصالح کے تحت اگر موزوں نہ سمجھتے ہوں تو اسے ختم بھی کر سکتے ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : درج ذیل اسباب کی بنا پر ایسا کرنا جائز نہیں۔اس طریقہ سے موسیقی لاؤڈ سپیکروں میں بجانا حرام ہے اس میں مومنوں کے لیے اذیت بھی ہے جو موسیقی سننے سے اذیت محسوس کرتے ہیں۔ ـ اس میں تکبر بھی پایا جاتا ہے ۔پھر ـ اس رواج میں سامان اور مہر میں زیادتی اور لوگوں سے آگے نکلنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے، اور یہ چیز شریعت مطہرہ کے مخالف ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر کی کمی اور شادی کے اخراجات میں آسانی کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔اس وجہ سے انسان اسراف و فضول خرچی میں بھی پڑ جائیگا جس سے اللہ سبحانہ و تعالی نے منع فرمایا ہے: فرمان باری تعالی ہے ۔اور تم اسراف و فضول خرچی مت کرو یقینا اللہ تعالی اسراف اور فضول کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا ۔ ـ یہ فعل ایسا ہے جس سے فقراء اور مسکین لوگوں کے دل ٹوٹ جائیں گے جو ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اتنا سامان نہیں دے سکتے۔ جب ایک فقیر اور مسکین و تنگ دست اپنی بچی کی شادی کریگا تو وہ غمگین رہے گا اور اس کا دل گھٹتا رہے گاکہ کاش وہ بھی اپنی بچی کو اس طرح سامان دیکھ سکتا۔اور پھر یہ خاندان کے درمیان بھی اختلافات اور جھگڑے کا سبب بن سکتا ہے، لڑکی اپنے والد سے بھی اتنا ہی سامان طلب کریگی جتنا کسی اور لڑکی کو دیا گیا لیکن اس کا والد ایسا نہیں کر سکیگا، یا پھر وہ ایسا کرنے پر راضی نہیں تو اس طرح جھگڑے اور اختلافات ہونگے۔ یہ فعل حسد و بغض کے دروازے کھولے گا، اور کمزور ایمان قسم کے لوگوں میں نفسیاتی پریشانی پیدا ہوگی۔ عقل و دانش والے لوگ اس طرح کی غلط عادت اور رسم و رواج کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور اس کا مقابلہ کریں، اور لوگوں کو قیمتی سامان اور شادی کے اتنے زیادہ اخراجات نہ کرنے کی ترغیب دلائیں، اور صرف اسی پر اکتفا کریں جو انسان کو ضرورت ہوتی ہیں۔
(عبداللہ صالح المنجد)
جواب :نکاح میں عورت کے لیے مہر واجب ہے ۔اگر مہر عاجل ہو یعنی اس کو بعد میں دینا مقرر نہ کیا گیا ہو تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی کیے بغیر خاوند کو اپنے پاس آنے سے روک دے۔
(عبداللہ صالح المنجد)
جواب : شادی کی ضرورت ایک معتبر ضرورت شمار ہوتی ہے، اور بعض اوقات تو شادی کی ضرورت بالکل اس طرح ہوتی ہے جس طرح کھانے پینے اور رہائش کی ضرورت ہوتی ہے. اس لیے تنگ دست کی شادی کے لیے زکوۃ دینا جائز ہے ۔
(عبداللہ صالح المنجد)
جواب۔ صدر الشریعہ فرماتے ہیں، رسوم کی بنا عرف پر ہے، یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ شرعاً واجب ہے یا سنت یا مستحب ہیں لہذا جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہو اس وقت تک اسے حرام یا ناجائز نہیں کہہ سکتے ، مگر یہ ضرور ہے کہ رسوم کی پابندی اس حد تک کر ے کہ کسی حرام فعل میں مبتلا نہ ہو۔ بعض لوگ اس قدر پابندی کرتے ہیں کہ ناجائز فعل کرنا پڑے توبھی پرواہ نہیں مگر رسم کا چھو ڑنا گوارہ نہیں۔ مثلا لڑکی جوان ہے اور رسوم ادا کرنے کو روپیہ نہیں تو یہ نہ ہوگا کہ رسمیں چھوڑدیں اورنکاح کردیں کہ سبکدوش ہوں اور فتنہ کا دروازہ بند ہو۔ اب رسوم کے پورا کرنے کو بھیک مانگتے ، طرح طرح کی فکریں کرتے ہیں اس خیال میں کہ کہیں سے قرض مل جائے تو شادی کریں۔ برسوں گزار دیتے ہیں ا ور یوں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ (بہار شریعت حصہ ہفتم ص ۹۶)اب ہم ان امور کا جائزہ لیتے ہیں جو سوال میں مذکور ہیں۔ اعلی حضرت محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے رسوم کے متعلق دو اہم قواعد بیان فرمائے ہیں۔ جن کا سمجھنا ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، شرع شرف کا قاعدہ ہے کہ جس چیز کو خدا اور رسول اچھا بتائیں وہ اچھی ہے اور جسے برا فرمائیں وہ بری ، اور جس سے سکوت فرمائیں یعنی شرع میں نہ اسکی خوبی بیان ہوئی نہ برائی، وہ اباحت اصلیہ پر رہتی ہے کہ اس کے فعل و ترک میں ثواب نہ عتاب۔ دوم۔ کسی سے مشابہت کی بنا پرکسی فعل کی ممانعت اسی وقت صحیح ہے کہ جب فاعل کا ارادہ مشابہت کا ہو، یا وہ فعل اہل باطل کا شعار و علامت خاصہ ہو۔ جسکے سبب وہ پہچانے جاتے ہوں۔ یا اگر خود اس فعل کی مذمت شرع سے ثابت ہو تو اسے برا کہا جائے گا ورنہ ہر گز نہیں ،اور پھولوں کا سہرا ان سب باتوں سے پاک ہے لہذا جائز ہے۔ دولہا دلہن کو ابٹن لگانا، مائیو بٹھانا جائز ہے۔ (بشرطیکہ کوئی اور خلاف شرع امور جیسے گانا بجانا اور نا محرموں سے اختلاط وغیرہ نہ پائے جائیں)۔ دولھا کو مہندی لگانا، نا جائز ہے اور ریشمی کپڑے پہننا پہنانا حرام ہے۔ (بہار شریعت حصہ ہفتم ۱۷)فی زمانہ صرف مہندی کی رسم پر لاکھوں خرچ کردیے جاتے ہیں جوکہ اسراف و حرام ہے۔ پھر اس موقع پر عورتوں کا بن سنور کر بے پرد ہ نا محرموں کے سامنے آنا حرام مزید یہ کہ گانا بجانا ہوتا ہے وہ بھی حرام ستم بالائے ستم یہ کہ ان تمام خرافات کی وڈیو فلم بنائی جاتی ہے تاکہ بے پردہ عورتوں کے ناچ گانے اور دیگر بے حیائیاں جب دل چاہے دیکھی جائیں، ظاہر ہے کہ یہ ویڈیو فلم بنانا اور بنوانا بھی حرام و سخت گناہ کا باعث ہیں۔ اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، نکاح کے اعلان کی خاطر بندوق سے چند فائر کرنا جائز ہے۔ جبکہ کھیل کود یا فخر و مستی کے طور پر جائز نہیں۔ آتشبازی جس طرح شادیوں اور شب برات میں رائج ہے بیشک حرام ہے اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا، ارشاد ہوا، ( اور فضول نہ اڑا ، بیشک (مال) اڑانے والے سیطانوں کے بھائی ہیں)۔ (بنی اسرائیل) شیخ عبد الحق محدث دہلوی، ماثبت بالسنہ میں فرماتے ہیں ، (ہندوستان کے اکثر شہروں میں لوگ کھیل تماشے کے لیے آتشبازی کرتے ہیں اور پٹاخے چھوڑتے ہیں، یہ بہت بری بدعتوں میں سے ہے)۔ ناچ اور گانے بجانے کی رسم کے متعلق صدر الشریعہ مولانا امجد علی قادری قدس سرہ فرماتے ہیں، اکثر جاہل گھرانوں میں رواج ہے کہ محلہ کی یا رشتہ دار عورتیں جمع ہوتی ہیں اور گاتی بجاتی ہیں یہ حرام ہے۔ اول ڈھول بجانا ہی حرام پھر عورتوں کا گانا ، مزید برآں عورتوں کی آواز نا محرموں کو پہنچنا اور وہ بھی گانے کی اور وہ بھی عشق و ہجر و وصال کے اشعار۔(بہار شریعت حصہ ہفتم ص ۰۷)شیخ الاسلام اعلی حضرت فاضل بریلوی فرماتے ہیں، ایک ناپاک ملعون رسم جو بے تمیز احمق جاہل گھرانوں نے ہندوؤں سے سیکھی یعنی فحش گالیوں کے گیت گوانا اور مجلس میں حاضر مرودوں اور عورتوں کو لچھے دار سنانا، سمدھیانہ کی عفیف پاکدامن عورتوں کو زنا کے الفاظ سے تعبیر کرنا کرانا خصوصا اس ملعون بے حیا رسم کا عورتوں کے مجمع میں ہونا، ان کا اس ناپاک فاحشہ حرکت پر ہنسنا قہقہے اڑانا، اپنی کنواری لڑکیوں کو یہ سب کچھ سنا کر بد لحاظیاں سکھانا ، بے حیا بے غیرت خبیث بے حمیت مردوں کا اس شہدے پن کو جائز رکھنا، کبھی برائے نام لوگوں کے دکھاوے کو جھوٹ سچ ایک آدھ بار جھڑک دینا مگر قطعی بندوبست نہ کرنا۔ یہ وہ گندی و مردود رسم ہے جس پر اللہ عزوجل کی صد ہا لعنتیں اترتی ہیں، اس کے کرنے والے، اس پر راضی ہونے والے، اس کی مناسب روک تھام نہ کرنے والے سب فاسق و فاجر، مرتکب کبائر ، مستحق غضب جبار و عذاب نار ہیں۔ جس شادی میں ایسی حرکیتں ہوں مسلمانوں پرلازم ہے کہ اس میں ہر گز نہ شریک ہوں ، اگر نادانستہ شریک ہوگئے ہوں تو فوراً اسی وقت اٹھ جائیں اور اپنی بیوی بیٹی ماں بہن کو گالیں نہ دلوائیں، فحش نہ سنوائیں ورنہ یہ بھی ان ناپاکیوں میں شریک ہونگے اور غضب الہی میں حصہ لیں گے۔ (والعیاذ باللہ تعالی) ہرگز ہرگز اس معاملہ میں حقیقی بہن بھائی بلکہ ماں باپ کی بھی رعایت و مروت روا نہ رکھیں کیونکہ (خدا کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبرداری نہیں)۔ناچ کے متعلق صدر الشریعہ رقمطراز ہیں ، ناچ میں جن فواحش و بدکاریوں اور محزب اخلاق باتوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ ان کے بیان کی حاجت نہیں۔ ایسی ہی مجلسوں میں اکثر نوجوان آوارہ ہو جاتے ہیں، دھن دولت برباد کر بیٹھتے ہیں، بازاریوں سے تعلق اور برے برے نتائج رونما ہوتے ہیں اگر کوئی ان بدکاریوں سے محفوظ رہا تو اتنا تو ضرو ر ہو تا ہے کہ حیا و غیرت اٹھا کر طاق پر رکھ دیتا ہے۔ (بہار شریعت ، ہفتم ص ۱۷)مذکورہ بالا ناجائز رسموں کو ایسا لازم سمجھ لیا گیا ہے کہ گویا ان کے بغیر شادی ہی نہ ہوگی۔ صدر الشریعہ رقمطراز ہیں، ناچ ، باجے اور آتشبازی حرام ہیں، کون انکی حرمت سے واقف نہیں مگر بعض لوگ ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو گویا شادی ہی نہ ہوئی بلکہ بعض تو اتنے بیباک ہوتے ہیں کہ اگر شادی میں یہ حرام کام نہ ہوں تو اسے غمی اور جنازہ سے تعبیر کرتے ہیں (خدا کی پناہ) یہ خیال نہیں کرتے کہ بری رسم ایک تو گناہ اور شرعت کی مخالفت ہے دوسرے مال ضائع کرنا ہے تیسرے تمام تماشائیوں کے گناہ کا یہی سبب ہے اور سب کے گناہوں کے مجموعہ کے برابر اس اکیلے پر گناہ کا بوجھ ہے (کہ اگر یہ اپنے گھر گناہوں کے سامان نہ پھیلاتاتو آنے والے ان گناہوں میں مبتلا نہ ہوتے)۔
(حضرت مولانا محمد امجد علی اعظمیؒ)
ج- شادی کی یہ ہندوانہ رسمیں جائز نہیں، بلکہ بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہیں۔ اور ‘‘خوشی میں سب کچھ جائز ہے’’ کا نظریہ تو بہت ہی جاہلانہ ہے، قطعی حرام کو حلال اور جائز کہنے سے کفر کا اندیشہ ہے۔ گویا شیطان صرف ہماری گنہگاری پر راضی نہیں بلکہ اس کی خواہش یہ ہے کہ مسلمان، گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھیں، دِین کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام نہ جانیں، تاکہ صرف گنہگار نہیں بلکہ کافر ہوکر مریں۔ مرد کو سونا پہننا اور مہندی لگانا نہ خوشی میں جائز ہے نہ غمی میں۔ ہم لوگ شادی بیاہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے اَحکام کو بڑی جرات سے توڑتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ ایسی شادی آخرکار خانہ بربادی بن جاتی ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- دْلہن پر قرآنِ کریم کا سایہ کرنا محض ایک رسم ہے، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، اور دْلہن کو سجاکر نامحرَموں کو دِکھانا حرام ہے، اور نامحرَموں کی محفل میں اس پر قرآنِ کریم کا سایہ کرنا قرآنِ کریم کے اَحکام کو پامال کرنا ہے، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- یہ ‘‘بزرگ’’ غلط کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی شوال میں ہوئی تھی، ان سے زیادہ کامیاب شادی کس کی ہوسکتی ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- آپ سے دو غلطیاں نہیں ہوئیں بلکہ آپ کو دو غلط فہمیاں ہوئی ہیں، پہلی رات بیوی کا آنچل بچھاکر نماز پڑھنا نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت، نہ مستحب، یہ محض لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی بات ہے، لہٰذا آپ کی پریشانی بے وجہ ہے۔ آپ کے دوست کا یہ کہنا بھی غلط فہمی بلکہ جہالت ہے کہ میاں بیوی ایک دْوسرے کا جھوٹا کھاپی لینے سے بھائی بہن بن جاتے ہیں، یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں، لہٰذا آپ پر کوئی کفارہ نہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- جھوٹی بات پر محض قرآن اْٹھانے اور ایک دْوسرے کا جھوٹا دْودھ پینے سے بہن بھائی نہیں بنا کرتے، اس لئے ان کی شادی صحیح ہے۔ جھوٹی بات پر قرآن اْٹھانا گناہِ کبیرہ ہے، اور یہ ایسی قسم ہے جو آدمی کے دِین و دْنیا کو تباہ کردیتی ہے، مسلمانوں کو ایسی جرات نہیں کرنی چاہئے۔بہن بھائی کا مفہوم واضح ہے، یعنی جن کا باپ ایک ہو، یا ماں ایک ہو، یا والدین ایک ہوں۔ یہ ‘‘نسبی بہن بھائی’’ کہلاتے ہیں۔ اور جس لڑکے اور لڑکی نے اپنی شیرخوارگی کے زمانے میں ایک عورت کا دْودھ پیا ہو وہ ‘‘رضاعی بہن بھائی’’ کہلاتے ہیں، یہ دونوں قسم کے بہن بھائی ایک دْوسرے کے لئے حرام ہیں۔ ان کے علاوہ جو لوگ منہ بولے ‘‘بھائی بہن’’ بن جاتے ہیں یہ شرعاً جھوٹ ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
جواب:قرآن مجید سے یہ مقدمہ بالصراحت ثابت ہے کہ تمام نسل انسانی ایک ہی جوڑے کی اولاد ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی اولاد میں شادیاں کیسے ہوئیں اور نسل انسانی کیسے آگے بڑھی۔ اس معاملے میـں قرآن مجیدمیں کوئی بات بیان نہیں ہوئی اور کسی آیت سے کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ یہی معاملہ حدیث کی معروف ومتداول کتابوں کا ہے۔ مجھے ان کتابوں میں کوئی ایسی روایت نہیں ملی جس میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہو۔ میرا یہ خیال ہے کہ یہ خیال قیاس پر مبنی ہے کہ حضرت آدم کی اولاد میں بہن بھائیوں کی شادی کی گئی ہوگی۔ یہ قیاس درست ہی معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس مسئلے کا کوئی دوسرا حل اولاد آدم کے ایک ہی نسل ہونے کی نفی کر دیتا ہے۔ میرے علم کی حدتک بائیبل میں بھی اس حوالے سے کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ قیاسی ہے اس معاملے میں کوئی مذہبی بیانات اگر موجود ہیں تو وہ اسی قیاس سے نکلے ہیں۔باقی رہا اولاد آدم کا ایک ہی دن میں جوان ہونا تو اس کے متعلق بھی مجھے کوئی بیان فی الحال نہیں ملا ۔ ممکن ہے دوران مطالعہ اس طرح کی کوئی بات سامنے آجائے۔ فی الحال میں اس معاملے میں آپ کی کوئی خدمت کرنے سے قاصر ہوں۔
اولادآدم کی شادی کا مسئلہ محرمات نکاح کے حوالے سے سوال پیدا کرتا ہے۔اس کے کئی جواب ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ بہن کی حرمت فطری حرمت نہیں ہے۔ فطری حرمت صرف ماں کی ہے۔ بہن کی حرمت خاندانی نظام کے سامنے آجانے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ پہلی نسل کے لیے بہن کی حرمت اٹھا لی گئی ہووغیرہ۔ لیکن ہمیں اس قیاس آرائی کی ضرورت ہی کیوں ہے۔ ہمارے پاس اس دور کی تاریخ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ قرآن مجید اس معاملے میں خاموش ہے۔ جس معاملے میں قرآن خاموش ہے اس میں ہمارا کوئی کلام بے معنی ہے۔ اس لیے کہ یہ وہ معاملہ ہے جس کا علم صرف وحی ہی سے ممکن ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں، لیکن نکاح کے دو بول کہتے ہی ان کے درمیان انتہائی قریبی تعلق استوار ہو جاتا ہے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ یک جان دو قالب بن جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے:لم نر للمتاحبین مثل النکاح. (ابن ماجہ: ۱۸۴۷)‘‘نکاح کے ذریعے زوجین میں جیسی محبت پیدا ہو جاتی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ دو افراد کے درمیان ویسی محبت کسی اور ذریعے سے پیدا ہوتی ہو۔’’
ازدواجی زندگی کا ثمرہ جب بچے کی ولادت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تو عورت کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ اس کی محبت کا ایک اور حق دار وجود میں آ جاتا ہے۔ پہلے وہ اپنی تمام تر محبتیں اپنے شوہر پر نچھاور کرتی تھی اور اس کے تمام اوقات اور پوری توجہات اپنے شوہر کے لیے وقف تھیں، اب اس کا بچہ بھی اس کی نگاہ التفات کو اپنی طرف منعطف کر لیتا ہے اور اس کا خاصا وقت اس کی پرورش و پرداخت میں صرف ہونے لگتا ہے۔ بچہ اور بڑا ہوتا ہے تو ماں باپ دونوں مل کر اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر دھیان دیتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں شریک ہونے کے لیے اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ بچوں کی عمر کے کس مرحلے میں ان کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے؟ قرآن و حدیث میں اس کے اشارے ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انھیں الگ سلایا جائے۔ (مسند احمد ۲/ ۱۸۰) اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بستر ماں باپ کے بستر سے بھی الگ ہونے چاہییں۔ سورۂ نور میں، جہاں حجاب سے متعلق مختلف احکام دیے گئے ہیں، وہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قریب البلوغ بچوں کو مخصوص اوقات میں ماں باپ کے کمروں میں بغیر اجازت لیے نہیں داخل ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:‘‘اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمھارے لونڈی غلام اور تمھارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمھارے پاس آیا کریں۔ صبح کی نمازسے پہلے اور دوپہر کو جب کہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمھارے لیے پردے کے وقت ہیں۔’’(النور: ۵۸)
آگے بالغ بچوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے: ‘‘ اور جب تمھارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں۔’’(النور: ۵۹)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے جب بڑے ہو جائیں تو پردے کے احکام ان سے بھی اسی طرح متعلق ہو جاتے ہیں جس طرح بڑوں سے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف متعدد ایسی آیات اور احادیث ہیں، جن سے زوجین کے ایک کمرے میں رات گزارنے کا اشارہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِع. (النساء: ۳۴)
‘‘اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو۔’’
‘مضاجع’ کا ترجمہ بستر بھی کیا گیا ہے اور خواب گاہ بھی۔ اس کی تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے: ولا تہجر الا فی البیت. (ابو داؤد: ۲۱۴۲)
‘‘اور (بیوی سے) مت علیحدگی اختیار کرو مگر خواب گاہ میں۔’’
بیوی کی سرکشی اور نافرمانی کی صورت میں اس کی تادیب و اصلاح کے لیے بستر میں، یا خواب گاہ میں اس سے علیحدہ رہنے کو کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں زوجین کا ساتھ رہنا پسندیدہ اور مطلوب ہے۔
اوپر کے خط میں سائل نے بیوی کے جس رویے کی شکایت کی ہے، اس کا تعلق نام نہاد مشرقی تہذیب سے ہے۔ عموماً بچے کچھ بڑے اور باشعور ہو جاتے ہیں تو عورتیں ان کی موجودگی میں اپنے شوہروں کے کمروں میں رہنے سے شرماتی اور اسے ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے بجائے بچوں کی ایسی دینی اور اخلاقی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ اس عمل کو اجنبی اور غیر اخلاقی نہ سمجھیں۔ ویسے بھی ازدواجی تعلق صرف جنسی عمل کا نام نہیں ہے۔ بہت سے معاملات و مسائل روز مرہ کی زندگی میں ایسے ہوتے ہیں، جن پر بچوں کی غیر موجودگی میں زوجین کا تنہائی میں گفتگو کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ بیوی کے فرائض میں سے ہے کہ وہ شوہر کو گھر میں سکون فراہم کرے اور جائز امور میں اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اللہ کے رسولؐ سے کسی نے دریافت کیا کہ سب سے اچھی عورت کون ہے؟ فرمایا: التی تسرہ اذا نظر وتطیعہ اذا امر ولا تخالفہ فی نفسہا ولا مالہا بما بکرہ.
‘‘وہ عورت جس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہو جائے، وہ اسے کسی چیز کا حکم دے تو اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کے بارے میں، اس مال کے بارے میں جو اس کی تحویل میں ہے شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے۔’’
اس معاملے میں زوجین کو افراط و تفریط سے بچنا چاہیے۔ نہ انھیں اپنے باشعور بچوں کے سامنے کھلے عام ایسی ‘حرکتیں’ کرنی چاہییں، جن کا شمار بے حیائی میں ہوتا ہو اور نہ ایک دوسرے سے بے تعلق ہو جانا چاہیے کہ دوسرا فریق اسے اپنی حق تلفی شمار کرنے لگے۔ رہیں وہ باتیں، جن کا تذکرہ خط کے آخر میں کیا گیا ہے، وہ جاہلانہ باتیں ہیں۔ بیوی کے کچھ عرصہ شوہر سے الگ دوسرے کمرے میں رہنے سے نہ تو ازدواجی حیثیت ختم ہو جاتی ہے نہ یہ عمل خلع حاصل کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے چاہییں اور ان کی ادائیگی کے لیے شرح صدر کے ساتھ خود کو آمادہ کرنا چاہیے۔
()
ج: اس معاملے میں ایک بات اصول کے لحاظ سے سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ صحیح گھر اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ایک مرد و عورت کے فیصلے سے بنتا ہے۔ اور یہ بات اس طرح بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے لیے جب جوڑا بنایا تو ایک ہی عورت بنائی، ایک سے زیادہ نہیں بنائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ رہنمائی دے دی کہ انسانی فطرت اگر صحیح گھر بنانا چاہتی ہے تو اس کے لیے یہی طریقہ ہو گا۔ اس کے بعد ایک دوسرا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور وہ انسانی تمدن کی ضروریات کا مسئلہ ہے۔ یعنی انسان جس طرح اب زندگی بسر کر رہا ہے، ہمیشہ سے ایسے زندگی بسر نہیں کرتا رہا۔ ہم اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر بعض اوقات ماضی کی صورت حال کا صحیح تصور نہیں کر پاتے۔ شہری زندگی میں ہم کو جو سہولتیں میسر ہو گئی ہیں، تمدن میں جو تبدیلیاں آ گئی ہیں، جس طرح منظم حکومتیں وجود میں آ گئی ہیں، یہ چیز پہلے نہیں تھی۔ انسان نے ایک بڑا زمانہ قبائلی تمدن میں گزارا ہے۔ اور عرب میں قبائلی تمدن ہی تھا، وہاں پر کوئی منظم حکومت نہیں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی نہیں تھی۔ بعض قبیلوں کو ایک نوعیت کا پدر سرانہ اختیار تھا اور قبیلوں کے شیوخ مل کر فیصلہ کر لیا کرتے تھے، لیکن ایسا نہیں تھا کہ جزیرہ نمائے عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تھی، اس کا کوئی سربراہ تھا، اس کی کوئی پولیس یا فوج تھی۔ لوگوں کو اپنے تحفظ کے لیے قبائلی زندگی میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا کہ ان کے زیادہ سے زیادہ اولاد ہو۔ جس آدمی کے پندرہ بیس بیٹے نہیں ہوتے تھے اس کے لیے اس معاشرے میں جینا آسان نہیں ہوتا تھا ۔ آدمی بالکل سقیم ہو کر رہ جاتا تھا۔ مختلف موقعوں کے اوپر اپنی، اپنے ناموس کی اور اپنے جان و مال کی حفاظت نہیں کر پاتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو امن کا زمانہ آیا ہے، اس سے پہلے جزیرہ نمائے عرب میں تو یہ ہوتا تھا کہ وہ جو حالی نے کہا ہے کہ ‘‘کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا، کبھی گھوڑا آگے دوڑانے پہ جھگڑا’’، اُس میں آدمی اپنی حفاظت کے لیے مجبور ہوتا تھا۔ معمولی سی بات پر کئی سالوں پر محیط جنگیں چھڑ جاتی تھیں۔ کوئی پولیس اور کوئی تھانہ نہیں کہ جہاں سے مدد حاصل کی جا سکتی۔ اپنی حفاظت کا خود بندو بست کرنا ہوتا تھا ۔ سکیورٹی ایجنسیز نہیں تھیں کہ گارڈ لا کے کھڑے کر دیئے جاتے، آدمی کے بیٹے اور اعزہ و اقربا ہی اس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ یہ چیز اصل میں عرب میں بے پناہ شادیوں کا باعث بنی۔ اور پھر جب ایک چیز روایت اور رسم بن جائے تو پھر ضرورت کے بغیر بھی عام طور پر یہ بات ہوتی رہی۔ ہر چیز کو اس کے تمدن کے اندر رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ ہمارے دین کا مزاج یہ ہے کہ وہ اُن معاملات کو نہیں چھیڑتا جو تمدنی ضروریات سے پیدا ہوتے ہیں، اگر تو ان میں کوئی بڑا مسئلہ ہے تو اس کو چھیڑنا چاہیے، ورنہ وقت کے ساتھ آپ جب عوامل تبدیل کرتے ہیں تو اس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ حال کو ماضی میں داخل کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آدمی کی بڑی غیر معمولی ضرورت ہی کیوں نہ ہو، مثال کے طور پر اولاد ایک بہت بڑی ضرورت ہے، تب بھی ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ذرا کوئی بے اولاد آدمی دوسری شادی کر کے دیکھے، اس کی پگڑی پونجی غائب ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی روایات ہی یہ بن چکی ہوئی ہیں۔ یعنی عورت کی تربیت اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ اس کو گوارا ہی نہیں کرتی۔ لیکن عرب کے معاشرے میں یہ چیز نہیں تھی۔ عرب عورتیں تو اس بات پر بڑا فخر کرتی تھیں۔عرب عورتوں کی شاعری پڑھیں تو آپ کو اس کا اندازہ ہوگا۔ وہ تو کہتیں ہیں کہ تمھارا مرد کیا ہے جس نے زندگی میں صرف ایک شادی کی ہے، مجھے دیکھو نو سوکنوں کے ساتھ رہتی ہوں، مرد ہو تو ایسا ہو۔ ہمارے ہاں کی خواتین اس طرح کے جذبات نہیں رکھتیں۔ اس وجہ سے ہر تمدن اور تہذیبی روایت کو ا س کے اندر رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ اُس موقع کے اوپر اگر اسلام آکر کوئی ایسی اصلاح کر دیتا کہ جس کے نتیجے میں سارا تمدن ہی درہم برہم ہو جاتا تو یہ اصلاح کرنے کا کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اس کی ایک اور مثال دیکھیے اور یہ مثال بڑی عبرت ناک ہے اور تورات میں بڑی تفصیل سے بیان ہوئی ہے ۔قرآن مجید نے بھی اس کا حوالہ دیا ہے اور اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کو توفیق دی اور انھوں نے بالکل ویسا ہی خلافت کا نظام قائم کیا جس طرح کے حضور کے بعد قائم ہوا، کسی ملوکیت یا بادشاہت کی بنیاد پر نہیں۔ یعنی حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ جیسے پیوند لگے کپڑے پہننے والے حضرت موسیٰ کے خلیفہ تھے۔ لیکن زیادہ دن نہیں گزرے کہ بنی اسرائیل نے کہا کہ ہمیں تو بادشاہ چاہیے۔ اس وقت چونکہ نبوت تھی اس لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ نبی کی وساطت سے بات چیت ہو جاتی تھی۔ تو تورات میں اللہ تعالیٰ یہ کہتے ہیں کہ احمقو! دیکھو میں نے تمھیں ایک بادشاہ کی غلامی سے نکالا اور تم پھر اسی طرح کی غلامی اپنے لیے مانگ رہے ہو۔ اگر تم نے بادشاہ بنا لیا تو وہ تمہیں ذلیل کرے گا اور تمہاری بہو بیٹوں کی عزت پامال کرے گا۔ کیا تم یہ چاہتے ہو؟ لیکن وہ اس بات پر بضد رہے کہ ہمیں تو بس بادشاہت چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اصلاح کرنی تھی وہ تو کر دی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اچھی طرح تنبیہ کی اور پھر یہودیوں کی بات مان لی۔ آخر میں یہ کہا کہ ٹھیک ہے میں پھرطالوت کو بادشاہ بنا رہا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سموئیل نبی نے طالوت کے سر کا مسح کیا اور ان کو بادشاہ بنایا گیا۔ اس طرح ان کے ہاں بادشاہت قائم ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے بادشاہوں میں سے دو بادشاہوں، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو نبوت دی۔ ہمارے ہاں بھی یہی ہوا۔ یعنی خلفائے راشدین نے ایسی حکومت قائم کہ جس کی دنیا میں کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ اخلاقی لحاظ سے وہ گویا اعلیٰ تصورات کے مجسم ہو گئے۔ لیکن اس کے بعد کچھ عرصہ گزرا اور ملوکیت قائم ہو گئی۔ کیونکہ دنیا کا ضمیر ابھی اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کا ضمیر اس کو اتنا قبول کرنے کے لیے تیار ہے کہ اس کی خلاف ورزی کرنی مشکل ہو جاتی ہے۔ انسانی تمدن میں یہ جو تبدیلیاں آتی ہیں، ان کے بغیر اس معاملے کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا عربوں کی شادیوں کو آپ ان کے تمدن میں رکھ کر سمجھئے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ویسے اجازت کی ضرورت نہیں لیکن ہماری خواتین کی تربیت ایسی ہے کہ وہ بالکل اس کو برداشت نہیں کرتیں ۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ جب تک کوئی بہت ناگزیر صورت نہ ہو یہ کام نہ کریں کیونکہ اس سے آپ کا بڑھاپا بالکل رسوا ہو کر رہ جائے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ شادی ایک معاشرتی معاہدہ ہوتی ہے۔ یہ معاہدہ اپنے بہت دوررس نتائج رکھتا ہے ۔ سوسائٹی کے established اصولوں کے خلاف کھڑے ہو کر اگر ہم کوئی کام کرتے ہیں تو پھر درحقیقت سوسائٹی میں ہمارے رہنے کی جگہ نہیں رہتی۔ ہمارا خیال تو یہی ہوتا ہے کہ اگر ہم نے کوئی قدم اٹھایا ہے تو اُس کی جزا و سزا کے حقدار صرف ہم ہیں، کوئی دوسرا شخص نہیں ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ سوسائٹی ہمارے متعلقین کو بھی ہماری غلطیوں کی سزا دیتی ہے۔ سوسائٹی کے معیارات کو ٹھکرا کر کی گئی شادی سوسائٹی کو یہ موقع فراہم کر دیتی ہے کہ وہ اِس شادی کے نتیجے میں ہونے والی اولاد کواپنے معیار اور اپنے تصور کے حوالے سے مقام دے۔ تب آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی سوسائٹی اور اپنے ماحول کی زبان کو روک سکے اور اُس سے اپنی اولاد کے لیے وہ حقوق حاصل کر سکے جو اُس کے خیال میں اُس کی اولاد کو حاصل ہونے چاہیں۔ ہم سماج کے اندر رہنے پر مجبور ہیں ہمیں سماج سے اگر اختلاف کرنا ضروری محسوس ہو تو چاہیے کہ آدمی کو اپنے صریح حق پر کھڑا ہونے کا پورا یقین ہو، ورنہ وہ اپنے اندر وہ قوت ہی نہیں پائے گا، جس کے ساتھ وہ سوسائٹی سے لڑ سکے۔ لہذا اِس طرح کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرناچاہیے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب: پہلی بیوی سے کیے گئے وعدے کی پابندی ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے: واَوْفوا بالعھد ان العھد کان مسؤلا۔( بنی اسرائیل: ۳۴) ‘‘اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی۔’’
دوسری بیوی کو اتنی مالیت کی اشیا لے کر دینا اور دیگر مذکورہ مالی فوائد پہنچانا ضروری نہیں کیوں کہ پہلی بیوی سے وعدے دوسری کی آمد سے پہلے کے ہیں اس لیے ان کی پابندی ضروری ہے۔ تاہم دوسری سے نکاح کے بعد دونوں میں مساوات ضروری ہے۔ پہلی بیوی کو پہلے جو کچھ مل چکا ہے، وہ اسی کا استحقاق ہے، دوسری کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ اور بعد میں جو چیز بھی خریدی جائے گی اس میں دونوں بحصہ برابر شریک ہوں گی۔ اگرچہ پہلی کے پاس وہ شے موجود ہو، رضامندی سے دونوں میں رقم بھی تقسیم ہوسکتی ہے یا کوئی ایک اتنی قیمت لینا چاہے تو لے سکتی ہے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب: سادہ بات سمجھ لیجئے کہ آپ شادی جس طرح چاہیں کریں۔اس کو اعلانیہ ہونا چاہئے۔یعنی آج شادی ہوئی ہے ۔internetپر ہوئی ہے ،ٹیلی فون پر ہوئی ہے یاسیٹلائیٹ فون پرہوئی ہے ۔یا آپ خلا میں اڑ رہے ہیں وہاں آپ نے کر لی ہے ۔بس دنیا کو پتہ چل جانا چاہئے کہ آپ نے شادی کر لی ہے ۔آج سے آپ میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں ۔ یہ ہے اصل میں اسلام کا تقاضا۔یعنی ایک مرد و عورت کے مابین شادی گویاساری دنیا کے لیے اعلان ِ عام ہے کہ اب ہم قانونی طور پر میاں بیوی ہیں۔یہ ہو جانا چاہئے۔اس کے ذرائع کے بارے میں اسلا م کو بحث نہیں ہے ۔وہ ذرائع حالات کے لحاظ سے تبدیل ہوتے رہیں گے ۔
اس میں اصل چیزیں دو ہیں ۔اعلانیہ ہوناچاہئے اور کسی کے لئے دھوکے اور فریب کا باعث نہ ہو۔سیدھی صاف بات ۔اسی وجہ سے آپ دیکھیں کہ شادی کے موقعے کے اوپر قرآن مجید کی جوچند آیات حضور پڑھتے تھے اور اب بھی پڑھی جاتی ہیں۔اس موقعے پر نصیحت کے لئے۔ان آیات میں ایک آیت یہ ہے کہقولو قولاً سدیدا سیدھی بات کہو۔جو بھی کہنی ہے ۔سیدھی ،سچی ،صاف۔یعنی شادی کا معاملہ کوئی ہیر پھیر کا معاملہ نہیں ہے ۔ شادی ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ ایک معاہدہ ہے۔جو فریقین کو واضح طور پر معلوم ہونا چاہئے۔ اس کی بس یہ ہی دو چیزیں ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اسلامی شریعت کی رو سے شادی یا تو کسی مسلمان کے ساتھ ہو سکتی ہے یا اہل کتاب کے ساتھ ۔اہل کتاب کے ساتھ بھی شادی کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت اہل کتاب کی صورتحال یہ ہے کہ بہت سی حرام چیزیں ان کے ہاں حلال ہیں اور مشرکانہ چیزیں ان کے اندر داخل ہو گئی ہیں۔ایسے میں آدمی کیسے اس چیز کو گوارا کر لے گا کہ اس کے گھر میں حرام چیزیں بھی آجائیں اور مشرکانہ بھی۔اولاد کے متاثر ہونے کاخدشہ الگ سے ہوتا ہے۔ تاہم قانونی اجازت ہے۔ اہل کتاب کے علاوہ کسی اور کے ساتھ شادی ممنوع ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس سلسلے میں مجھے آپ کے ان دوست سے یہ گزارش کرنا ہے کہ انہیں شادی کی اس آگ میں نہیں اترنا چاہیے۔ ان کے جو حالات معلوم ہوئے ہیں ،ان سے پتا چلتا ہے کہ اس شادی کی وجہ محض اس خاتون سے تعلق کا قائم ہو جانا ہے۔ دل کا یہ تعلق تو کل کسی تیسری خاتون سے بھی قائم ہو سکتا ہے ، اس کے بھی گوناں گوں مسائل ہو سکتے ہیں اسے بھی اس کی ضرورت ہو سکتی ہے کہ کوئی اس کا ہاتھ تھامے اور اسے ان مسائل سے نکالے اور اس کے بعد پھر کسی چوتھی خاتون کو بھی اس طرح کی مدد درکار ہو سکتی ہے۔ خیر خواہی کی یہ شکل ورست نہیں کہ آدمی دوسرے کو دلدل سے نکالنے کے لیے خود اس میں جا اتر ے۔ اس صورت میں وہ دلدل دونوں کو نگل جائے گی۔ آپ کے یہ دوست شادی شدہ ہیں اور ان کے بچے بھی ہیں ۔ بیوی اور بچوں کی ضروریات اور ان کے عام مسائل کوئی ایسے کم نہیں ہوتے کہ آدمی ان میں کسی اضافے کا طالب ہو۔ دوسری شادی کے بعد ان کی پہلی بیوی اور اس سے ہونے والے بچے جن مسائل کا شکار ہوں گے، وہ کم دکھائی نہیں دیتے۔ پھر آپ اِن کے دوسری شادی کی طرف بڑھنے کے عمل کی سنگینی کو بھی دیکھیے کہ اس میں پہلا قدم لڑکی کا گھر سے بھاگنا ہے ، کیا اس کے بعد اس کے بھائی ،اس کے رشتے دار اور اس علاقے کی پولیس ، سبھی اس لڑکی کے پیچھے پیچھے اِن صاحب کے گھر کی طرف نہ بھاگ اٹھیں گے۔ بھاگنے والیوں کی مصیبت یہی ہے کہ وہ اکیلی نہیں بھاگتیں، اپنے پیچھے بہت سے لوگوں کو بھگا لاتی ہیں۔اس صورت میں آپ کے اِن دوست کا پہلا گھر الگ سے برباد ہو گا اور نیا گھر الگ سے۔ معاشرے میں جو فتنہ و فساد برپا ہو گا اور جس غلط روی کی یہ مثال بنیں گے ،خدا کے حضور ان سب باتوں کی جواب دہی الگ سے ہو گی۔ معاملہ اگر جنونِ نافہم کا ہے تو خود کشی مقدر ہے، بس اب طریقہ ہی سوچنا ہے۔ لیکن اگر دوسروں کی اصلاح اور خیرخواہی کا دعویٰ ہے، تو پھر پہلے اپنی اصلاح اور اپنی خیرخواہی کر لینی چاہیے ۔ اِنہیں اپنی شادی کا نہیں ، صرف اُس خاتون کی شادی کا سوچنا چاہیے ، جس کی شادی ابھی نہیں ہوئی ، اِن کی شادی تو ہو چکی ہے ۔اُس خاتون کو اِنہیں یہ تلقین کرنی چاہیے کہ وہ مسائل پر جذبات سے نہیں ، عقل کی روشنی میں غور کرے۔ اس واضح موقف کو اپنانے کے بعد انہیں چاہیے کہ صبر سے کام لیں ، اُس خاتون سے رابطہ منقطع کر دیں اور خدا سے بڑے اجر کی توقع رکھیں۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: عمر تو متعین نہیں کی جا سکتی ۔ہرایک کو اپنے حالات کے لحاظ سے اس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کوشش کیجیے کہ جلد کر لیں کیونکہ موجودہ زمانے میں عفت اور عصمت کو بچانا بہر حال مشکل امر ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: مسلمان لڑکیوں کے لیے کسی بھی غیر مسلم سے شادی کی گنجائش نہیں ۔حقیقی مسلمان اس بات سے کبھی غافل نہیں ہو سکتا کہ اسکی اگلی نسلوں کا کیا ہو گا۔ہندو کو شوہر کی حیثیت سے قبول کرنے کا مطلب گھر میں شرک کو لانا ہے، مورتیوں کولانا ہے ۔ایک مسلمان کے لیے شرک سے بڑا گنا ہ کوئی نہیں تو ایک مسلمان لڑکی اپنے گھر میں کس طرح یہ گواراکرے گی؟اور پھر اولاد کامسئلہ ہے وہ کیا بنے گی؟ کیا مسلمان لڑکی انہیں مشرک دیکھنا گواراکرے گی؟میرے خیال میں یہ قانون سے زیادہ دل کا سوال ہے ۔ آپ شادی کر رہی ہیں کوئی پکنک منانے نہیں جا رہیں۔شادی تو عمر بھر کا فیصلہ ہوتا ہے ہزار با ر سوچنا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: شادی بیاہ کے بار ے میں اسلامی قانون یہ ہے کہ شادی اصل میں لڑکے اور لڑکی کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ ایک مرد و عورت جب ہوش و حوا س میں یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو ماں باپ اس فیصلے کو باطل نہیں کر سکتے ۔اسلام نے اس کے لیے کوئی خاص رسوم بھی مقرر نہیں کیں۔ ایک لڑکا اور لڑکی اگر کھڑے ہو کر اعلانیہ یہ کہہ دیں کہ آج سے ہم میاں بیوی ہیں تو اس فیصلے کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔ شادی کے موقعے پر قبول کون کرتا ہے والد صاحب یا لڑکا؟یہ ڈرامہ نہیں ہوتا بلکہ اس قانونی فیصلے کا اظہار ہوتا ہے کہ قبولیت کا اختیار خدا نے کس کو دیا ہے ۔ اصلاً تو یہ اختیار لڑکے اور لڑکی کا ہے ،اصولی اور قانونی بات یہی ہے ۔اس میں کسی کو رکا وٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔البتہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہماری ایک معاشر ت اور ایک تہذیب ہے۔ اس میں ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ چونکہ ایک نیا خاندان بننا ہے لہذااس میں ماں باپ، بہن بھائی اور دوسرے قریبی اعزاواقربا بھی شریک ہوں۔ان کی شرکت ہی سے اصل میں حسن پیدا ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخر آپ لڑکی کو بیاہ کر لائیں گے تو کہاں لے جائیں گے ۔ مریخ پر تو نہیں رکھیں گے ۔ اس نے ایک خاندان کا حصہ بننا ہے ، جب خاندان کا حصہ بننا ہے تو کوشش ہونی چاہیے کہ خاندان راضی ہو کم از کم والدین ۔ خوشی کے ساتھ یہ تقریب منعقد ہو ۔اس کے بغیر معاشرت کا حسن ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ ایک قانونی اختیار ہے ایک دینی اختیار ہے اور ایک چیز ہماری معاشرت کی خوبی ہے ۔اس خوبی کو بھی برقرا ر رہنا چاہیے۔ اس کے لیے آپ احسن طریقے سے پورے گھر کو قائل کریں۔والدین بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کریں اور احسن طریقے سے رشتے کی خامی خوبی بچوں پرواضح کریں اس کے بعد فیصلہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیں۔دوسری طرف اولاد کو بھی چاہیے کہ قرآن وسنت میں والدین کی رضا اوراطاعت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے مدنظر رکھے اگر طرفین یہ چیزیں مد نظر رکھیں گے تو میرے خیال میں توازن خود بخود قائم ہو جائے گا کسی کو بھی انا کامسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اٹھارہ اور ستر سال کا جو واقعہ پیش آگیا ہے اس میں تو بچی سے تعزیت کرنی چاہیے ۔ بڑی افسوس ناک بات ہے ۔ شادی کے معاملے میں مذہب یہ مداخلت تو نہیں کر تا کہ وہ عمروں کا تعین کر دے لیکن اصولی بات کہی گئی ہے کہ اس میں برابری کا لحاظ ہونا چاہیے اور یہ برابری ہر پہلو سے ہونی چاہیے یعنی عمر کے پہلو سے بھی۔فرق ہو تو معقول ہو۔اسی طرح یہ برابری مال دولت ، معاشرت ، خاندان سب میں ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کو لوگ قبول کر سکیں ۔ ستر سال کے بوڑھے میاں کو خود ہی شرم کرنی چاہیے ۔گھر بسانا ہے توبہت سی بیوہ عورتیں موجود ہیں بہت سی بڑی عمر کی عورتیں موجود ہیں ، ان سے بسایا جا سکتا ہے ۔ ایک اٹھارہ سال کی لڑکی کی زندگی تباہ کرنے کے کیا معانی ہیں۔ایسے میں وہ لڑکی کسی وقت اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کی طرف مائل ہوجائے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی ؟دین میں اصولی بات بتائی گئی ہے باقی یہ کہ عمر کو متعین تو نہیں کیا جا سکتا بعض اوقات بعض حالات میں ذرا زیادہ فرق بھی ٹھیک ہوتا ہے لیکن وہ ذرا زیادہ فرق ستر اور اٹھارہ سال کا ہر گز نہیں ہونا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: سادہ بات سمجھ لیجئے کہ آپ شادی جس طرح چاہیں کریں۔اس کو اعلانیہ ہونا چاہئے۔یعنی آج شادی ہوئی ہے۔ internet پر ہوئی ہے ،ٹیلی فون پر ہوئی ہے یاسیٹلائیٹ فون پرہوئی ہے ۔یا آپ خلا میں اڑ رہے ہیں وہاں آپ نے کر لی ہے ۔بس دنیا کو پتہ چل جانا چاہئے کہ آپ نے شادی کر لی ہے ۔آج سے آپ میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں ۔ یہ ہے اصل میں اسلام کا تقاضا۔یعنی ایک مرد و عورت کے مابین شادی گویاساری دنیا کے لیے اعلان ِ عام ہے کہ اب ہم قانونی طور پر میاں بیوی ہیں۔یہ ہو جانا چاہئے۔اس کے ذرائع کے بارے میں اسلا م کو بحث نہیں ہے ۔وہ ذرائع حالات کے لحاظ سے تبدیل ہوتے رہیں گے ۔
اس میں اصل چیزیں دو ہیں ۔اعلانیہ ہوناچاہئے اور کسی کے لئے دھوکے اور فریب کا باعث نہ ہو۔سیدھی صاف بات ۔اسی وجہ سے آپ دیکھیں کہ شادی کے موقعے کے اوپر قرآن مجید کی جوچند آیات حضور پڑھتے تھے اور اب بھی پڑھی جاتی ہیں۔اس موقعے پر نصیحت کے لئے۔ان آیات میں ایک آیت یہ ہے کہقولو قولاً سدیدا سیدھی بات کہو۔جو بھی کہنی ہے ۔سیدھی ،سچی ،صاف۔یعنی شادی کا معاملہ کوئی ہیر پھیر کا معاملہ نہیں ہے ۔ شادی ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ ایک معاہدہ ہے۔جو فریقین کو واضح طور پر معلوم ہونا چاہئے۔ اس کی بس یہ ہی دو چیزیں ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ میں دور حاضر کے اس چلن سے بالکل متفق نہیں ہوں کہ پہلے محبت کی جائے پھر شادی کی جائے۔یہ وہ راستہ ہے جس کی ابتدا بھی نامناسب ہوتی ہےاور جس کا انجام بھی اکثر و بیشتر غیر اطمینان بخش ہوتا ہے۔مثلاًوہ محبت جو ٹیلی فون پر گفت و شنیدسے شروع ہوتی ہے یا وہ محبت جو جوانی کے جوش میں لڑکیوں کے پیچھے چکر لگانے سے شروع ہوتی ہے یہ ایسی محبت ہوتی ہےجس میں عقل اور سوجھ بوجھ کا عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔محض جذباتیت ہوتی ہےاکثر تو یہ ہوتا ہے کہ ایسے لڑکے لڑکیوں میں محبت ہو جاتی ہے جن کے درمیان سماجی تفاوت ہوتا ہے یا خاندانی چپقلش ہوتی ہے یا کوئی ایسی بات ہوتی ہے جوان کی شادی کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔چونکہ اس محبت کی ابتدا جذباتیت سے ہوتی ہے اس لیے یہ لڑکے اور لڑکیاں غلطیاں اور گناہ کر بیٹھتے ہیں اس لیے کہ بہر حال وہ انسان ہیں۔ فرشتے نہیں ہیں۔میری نظر میں شادی کا افضل اور مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ طرفین خوب سوچ سمجھ کر ایک دوسرے کےبارے میں مکمل واقفیت حاصل کر کے شادی کا فیصلہ کریں۔ شادی کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کا اطمینان کر لیا جائے کہ فی الحال ایسی کوئی بات تو نہیں ہے جو آگے چل کر اس شادی کو ناکام یا شادی شدہ زندگی کو جہنم بنادے ۔ مثلاً طرفین کے درمیان کفو یعنی برابری نہ ہو یا کسی قسم کی قانونی رکاوٹ ہو وغیرہ -یہ بھی ضروری ہے کہ طرفین ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔ ایسے موقعے پر مناسب یہ ہوگا کہ لڑکا اس طرح لڑکی کو دیکھے کہ لڑکی کو اس کی خبرنہ ہوتاکہ رشتہ طے نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے جذبات مجروح نہ ہوں اور مناسب یہ ہے کہ لڑکے والے یہ رشتہ لے کر لڑکی کے گھروالوں کے پاس جائیں اور نہایت اطمینان اور تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے اس معاملے کو طے کریں۔اگر کوئی ایسی صورت حال ہوتی ہے جس کا تذکرہ سوال میں ہے طرفین کے درمیان خودبخود محبت ہو جاتی ہے اور یہ دونوں شادی کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کی اس مدت میں کوئی غلط قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو ایسی صورت حال میں گھر والوں کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیں اور دوپیار کرنے والوں کو محض چھوٹے چھوٹے اسباب کی بنا پر ایک دوسرے سے جدانہ کریں اور ان کی شادی کردیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لم يَر لِلَمُتَحَابِينَ مِثَل النَكاَح (ابن ماجہ)”دومحبت کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔“
ذرا اس حدیث کے پس منظر پر غور کیجیے ۔ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس ایک یتیم بچی ہے جس سے شادی کے خواہش منددو شخص ہیں ان میں سے ایک غریب ہے اور دوسراامیر،لیکن یہ یتیم بچی غریب شخص سے محبت کرتی ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس بات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو پیار کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ دوپیار کرنے والوں کے درمیان غریبی اور امیری کو نہ آنے دیا جائے اور ان کی مرضی کے مطابق ان کی شادی کر دی جائے یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسلام ایک عملی (Practical)دین ہے کسی سے محبت ہو جانا ایک فطری بات ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ کوئی گناہ نہیں ہے نہ اسلام اس فطری جذبہ کی روک تھام چاہتا ہے بلکہ اسلام اس بات پر ابھارتا ہے کہ اس فطری جذبہ کو شرعی اور قانونی حیثیت عطا کردی جائے۔ان دونوں کو گناہوں میں ملوث نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کی شادی کردی جائے۔ بہ شرطے کہ اس شادی میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین جھوٹی شان کی وجہ سے یا حسب نسب کے چکر میں پڑ کر یا محبت کو غیر اسلامی عمل سمجھ کر دو محبت کرنے والوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں خود بھی مصیبت میں پڑتےہیں اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی تباہ کر ڈالتے ہیں۔ بعض بچے ذرا تیز قسم کے ہوتے ہیں تو وہ والدین سے بغاوت کر کے اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جھوٹی شان اور حسب ونسب کو معیار بنانے کی بجائے دین اور بااخلاق ہونے کو معیار بنایا جائے۔ دین اور اخلاق کے معیار پر اترنےوالے رشتہ کو ٹھکرانا یقیناًبڑی بد قسمتی کی بات ہوگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ (ترمذی،ابن ماجہ)”جب تمھارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کے اخلاق اور دین داری سے تم مطمئن ہو تو اسے شادی کے لیے منتخب کرلو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں زبردست فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔ “
جواب: اسی طرح کی غلط بیانی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے بعض لوگ اسلامی شریعت کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں اسلامی شریعت پر اعتراض کرنے سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ اسلامی شریعت سے خاطر خواہ واقفیت حاصل کریں۔ اگر انھیں اس کی واقفیت نہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ قرآن و سنت کا مطالعہ کریں تاکہ اسلامی شریعت کا صحیح صحیح علم ہو سکے۔ مصیبت یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ قرآن و حدیث کا مطالعہ کم کرتے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے یا کسی مسلمان کے غلط رویے کو دیکھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہی اسلامی شریعت ہے اور پھر اسلامی شریعت پرسیدھے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں
اس اعتراض سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ شادی اور طلاق سے متعلق قرآن و حدیث کے احکام کا مطالعہ کر لیتے اور جان لیتے کہ اس سلسلے میں اسلام کا کیا موقف ہے۔
اسلام کی نظر میں شادی ایک مضبوط اور مستحکم بندھن ہے اور اس بندھن کی بنیاد باہمی الفت و محبت پر ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے تعان سے پرسکون زندگی گزاریں۔یہ وہ مضبوط رشتہ ہے جو دو خاندانوں کی مستقل دوڑ بھاگ گفت و شنید شادی کی تقریبات مہر کی ادائی اور نہ جانے کن کن مرحلوں کے بعد وجود میں آتا ہے ظاہر ہے اس قدر مضبوط رشتے کو توڑ دینا کوئی قابل تعریف بات ہے اور نہ کوئی آسان بات کہ جب جی چاہا اسے ختم کر دیا نہ تو شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بنیاد پر اس رشتہ کو ختم کردے اور نہ بیوی ہی کو اس کا حق دیا گیا ہے۔ یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردےبالکل غلط بات ہے -یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔ اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضا رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے:فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے۔اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ انصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسا اوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی پوراحق دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور مردوں کو حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھرولواں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھر بھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں- اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے‘ مہر کی ذمے داری ہے‘بیوی بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہےاور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن ختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔
جواب: آپ نے اسلامی پردے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے اولاً تو وہ ایسی خرابیاں نہیں ہیں کہ اس کی بناء پر آدمی لاینحل مشکلات میں مبتلا ہو جائے اور ثانیاً حیاتِ دنیوی میں آخر کون سی ایسی چیز ہے جس میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی نہ پائی جاتی ہو۔ لیکن کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ اس کے صرف ایک یا دو پہلوؤں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر اس میں مصالح کو غلبہ حاصل ہے یا مفاسد کو۔ یہی اصول پردے کے بارے میں اختیار کیا جائے گا۔ اسلامی پردہ آپ کی رائے میں بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے لیکن فقط یہ مشکل کہ اس کی پابندی سے آدمی کو شادی کے لیے اپنی مرضی کے مطابق لڑکی منتخب کرنے کی آزادی نہیں مل سکتی، پردے کی افادیت کو کم یا اس کی پابندی کو ترک کرنے کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔ بلکہ اگر ہر لڑکے کو لڑکی کے انتخاب اور ہر لڑکی کو لڑکے کے انتخاب کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو اس سے اس قدر قبیح نتائج برآمد ہوں گے کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور پھر خاندانی نظام جو کہ معاشرے کی مضبوطی اور پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اور ایک موہومہ مشکل کو حل کرتے کرتے بے شمار حقیقی مشکلات کے دروازے کھل جائیں گے۔
آپ کا یہ خیال کہ باپردہ لڑکی وسعت نظر اور فراست سے بے بہرہ ہوتی ہے درست نہیں ہے۔ اور اگر اسے بالفرض درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس میں پردے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایک لڑکی باپردہ رہ کر بھی علم و فن میں کمال پیدا کرسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں پردے سے باہر ہو کر بھی ایک لڑکی علم و عقل اور فراست و بصیرت سے کوری رہ سکتی ہے۔ البتہ بے پردہ لڑکی کو یہ فوقیت ضرور ہوگی کہ وہ معلومات کے لحاظ سے چاہے وسیع النظر نہ ہو لیکن تعلقات کے لحاظ سے اس کی نگاہیں ضرور پھیل جائیں گی۔ ایسی حالت میں اگر موزوں ترین رفیقِ حیات کی تلاش میں کامیابی ہو بھی جائے تب بھی جو نگاہیں وسعت کی عادی ہو چکی ہوں انہیں سمیٹ کر ایک مرکز تک محدود رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
سوال: (۲) آپ کا جواب ملا۔ مگر مجھے اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ آپ نے اسے بالکل معمولی مسئلہ قرار دیا۔ کامیاب شادی کی تمنا تو ایک جائز خواہش ہے اور ایسے حالات پیدا کرنا، جن کی وجہ سے ایک شخص کے لیے اپنی پسند کی لڑکی چننے کا راستہ بند ہو جائے میں انسانی مسرت اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے مضر سمجھتا ہوں اور دینِ فطرت کے منافی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ہمارے مروجہ طریقے کے مطابق عورت زیادہ سے زیادہ گھر کی منتظم ہوتی ہے اور خاوند کی اور اپنی جنسی تسکین کا ایک ذریعہ، لیکن دو افراد کے اپنے آپ کو پوری طرح ایک دوسرے کے حوالے کرنے اور زندگی کے فرائض ایک بار کی بجائے خوشی خوشی پورا کرنے کے جو امکانات اپنی پسند اور ذوق کی شادی کر لینے میں ہوتے ہیں وہ اس صورت میں قطعاً ممکن نہیں کہ اپنی پسند اور بصیرت استعمال کیے بغیر کسی دوسرے کے انتخاب پر شادی کر لی جائے۔
میرا خیال ہے کہ ایک نوجوان محض جنسی تسکین کا خواہش مند نہیں ہوتا، وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی کے لیے کچھ قربانی کرے، کسی سے محبت کرے، کسی کی خوشی کا خیال رکھے اور کوئی اس کی خوشی پر خوش ہو۔ اس جذبے کے فطری نکاس کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جسے اس نے تعلیم، اطوار، کردار اور دوسری خوبیوں کی بناء پر اپنی طبیعت کے مطابق حاصل کیا جائے (حقیقی محبت کسی کی باطنی خوبیوں کے دیکھنے سے ہی پیدا ہوتی ہے نہ کہ شکل دیکھ لینے سے) اور یہ بات ناممکنات میں ہے کہ پہلے تو کسی کی شادی کرا دی جائے اور پھر اس سے مطالبہ کیا جائے کہ اب اسے ہی چاہو اور یوں جیسے تم نے اس کو خود پسند کیا ہے۔ اس فطری محبت کا راستہ بند کر لینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبہ اپنے لیے دوسرے راستے نکال لیتا ہے۔
پردے کی وجہ سے جو حالات پیدا ہیں ان میں حقیقتاً کردار دیکھ کر تلاش کرنا ممکن نہیں۔ لڑکے کے باپ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لڑکی کا پتہ چلاسکے، لڑکی کی والدہ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ لڑکے کے متعلق براہ راست کچھ اندازہ لگا سکے۔ کیونکہ پردے کی وجہ سے ان افراد میں بھی تعلق اور آزادانہ گفتگو ناممکن ہے۔ (خود لڑکے اور لڑکی کا ملنا تو ایک طرف رہا) بڑی سے بڑی آزادی جو اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی شکل دیکھ لے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کی شکل چند سیکنڈ دیکھ لینے سے کیا ہو جاتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے، اب تو تمام علماء نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ موجودہ تمدنی ضروریات پوری کرنے کے لیے علم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے ضروری ہے۔ لیکن مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی کام کر سکتی ہیں۔ یا تو اسلامی احکام کی پابندی کریں یا علم حاصل کریں۔ پردے کی پابند ہوتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ طبقات الارض، آثار قدیمہ، انجینئرنگ اور تمام ایسے علوم جن میں سروے اور دور دراز سفر کی ضرورت ہوتی ہے، ان علوم کے لیے خواتین کس طرح کام کر سکتی ہیں جب کہ محرم کے بغیر عورت کا تین دن سے زائد کی مسافت پر نکلنا بھی منع ہے۔ اب کیا ہر جگہ وہ اپنے ساتھ محرم کو لیے لیے پھرے گی؟
یہ علوم تو ایک طرف رہے، میں تو ڈاکٹری اور پردے کو بھی ایک دوسرے کی ضد سمجھتا ہوں۔ اول تو ڈاکٹری کی تعلیم ہی جو جسمانیات کی نگاہیں پھیلا دینے والی معلومات سے پُر ہوتی ہے، حیا کے اس احساس کو ختم کر دینے کے لیے کافی ہے جس کی مشرقی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے، خواہ وہ ڈاکٹری پردے ہی میں سیکھی جائے اور پڑھانے والی تمام خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ دوم ڈاکٹر بننے پر ایک خاتون کو مریضوں کے لواحقین سے روابط کی اس قدر ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے غیر مردوں سے بات چیت پر قدغن لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اس کے پیش نظر اگر ہم خواتین کو ڈاکٹر بننے سے روکتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے گھروں کی مریض خواتین کے ہر مرض کے علاج کے لیے مرد ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی اور رائج الوقت نظریہ حیا کے مطابق یہ تو اس سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جائے گا۔
جناب عالی آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان معاشرتی اور تمدنی الجھنوں کا اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے کیا حل ہے؟
جواب: آپ کا دوسرا خط ملا۔ شادی کے معاملے میں آپ نے جو الجھن بیان کی ہے وہ اپنی جگہ درست ہی سہی، اس کا حل کورٹ شپ کے سوا اور کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس تفصیل کے ساتھ رفیقِ زندگی بنانے سے پہلے لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے کے اوصاف، مزاج، عادات، خصائل اور ذوق و ذہن سے واقف ہونے کی ضرورت آپ محسوس کرتے ہیں ایسی تفصیلی واقفیت دوچار ملاقاتوں میں، اور وہ بھی رشتہ داروں کی موجودگی میں حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے مہینوں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، تنہائی میں بات چیت کرنا، سیر تفریح، سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا اور بے تکلف دوستی کی حد تک تعلقات پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ کیا واقعی آپ یہی چاہتے ہیں کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان اس اختلاط کے مواقع بہم پہنچنے چاہئیں۔ آپ کے خیال میں ان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر ان معصوم فلسفیوں کا فی صدی تناسب کیا ہوگا جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ صرف رفیق زندگی کی تلاش میں مخلصانہ تحقیقاتی روابط قائم کریں گے۔ اور اس دوران میں شادی ہونے تک اس طبعی جذب و اجذاب کو قابو میں رکھیں گے جو خصوصیت کے ساتھ نوجوانی کی حالت میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے اپنے اندر رکھتے ہیں؟ بحث برائے بحث اگر آپ نہ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ شاید دو تین فی صدی سے زیادہ ایسے لوگوں کا اوسط ہماری آبادی میں نہ نکلے گا۔ باقی اس امتحانی دور ہی میں فطرت کے تقاضے پورے کر چکے ہوں گے اور وہ دو تین فیصدی جو اس سے بچ نکلیں گے وہ بھی اس شبہ سے نہ بچ سکیں گے کہ شاید وہ باہم ملوث ہو چکے ہوں۔
پھر کیا یہ ضروری ہے کہ ہر لڑکا اور لڑکی جو اس تلاش و تحقیق کے لیے باہم خلا ملا کریں گے وہ لازماً ایک دوسرے کو رفاقت کے لیے منتخب ہی کر لیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ ۲۰ فیصدی دوستیوں کا نتیجہ نکاح کی صورت میں برآمد ہو۔ ۸۰ فیصدی یا کم ازکم ۵۰ فیصدی کو دوسرے یا تیسرے تجربے کی ضرورت لاحق ہوگی۔ اس صورت میں ان ’’تعلقات‘‘ کی کیا پوزیشن ہوگی جو دوران تجربہ میں آئندہ نکاح کی امید پر پیدا ہو گئے تھے اور ان شبہات کے کیا اثرات ہوں گے جو تعلقات نہ ہونے کے باوجود ان کے متعلق معاشرے میں پیدا ہو جائیں گے؟
پھر آپ یہ بھی مانیں گے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ان مواقع کے دروازے کھولنے کے بعد انتخاب کا میدان لامحالہ بہت وسیع ہو جائے گا ایک ایک لڑکے کے لیے صرف ایک ہی ایک لڑکی مطمع نظر نہ ہو گی جس پر وہ اپنی نگاہ انتخاب مرکوز کر کے تحقیق و امتحان کے مراحل طے کرے گا اور علی ہذا القیاس لڑکیوں میں سے بھی ہر ایک کے لیے ایک ہی ایک لڑکا امکانی شوہر کی حیثیت سے زیر امتحان نہ ہوگا۔ بلکہ شادی کی منڈی میں ہر
طرف ایک سے ایک جاذب نظر مال موجود ہوگا جو امتحانی مراحل سے گزرتے ہوئے ہر لڑکے اور ہر لڑکی کے سامنے بہتر انتخاب کے امکانات پیش کرتا رہے گا۔ اس وجہ سے اس امر کے امکانات روز بروز کم ہوتے جائیں گے کہ ابتداً جو دو فرد ایک دوسرے سے آزمائشی ملاقاتیں شروع کریں وہ آخر وقت تک اپنی اس آزمائش کو نباہیں اور بالآخر ان کی آزمائش شادی پر منتج ہو۔اس کے علاوہ یہ ایک فطری امر ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ جو رومانی طرز کا کورٹ شپ کرتے ہیں ان میں دونوں ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے روشن پہلو ہی دکھاتے ہیں۔ مہینوں کی ملاقاتوں اور گہری دوستی کے باوجود ان کے کمزور پہلو ایک دوسرے کے سامنے پوری طرح نہیں آتے اس دوران میں شہوانی کشش اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ وہ جلدی سے شادی کر لینا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لیے دونوں ایک دوسرے سے ایسے ایسے پیمان وفا باندھتے ہیں، اتنی محبت اور گرویدگی کا اظہار کرتے ہیں کہ شادی کے بعد معاملات کی زندگی میں وہ عاشق و معشوق کے اس پارٹ کو زیادہ دیر تک کسی طرح نہیں نباہ سکتے، یہاں تک کہ جلدی ہی ایک دوسرے سے مایوس ہو کر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ کیونکہ دونوں ان توقعات کو پورا نہیں کرسکتے جو عشق و محبت کے دور میں انہوں نے باہم قائم کی تھیں اور دونوں کے سامنے ایک دوسرے کے وہ کمزور پہلو آجاتے ہیں جو معاملات کی زندگی ہی میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔ عشق و محبت کے دور میں کبھی نہیں کھلتے۔
اب آپ ان پہلوؤں پر بھی غور کر کے دیکھ لیں۔ پھر آپ مسلمانوں کے موجودہ طریقے کی مزعومہ قباحتوں اور اس کورٹ شپ کے طریقے کی قباحتوں کے درمیان موازنہ کر کے خود فیصلہ کریں کہ آپ کو ان دونوں میں سے کون سی قباحتیں زیادہ قابل قبول نظر آتی ہیں۔ اگر اس کے بعد بھی آپ کورٹ شپ ہی کو زیادہ قابل قبول سمجھتے ہیں تو مجھ سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس اسلام کے ساتھ آپ اپنا تعلق رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں جو اس راستے پر جانے کی اجازت دینے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔ یہ کام آپ کو کرنا ہو تو کوئی دوسرا معاشرہ تلاش
کریں۔ اسلام سے سرسری واقفیت بھی آپ کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس دین کی حدود میں ’’کامیاب شادی‘‘ کا وہ نسخہ استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جسے آپ مباح کرنا چاہتے ہیں۔
عورتوں کی تعلیم کے متعلق آ پ نے جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں بھی کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ فطرت نے عورت اور مرد کے دائرہ کار الگ رکھے ہیں۔ اپنے دائرہ کار کے فرائض انجام دینے کے لیے عورت کو جس بہتر سے بہتر تعلیم کی ضرورت ہے وہ اسے ضرور ملنی چاہیے اور اسلامی حدود میں وہ پوری طرح دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح عورت کے لیے ایسی علمی و ذہنی ترقی بھی ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے جو عورت کو اپنے دائرہ کار کے فرائض انجام دیتے ہوئے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس معاملہ میں کوئی انتظامات نہ کرنا مسلمانوں کی کوتاہی ہے نہ کہ اسلام کی۔ لیکن وہ تعلیم جو مرد کے دائرہ کار کے لیے عورت کو تیار کرے عورت ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے آپ میری کتاب ’’پردہ‘‘ کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۵، عدد۴۔ جنوری ۱۹۶۱ء)
جواب: اس سوال کے ساتھ سائل نے پوری تفصیل کے ساتھ فریقین کے دلائل جمع کردیے ہیں، لہٰذا پہلے ہم ان دلائل کو یہاں نقل کردیتے ہیں:
(۱) حنفیہ کا استدلال حسب ذیل آیات اور احادیث سے ہے:
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں، پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو جو کچھ وہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے کریں، اس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔‘‘
(البقرہ۔ 234)
’’پھر اگر (تیسری بار شوہر نے بیوی کو) طلاق دے دی، تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الا یہ کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے‘‘۔
(البقرہ۔ 230)
’’پھر تم ان عورتوں کو اس سے مت روکو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ بھلے طریقے سے باہم رضامند ہوجائیں‘‘۔
(البقرہ۔ 232)
’’نافع ابن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حقدار ہے، اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حقدار ہے‘‘۔ (نصب الروایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۲)
ابی سلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرے باپ نے میرا نکاح ایک مرد سے کردیا ہے اور میں اسے ناپسند کرتی ہوں۔ آپ نے باپ سے فرمایا کہ نکاح کا اختیار تمہیں نہیں ہے اور لڑکی سے فرمایا کہ جاؤ جس سے تمہارا جی چاہے نکاح کرلو۔(نصب الروایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۲)
مالک نے عبدالرحمٰن سے، انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حفصہ بنت عبدالرحمٰن کا منذر ابن زبیر سے نکاح کردیا۔ اس وقت عبدالرحمٰن شام میں تھے۔ جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے کہ کیا میری رائے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ تب حضرت عائشہؓ نے منذر ابن زبیر سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر عبدالرحمٰن نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ جس معاملے کو آپ نے طے کردیا ہے، میں اس کی تردید نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ حفصہ منذر کے پاس ہی رہیں اور یہ طلاق نہ تھی۔
ابوداؤد اور نسائی نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا شوہر دیدہ عورت پر ولی کو کچھ اختیار حاصل نہیں ہے۔
نسائی اور احمد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول! میرے باپ نے اپنے بھتیجے کے ساتھ میرا بیاہ صرف اس لیے کردیا ہے کہ میرے ذریعے سے اسے ذلت سے نکالے۔ آپ ﷺ نے نکاح کی تنسیخ و استقرار کا حق لڑکی کو دے دیا۔ لڑکی نے کہا، میرے والد نے جو کچھ کیا ہے، میں اسے جائز قرار دیتی ہوں، میری خواہش صرف یہ ہے کہ عورتیں جان لیں کہ باپوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
(۲) اہل حدیث حضرات اپنی تائید میں مندرجہ ذیل احادیث پیش کرتے ہیں:
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے … پس اگر جھگڑا ہو تو جس عورت کا ولی نہ ہو تو سلطان اس کا ولی ہے۔
’’ ابو موسیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ولی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت دوسری عورت کا (ولی بن کر) نکاح نہ کرے، اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا جس عورت کا نکاح ولی یا حکام نہ کریں، اس کا نکاح باطل ہے۔
عکرمہ ابن خالد سے روایت ہے کہ ایک شوہر دیدہ عورت نے اپنا معاملہ ایک ایسے شخص کے سپرد کردیا جو اس کا ولی نہ تھا اور اس شخص نے عورت کا نکاح کردیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے نکاح کرنے اور کرانے والوں کو کوڑوں کی سزا دی اور نکاح منسوخ کردیا۔
’’حضرت علیؓ نے فرمایا جس عورت نے بھی اپنے ولی کے اذن کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ بلا اجازت ولی کوئی نکاح نہیں‘‘۔
امام شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ ، حضرت عمرؓ ، شریح اور مسروق نے فرمایا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔
ان دلائل پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف کافی وزن ہے اور یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فریقین میں سے کسی کا مسلک بالکل غلط ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شارع نے فی الواقع دو متضاد حکم دیئے ہیں؟ یا ایک حکم دوسرے حکم کو منسوخ کرتا ہے؟ یا دونوں حکموں کو ملا کر شارع کا منشا ٹھیک طور پر متحقق ہوسکتا ہے؟ پہلی شق تو صریحاً باطل ہے۔ کیوں کہ شریعت کا پورا نظام شارع کی حکمت کا ملہ پر دلالت کر رہا ہے اور حکیم سے متضاد احکام کا صدور ممکن نہیں ہے۔ دوسری شق بھی باطل ہے کیوں کہ نسخ کا کوئی مثبت یا منفی موجود نہیں ہے۔ اب صرف تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور ہمیں اس کی تحقیق کرنی چاہیے۔ میں دونوں طرف کے دلائل جمع کرکے شارع کا جو منشا سمجھ رہا ہوں وہ یہ ہے۔
۱۔ نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیائے عورت۔ اسی بنا پر ایجاب وقبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے۔
۲۔ بالغہ عورت (باکرہ ہو یا ثیبہ) کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر یا اس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہوسکتا، خواہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضامندی نہ ہو، اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہوسکے۔
۳۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہوجائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں، اپنے اولیا کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے، شارع نے اس کے نکاح کے لیے اس کی اپنی مرضی کے ساتھ اس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرلے، اور نہ ولی کے لیے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح جہاں چاہے کردے۔
۴۔ اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کرے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا، وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا، نامنظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کو نکاح نا منظور ہے تو عدالت اسے باطل قرار دے گی۔
۵۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے تو اسکا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا۔ ولی منظور کر لے تو نکاح برقرار رہے گا، نا منظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض و انکار کی بنیاد کیا ہے۔ اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بنا پر اس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہ کرتا ہو تو یہ نکاح فسخ کردیا جائے گا اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا ، یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آکر اپنا نکاح خود کرلیا تو پھر ایسے ولی کو سئی الاختیار ٹھہرادیا جائے گا اور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔
جواب: عام طور پر ادلے بدلے کے نکاح کا جو طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے، وہ دراصل اسی شغار کی تعریف میں آتا ہے جس سے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے۔ شغار کی تین صورتیں ہیں اور وہ سب ناجائز ہیں۔
ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کے بدلے میں اپنی لڑکی دے گا اور ان میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔
دوسرے یہ کہ شرط تو وہی ادلے بدلے کی ہو مگر دونوں کے برابر برابر مہر (مثلاً ۵۰، ۵۰ ہزار روپیہ) مقرر کئے جائیں اور محض فرضی طور پر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کرلیا جائے۔ دونوں لڑکیوں کو عملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔
تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی اختیار کی جائے گی، شریعت کے خلاف ہوگی۔ پہلی صورت کے ناجائز ہونے پر تو تمام فقہا کا اتفاق ہے۔ البتہ باقی دو صورتوں کے معاملہ میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ لیکن مجھے دلائل شرعیہ کی بنا پر یہ اطمینان حاصل ہے کہ یہ تینوں صورتیں شغار ممنوع کی تعریف میں آتی ہیں اور تینوں صورتوں میں اس معاشرتی فساد کے اسباب یکساں طور پر موجود ہیں جن کی وجہ سے شغار کو منع کیا گیا ہے۔
جواب (1) ایسا شخص جو خود جانتا ہے کہ وہ اتنا خرچ کرنے کے قابل نہیں ہے۔اور محض دنیا کے دکھاوے اور اپنی غلط خواہشات کی تسکین کی خاطراپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا چاہتا ہےوہ تو جان بوجھ کر اپنے آپ کو معصیت کے گڑھے میں پھینک رہا ہے۔اپنی غلط خواہش کی وجہ سےیا تو وہ سودی قرض لے گایا کسی ہمدرد کی جیب پر ڈاکہ ڈالے گا۔اور اگر اسے قرض حسنہ مل گیا، جس کی اُمید نہیں ہے، تو ا سے مار کھائے گا۔ اور اس سلسلے میں خدا جانے کتنے جھوٹ اور کتنی بے ایمانیاں اس سے سرزد ہوگی۔ آخر ایسے شخص کو کیا سمجھایا جاسکتا ہے جو محض اپنے نفس کی غلط خواہش کی خاطر اتنے بڑے بڑے گناہ جانتے بوجھتے اپنے سر لینے پر آمادہ ہے۔
ب: ایسے شخص کو اپنےلڑکے لڑکیوں کی شادیاں ان لوگوں میں کرنی چاہیےجومالی حیثیت سےاسی جیسے ہوں اور جو اس کے لیے تیار ہوں کہ اپنی چادر سے نہ وہ خود زیادہ پاؤں پھیلائیں اور نہ دوسرے کوزیادہ پاؤں پھیلانے مجبور کریں۔اپنے سے بہترمالی حالات رکھنے والوں میں شادی بیاہ کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو خوامخواہ مشکلات میں مبتلا کرنا ہے۔
ج:یہ صورت تو کچھ فطری سی ہے، لیکن اس کو حد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کی لڑکی جوان اور شادی کے قابل ہو چکی ہو اور اسے کوئی مناسب لڑکا نظر آئے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ خود اپنی طرف سے پیغام دینے میں ابتداء کرے۔ اس کی مثالیں خود صحابہ کرام میں ملتی ہیں۔ اگر یہ بات حقیقت میں کوئی ذلت کی بات ہوتی تو نبی کریمﷺ اس کو منع فرما دیتے۔
د۔ یہ سب چیزیں وہ پھندے ہیں جو لوگوں نے اپنے گلے میں خود ڈال لیے ہیں، ان میں پھنس کر ان کی زندگی اب تنگ ہوئی جارہی ہے، لیکن لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ان کو کسی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ براہ راست ان رسموں کے خلاف کچھ کہا جائے، بلکہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن اور سنت کی طرف دعوت دی جائے،خدا اور رسول ﷺ کے طریقے پر لوگ آجائیں۔ تو بڑی خرابیاں بھی دور ہوں گی اور یہ چھوٹی چھوٹی خرابی بھی نہ رہیں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔