فقہِ حنفی کا اصولی مسئلہ تو یہی ہے کہ سفرحج و عمرہ کا ہو یا دیگر مقاصد کے لیے، اگر اس کی مسافت اٹھانوے کلومیٹر کے برابر ہے، تو عورت شوہر یا محرم کی رفاقت کے بغیر سفر نہیں کرسکتی۔ لیکن عورتوں کو مشکلات درپیش ہیں کہ یا تو وہ کسی محرم کا خرچ برداشت کریں یا اس عذر کے سبب حج و عمرے پر جانے سے محروم رہیں۔ نیز ہمارے فقہائے کرام نے اس مسئلے پر بھی بحث کی ہے کہ اگر عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت دستیاب نہیں ہے، اور وہ اپنی زندگی میں فریضہ حج ادا نہیں کرسکتی، تو کیا اس پر حجِ بدل کی وصیت کرنا یا کسی کو فرض حجِ بدل کے لیے بھیجنا لازم ہے۔ فقہائے کرام میں سے جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے محرم کی رفاقت حج کے فرض ہونے کی شرط ہے، اُن کے نزدیک اس پر نہ کسی کو حجِ بدل پر بھیجنا اور نہ اس کی وصیت کرنا لازم ہے، البتہ جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے شوہر یا محرم کی رفاقت حج کے ادا کرنے کی شرط ہے، تو اُن کے نزدیک اس کے لیے فرض حجِ بدل کرانا یا اس کی وصیت کرنا لازم ہے، ورنہ گناہگار ہوگی۔امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر ثقہ عورتوں کی ایک جماعت حج یا عمرے پر جا رہی ہے، توجس عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے، وہ اُن کے ساتھ جا سکتی ہے۔ بعض حالات میں ہمارے فقہائے کرام نے دفعِ حرج اور یُسر کے لیے دوسرے ائمہ کے مذہب پر عمل کی اجازت دی ہے، اور ہمارے معاصر فقہاء میں سے مفتی محمد رفیق حسنی نے لکھا ہے: ‘‘اب احناف کو موجودہ دور میں امام شافعی کے مذہب کے مطابق فتویٰ دینا چاہیے، اگر ثقہ خواتین عورتوں کا کوئی گروپ ہو تو وہ عورت جسے شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے، اُن کی رفاقت میں فریضہ حج ادا کرلے۔(رفیق المناسک،ص: 481)
ہماری رائے میں اب مفتیانِ کرام کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے، اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں سفر آسان ہے، بس یا ہوائی جہاز میں عورتوں کو ایک ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ ٹورسٹ گروپوں میں یا سرکاری اسکیم میں حج پرجاتے ہیں، اُن میں بھی عورتوں کو الگ کمرے میں ٹھہرایا جاتا ہے اور اس میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہیں ہوتا۔ سو بجائے اس کے کہ گروپ لیڈر جھوٹ کا سہارا لے کر کسی مرد کو کسی عورت کا محرم ظاہر کرے، بعض مخصوص صورتوں میں اس رخصت پر غور کرنا چاہیے۔
جواب : میرے بھائی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا ہے کہ دو خواتین کی گواہی اسلام میں ایک مرد کی گواہی کے برابر کیوں ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں قرار دی جاتی۔ ایسا صرف چند مخصوص صورتوں میں ہی ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کم از کم پانچ مقامات ایسے ہیں جہاں گواہی کا ذکر موجود ہے بغیر کسی قسم کی جنسی تفریق کے۔
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی گئی ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : وَاستَشھِدْوا شَھِیدَینِ من رِّجَالِکْم فَاِن لَّم یکْونَا رَجْلیَنِ فَرَجْل وَامرَاَتَانِ مِمَّن تَرضَونَ مِنَ الشّْھَدَاءِ اَن تَضِلَّ احدَاھْمَا فَتْذکَِّرَ ااِحدَاھْمَا الاْخریَ ۔ سورہ 2، آیہ 282)
"اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے میں) گواہ کر لیا کرو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلا دے گی۔"
سورہ بقرہ کی اس آیت میں ذکر صرف مالی معاملات کا ہو رہا ہے۔ صرف مالی اور معاشی نوعیت کے معاملے میں ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کے برابر دی جا رہی ہے۔ بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ مالی معاملات میں دو مردوں کی گواہی بہتر ہے اور اگر دو مرد گواہی دینے والے نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنیں۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کریں آپ کوئی سرجری کروانا چاہتے ہیں یا کوئی آپریشن کروانا چاہتے ہیں۔ اب ظاہر ہے آپ کی خواہش ہو گی کہ سرجری سے قبل کم از کم دو ماہر ڈاکٹروں کے ساتھ مشورہ کریں۔ اب فرض کیجیے آپ کو صرف ایک ماہر سرجن دستیاب ہے۔ اس صورت میں آپ ایک سرجن کی رائے کے ساتھ دو عام ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی رائے بھی جاننا چاہیں گے۔ اس کا سبب یہی ہو گا کہ آپریشن کے بارے میں ایک عام ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے مقابلے میں ایک سرجن کا علم زیادہ ہوتا ہے۔
ایسا ہی معاملہ گواہی کا ہے۔ چونکہ اسلام نے فکر معاش کا ذمہ دار مرد کو بنایا ہے لہذا ظاہر ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں معاشی معاملات کے بارے میں مرد کو علم زیادہ ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ معاشی معاملات میں دو مردوں کی گواہی کو ترجیح دی گئی ہے اور اگر آپ سورہ مائدہ کی تلاوت کریں تو وہاں یہ ارشاد باری تعالٰی موجود ہے : یاَا اَیّْھَا الَّذِینَ آمَنْوا شَھَادَۃ بَینِکْم اِذَا حَضَرَ اَحَدَکْمْ المَوتْ حِینَ الوَصِیۃَِّ اثنَانِ ذَوَا عَدلٍ مِّنکْم و آخَرَانِ مِن غَیرِکْم اِن اَنتْم ضَرَبتْم فیِ الاَرضِ فَاَصَابَتکْم مّْصِیبَۃْ المَوتِ (سورۃ 5، آیہ 106)
"مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آ موجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم مسلمانوں میں سے دو مرد عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان گواہ نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کر لو)۔"
یہاں بھی چونکہ معاملہ معاشی نوعیت کا ہے لہذا مرد کی گواہی کو ترجیح دی گئی ہے۔ بعض علمائے قانون کی رائے یہ ہے کہ "قتل " کے معاملے میں بھی جرم کی مخصوص نوعیت کے پیش نظر اور عورت کی فطرت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے یہی اْصول لاگو ہونا چاہیے۔ یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے مساوی قرار دی جانی چاہیے۔
صرف دو معاملات ایسے ہیں جہاں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی گئی ہے یعنی :
(1) مالی معاملات
(2) قتل کا معاملہ
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر جگہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہو گی لیکن اگر قرآنی ہدایات کی مجموعی طور پر پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی۔
آیئے دیکھتے ہیں قرآن ہمیں اس بارے میں کیا احکامات دیتا ہے :
سورہ نور میں ارشاد باری تعالٰی ہے : وَالَّذِینَ یَرمْونَ اَزوَاجَھْم وَلَم یْکن لَّھْم شْھَدَاء ْاِلَّا اَنفْسْھْم فَشَھَادَۃْ اَحَدِھِم اَربَعْ شَھَادَاتٍ بِاللّہَِ اِنّہْ لَمِنَ الصَّادِقِینَ۔ وَالخَامِسَۃْ اَنَّ لَعنَتَ اللَّہِ عَلَیہِ اِن کَانَ مِنَ الکَاذِبِینَ۔ وَیَدرَؤْا عَنھَا العَذَابَ اَن تَشھَدَ اَربَعَ شَھَادَاتٍ باللَّہِ اِنّہْ لَمِنَ الکاذِبِینَ۔ وَالخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللَّہِ عَلَیھَا اِن کَانَ مِنَ الصَّادِقِینَ۔ (سورہ 24، آیات 6 -96 9)
"اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو۔ اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو۔"
مندرجہ بالا آیت سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بیوی شوہر پر الزام لگائے یا شوہر بیوی پر۔ دونوں کی ذاتی گواہی اس معاملے میں مساوی ہے۔
اسی طرح رویت ہلال کے معاملے میں بھی عورت اور مرد کی گواہی میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ بعض فقہا کا کہنا ہے کہ رمضان کے چاند کی رویت کے لیے ایک اور شوال کے چاند کے لیے دو گواہ درکار ہو گے لیکن گواہ کے مرد یا عورت ہونے سے وہاں بھی فرق کوئی نہیں پڑتا۔
کچھ معاملات میں صرف عورت ہی گواہی دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر معاملہ غسل میت کا ہو، کیونکہ جب تک کوئی عورت دستیاب ہو عورت کو غسل میت عورت ہی دے گی۔ یعنی اس معاملے میں گواہی کی ضرورت پڑے تو عورت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
میں امید رکھتا ہوں کہ معاملہ آپ کے ذہنوں میں واضح ہو چکا ہو گا۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : میرے بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ کیا عورت سربراہِ مملکت بن سکتی ہے؟
میرے علم کی حد تک قران میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں، کوئی ایسا حکم موجود نہیں کہ عورت "سربراہِ حکومت نہیں بن سکتی۔"لیکن متعدد احادیث ایسی موجود ہیں مثال کے طور پر ایک حدیث جس کا مفہوم ہے :"وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنا سربراہ عورت کو بنایا۔"
بعض علماء کا کہنا ہے کہ ان احادیث کا تعلق اسی زمانے سے ہے۔ یعنی ان کا حکم اسی زمانے کے لیے محدود ہے جس زمانے میں فارس میں عورت حکمران تھی۔ جب کہ دیگر علماء کی رائے مختلف ہے۔ وہ اس حکم کو ہر زمانے کے لیے عام سمجھتے ہیں۔
آئیے ہم تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کے لیے سربراہِ حکومت بننا اچھا ہے یا نہیں؟ اگر ایک اسلامی ریاست میں عورت سربراہِ حکومت ہو گی تو لازماً اسے نمازوں کی امامت بھی کروانی ہو گی۔ اور اگر ایک عورت نماز باجماعت کی امامت کرواتی ہے تو اس سے لازماً نمازیوں کی توجہ بھٹکے گی۔ کیونکہ نماز کے متعدد ارکان ہیں۔ مثلاً قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ۔ جب ایک عورت مرد نمازیوں کی امامت کروائے گی اور یہ ارکان ادا کرے گی تو مجھے یقین ہے کہ نمازیوں کے لیے پریشانی پیدا ہو گی۔اگر عورت ایک جدید معاشرے میں سربراہِ حکومت ہو گی، جیسا کہ ہمارا آج کل کا معاشرہ ہے تو بسا اوقات اسے بحیثیت سربراہِ حکومت دوسرے سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کرنی ہوں گی جو کہ بالعموم مرد حضرات ہوتے ہیں۔ اس طرح کی ملاقاتوں کا ایک حصہ عموماً بند کمرے کی ملاقات بھی ہوتا ہے۔ جس میں دونوں سربراہان تنہائی میں ملاقات کرتے ہیں جس کے دوران کوئی اور موجود نہیں ہوتا۔ اسلام ایسی ملاقات کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کسی عورت کو تنہائی میں کسی نامحرم سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتا۔
اسلام مرد و عورت کے اختلاط کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ بحیثیت سربراہ حکومت عورت کو منظر عام پر رہنا ہوتا ہے۔ اس کی تصاویر بنتی ہیں۔ اس کی ویڈیو بنتی ہیں۔ ان تصاویر میں وہ نامحرم مردوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ کوئی بھی عورت مثال کے طور پر مارگریٹ تھیچر اگر سربراہِ حکومت ہو تو آپ کو اس کی بے شمار تصاویر مل سکتی ہیں جن میں وہ مردوں سے ہاتھ ملا رہی ہو گی۔ اسلام اس طرح کے آزادانہ اختلاط کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔بحیثیت سربراہِ مملکت ایک عورت کے لیے عوام کے قریب رہنا اور ان سے مل کر ان کے مسائل معلوم کرنا بھی مشکل ہو گا۔جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ایام حیض کے دوران عورت میں متعدد نفسیاتی، ذہنی اور رویے سے متعلق تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ ہارمون ایسٹوجن ہوتے ہیں۔ اب اگر یہ عورت سربراہِ مملکت ہے تو یہ تبدیلیاں یقیناً اس کی قوت فیصلہ پر اثر انداز ہوں گی۔ سائنس ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ عورت میں بولنے کی، گفتگو کی صلاحیت مرد کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ مرد میں ایک خاص صلاحیت Special agility زیادہ ہوتی ہے۔ اس صلاحیت سے مراد ہوتی ہے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے، مستقبل کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت۔ یہ صلاحیت ایک سربراہِ حکومت کے لیے از حد ضروری ہے۔ عورتوں کو گفتگو کی صلاحیت مردوں کے مقابلے میں زیادہ دی گئی ہے کیونکہ یہ صلاحیت بحیثیت ماں کے اس کے لیے ضروری ہے۔
ایک عورت حاملہ بھی ہو سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں اسے چند ماہ کے لیے آرام کرنا ہو گا، اس دوران اس کے فرائض کون ادا کرے گا۔ اس کے بچے ہوں گے اور ماں کے فرائض نہایت اہم ہیں۔ ایک مرد کے لیے سربراہِ حکومت کی ذمہ داریاں اور ایک باپ کی ذمہ داریاں بیک وقت ادا کرنا زیادہ قابل عمل ہے۔ جب کہ ایک عورت کے لیے سربراہِ مملکت اور ماں کی ذمہ داریاں بیک وقت ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ان وجوہات کے باعث میری رائے ان علمائے کرام کے زیادہ قریب ہے جو کہتے ہیں کہ عورت کو سربراہِ مملکت نہیں بنایا جانا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عورت فیصلوں میں حصہ نہیں لے سکتی یا قانون سازی کے عمل میں شریک نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا عورت یقیناً قانون سازی کے عمل میں حصہ لے سکتی ہے۔ اسے ووٹ دینے کا حق بھی حاصل ہے۔ صلح حدیبیہ کے دوران حضرت اْم سلمٰی رضی اللہ تعالٰی عنہا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیتی رہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب تمام مسلمان پریشان تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی بھی فرمائی اور انہیں مشورے بھی دیے۔
آپ جانتے ہیں کہ سربراہِ حکومت تو صدر یا وزیر اعظم ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات سیکریٹری یا PA کو بہت سے فیصلے کرنے ہوتے ہیں لہذا یقیناً ایک عورت مرد کی مدد ضرور کر سکتی ہے۔ اور اہم فیصلے کرنے میں اسے مفید مشورے اور رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : میری بہن نے ایک بہت اچھا سوال پوچھا ہے کہ اگر اسلام حقوق نسواں میں یقین رکھتا ہے، اگر اسلام مرد اور عورت کو برابر سمجھتا ہے تو پھر اسلام پردے کا حکم کیوں دیتا ہے؟ اور دونوں جنسوں یعنی مرد اور عورت کو الگ رکھنے کی تاکید کیوں کرتا ہے۔اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ عورت کو حجاب کا حکم دینے سے پہلے قرآن مرد کو حجاب کا حکم دیتا ہے :
سورہ نور میں ارشادِ باری تعالٰی ہے : قْل لِّلمْؤمنیِنَِ یَغْضّْوا مِن اَبصَارِھِم وَیَحفَظْوا فْرْوجَھْم ذَلِکَ اَز کی لَھْم اِنَّ اللَّہَ خَبِیر بِمَا یَصنَعْونَ۔ (سورہ نور (24)، آیہ 30)
"آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔"
اور اس کے بعد اگلی ہی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : وَقْل لِّلمْؤمِنَاتِ یَغضْضنَ مِن اَبصَارِھِنَّ ویَحفَظنَ فْرْوجَھْنَّ وَلَا یْبدِینَ زِینَتَھْنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنھَا وَلیَضرِبنَ بِخْمْرِھِنَّ عَلَی جْیْوبِھِنَّ۔۔۔۔۔۔ (سورہ نور (24)، آیہ 31)
"اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں۔۔۔۔۔۔۔"
اس کے بعد رشتہ داروں کی ایک طویل فہرست دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ خواتین بھی اس میں شامل لیں۔ ان کے علاوہ اسے تمام لوگوں سے پردہ کرنا ہے۔ یعنی "حجاب" کے اْصولوں پر عمل کرنا ہے۔ اسلامی حجاب کے یہ اْصول قرآن مجید اور احادیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ اْصول تعداد میں چھ ہیں :
٭ پہلا اْصول حجاب کی حد یا معیار کا ہے۔ جو کہ مرد اور عورت کے لیے مختلف ہیں۔ مرد کے لیے ستر کی حد ناف سے گھٹنے تک ہے جبکہ عورت کے لیے سارا جسم ہی سترِ عورت میں شامل ہے۔ جو اعضا نظر آ سکتے ہیں وہ صرف چہرہ اور کلائیوں تک ہاتھ ہیں۔ ان کے علاوہ سارے جسم کا حجاب یعنی چھپایا جانا ضروری ہے۔ اگر وہ چہرہ اور ہاتھ بھی چھپانا چاہے تو اسے منع نہیں کیا گیا لیکن ان اعضا کا محرم کے سامنے چھپانا لازم نہیں ہے۔ یہ وہ واحد اْصول ہے جو مرد اور عورت کے لیے مختلف ہے۔ باقی تمام اْصول دونوں کے لیے یکساں ہیں۔
٭ دوسرا اْصول یہ ہے کہ عورت کا لباس تنگ اور چست نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی اس قسم کا لباس نہیں پہننا چاہیے جس سے جسم کے نشیب و فراز واضح طور پر نظر آنے لگیں۔
٭ تیسرا اْصول یہ ہے کہ عورت کا لباس شفاف نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے جس میں سے آرپار نظر ائے۔
٭ چوتھا اْصول یہ ہے کہ لباس بہت زیادہ شوخ اور بھڑکیلا نہیں ہونا چاہیے یعنی ایسا لباس بھی نہیں ہونا چاہیے جو جنس مخالف کو ترغیب دینے والا ہو۔
٭ پانچواں اْصول یہ ہے کہ جنس مخالف سے مشابہت رکھنے والا لباس نہیں پہننا چاہیے یعنی مردوں کو عورتوں جیسے اور عورتوں کو مردوں جیسے لباس پہننے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جس کی ایک مثال مردوں کا کانوں میں بالیاں وغیرہ پہننا ہے۔ اگر آپ ایک کان میں بالی پہنتے ہیں تو اس سے مراد کچھاور لی جاتی ہے لیکن اگر دونوں کانوں میں پہنی جائے تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ اس سے اسلام میں منع کیا گیا ہے۔
٭ چھٹا اور آخری اْصول یہ ہے کہ آپ کو ایسا لباس بھی نہیں پہننا چاہیے جس میں کفار سے مشابہت ہوتی ہو۔
مندرجہ بالا نکات میں اسلامی حجاب کے بنیادی اْصول بیان کر دیے گئے ہیں۔ اب ہم اصل سوال کی جانب آتے ہیں۔ یعنی یہ کہ عورتوں پر پردے کی پابندی کیوں لگائی گئی ہے اور دوسرے یہ کہ دونو ں جنسوں کے اختلاط سے کیوں روکا گیا ہے؟
اس مقصد کے لیے ہم دونوں طرح کے معاشروں کا تجزیہ کرتے ہیں یعنی وہ معاشرے جن میں پردہ کیا جاتا ہے اور وہ معاشرے جن میں پردہ موجود نہیں ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ جرائم جس ملک میں ہوتے ہیں وہ ملک امریکہ ہے۔
امریکی تحقیقاتی ادارے "فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن" کی 1990 میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس ایک سال کے دوران ایک ہزار دو سو پچاس زنا بالجبر کی وارداتیں ہوئیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کی رپورٹ ہوئی۔ اور یہی رپورٹ کہتی ہے کہ صرف 16 فی صد واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس حساب سے اگر آپ اصل تعداد معلوم کرنا چاہیں تو وہ خود ضرب تقسیم کر لیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ صرف ایک سال کے عرصے میں کتنی خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کے واقعات ہوئے۔ بعد میں یہ تعداد بڑھ گئی اور یہاں تک پہنچی کہ روزانہ ایک ہزار نو سو واقعات ہونے شروع ہو گئے۔شاید امریکی زیادہ بولڈ ہو گئے ہوں گے۔
1993 کی رپورٹ کے مطابق ہر 13 منٹ کے بعد ایک خاتون کے ساتھ زنا بالجبر کا واقعہ ہو رہا ہے۔
لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
امریکہ نے خواتین کو زیادہ حقوق دیے ہیں اور وہاں زیادتی کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔
مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ صرف دس فیصد مجرم گرفتار ہوتے ہیں۔ یعنی صرف 16 فیصدواقعات رپورٹ ہوتے اور دس فیصد گرفتاریاں ہوتی ہیں یعنی عملاً صرف 16 فی صد ملزم گرفتار ہوتے ہیں۔ ان گرفتار ہونے والوں میں سے بھی نصف باقاعدہ کوئی کیس چلنے سے قبل ہی رہا کر دیے جاتے ہیں یعنی اعشاریہ آٹھ فیصد مجرموں کے خلاف باقاعدہ کیس چلتا ہے۔اس سارے تجزیے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سو پچیس خواتین کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے تو امکان یہ ہے کہ ایک دفعہ اس کے خلاف باقاعدہ قانونی کاروائی کی جائے گی۔اس صورت میں بھی پچاس فی صد امکان یہ ہے کہ اسے ایک سال سے بھی کم قید کی سزا ہو گی۔
اگر امریکی قانون میں زنا بالجبر کی سزا عمر قید ہے لیکن اگر مجرم پہلی مرتبہ گرفتار ہوا ہے تو قانون اسے ایک موقع دینے کے حق میں ہے اور اسی لیے پچاس فی صد واقعات میں مجرم کو ایک سال سے بھی کم سزا سنائی جاتی ہے۔
خود ہندوستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ نیشنل کرائم بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق جو یکم دسمبر 1992 کو شائع ہوئی ہے، ہندوستان میں ہر 54 منٹ کے بعد زنا بالجبر کا ایک کیس رپورٹ ہوتا ہے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر 26 منٹ کے بعد جنسی استحصال کا ایک واقعہ ہوتا ہے اور ہر ایک گھنٹہ 43 منٹ کے بعد جہیز کی وجہ سے قتل کی ایک واردات ہوتی ہے۔اگر ہمارے ملک میں ہونے والی زنا بالجبر کی وارداتوں کی کل تعداد معلوم کی جائے تو تقریباً ہر دو منٹ کے بعد ایک واردات کی اوسط نکلے گی۔
اب میں ایک سادہ سا سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ یہ بتائیے کہ اگر امریکہ کی ہر عورت پردہ کرنا شروع کر دے تو کیا ہو گا؟کیا زنا بالجبر کی وارداتوں کی شرح یہی رہے گی؟کیا ان وارداتوں میں اضافہ ہو گا؟یا ان وارداتوں میں کمی واقع ہو گی؟
پھر یہ کہ اسلامی تعلیمات کو ان کے مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اسلام حکم دیتا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ کوئی عورت پردہ کرے یا نہ کرے، مرد کے لیے بہرحال لازم ہے کہ وہ نظریں نیچی رکھے۔اور اگر کوئی مرد زنا بالجبر کا مرتکب ہوتا ہے تو اسلام میں اس کے لیے سزائے موت ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ "وحشیانہ سزا" ہے؟میں نے یہ سوال بہت سے لوگوں سے کیا ہے اور آپ سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔ فرض کیجیے آپ کی بہن کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور آپ کو جج بنا دیا جاتا ہے۔ اب اس سے قطع نظر کہ اسلامی قانون کیا کہتا ہے اس سے بھی قطع نظر کہ ہندوستانی قانون کیا کہتا ہے اور اس سے بھی قطع نظر کہ امریکی قانون کیا کہتا ہے؟ اپ بتائیے کہ اگر آپ کو جج بنا دیا جاتا ہے تو آپ مجرم کو کیا سزا سنائیں گے؟
ہر کسی نے ایک ہی جواب دیا : "سزائے موت"بعض تو اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور کہا کہ وہ مجرم کو اذیتیں دے دے کر ہلاک کرنا پسند کریں گے۔
میں دوبارہ پوچھتا ہوں کہ اگر امریکہ میں اسلام شریعت نافذ کر دی جائے تو ان وارداتوں میں اضافہ ہو گا؟ کمی ہو گی؟ یا ان کی تعداد یہی رہے گی؟اگر ہندوستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کر دیا جائے تو پھر کیا ہو گا؟ کیا زنا بالجبر کی شرح یہی رہے گی؟ کمی ہو گی یا بڑھ جائے گی؟
اگر ہم عملی تجزیہ کریں تو جواب واضح ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ آپ نے عورت کو حقوق دیے ہیں۔ مگر یہ حقوق محض نظری طور پر دیے گئے ہیں عملاً آپ نے عورت کو ایک طوائف اور ایک داشتہ کی حیثیت دے دی ہے۔میں محض پردے کے موضوع پر کئی دن تک گفتگو کر سکتا ہوں۔ لیکن میں اپنا جواب مختصر رکھتے ہوئے ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔فرض کیجیے دو خواتین ہیں جو آپس میں جڑواں بہنیں ہیں۔ اور دونوں خواتین یکساں خوبصورت ہیں۔ دونوں ایک گلی میں سے گزر رہی ہیں۔ گلی کی نکڑ پر ایک بدمعاش کھڑا ہے۔ جو لڑکیوں کو چھیڑتا ہے، تنگ کرتا ہے۔ یہ دونوں خواتین یکساں خوبصورت ہیں لیکن ایک اسلامی لباس میں ہے، یعنی اس نے پردہ کیا ہوا ہے جب کہ دوسرے مغربی لباس میں ہے یعنی اس نے منی سکرٹ وغیرہ پہنا ہوا ہے۔ اب یہ بدمعاش ان میں سے کسے چھیڑے گا؟ ظاہر ہے کہ مغربی لباس والی خاتون کو۔یا فرض کیجیے کہ ان میں سے ایک خاتون تو پردے میں ہے اور دوسری بھی شلوار قمیص میں ہے لیکن اس کا لباس تنگ ہے، سر سے دوپٹہ غائب ہے، اس صورت میں بھی وہ کسے چھیڑے گا؟ پردہ دار خاتون کو یا بے حجاب خاتون کو؟ صاف ظاہر ہے کہ دوسری خاتون کو۔یہ اس بات کا ایک عملی ثبوت ہے کہ اسلام نے عورت کو حجاب کا حکم اس کی عزت اور وقار کی حفاظت کے لیے دیا ہے اس کی عزت گھٹانے کے لیے نہیں۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
ج: ولادت کے بعد جب تک خون کی آلایش باقی رہے ، اُس وقت تک نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ جس نوعیت کے پانی کا آپ نے ذکر کیا ہے اس سے غسل لازم نہیں ہوتا۔ پیدایش کے بعد بچوں کو چالیس دن تک گھر سے باہر نہ نکالا جائے ، یہ محض توہمات ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسا اور اعتماد کر کے اپنے بچوں کو باہر لے جائیے۔ یہ ہندوانہ نوعیت کے توہمات ہیں، جن کی وجہ سے لوگ اس طرح کرتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج:اسلام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ایسے کام عورت کی فطرت کے خلاف ہیں۔ اسلام نے صرف یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی فطرت کے اندر گھر بنانے ، گھر کو چلانے اور بچوں کی پرورش کرنے کے لیے غیر معمولی صلاحیت رکھی ہے۔عورت کی فطرت میں فلاں فلاں چیز نہیں رکھی، ایسی کوئی بات نہ قرآن میں ہے ، نہ حدیث میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بہت سارے کام کرتی رہی ہیں اور آج کے زمانے میں بھی کر رہی ہیں۔ ہمارے دیہاتی معاشرے میں ہمیشہ سے عورتیں مردوں کے ساتھ معاشی زندگی میں بالکل برابر کی شریک رہی ہیں۔ یہ اشرافیہ کی معاشرت ہے جس میں پالکیوں میں بیٹھ کر عورتیں نکلتی رہی ہیں۔ اس کا اسلام یا اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت اس شعبے میں کام کر سکتی ہے کہ جہاں اس کی عزت و عصمت محفوظ رہے اور جہاں کام کرنے کے لیے اس کو اپنادین قربان نہ کرنا پڑے۔بلکہ یہ بات تو مردوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ انہیں ہر وہ شعبہ ترک کر دینا چاہیے جہاں ان کادین او رآخرت محفوظ نہ ہو۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایام حیض میں روزے اور نماز دونوں معاف ہیں تاہم روزوں کی قضا لازمی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ایام حیض میں عورتیں جسمانی طور پر کمزوری، تکلیف اور تکان محسوس کرتی ہیں اور یہ اللہ کی رحمت ہے ان پر کہ اللہ نے ان ایام میں انھیں یہ آسانی عطا کی ہے۔
ایام حیض کو موخر کرنے کی خاطر دوائوں کے استعمال کے سلسلے میں میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ فطرت کے ساتھ جنگ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تمام معاملات اپنے فطری انداز میں انجام پاتے رہیں۔ حیض کا جاری ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی فطرت پر عورت کی تخلیق کی ہے اور یہ اللہ ہی ہے جس نے ان ایام میں ان پر روزے اور نماز معاف کیے۔ اس لیے ہم بندوں کو چاہیے کہ ہم بھی اللہ کی فطرت اور اس کے منشا کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔
تاہم میں ان دوائوں کے استعمال کو ناجائز بھی نہیں قرار دیتا۔ اگر ایسی دوائوں کا وجود ہے کہ جن سے ایام حیض کو منسوخ کیا جا سکتا ہو تو ان کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ نیت صرف یہ ہو کہ روزے قضا نہ ہوں اور یہ کہ صحت پر کوئی خراب اثر نہ پڑے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: یہ نقطۂ نظر کہ حضرت حوابہ الفاظ دیگر عورت تمام نسل انسانی کی بدبختی اور بربادی کی ذمہ دار ہے، بلاشبہ غیر اسلامی نقطۂ نظر ہے۔ اس نقطۂ نظر کا ماخذ تحریف شدہ تورات ہے جس پر یہود و نصاریٰ ایمان رکھتے ہیں اور اسی کے مطابق ان کے دانشور اور مفکرین لکھتے اور بولتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلم دانشور بھی بلا سوچے سمجھے ان کے راگ میں راگ ملاتے ہیں۔
قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں حضرت آدمؑ اور ان کے جنت سے نکالے جانے کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس قصے سے متعلق آیتوں کو یکجا کرنے اور ان کے مطالعے سے درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:
(1) اللہ تعالیٰ نے ممنوعہ درخت کا پھل نہ کھانے کا حکم بیک وقت حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ دونوں کو دیا تھا۔ اللہ کے حکم کے مطابق دونوں ہی اس بات کا مکلّف تھے کہ اس درخت کے قریب بھی نہ جائیں۔ اللہ فرماتا ہے:
وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَامِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا ۠وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ (البقرۃ: 35)
”اور ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بہ فراغت جو چاہو کھاؤ مگر تم دونوں اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے“
(2) آدمؑ کو ورغلانے والی حضرت حوا نہیں تھیں بلکہ ان دونوں کو بہکانے والا اور جنت سے نکلوانے والا شیطان تھا۔ اس سلسلے میں اللہؑ کا فرمان ملاحظہ ہو:
فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَ خْرَ جَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ ۠ (البقرۃ: 36)
”مگر شیطان نے ان دونوں کو اسی درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا چھوڑا جس میں وہ تھے۔“
سورہ بقرہ کے علاوہ سورہ اعراف میں بھی اس واقعے کی تفصیل ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
وَيٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَاوٗرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ وَقَاسَمَهُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ (الاعراف: 19-21)
”اور اے آدم تم اور تمہاری بیوی تم دونوں اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب تم دونوں نہ جانا ورنہ تم دونوں اپنے آپ پر بڑا ظلم کرو گے۔ چنانچہ شیطان نے ان دونوں کو بہلایا پھسلایا تا کہ ان کی جو شرم گاہیں ڈھکی ہوئی ہیں وہ کھول دے اس نے ان دونوں سے کہا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ کہیں تم فرشتہ نہ بن جاؤ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی نہ عطا ہو جائے۔ اور اس نے ان دونوں سے قسمیں کھا کھا کر کہا میں تمہیں بہت خلوص کے ساتھ نصیحت کر رہا ہوں۔“
سورہ طہٰ میں بھی اس واقعہ کا تذکرہ ہے اور اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے جو تعبیر اختیار کی ہے اس کے مطابق بہکنے اور گمراہ ہونے کی پہلی ذمے داری آدمؑ پر عاید ہوتی ہے نہ کہ حضرت حوا پر اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کی سرزنش اور تنبیہ کا سارا رخ حضرت آدمؑ کی طرف ہے نہ کہ حواکی طرف۔ ملاحظہ ہو:
فَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰي اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرٰى وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَلَا تَضْحٰي فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى (طہٰ: 117-121)
”پس ہم نے آدم سے کہا کہ اے آدم یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، دیکھو یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے ورنہ تم بڑے بد بخت ہوگے۔ اس جنت میں تمہارے لیے یہ نعمت ہے کہ نہ تمہیں بھوک لگے گی اور نہ ننگے ہو گے۔ نہ پیاس لگے گی اور نہ دھوپ ستائےگی۔ چنانچہ شیطان نے آدم ؑ کو بہلایاپھسلایا۔ اس نے کہا اے آدم کیا میں ہمیشگی والے درخت اور نہ ختم ہونے والی بادشاہت کا تمہیں پتا نہ بتاؤں۔ چنانچہ ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ تو ان کی شرم گاہیں کھل گئیں اور یہ دونوں اپنی شرم گاہوں پر جنت کےپتے ڈالنے لگے۔ آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہو گیا۔“
مذکورہ آیت میں نافرمانی اور گمراہی کی نسبت واضح طور پر آدمؑ کی طرف کی گئی ہے۔
(3) وہ جنت جس میں آدمؑ تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے اور جس کے درخت کا پھل کھانے کی وجہ سے زمین پر بھیج دیے گئے تھے۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ یہ وہی جنت ہو ، جو آخرت میں نیک اور صالح بندوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جس جنت میں حضرت آدمؑ تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے وہ اسی زمین کی کوئی جنت ہے اور جنت سے مراد خوبصورت باغ اور سرسبز و شاداب علاقہ ہے، کیوں کہ عربی زبان میں جنت خوبصورت باغ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں متعدد مقامات پر لفظ جنت کو ایس زمینی باغ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ قلم کی آیت:
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ ۚ (القلم:17)
”ہم نے ان لوگوں کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔“
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا ۭ (الکہف: 32)
”ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ ان دو لوگوں کی جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے او رگرد کھجور کے درخت کی باڑ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ خوب پھلے اور پھل دینے میں کوئی کمی نہیں کی۔“لہذا یہ ثابت ہوا کہ یہ تصور گمراہ کن ہے کہ حوا جنت سے نکلوائے جانے کی ذمہ دار ہے -
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: اسلام نے عورت کو کئی حیثیتوں سے عزت بخشی ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے ایک صنف نازک کی حیثی سے ایک ماں کی حیثیت سے ایک بیوی کی حیثیت سے ایک بیٹی کی حیثیت سے اور معاشرے کے ایک فرد کامل کی حیثیت سے۔
انسان کی حیثیت سے عورت کی عزت افزائی اس طرح کی گئی ہے کہ ذمہ داریوں اور فرائض کے معاملے میں عورت مرد کے برابر ہے۔ دونوں یکساں درجے کے ذمہ دار ہیں اور یکساں طور پر انعام یا سزا کے حق دار ہیں۔ کسی انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلا حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے برابر تھا اور اس حکم کی نا فرمانی پر دونوں کو یکساں سزادی گئی۔
ماں کی حیثیت سے اسلام نے عورت کو جو عزت بخشی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔اسلام نے ماں کے پیروں تلے جنت قراردے کر اسے جو بلند مقام عطا کیا ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ بیوی کی حیثیت سے اس طرح عزت بخشی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي“ (ترمذی)
”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہے۔ اور میں اپنی بیوی کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔“
لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض سخت مزاج اور تشدد پسند مسلمان عورتوں کے معاملے میں بڑا ظلم کرتے ہیں۔ انھوں نے عورتوں کو ان حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے جنھیں اسلامی شریعت نے انھیں ایک انسان اور ایک عورت کی حیثیت سے عطا کیا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ ساری حق تلفیاں اور زیادتیاں دین اور مذہب کے نام پر ہوتی ہیں حالانکہ ہمارا دین اس طرح کی حق تلفیوں سے پاک ہے۔ عورتوں کو کم عقل ثابت کرنے کے لیے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ من گھڑت حدیث منسوب کردی۔ شاوروهن وخالفوهن ”ان عورتوں سے مشورہ کرو لیکن ان کے مشورے پر عمل نہ کرو۔“
یہ واضح طور پر ایک من گھڑت اور بے بنیاد حدیث ہے کیوں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے مشورہ فرماتے اور ان مشوروں پر عمل بھی کیا کرتے تھے۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مشورہ کیا اور ان کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں خیرو برکت عطا کی۔
قرآن نے جہاں جہاں واجبات و فرائض کے سلسلے میں مسلمانوں کومخاطب کیا ہے وہاں مرد وعورت دونوں یکساں طور پر مخاطب ہیں۔ اسی طرح جزاو سزا کے معاملے میں بھی دونوں برابر ہیں نماز پڑھنے کا حکم دونوں کے لیے یکساں طور پر ہے اور نماز نہ پڑھنے کی صورت میں دونوں کو ایک جیسی سزا اور پڑھنے کی صورت میں ایک جیسا انعام ملے گا۔
اسی طرح کی ایک من گھڑت اور بے بنیاد بات یہ ہے کہ عورت کی آواز پردہ ہے اور یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر اور محرم کے علاوہ کوئی دوسرا اس کی آواز سنے۔ اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ شوہر اور محرم کے علاوہ کسی اور کے ساتھ بات کرے کیوں کہ اس کی آواز پردہ ہے اس طرح کی بے بنیاد بات کرنے والوں سے میں نے اس کی دلیل پوچھی تو وہ کوئی دلیل نہیں پیش کر سکے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث میں اس کے برعکس بات کہی گئی ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے پردہ کی اوٹ میں بات کر سکتے ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں پردے کی اوٹ میں رہ کر غیر محرموں سے بات کرتی تھیں اور انھیں مفید مشورے دیتی تھیں۔مسائل کا حل بتاتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنائی تھیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بلا کسی رکاوٹ کے مردوں کی موجودگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر ان سے مسائل دریافت کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انھیں بڑے اطمینان سے جواب دیتے تھے اور کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس بات پر نہیں ٹوکا کہ تم مردوں کی موجودگی میں آکر کیوں باتیں کرتی ہو؟ خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی عورتوں کی آواز کو پردہ نہیں تصور کیا جاتا تھا چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ دوران خطبہ کسی عورت نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی بات پر ٹوکا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےاپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا۔ اور کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ اس عورت نے بھری مجلس میں بات کیوں کی۔ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عورت کی آواز کو پردہ نہیں تصور کرتے تھے۔
سورہ قصص میں اللہ تعالیٰ نے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ واقعہ کے درمیان اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی بزرگ (غالباً نبی) کی دو بیٹیوں سے بات کی اور پانی بھرنے میں ان کی مدد کی اور ان کے ساتھ چل کر ان کے گھر بھی گئے اگر عورت کی آواز پردہ ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام کبھی ان لڑکیوں سے باتیں نہیں کرتے اور نہ ان بزرگ کی بیٹیاں ان سے بات کرنے کو پسند کرتیں ۔
حق بات یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے مردوں عورتوں سے یا عورتوں کو مردوں سے بات کرنے کی ممانعت نہیں کی ہے۔ ممانعت اس بات کی ہے کہ عورتیں مردوں سے لبھانے والے انداز میں بات کریں۔ مردوں سے بات چیت کرنا منع نہیں ہے بلکہ پیار بھرے لہجے میں اور لبھانے والے انداز میں بات کرنا منع ہے۔ “
رہی بات اس حدیث کی
”مَا تركْتُ بعْدِي فِتْنَةً هِي أَضَرُّ عَلَى الرِّجالِ مِنَ النِّسَاءِ“
”میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی دوسرا فتنہ نہیں چھوڑاہے۔“
یہاں لوگوں نے لفظ فتنہ سے یہ مفہوم اخذ کر لیا کہ عورتیں مصیبت اور فتنہ کی جڑہیں۔یا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فقرو فاقہ اور بیماری کو فتنہ قراردے کر ان سے پناہ مانگی ہے عورتیں بھی کچھ اسی قسم کا فتنہ ہیں۔ حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے۔ لفظ فتنہ عربی زبان میں آزمائش اور امتحان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی وہ چیز جس کے ذریعے سے کسی کی آزمائش ہو، یہ آزمائش کبھی بری چیزوں کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی بھلی چیزوں کے ذریعے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کبھی پریشانیوں میں مبتلا کر کے آزماتا ہے اور کبھی نعمتیں عطا کر کے آزماتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً ۭ (الانبياء:35)
”اور ہم اچھے اور برے دونوں سے تمھاری آزمائشیں کرتے ہیں۔“
اس لیے عربی زبان میں لفظ فتنہ کبھی بری چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بھلی چیزوں کے لیے مثلاً مال اور اولاد اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی فتنہ قراردیا ہے۔
اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ ۭ (التغابن:15)
”بلا شبہ تمھاری دولت اور تمھاری اولاد آزمائش کا سامان ہے۔“
یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں لیکن اللہ ان ہی نعمتوں کے ذریعے سے اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے کہ کہیں یہ بندے ان نعمتوں میں مگن ہو کر اپنے رب کو بھول تو نہیں جاتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائی میں کوتاہی تو نہیں کرتے ہیں۔اس مفہوم میں قرآن کی یہ آیت ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ ۚ (المنافقون: 9)
”اے مومنو!دیکھو تمھاری دولت اور تمھاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔“
انسان جس طرح مال و اولاد کے ذریعے آزمایا جاتا ہے دراں حالے کہ یہ دونوں چیزیں اللہ کی نعمتیں ہیں اسی طرح عورتیں اور بیویاں بھی اللہ کی نعمت ہونے کے باوجود آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ یہ عورتیں فتنہ و فساد کی جڑنہیں ہیں اور نہ برائیوں کا گہوارہ ہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق نیک بیویاں اللہ کا بڑا انعام ہیں۔ اور اس انعام میں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے آزمائش رکھی ہے کہ کہیں یہ بندے عورتوں کے چکرمیں اپنے رب کو فراموش تو نہیں کر بیٹھتے۔ اسی آزمائش کی طرف درج ذیل آیت میں اشارہ ہے:
اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ ۚ (التغابن: 14)
”تمھاری بیویوں اور آل اولاد میں بھی تمھارے دشمن ہوتے ہیں پس ان سے ہو شیار رہو۔“
ایک صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مال و دولت اور عیش و عشرت کی فراوانی سے خبردار کیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے۔
”فَوَاللهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ ، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا ، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ “(بخاری و مسلم)
”بخدا مجھے تمھارے سلسلے میں فقرو فاقہ کا اندیشہ نہیں ہے۔ مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ دنیا تم پر وسیع کر دی جائے گی جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر وسیع کر دی گئی تھی۔اور تم بھی دنیا کمانے کے لیے اسی طرح ایک دوسرے کا مقابلہ کرو گے جیسا ان لوگوں نے کیا۔ اور یہ دنیا بھی تمھیں ویسے ہی برباد کردے گی جیسے اس نے ان لوگوں کو برباد کیا تھا۔“
اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غربت اور فقیری کو پسندیدہ اور مرغوب شے سمجھتے تھے اور اس کی طرف اپنی امت کو دعوت دے رہے تھے ۔ کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غربت اور فقیری سے اللہ کی پناہ مانگی ہے اور یہ بات بھی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں خوش حالی اور دولت کی فراوانی کو ناپسندیدہ شے سمجھتے تھے کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: ”نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرْءِ الصَّالِحِ“ (مسند احمد) عمدہ مال و دولت صالح شخص کے لیے کیا خوب نعمت ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں ایسے بھی تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی اور اس فراوانی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ اس حدیث کا مفہوم صرف یہ ہے کہ فقرو فاقہ کے مقابلہ میں دولت کی فراوانی زیادہ بڑی آزمائش کی چیز ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرے سے آگا کیا ہے کہ کہیں کوئی شخص دنیا کے عیش و عشرت میں الجھ کر آخرت کی طرف سے غافل نہ ہو جائے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: اللہ تعالیٰ نے غایت درجہ حکمت و مصلحت کے تحت تمام جان دار کو جوڑوں میں پیدا کیا ہے بلکہ کائنات میں پائی جانے والی تمام چیزوں کو اللہ نے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے،اللہ فرماتا ہے۔
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (الذاريات:49)”اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنا ئے ہیں شاید کہ تم اس بات سے سبق لو۔“
اسی قانون فطرت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو بھی جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے تاکہ نسل انسانی کا سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھ دی ہے تاکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے بے تاب رہیں۔ اگر دونوں میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش نہ ہو تو شوہر اور بیوی کے درمیان کبھی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے اور نہ نسل انسانی ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہی قانون فطرت ہے اور قانون فطرت سے بغاوت کسی صورت مناسب نہیں ہے:
اللہ تعالیٰ نے جس دن آدم علیہ السلام کی تخلیق کی اسی دن ان کی پسلی سے عورت (حوا) کو بھی بنایا۔ تاکہ وہ آدم علیہ السلام کے لیے راحت اور سکون کا ذریعہ بن سکیں۔
پھر یہ دونوں مرد اور عورت کی صورت میں ایک ساتھ جنت میں زندگی گزارنے لگے۔ پھر اللہ کی نا فرمانی کی پاداش میں ایک ساتھ جنت سے نکال کر زمین پر بسائے گئے اس زمین پر ان دونوں کے باہمی اختلاط سے نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور قیامت تک مردوں اور عورتوں کے باہمی تعلقات کے نتیجے میں یہ سلسلہ رواں دواں رہے گا۔ عورت اورمرد ایک دوسرے کے لیے اس قدر ناگزیر ہیں اور ان دونوں کا رشتہ اس قدر گہراہے کہ اللہ فرماتا ہے”بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ“ یعنی تم سب (مرد اور عورت) ایک دوسرے کا حصہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگی کے سارے مسائل اور ذمے داریاں ان دونوں میں مشترک ہیں اور دونوں کو مل کر یہ ذمے داریاں نبھانی ہیں یہی قانون فطرت ہے۔ اس لیے یہ تصور کرنا کہ مرد اور عورت اس طرح علیحدہ علیحدہ زندگی گزاریں کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں نا ممکن سی بات ہے۔ یہ چیز اسی وقت ممکن ہے جب انسان قانون فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے غیر فطری زندگی گزارنا شروع کردے تمام انسانوں سے رشتہ کاٹ کر پہاڑوں پر بس جائے اور رہبانیت کی زندگی اختیار کر لے۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ رہبانیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ”اللہ نے اس کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ عیسائیوں نے خود ہی اسے ایجاد اور اختیار کیا تھا۔“چنانچہ آج بھی عیسائیوں میں دین دار لوگوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ شادی کریں اور عورتوں سے قربت اختیار کریں۔ لیکن اسلام کا نقطہ نظریہ ہے کہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے الگ ہو کر زندگی گزارنا قانون فطرت کے خلاف ہے۔ انسانی زندگی کی عمارت دونوں کے مشترکہ تعاون ہی سے کھڑی ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر دو باتوں کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کار عورت کے لیے کوڑوں کی سزا سے قبل جو سزا بتائی تھی وہ یہ تھی کہ زنا کار عورت کو گھر کے اندر اس طرح قید کر دیا جائے کہ وہ مرتے دم تک گھر سے باہر نہ نکل سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورت کا گھر کے اندر قید رہنا اور گھر سے باہر نہ نکل سکنا اس کے لیے سزا ہے اور عام حالات میں معمول کی زندگی میں اسے اس طرح گھر کے اندر قید رکھنا اس پر بڑا ظلم ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر مرد اور عورت کے درمیان ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھی ہے۔ یہ بالکل ایک فطری بات ہے اور اللہ کی فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو پرہیز گار اور پاکباز ثابت کرنے کے چکر میں یہ کہتا ہے کہ عورتوں میں اس کی دلچسپی بالکل نہیں ہے یا عورتیں اس کے لیے بالکل کشش نہیں رکھتی ہیں وہ یقیناً جھوٹا ہے۔ کیوں کہ اس کا یہ دعوی قانون فطرت کے خلاف ہے۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں میں آپ کے سوال کے جواب کی طرف آتا ہوں۔
عورت اپنے جسم کے کس کس عضو کو کھلا رکھ سکتی ہے؟ اس سلسلے میں میرا موقف وہی ہے جو علماء کی اکثریت کا ہے۔ عورت اپنا چہرہ ہتھیلی اور پیر غیر محرموں کے سامنے بھی کھلا رکھ سکتی ہے۔لیکن کیا ان کھلے ہوئے اعضا کو دیکھنا جائز ہے؟
تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی نظر جائز ہے۔ اگر غلطی سے اور بغیر کسی ارادے کے ان پر نظر پڑ جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ شہوت اور لذت کی نظر سے انھیں دیکھنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ شہوت جذبات کو بھڑکاتی ہے اور گناہ پر اکساتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ :”النظرة بريد الزنا “ (نظرزنا کی پیغام بر ہوتی ہے)۔ اسی طرح علمائے کرام اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ہتھیلی پیراور چہرے کے علاوہ عورت کے دوسرے اعضاء مثلاًاس کے بال گردن پیٹھ اور پنڈلی (یہ اعضاء ہیں جنھیں عام طور پر آج کل کی عورتیں کھلا رکھتی ہیں) وغیرہ کی طرف غیر محرم کی لیے دیکھنا جائز نہیں ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے دو اصولی باتوں کا بیان ضروری ہے۔
پہلی بات یہ کہ ہنگامی حالات میں اور شدید ضرورت کے وقت ناجائز بات بھی جائز ہو جاتی ہے۔ مثلاًبھوک سے جان جانے کا خطرہ ہے تو سورکا گوشت کھانا جائز ہو جاتا ہے۔ اسی طرح علاج و معالجہ کی خاطر یا ولادت کے موقع پر عورت اپنا ستر ڈاکٹر کے سامنے کھول سکتی ہے یا فسادات اور جنگ کے موقع پر عورت کے لیے پردہ کرنا ممکن نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ بے پردہ رہے دوسری یہ کہ اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو جائز چیز بھی ناجائز ہو جاتی ہے بشرطے کہ یہ اندیشہ محض خیالی اور وہمی نہ ہو جیسا کہ بعض شکی قسم کے لوگوں کو ہر وقت فتنہ کا اندیشہ لاحق رہتا ہے بلکہ واقعہ ایسی صورت حال جس میں فتنہ کا اندیشہ ہو۔ اس سلسلے میں سب سے صحیح فیصلہ خود انسان کا اپنا ضمیر کر سکتا ہے کہ کون سے حالات اس کے لیے باعث فتنہ ہیں اور کون سے نہیں ہیں ایسے وقت پر ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر کی طرف رجوع کرے۔ اور اپنے ضمیر کی آواز پر عمل کرے۔ فتوؤں کے چکر میں بہت زیادہ نہ رہے۔
اس سلسلہ میں علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ مرد کی ستر کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے چاہے شہوت کی نظر سے دیکھا جائے یا بغیر شہوت کے۔ لیکن مرد کی ستر کیا ہے اس سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک مرد کی ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے لیکن اس رائے کے حق میں وہ جو حدیثیں بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں ان میں کوئی بھی حدیث صحیح حدیث نہیں ہے۔بعض علماء کے نزدیک مرد کی ران ستر نہیں ہے اور اس رائے کے حق میں وہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ روایت پیش کرتے ہیں جس میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر لوگوں کے سامنے اپنی ران کھولی ہے۔ اگر اس رائے کو اختیار کیا جائے تو کھلاڑیوں کے لیے بڑی سہولت ہو جائے گی جو عام طور پر نیکر پہن کر کھیلتے ہیں کیوں کہ یہی کھیل کا یونیفارم ہوتا ہے۔ البتہ ہم مسلمانوں کو مسلسل اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ کھیلوں کے لیے اپنے خاص یونیفارم قانونی طور پر تسلیم کرواسکیں
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے اور یہ کہ مرد کی ستر کو دیکھنا جس طرح عورتوں کے لیے جائز نہیں ہے اسی طرح مرد کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ دوسرے مرد کی ستر پر نظر کرے۔ اور جس طرح ایک مرد دوسرے مرد کا سارا جسم ستر کے علاوہ دیکھ سکتا ہے اسی طرح ایک عورت بھی ستر کے علاوہ مرد کا سارا جسم دیکھ سکتی ہے بشرطے کہ یہ دیکھنا شہوت کی نظر سے نہ ہواور اس دیکھنے میں واقعی کوئی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ یہی بیشتر فقہاء کا موقف ہے۔ اور میرا بھی یہی موقف ہےکیوں کہ بخاری شریف اور مسلم شریف کی ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت قیس کو عبد اللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا کہ وہ اندھے ہیں تم کپڑے بھی اتاردوگی تو وہ تمھیں دیکھ نہیں سکیں گے۔بخاری اور مسلم شریف کی ایک اورحدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے کندھے پر بٹھا کر چند حبشیوں کا کھیل تماشا دکھایا جو مسجد نبوی کے اندر اپنے کرتب کا مظاہرہ کررہے تھے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مردوں کو بغیر کسی شہوت کے دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں ایسا کرنے کو کہا اگر عورتوں کے لیے مردوں کو دیکھنا جائز نہ ہوتا تو عورتوں کی طرح مردوں کے لیے بھی پردہ کرنا واجب ہو جاتاہے۔
آپ نے اپنے سوال میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے علمی نقطہ نظر سے اس کی کوئی قیمت نہیں ہے اور یہ ایک من گھڑت حدیث ہے جسے کسی طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔اور وہ حدیث جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اُم میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عبد اللہ بن مکتوم سے پردہ کرنے کا حکم دیا تھا اور انھیں اس بات سے منع کیا تھا کہ وہ عبد اللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیں یہ حدیث ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث ہے اور اس کی سند میں ایک ایسے راوی ہیں( یعنی نیہان ) جوعلم حدیث کے میدان میں غیر معروف شخصیت ہیں۔ اس لیے بخاری اور مسلم شریف کی وہ صحیح حدیثیں جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے ان کے مقابلہ میں ابو داؤد کی اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب : مریض کی مزاج پرسی اور اس کی عیادت کو جانا اہم اسلامی آداب میں شامل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ متعدد احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی عیادت کو ان چند حقوق میں شمار کیا ہے جو ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں واجب ہیں مثلاً:حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ۔ (مسلم،ترمذی)
”ایک مسلم پر دوسرے مسلم کے چھ حقوق واجب ہیں۔ پوچھا گیا کہ وہ کون سے حقوق ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ جب تم کسی مسلم سے ملو تو اسے سلام کرو ،جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جب تم سے مشورہ اور نصیحت کا طالب ہو تو اسے نصیحت کرو، جب چھینکے تو اس کے الحمدللہ کے جواب میں یرحمک اللہ کہو، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اور جب مر جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ جاؤ۔“
اور صحیح حدیث ہے:
إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ۔ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ۔ (مسلم)
”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا تو تونے میری عیادت کیوں نہیں کی؟ وہ جواب دے گا کہ اے رب العالمین میں تیری عیادت کیسے کر سکتا ہوں توتو تمام جہان کا مالک ہے اللہ فرمائے گا کیا مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تم نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تجھے پتہ نہیں ہے اگر تم اس کی عیادت کو جاتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔“
ان کے علاوہ ایسی بے شمار حدیثیں ہیں۔ جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی عیادت کی ترغیب دی ہے۔ بلکہ اس کا حکم دیا ہے اور اسے اہم اسلامی آداب میں شمار کیاہے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک یہودی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ستایا کرتا تھا بیمار ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کو تشریف لے گئے اس یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
اس اہم اخلاقی فریضے کی اہمیت اس وقت دو چندہو جاتی ہے جب مریض سے کسی قسم کا قریبی تعلق ہو۔ مثلاً رشتہ داری ہو، دوستی ہو، پڑوسی ہو یا آفس میں ایک ساتھ کام کرتا ہو۔
غور طلب بات یہ ہے کہ تمام احادیث میں عیادت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس صیغے کا استعمال کیا ہے اس کے مخاطب مرد اور عورت دونوں ہو سکتے ہیں ۔ اور لفظ"مریض"استعمال کیا ہے جس سے مراد مریض بھی ہو سکتا ہے اور عورت مریضہ بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیادت کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کو دیا ہے خواہ مریض عورت ہو یا مرد۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مریض چاہے مرد ہو یا عورت اس کی عیادت کو جانا مرد اور عورت دونوں پر واجب ہے۔اور دونوں کے حق میں یہ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے۔
اپنی بات کی مزید تقویت کے لیے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے چند عملی نمونے پیش کرتا ہوں جن سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ مریض خواہ مرد ہو یا عورت اس کی عیادت کو جانا اسلامی آداب (Islamic Manners)میں سے ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے عملی نمونوں سے اس کی تعلیم دی ہے۔
بخاری شریف میں ایک باب کا عنوان ہے ”باب عیادۃ النساء للرجال“ (عورتوں کا مردوں کی عیادت کو جانا)اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے چند عملی نمونے پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عورتیں مردوں کی عیادت کو جا سکتی ہیں۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت پیش کی ہے کہ حضرت اُم الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک انصاری صحابی کی عیادت کی۔ ایک دوسری روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے والد محترم! ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کی عیادت کو تشریف لے گئیں اور ان دونوں سے دریافت کیا”کیف تجدک“ آپ کی حالت کیسی ہے؟اسی طرح اُم مبشر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرض موت میں ان کی عیادت کو تشریف لے گئیں اور ان سے فرمایا کہ اے عبدالرحمٰن !میرے بیٹے کو سلام کہنا۔
ان تمام روایتوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ عورتیں مردوں کی عیادت کو گئیں اور ان روایتوں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عورتیں مردوں کی عیادت کو جاسکتی ہیں۔ بشرطیکہ اسلامی آداب کا خاص خیال رکھیں مریض سے تنہائی میں نہ ملیں اور نہ بن سنورکر مریض کے پاس جائیں بلکہ بہتر یہ ہو گا کہ عورتیں گروپ کی شکل میں مریض کی عیادت کو جائیں تاکہ کسی قسم شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔
آپ نے اپنے سوال میں لکھا ہے کہ خوشی کے موقعوں پر آپ ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوتی ہیں اور مبارکباد پیش کرتی ہیں پر ایسا کیوں ہے کہ غم اور بیماری کے موقع پر مردوں کے یہاں جانے میں آپ کھٹک محسوس کرتی ہیں؟حالانکہ خوشی سے زیادہ غم کے موقع پر مزاج پرسی کی ضرورت ہوتی ہے۔جہاں تک مردوں کا کسی مریض عورت کی عیادت کو جانے کی بات ہے تو یہ بھی شرعاً جائز ہے اور اس سلسلے میں بھی متعدد روایتیں موجود ہیں چنانچہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضباعۃ بنت الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عیادت کو تشریف لے گئے اور گفتگو کے دوران ان سے دریافت کیا کہ ”لَعَلَّكِ أَرَدْتِ الْحَجَّ“ یعنی شاید کہ تمھارا حج کا ارادہ ہے؟ جواب میں حضرت ضباعہ نے فرمایا ”وَاللَّهِ لاَ أَجِدُنِي إِلاَّ وَجِعَةً“ یعنی بہ خدا بس تھوڑی تکلیف محسوس کر رہی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج کو جاؤ اور نیت کے دوران شرط باندھ لویہ نیت کر لو کہ اگر بیماری کیوجہ سے حج نہ کر سکی تو مجھ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُم السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عیادت اور مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے اور ان سے دریافت کیا کہ اے اُم السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم کانپ کیوں رہی ہو؟ اُم السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بخار آگیا ہے۔ برا ہواس بخار کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخارکو برا بھلا مت کرو کیوں کہ اس سے انسان کے گناہ دھلتے ہیں۔ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ اُم العلاء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں بیمار تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو تشریف لائے۔بخاری شریعت کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عیادت کو تشریف لے گئے جب کہ وہ مرض الموت میں مبتلا تھیں اور ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت دے دی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس اندر تشریف لے گئے اور ان سے ان کی خیریت دریافت کی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اچھی ہی ہوں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ آپ اچھی ہو جائیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور صرف آپ ہی ہیں جو کنوارا پن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آئیں اور آپ کی بے گناہی کا اعلان آسمان سے نازل ہوا۔
ان تمام متواتر اور صحیح روایتوں کی روشنی میں یہ بات بہ آسانی کہی جا سکتی ہے کہ مرد حضرات بیمار عورتوں کی عیادت کو جاسکتے ہیں۔ بشرطیکہ اسلامی آداب کا خاص خیال رکھا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عملی نمونوں کو پڑھنے اور سننے کے بعد مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے کی عیادت کے لیے جانے کو کیسے ناجائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا محض اس وجہ سے کہ ہمارے معاشرہ کی روایت اس کے خلاف ہے یا ہمارے معاشرہ میں اسے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔
جواب: بلا شبہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور چونکہ قرآن و سنت میں اس سلسلے میں کوئی واضح حکم نہیں ہے اس لیے کسی یقینی رائے تک پہنچنا نہایت مشکل کام ہے۔ تاہم ایک بالغ نظرفقیہ کی ذمے داری ہے کہ قرآن و سنت کی جملہ تعلیمات اور احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی رائے اختیار کرے جس کا مقصد اللہ کو خوش کرنا ہو انسان کو نہیں۔
آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں دو ایسی باتیں بتانا چاہتا ہوں جن پر تمام فقہاء متفق ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اگر شہوت اور جنسی لذت کی خاطر عورتوں سے مصافحہ کیا جائے یا اس عمل میں کسی بڑے فتنے کا حقیقی اندیشہ ہو تو یہ عمل شریعت کی نظر میں جائز نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت بوڑھی عورت یا بہت چھوٹی لڑکی سے مصافحہ کرنا جائز ہے کیوں کہ اس میں کوئی شہوت نہیں ہوتی- اسی طرح بہت بوڑھے مرد کا کسی بھی عمر کی عورت سے مصافحہ کرنا جائز ہے۔کیوں کہ یہ بوڑھا کسی بھی جنسی لذت یا شہوت سے خالی ہوتا ہے۔
روایتوں میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بوڑھی عورتوں سے مصافحہ کیا کرتے تھے۔ یہ بھی روایتوں میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بوڑھی عورت کو اپنے یہاں بہ طور خادمہ رکھا- وہ بوڑھی عورت ان کی خدمت کرتی تھی بسااوقات انھیں خود سے لپٹاتی تھی اور ان کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی تھی۔ اور یہ سارا عمل قرآن کے خلاف نہیں تھا کیوں کہ قرآن نے بوڑھی عورتوں کو وہ رخصت دی ہے جوجوان عورتوں کو نہیں دی ہے:
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَہُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍؚبِزِيْنَۃٍ ۭ وَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّہُنَّ ۭوَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ (النور:60)
”اور جو عورتیں جوانی سے گزر چکی ہوں۔ جنھیں نکاح کی امید نہ ہو وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔ تاہم وہ حیا داری برتیں تو ان کے حق میں بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا جانتا ہے“
اسی طرح وہ بوڑھے مرد جن کی جنسی حس ختم ہو چکی ہے یا وہ چھوٹے بچے جن کے اندر جنسی حس ابھی بیدار نہیں ہوئی ہے ان کے سامنے عورتوں کو زینت و زیبائش کر کے آنے کی اجازت دی گئی ہے:
اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْہَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ (النور: 31)
”یا وہ زیردست مرد جو شہوت نہیں رکھتے ہیں یا وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے ہیں۔“
یہ وہ صورتیں ہیں جن پر علماء کرام متفق ہیں کہ ان صورتوں میں عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز ہے۔ ان کےعلاوہ دوسری صورتوں میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں بحث و تحقیق کی جائے۔
وہ فقہائے کرام جن کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ عورتیں غیر محرموں کے سامنے اپنا چہرہ اور ہتھیلی بھی ڈھک کر رکھیں ان کے نزدیک عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ جب ہتھیلی چھپانا ضروری ہے تو اس کی طرف دیکھنا ہی جائز نہیں ہے اور جب ان کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے۔تو مصافحہ کرنا بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ مصافحہ کی صورت میں ہاتھ کا ہاتھ سے لمس ہوتا ہے۔ لیکن ان فقہائے کرام کی تعداد تھوڑی ہےاکثریت ان فقہائے کرام کی ہے جو غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھولنے کو جائز قراردیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہاتھ کھولنا تو جائز ہے لیکن کیا مصافحہ کرنا بھی جائز ہے اگر یہ مصافحہ لذت کی خاطر نہیں بلکہ سماجی روایات کی وجہ سے کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ مجھے قرآن وسنت میں ابھی تک کوئی ایسی واضح دلیل نہیں ملی جو اس طرح کے مصافحے کو ناجائز قراردے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ یہ عمل باعث فتنہ ہے اور اس فتنے کی وجہ سے اسی عمل کو جائز نہیں ہونا چاہیے ۔ لیکن یہ عمل اس وقت باعث فتنہ ہو سکتا ہے جب مصافحہ جنسی لذت کی خاطر کیا جائے اور ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جنسی لذت کی خاطر مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر مصافحہ جنسی لذت کی خاطر نہیں بلکہ رسم و رواج کی وجہ سے اور روایتی انداز میں کیا جائے تو اس میں کسی قسم کے فتنہ کی گنجائش نہیں ہوتی ہے تو کیا پھر بھی یہ مصافحہ ناجائز قرار دیا جائے گا؟
بعض علمائے کرام عورتوں سے مصافحہ کو ناجائز قراردینے کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں دونوں سے بیعت کی تھی کیوں کہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیا تھا جیسا کہ سورہ ممتحنہ میں اس کا بیان ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی تھی جب کہ عورتوں سے محض زبانی طور پر بیعت کی اور ان سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیعت کے وقت عورتوں سے ہاتھ نہ ملانا اس بات کی واضح دلیل نہیں ہے کہ عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے کام محض اس وجہ سے نہیں کیے کہ یہ کام جائز ہونے کے باوجود ذاتی طور پر آپ کو پسند نہیں تھے۔ مثلاً بنجو کھانا آپ کو پسند نہیں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہیں کھاتے تھے حالانکہ اس کا کھانا حلال ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچی پیاز اور کچا لہسن نہیں کھاتے تھے حالانکہ یہ دونوں چیزیں حلال ہیں۔ محض آپ کا ذاتی عمل تھا اور ہم اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ ہم بھی ان چیزوں کو ناپسند کرکے نہ کھائیں ۔ اسی طرح عورتوں سے بیعت کے وقت ہاتھ ملانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند محسوس ہوا اور آپ نے ہاتھ نہیں ملایا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بھی اس بات کے پابند ہیں کہ ہم اسے ناپسند کریں اور عورتوں سے ہاتھ نہ ملائیں ۔ البتہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول سے بھی اسے منع کرایا ہوتا تو اور بات تھی۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول سے منع نہیں کیا ہے۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی تسلیم شدہ اور متفق علیہ نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کے موقع پر عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ چنانچہ حضرت اُم عطیہ انصاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور بیعت کے موقع پر عورتوں سے ہاتھ ملایا تھا۔ یہ روایت صحیح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور طبری رحمۃ اللہ علیہ میں موجود ہے۔
یہ صحیح ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر عورتوں سے جو بیعت کی تھی اس میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قسم کھا کر فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیعت کے موقع پر عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ البتہ اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کسی اور بیعت کے متعلق فرماتی ہیں کہ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کے وقت عورتوں سے ہاتھ ملایا تھا۔
بعض علمائے کرام عورتوں سے مصافحہ کو
نا جائز قرار دینے کے لیے یہ حدیث بھی بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں۔”لَأنْ يُطعَنَ في رأسِ أحدِكم بمِخيَطٍ من حديدٍ خيرٌ لهُ مِنْ أن يَمَسَّ امرأةً لا تَحِلُّ لهُ “
”تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی چبھوئی جائے بہتر ہے اس بات سے کہ وہ کسی ایسی عورت سے”مس“ ہو جائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔“
یہ حدیث بھی عورتوں سے مصافحہ کو ناجائز قراردینے کے لیے دلیل نہیں بن سکتی کیوں کہ علمائے حدیث نے اس حدیث کو صراحت کے ساتھ صحیح نہیں قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے قدیم علماء نے اس حدیث کو کبھی بہ طور دلیل نہیں پیش کیا ہے۔ اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس حدیث میں جس چیز سے خبردار کیا گیا ہے وہ ہے عورتوں سے’’مس‘‘ کرنا اور ’’مس‘‘ کا مفہوم بدن کے کسی حصہ کا محض چھوجانا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث میں لفظ"مس"دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
(الف) جماع اور ہم بستری کے معنی میں مثلاً سورہ آل عمران کی یہ آیت :
قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ وَلَدٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ ۭ(آل عمران: 47)
”مجھے بچہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے حالانکہ کسی مرد نے مجھے مس نہیں کیا ہے (میرے ساتھ ہم بستری نہیں کی ہے)“
ظاہر ہے کہ صرف چھوجانے سے عورت حاملہ نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے اس آیت میں ”مس“ سے مراد ہے ہم بستری کرنا، اور اسی طرح قرآن میں جہاں جہاں لفظ مس استعمال ہوا ہے وہاں اس کا یہی مفہوم ہے:
(ب)ہم بستری سے پہلے جوحرکتیں ہوتی ہیں مثلاً بوسہ لینا گلے لگانا اور جسم سے لگا کربھیجنا وغیرہ قرآن کے ”الفاظ“ ”اَوْ لَا مَسْتُمُ النِّسَاءَ“ کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے یہی مفہوم اخذ کیا ہے۔
الغرض قرآن و حدیث میں کوئی ایسی واضح اور صریح دلیل نہیں ہے جو جسم کے کسی حصے سے محض چھو جانے کوناجائز قراردے۔ بلکہ اس کے برعکس ایسی دلیلیں پائی جاتی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ عورت اور مرد کا ہاتھ محض چھوجانا کوئی قابل گرفت عمل نہیں ہے۔ بشرطیکہ یہ شہوت اور جنسی لذت کی خاطر نہ ہو اور نہ اس میں کسی قسم کا فتنہ ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر کریں تو معلوم ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ عورتوں کے ہاتھ میں گیا ہے۔ اگر یہ کام ناجائز ہوتا تو ہر عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر گز سر زد نہ ہوتا۔چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ” اگر مدینہ کی ایک لونڈی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتی تو جہاں چاہے لے جاتی ۔“ یہی حدیث مسند احمد میں بھی ہے اور اس کے الفاظ یوں ہیں۔”مدینہ کی کوئی لونڈی اگر آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑا تے اور وہ جہاں چاہتی لے جاتی۔“
علامہ حافظہ ابن حجر بخاری شریف کی مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر حددرجہ تواضع اور انکساری تھی کہ اگر لونڈی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہیں لے جانا چاہتی تو آپ تو اضعاً اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے اوراس کے ساتھ چل دیتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لونڈی کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کا ہاتھ پکڑنا جائز ہے۔ بشرطیکہ یہ شہوت اور جنسی لذت کی خاطر نہ ہو یا اس میں کسی قسم کا فتنہ نہ ہو۔ اگر یہ کام جنسی لذت کی خاطر ہو یا اس عمل میں کسی فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر یہ عمل ناجائز قرارپائے گا۔
مذکورہ حدیث سے بھی زیادہ واضح اور صریح ہے جو کہ بخاری اور مسلم کی حدیث ہے وہ یہ کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ اور عبادہ الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی یعنی اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر پر قیلولہ فرمایا اور ان کی گود میں سو گئے اور وہ آپ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی رہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ مہمان اپنے میزبان کے گھر میں اس کی اجازت سے قیلولہ کر سکتا ہے اور یہ کہ عورت اپنے محرم اور اجنبی مہمان کی خدمت کر سکتی ہے۔ اسے کھانا پانی دے سکتی ہے اور اس کے آرام کا انتظام کر سکتی ہے۔
چونکہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی ہے اس لیے عام طور پر یہ حدیث پڑھ کر وہ لوگ بڑی مشکل میں پڑجاتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ذرا سخت گیر واقع ہوئے ہیں ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غیر محرم عورت کی گود میں سر کیسے رکھا اور اپنے بالوں میں ان کی انگلیوں سے کنگھا کروایا اور پھر سوگئے۔جان چھڑانے کے لیے یہ لوگ یہ تاویل کرتے ہیں کہ اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں یا خالہ تھیں۔ اور بعض یہ تاویل کرتے ہیں۔ کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا دوسروں کے لیے یہ عمل جائز نہیں ہے بعض یہ تاویل کرتے ہیں کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جذبات پر بہت زیادہ قابو تھا اس لیے آپ کے لیے یہ عمل جائز تھا ۔
یہ تمام تاویلیں ناقابل قبول ہیں۔ چنانچہ علامہ حافظ ابن حجر قاضی عیاض اور دیگر بزرگ علماء ان تاویلوں کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں یا خالہ ہونا کسی بھی حوالہ سے ثابت نہیں ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا کیوں کہ اس عمل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ثابت کرنے کے لیے کوئی واضح دلیل چاہیے لیکن اس کے لیے کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے اس لیے ہم محض اپنی مرضی سے کسی عمل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں کر سکتے۔اور یہ کہنا بھی کافی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نفسانی خواہشات پر بہت زیادہ قابوتھا اس لیے یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز تھا۔ کیوں کہ خواہشوں پر قابو پانے کی وجہ سے کوئی ناجائز عمل جائز نہیں ہو سکتا ہے اور اس لیے بھی کہ اگر خواہشات پر قابو پانے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ عمل جائز تھا تو پھر یہ عمل ان کی امت میں سے ہر اس شخص کے لیے جائز ہونا چاہیے جسے اپنی خواہشات پر قابو ہو۔ اس لیے تاویلوں کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو جائز قراردینا نا مناسب اقدام ہے۔زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ ہم بغیر کسی تاویل کے ہی تسلیم کر لیں کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کا عمل کیا اس لیے یہ عمل جائز ہے۔ بغیر کسی شہوت کے کسی عورت سے مصافحہ کرنے کا جواز اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی اس حدیث سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے جس کا تذکرہ ہم اوپر کر آئے ہیں اور جس میں اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ کسی بیعت کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے ہاتھ ملایا تھا۔
ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر کسی شہوت اور جنسی لذت کے کسی عورت سے ہاتھ ملانا اور مصافحہ کرنا شرعاً جائز ہے۔ خاص کر ایسی صورت حال میں کہ دونوں کے درمیان کوئی قریبی رشتہ داری ہو اور دونوں عرصہ کے بعد ملے ہوں یا عیدوبقرعیدوغیرہ کا موقع ہو۔
لیکن مناسب یہ ہو گا کہ مصافحہ کا جواز صرف ضرورت کی حد تک محدود ہو۔ اسی وقت مصافحہ کیا جائے جب اس کی شدید ضرورت ہو مثلاً یہ کہ مصافحہ نہ کرنے کی صورت میں کدورت اور دشمنی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ جیسا کہ آپ نے اپنے سوال میں لکھا ہے۔ اور مناسب یہ ہوگا کہ عورتوں سے مصافحہ کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ البتہ اگر ان کی طرف سے پہل ہو تو پھر مصافحہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مصافحے کے جواز کا میرا یہ فتوی اس شخص کے لیے ہے جس کے لیے مصافحہ کرنا ناگزیر ہو جائے۔ جیسا کہ سوال کرنے والے نے اپنی حالت لکھی ہے اور ایسے شخص کو مصافحہ کرتے ہوئے یہ نہیں محسوس کرنا چاہیے کہ وہ کوئی خلاف شرع کام کر رہا ہے۔ اور نہ کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے اس عمل کو خلاف شرع قراردے کیوں کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور اجتہادی مسائل میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اور میں نے نہایت ایمان داری کے ساتھ اور تمام دلائل کی روشنی میں اجتہاد کر کے اپنی یہ رائے قائم کی ہے۔
اگر عورت کی جسمانی ساخت پر غورکیا جائے تو معلوم ہو گا کہ عورت کا سب سے عظیم کام اور اس کی سب سے نمایاں ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس طرح تعلیم وتربیت کرے کہ مستقبل میں یہ بچے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں رول ادا کر سکیں۔اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ آج کے بچے مستقبل کے معمار ہیں تو پھر ان کی بہتر اور مکمل تربیت سے زیادہ نفع بخش کام اور کون سا ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خالق کائنات نے بھی عورت کو جسمانی اور ذہنی اعتبار سے اس ذمے داری کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے۔ مستقبل کا تعلق خواہ دنیا وی بہبود سے ہو یا آخرت کی فلاح و کامرانی سے عورت اگر اپنے بچوں کی اس رخ پر تربیت کرتی ہے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ عورت کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون اور آرام دہ بنانے کی بھر پورسعی کرے۔ اپنے شوہر اور بچوں کو راحت اور سکون پہنچانے کے لیے کام کرے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھر سے باہر جا کر نوکری کرنے کی گنجائش عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے کہ گھر سے باہر نکل کر عورتوں کا نوکری کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ جب شریعت نے یہ چیزحرام نہیں کی ہے۔ تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک حلال چیز کو حرام قراردے۔ ویسے بھی اسلامی فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اصولی طور پر حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں قرآن و حدیث میں واضح طور پر حرام قراردیا گیا ہے اس لیے اصولی طور پر یہ چیز جائز اور حلال ہے۔ اس قاعدے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کا نوکری کرنا جائز ہے بلکہ اگر وہ مطلقہ یا بیوہ ہے اور آمدنی کے سارے راستے اس پر بند ہوں تو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ اگر وہ نوکری یاجاب کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے تو اسے چاہیے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے ملازمت کر لے۔ تاکہ وہ تمام رسوائیوں سے محفوظ رہے بعض حالات میں شوہر کی موجودگی میں بھی عورت کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ مثلاً شوہر کی آمدنی اخراجات کے لیے ناکافی ہو یا عورت کے بوڑھے ماں باپ ہوں اور چھوٹے چھوٹے بھائی بہن ہوں وغیرہ۔ان حالات میں اسے ملازمت کا اختیار ہے۔ اسی طرح کی صورت حال کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو:
قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاۗءُ ۫ وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ (القصص: 23)
”انھوں نے کہا ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتے جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں۔“
باپ چونکہ بوڑھے تھے اس لیے گھر سے باہر جا کر پانی بھرنے اور دوسرے کام کرنے کی ذمے داری ان دونوں جوان بیٹیوں پر تھی ۔ یہ بوڑھے باپ جیسا کہ دوسرے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے اللہ کے نبی تھے۔
اس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر سے باہر نکل کر اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھیں گھوڑوں کی مالش کرتی تھیں ان کے لیے دانے کوٹتی تھیں اور دور کسی باغ سے یہ دانے اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ امت مسلمہ تعلیم اور دوسری ترقیوں کے میدان میں کافی پیچھے رہ گئی ہے اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہماری مسلم عورتوں میں بھی ڈاکٹر ہوں، نرس ہوں، لیکچرر اور پروفیسر ہوں، عورتیں بیمار ہوتی ہیں تو مسلمان لیڈی ڈاکٹرنہ ملنے کی وجہ سے مجبوراًمرد ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے جانا پڑتا ہے۔ اسکول اور کالج میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے غیر مسلم اساتذہ اور لیکچررہوتے ہیں۔ جن سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کی تربیت اسلامی انداز میں کریں گے۔ غرض کہ دور حاضر میں بہت سارے ایسے پرو فیشن(Profession)ہیں جن میں مسلم عورتوں کی شدید قلت ہے۔ اس قلت کی وجہ سے مسلم معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہماری عورتیں بھی ان شعبوں میں آئیں۔ بہر کیف ضرورت اور حالات کے مطابق عورت کا نوکری کرنا جائز اور حلال ہے لیکن اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کرنا ضروری ہے:
(1) یہ ضروری ہے کہ نوکری میں کوئی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز اور غلط ہو۔ مثلاً کسی کنوارے لڑکے کے یہاں خادمہ کی نوکری کرنا یا کسی شخص کی پرسنل سکریٹری بننا کیوں کہ تنہائی میں کسی غیر مرد کے ساتھ وقت گزارنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ڈانس اور گانے وغیرہ کی نوکری ہویا ایر ہوسٹس کی نوکری کرنا کیوں کہ غیر شرعی لباس پہننا اور شراب پیش کرنا اور تنہائی میں غیر مردوں کے ساتھ رہنا اس نوکری کے لازمی اجزا ہیں اسی طرح ہر وہ نوکری جس میں کوئی غیر شرعی کام ہو جائز نہیں ہے:
(2) یہ ضروری ہے کہ نوکری کرتے ہوئے عورت تمام اخلاقی اور اسلامی آداب کا خیال رکھے۔
(3) یہ ضروری ہے کہ اس کی نوکری کرنے سے اس کی دوسری اولین اور زیادہ اہم ذمے داریاں متاثر نہ ہوں۔ مثلاً بچوں کی نگہداشت اور امور خانہ داری میں غفلت نہ ہو یا اس کی نوکری کی وجہ سے گھر کا سکون و آرام غارت نہ ہو۔ کیوں کہ بچوں کی نگہداشت اور گھر کے ماحول کو پر سکون بنانا عورت کی اولین ذمے داری ہے۔
اگر عورت کی جسمانی ساخت پر غورکیا جائے تو معلوم ہو گا کہ عورت کا سب سے عظیم کام اور اس کی سب سے نمایاں ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس طرح تعلیم وتربیت کرے کہ مستقبل میں یہ بچے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں رول ادا کر سکیں۔اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ آج کے بچے مستقبل کے معمار ہیں تو پھر ان کی بہتر اور مکمل تربیت سے زیادہ نفع بخش کام اور کون سا ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خالق کائنات نے بھی عورت کو جسمانی اور ذہنی اعتبار سے اس ذمے داری کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے۔ مستقبل کا تعلق خواہ دنیا وی بہبود سے ہو یا آخرت کی فلاح و کامرانی سے عورت اگر اپنے بچوں کی اس رخ پر تربیت کرتی ہے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ عورت کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون اور آرام دہ بنانے کی بھر پورسعی کرے۔ اپنے شوہر اور بچوں کو راحت اور سکون پہنچانے کے لیے کام کرے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھر سے باہر جا کر نوکری کرنے کی گنجائش عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے کہ گھر سے باہر نکل کر عورتوں کا نوکری کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ جب شریعت نے یہ چیزحرام نہیں کی ہے۔ تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک حلال چیز کو حرام قراردے۔ ویسے بھی اسلامی فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اصولی طور پر حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں قرآن و حدیث میں واضح طور پر حرام قراردیا گیا ہے اس لیے اصولی طور پر یہ چیز جائز اور حلال ہے۔ اس قاعدے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کا نوکری کرنا جائز ہے بلکہ اگر وہ مطلقہ یا بیوہ ہے اور آمدنی کے سارے راستے اس پر بند ہوں تو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ اگر وہ نوکری یاجاب کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے تو اسے چاہیے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے ملازمت کر لے۔ تاکہ وہ تمام رسوائیوں سے محفوظ رہے بعض حالات میں شوہر کی موجودگی میں بھی عورت کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ مثلاً شوہر کی آمدنی اخراجات کے لیے ناکافی ہو یا عورت کے بوڑھے ماں باپ ہوں اور چھوٹے چھوٹے بھائی بہن ہوں وغیرہ۔ان حالات میں اسے ملازمت کا اختیار ہے۔ اسی طرح کی صورت حال کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو:
قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاۗءُ ۫ وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ (القصص: 23)
”انھوں نے کہا ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتے جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں۔“
باپ چونکہ بوڑھے تھے اس لیے گھر سے باہر جا کر پانی بھرنے اور دوسرے کام کرنے کی ذمے داری ان دونوں جوان بیٹیوں پر تھی ۔ یہ بوڑھے باپ جیسا کہ دوسرے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے اللہ کے نبی تھے۔
اس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر سے باہر نکل کر اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھیں گھوڑوں کی مالش کرتی تھیں ان کے لیے دانے کوٹتی تھیں اور دور کسی باغ سے یہ دانے اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ امت مسلمہ تعلیم اور دوسری ترقیوں کے میدان میں کافی پیچھے رہ گئی ہے اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہماری مسلم عورتوں میں بھی ڈاکٹر ہوں، نرس ہوں، لیکچرر اور پروفیسر ہوں، عورتیں بیمار ہوتی ہیں تو مسلمان لیڈی ڈاکٹرنہ ملنے کی وجہ سے مجبوراًمرد ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے جانا پڑتا ہے۔ اسکول اور کالج میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے غیر مسلم اساتذہ اور لیکچررہوتے ہیں۔ جن سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کی تربیت اسلامی انداز میں کریں گے۔ غرض کہ دور حاضر میں بہت سارے ایسے پرو فیشن(Profession)ہیں جن میں مسلم عورتوں کی شدید قلت ہے۔ اس قلت کی وجہ سے مسلم معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہماری عورتیں بھی ان شعبوں میں آئیں۔ بہر کیف ضرورت اور حالات کے مطابق عورت کا نوکری کرنا جائز اور حلال ہے لیکن اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کرنا ضروری ہے:
(1) یہ ضروری ہے کہ نوکری میں کوئی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز اور غلط ہو۔ مثلاً کسی کنوارے لڑکے کے یہاں خادمہ کی نوکری کرنا یا کسی شخص کی پرسنل سکریٹری بننا کیوں کہ تنہائی میں کسی غیر مرد کے ساتھ وقت گزارنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ڈانس اور گانے وغیرہ کی نوکری ہویا ایر ہوسٹس کی نوکری کرنا کیوں کہ غیر شرعی لباس پہننا اور شراب پیش کرنا اور تنہائی میں غیر مردوں کے ساتھ رہنا اس نوکری کے لازمی اجزا ہیں اسی طرح ہر وہ نوکری جس میں کوئی غیر شرعی کام ہو جائز نہیں ہے:
(2) یہ ضروری ہے کہ نوکری کرتے ہوئے عورت تمام اخلاقی اور اسلامی آداب کا خیال رکھے۔
(3) یہ ضروری ہے کہ اس کی نوکری کرنے سے اس کی دوسری اولین اور زیادہ اہم ذمے داریاں متاثر نہ ہوں۔ مثلاً بچوں کی نگہداشت اور امور خانہ داری میں غفلت نہ ہو یا اس کی نوکری کی وجہ سے گھر کا سکون و آرام غارت نہ ہو۔ کیوں کہ بچوں کی نگہداشت اور گھر کے ماحول کو پر سکون بنانا عورت کی اولین ذمے داری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں رائج شدہ نقاب یا برقع کو بدعت کہنا اور یہ دعوی کرنا کہ اسلامی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے علمی اعتبار سے اس دعوی میں کوئی سچائی نہیں ہے بلکہ حقائق کی غلط عکاسی ہے۔دراصل نقاب کا استعمال بدن کے ساتھ ساتھ چہرہ اور ہاتھ چھپانے کے لیے ہوتا ہے۔ ورنہ پردہ بغیر نقاب کے بھی ہو سکتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پردہ میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ صحابہ کرام کے دور ہی سے اس بات پر اختلاف رہا کہ چہرہ اور ہاتھ چھپانا بھی ضروری ہے یا نہیں - فقہائے کرام کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھ کو چھپانا ضروری نہیں ہے۔
اسی طرح علمائے کرام مندرجہ ذیل آیت میں لفظ ”جلابیب“ کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ اس سے کون سا لباس مراد ہے۔ وہ آیت کریمہ یہ ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ( الاحزاب: 59)
”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر جلابیب ڈال لیا کریں۔ اس طرح ان کی پہچان واضح رہے گی اور لوگ انھیں تنگ نہیں کریں گے۔ اوراللہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“
بعض علمائے کرام کے نزدیک جلا بیب وہ لباس ہے جو بدن کے ساتھ چہرہ اور ہاتھ کو بھی چھپائے اور اکثریت کی رائے یہ ہے کہ جلابیب کے دائرے میں چہرے اور ہاتھ کو چھپانا نہیں آتا میرا موقف یہ ہے کہ پردے میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا ضروری نہیں ہے یہی موقف عرب و عجم کے جمہور علماء کا ہے البتہ سعودی عرب اور ہندوستان و پاکستان کے علماء اس موقف سے اختلاف رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پردے میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا لازمی ہے۔سعودی عرب کے علماء میں سر فہرست مرحوم شیخ عبد اللہ بن باز ہیں اور ہندو پاک میں سر فہرست مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہیں انھوں نے اپنی کتاب "پردہ" میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ چہرہ کا چھپانا ضروری ہے۔ سلف صالحین میں بھی ایسے قابل قدر علماء کرام موجود تھے جو پردہ میں چہرہ کا چھپانا ضروری تصور کرتے تھے کیوں کہ عورت کاحسن اس کے چہرے سے مترشح ہوتا ہے اور چہرہ کھلا رکھنا باعث فتنہ ہو سکتا ہے۔ اس موقف کے پیش نظر نقاب کا استعمال پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہو تا ہے۔ چونکہ چہرہ چھپانا اس کا کھلا رکھنا ایک اختلافی مسئلہ ہے اس لیے ہر صاحب رائے کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے موقف کے مطابق عمل کرے۔ اگر کسی کا موقف یہ ہے کہ چہرہ چھپانا لازمی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے موقف کے مطابق عمل کرے اور کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے غلط یا گمراہ یا بدعت قراردے۔
جو عورتیں چہرہ چھپانے کے حق میں ہیں اور سمجھتی ہیں کہ نقاب لگا کر ہی پردہ کا اہتمام ہو سکتا ہے تو انھیں اس رائے کے اختیار اور اس کے مطابق عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اگر ہم انھیں اس آزادی سے محروم کر دیں گے تو شریعت کی نظر میں ایک غلط اقدام ہوگا۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی عورت چہرہ چھپانا ضروری نہیں سمجھتی ہے اس کے باوجود محض اختیاطاًاپنا چہرہ چھپاتی ہے اور نقاب لگاتی ہے تو ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اسے عمل سے منع کر دیں۔
حیرت ہے ان علماء پر جو نقاب کو بدعت قراردینے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ سلف صالحین کے زمانے سے ہی اس نقاب کا رواج ہے اور عورتیں شریعت کا حکم سمجھ کر یہ نقاب لگاتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ نقاب کی آڑ میں نقاب لگانے والیوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور نقاب کی مخالفت کی جاتی ہے۔ حالانکہ نقاب بہرحال ایک خالص اسلامی لباس ہے اور ان عورتوں کو کچھ نہیں کہا جاتا ہے جو تنگ اور مختصر کپڑے پہن کراور چہرے پر ہزار قسم کے میک اپ کر کے کالجوں یونیورسٹیوں اور بازاروں میں دندناتی پھرتی ہیں۔اس غیر اسلامی لباس کی انھیں ہمارے معاشرے میں پوری آزادی ہے اور کوئی بھی ان پر تنقید کرنے کی جرأت نہیں کرتا ہے اور اگر جرأت کرے تو دقیانوسی کٹرپنتھی اور نہ جانے کیا کیا سمجھا جاتا ہےحالانکہ اس طرح کے غیر شرعی لباس زیب تن کرنے والیوں پر حدیث میں لعنت کی گئی ہے۔
جواب: صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے زمانے ہی سے فقہائے کرام کی اکثریت کا موقف یہ رہا ہے کہ پردے میں نقاب کا استعمال لازمی اور ضروری نہیں ہے اور یہ کہ چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ ذیل میں میں ہر مسلک کا موقف مختصراًبیان کرتا ہوں۔
(1) امام ابو حنیفہؒ کا مسلک
احناف کی مشہور کتاب ”الاختیار التعلیل المختار“ میں اس موضوع پر یوں بحث کی گئی ہے:”کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔بشرطے کہ چہرہ اور ہاتھ دیکھنے میں کوئی جنسی لذت نہ ہو۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ پیر بھی کھلارکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ کام کاج اور گھریلو مصروفیات کی وجہ سے جس طرح ہاتھ کھلا رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح پیر کا کھلا رکھنا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔“
(2) امام مالکؒ کا مسلک
مالکی مسلک کی مشہور کتاب ”اقرب المسالک الی مذہب مالک“ کی عبارت کچھ یوں ہے:”غیر محرم مرد کے سامنے عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے کیوں کہ یہ دونوں چیزیں ستر میں شامل نہیں ہیں۔ اور ان کا کھلا رکھنا جائز ہے۔بشرطے کہ شہوت کی نظر نہ ہو۔“
(3) امام شافعی ؒکا مسلک
شافعی مسلک کی مشہورکتاب ”المہذب“ میں اس موضوع پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے:
”آزاد عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں عورت کو ہاتھ میں دستانہ اور چہرہ پر نقاب لگانے سے منع فرمایا ہے۔اگر چہرہ اور ہاتھ بدن کے دوسرے اعضاء کی طرح ان کا چھپانا بھی ضروری ہوتا اور اس لیے بھی کہ کام کاج کی وجہ سے ان کا کھلا رکھنا ضروری ہوتا ہے اور ان کے چھپانے میں زبردست اذیت اور پریشانی ہے۔“
(4) امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک
حنبلی مسلک کی مشہور کتاب ”المغنی“ میں کچھ اس قسم کے الفاظ ہی:”حنبلی مسلک میں اس بات پر اختلاف نہیں ہے کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھنا جائز ہے البتہ ان کے علاوہ کچھ اور کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔“
یہ تو ہوئی چاروں مشہور مسالک کی رائے ان کے علاوہ بھی دوسرے مشہور اور قابل قدر علماء اور فقہاء ہیں جن کی یہی رائے ہے۔ چنانچہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ بھی عورت کے ستر سے چہرے اور ہاتھ کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں جیسا کہ ان کی کتاب ”المحلیٰ“ میں درج ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”المجموع“ میں اس موضوع پر علماء کی رائے لکھتے ہوئےکہتے ہیں ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ شافعی رحمۃ اللہ علیہ مالک رحمۃ اللہ علیہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے بہت سارے علماء کی رائے یہ ہے کہ عورت کا پورا بدن سترہے۔ سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ یہی مسلک امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ یہ تمام علمائے کرام اپنے مسلک کی حمایت میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں انھیں میں ذیل میں مختصراً بیان کرتا ہوں۔
(1) قرآن کی آیت وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا”اور وہ اپنی زینت و زیبائش کھلانہ رکھیں مگروہ جو خود بخود ظاہر ہو جائے“ کی تفسیر میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اکثریت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے مراد چہرہ اور ہاتھ لیتی ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے اس موقف کی تائید ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حدیث کرتی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں ان کے بدن پر باریک اور شفاف کپڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نگاہیں پھیر لیں اور فرمایا کہ اے اسماء عورت جب بالغ ہو جائے تو مناسب نہیں ہے کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے اور آپ نے چہرے اور ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ اس مفہوم کی دوسری حدیثیں بھی ہیں۔
(2) سورہ نورکی آیت وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیاہے کہ وہ اپنے ”خمار“ سے اپنے سینے کو ڈھک کر رکھیں۔”خمار“ وہ دوپٹا ہے جسےعورتیں اپنے سر پر رکھتی تھیں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ سر کے دوپٹے سے سرکے علاوہ سینے کو بھی ڈھک کر رکھیں۔ اگرچہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو انھیں سینہ کے ساتھ چہرہ چھپانے کا بھی حکم دیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں چہرے کا ذکر نہیں کیا ہےبلکہ صرف سینہ کا ذکر کیا ہے۔اس سے اس بات کی صراحت ہو جاتی ہے۔ کہ چہرہ چھپانا ضروری نہیں ہے۔
(3) سورہ نور کی آیت قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْمیں اللہ نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں یعنی خواہ مخواہ عورتوں پر نگاہیں نہ ڈالتے پھریں ۔ کسی موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بار بار کسی خوبصورت عورت کی طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ“ (ترمذی ) (ایک نظر کے بعد دوسری نظر مت ڈالو کیوں کہ پہلی نظر تو جائز ہے لیکن دوسری نہیں )
غور طلب بات یہ ہے کہ عورتیں اگر مکمل برقع پوش ہوں اور ان کے ہاتھ اور چہرے بھی نظر نہ آئیں تو پھر نگاہیں نیچی رکھنے اور ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنے کا حکم کیا معنی رکھتا ہے۔
نظر باربار ادھر اٹھتی ہے جہاں کشش ہوتی ہے۔ اور یہ کشش عورت کے چہرے میں ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حکم نہیں دیا کہ تم اپنی اس کشش کو چھپا کر رکھو بلکہ مردوں کو حکم دیا کہ نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار اس پرکشش چیز کی طرف نگاہ نہ اٹھاؤ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں۔ اسی لیے مردوں کو حکم دیا گیا کہ تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار ان کی طرف نہ دیکھو ۔ اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو عورتوں کو بھی حکم دیا جاتا کہ اپنے چہرے کو چھپاکر رکھو اور ایسی صورت میں مردوں کو نظر نیچی رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا ۔
(4) اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے:
لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُہُنَّ ۔ (الاحزاب: 52)
”اس کے بعد تمھارے لیے عورتوں سے شادی کرنا حلال نہیں ہے اور نہ یہ حلال ہے کہ ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آؤخواہ ان عورتوں کا حسن تمھیں کتنا ہی بھلا کیوں نہ لگے۔“
سوچنے کی بات ہے کہ اگر چہرہ کھلا نہ ہو تو کسی کو کیسے معلوم ہو گا کہ فلاں عورت خوبصورت ہے یا بد صورت ۔ کیوں کہ چہرے ہی سے عورت کی خوب صورتی یا بد صورتی کا حال معلوم ہوتا ہے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور عین ممکن تھا کہ اپنے حسن کی وجہ سے کوئی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آجائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اب مزید شادی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کر دیا۔
(5) دلائل اور حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں پردہ کرتی تھیں لیکن نقاب کا استعمال نہیں کرتی تھیں اور چہرہ کھلا رکھتی تھیں مثال کے طور پر چند دلیلیں پیش کر رہا ہوں۔
مسلم شریف کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کسی عورت پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عورت اچھی لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لائے اور ان سے اپنی جنسی خواہش پوری کی اور فرمایا:
ان المرأۃ تقبل فی صورۃ شیطان و تدبر فی صورۃ شیطان فاذا رأی احدکم امرأۃ فاعجبتہ فلیات اھلہ فان ذاک یردما فی نفسہ۔ (مسلم)
”عورت شیطان کی صورت میں آتی اور جاتی ہے(اسے دیکھ کر آدمی بہکنے کی پوزیشن میں ہو جاتا ہے) پس اگر تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے اچھی لگے تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس چلا جائے ۔ کیوں کہ یہ چیز اس کے دل میں جو خواہش ہے اسے ختم کر دے گی۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جس عورت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی تھی اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔اور اسی وجہ سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی لگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ انسان تھے اور بشری تقاضے کے تحت ان کے دل میں بھی جنسی خواہشیں پیدا ہوتی تھیں لیکن ایسے موقعے پر کوئی غلط قدم اٹھانے کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے پاس چلے آتے اور ان سے اپنی ضرورت پوری کرتے۔ اور یہی تعلیم آپ نے اپنی امت کو بھی دی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس طرح آپ نے اپنی امت کو غلط حرکت کی بجائے اپنی بیوی کے پاس جانے کا حکم دیا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی چہرہ ڈھک کر رکھنے کا حکم دے سکتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کوئی ایسا حکم نہیں دیا۔
اسی طرح ایک حدیث بخاری اور مسلم کی ہے جس کی روایت حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ خود کو آپ کے حوالہ کردوں(آپ سے شادی کر لوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی طرف نظر اٹھائی اور دیر تک اسے دیکھتے رہے پھر نظر گھمالی۔ عورت نے سمجھ لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں اور اس کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر بھی وہ بیٹھی رہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تشریف فرما تھے۔ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتے تو میری شادی کرادیجیے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ مسلم عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس آکر بیٹھی اور اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیر تک دیکھتے رہے اس کا چہرہ کھلا ہونے کی وجہ سے کسی اور صحابی کو وہ عورت پسند آگئی اور انھوں نے شادی کی درخواست کر ڈالی۔
سنن نسائی کی ایک حدیث ہے جس کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سوال کرنے آئی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرا ہ تھے۔ وہ اس عورت کی طرف بار بار مڑ کر دیکھنے لگے کیوں کہ وہ خوب صورت تھی۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم با ر بار فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرہ دوسری طرف کر دیتے تھے۔
اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو بھرے مجمع میں چہرہ کھلا رکھنے پر یقیناً تنبیہ کرتے اور خاص کر ایسی حالت میں کہ لوگ اس کے حسن کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہو رہے تھے سنن ترمذی میں یہی روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے مذکورہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن دوسری طرف موڑدی ان کے والد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ نے فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن دوسری طرف کیوں گھمائی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں نے ایک نوجوان لڑکے اور نوجوان لڑکی کو اس حالت میں دیکھا کہ شیطان انھیں بہکانے میں مصروف تھا۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر چہرہ کھلا رکھنا جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو اس کے کھلے چہرے پر ضرور تنبیہ کرتےخاص کر ایسی حالت میں کہ شیطان ان دونوں کو بہکانے کی کوشش کر رہاتھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو چہرہ ڈھکنے کی بجائے صرف فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اپنا رخ دوسری طرف کر لیں۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام کی وجہ سے عورت سے بات کرنا ضروری ہواور شیطان کے بہکانے کا خوف نہ ہو تو اس کی طرف دیکھنا بھی جائز ہے۔
ایسی ہی ایک حدیث بخاری شریف میں ہے جس کی روایت حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز کے لیے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے قبل نماز پڑھائی پھر عورتوں کی طرف تشریف لے گئے اور انھیں نصیحتیں کیں اور فرمایا کہ عورتو! تم صدقہ دیا کرو کیوں کہ تم میں اکثریت جہنم کی ایندھن ہے۔ جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک معزز عورت کھڑی ہوئی اور اس کے دونوں گال سرخ مائل کالے ہو رہے تھے۔ اس نے دریافت کیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں عورتوں کی اکثریت جہنم کی ایندھن کیوں بنے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ ”اس لیے کہ تم بہت زیادہ شکایتیں کرتی ہواور اپنے شوہر کی نا فرمانی کرتی ہو۔ چنانچہ عورتوں نے صدقہ کرنا شروع کیا حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا کپڑا پھیلائےہوئے تھے اور عورتیں اپنے کان کی بالیاں اور انگوٹھیاں اتاراتار کر اس میں رکھنے لگیں۔“
اس روایت سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی تو حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہو سکا کہ اس عورت کے دونوں گال سرخی مائل کالے تھے۔
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ہم عورتیں چادر اوڑھ کر فجر کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں باجماعت ادا کرتے۔پھر نماز سے فراغت کے بعد اپنے گھروں کو واپس آ جاتے تاریکی کی وجہ سے ہمیں کوئی پہچان نہیں پاتا تھا۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرتاریکی نہ ہوتی تو انھیں پہچان لیا جاتا اور معلوم ہو جا تا کہ کون کون سی عورتیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ کسی عورت کو اسی وقت پہچانا جاسکتا ہے جب کہ اس کا چہرہ کھلا ہوا ہو۔
یہ تمام حدیثیں ثابت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی انھیں چہرہ چھپانے کا حکم نہیں دیا اور نہ چہرہ کھلا رکھنے پر کبھی ان کی سرزنش کی۔
(6) صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چہرے پر نقاب لگانے کا رواج نہیں تھا بلکہ چہرے پر نقاب لگانے والیوں کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا چنانچہ ابو داؤد کی روایت ہے جس کے راوی حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن شماس ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس کے چہرے پر نقاب تھا۔ وہ اپنے مقتول بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی تھی۔ ایک صحابی نے حیرت سے کہا کہ تم چہرے پر نقاب لگاکر اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی ہو؟ اس عورت نے جواب دیا کہ میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے لیکن اپنی شرم نہیں کھوئی ہے۔ ابو داؤد نے یہ حدیث کتاب الجہاد میں بیان کی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کے نقاب لگانے پر تعجب تھے کیوں کہ یہ چیز معاشرے کے رواج سے ہٹی ہوئی تھی۔ اس تعجب کے اظہار پر عورت نے یہ نہیں جواب دیا کہ تم لوگ تعجب کیوں کرتے ہو۔ میں نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق یہ نقاب لگایا ہے بلکہ اس نے یہ جواب دیا کہ شرم و حیا کی وجہ سے اس نے چہرہ پر نقاب ڈال لیا ہے۔ اگر نقاب لگانا اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کبھی اس کے نقاب لگانے پر نہ تعجب کرتے اور نہ اس عورت سے ایسا سوال کرتے۔
(7) اگر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت عورت کی اپنی شخصیت جانی پہچانی رہے خریدو فروخت اور دوسرے لین دین کے معاملات میں یہ ضروری ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ اس کا معاملہ ہو رہا ہو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ عورت کون ہے۔ اسی لیے تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ عدالت میں گواہی کے موقع پر عورت کا چہرہ کھلا رہنا ضروری ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ گواہی دینے والی عورت کون ہے؟
ان لوگوں کے دلائل جو چہرہ پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تلاش بسار کے باوجود چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردینے کے لیے مجھے قرآن و حدیث سے کوئی ایسی دلیل نہ مل سکی جسے صریح اور دوٹوک کہی جا سکے۔ اور یہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ان علماء کی تعداد نہایت کم ہے جو چہرے پر نقاب کو لازمی قراردیتے ہیں یہ علماء اپنی رائے کے حق میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں ان کا بیان حسب ذیل ہے:
(1) يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ( الاحزاب: 59)
”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔“
اس آیت میں ”جلابیب“ کی تشریح کرتے ہوئے یہ علماء فرماتے ہیں کہ جلابیب اسے کہتے ہیں جس سے پورا بدن حتی کہ ہاتھ اور چہرہ بھی ڈھک جائے اور صرف آنکھ کھلی ہو۔لیکن جلا بیب کی بہ تشریح خود ان کی اپنی تشریح ہے۔ قرآن و سنت میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری ہے۔
(2)سورہ نور آیت وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ میں إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفسیر کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا اوپری کپڑاہے۔ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود بہ خود ظاہر ہو جاتا ہے یعنی ان کا اوپری لباس کیوں کہ اسے چھپانا ممکن نہیں ہے۔لیکن ان کی یہ تفسیر کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتی ہے کیوں کہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کا اضافہ کر کے اللہ تعالیٰ نے پردے کے حکم میں کچھ تخفیف اور آسانی عطا کرنی چاہی ہے۔ اب اگر اس سے مرد عورت کا اوپری کپڑا مراد لیا جائے تو اس میں عورتوں کے لیے کوئی آسانی نہ ہوئی اور یہ بات اللہ کے منشاء کے خلاف ہے۔ اور میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور علمائے کرام کی اکثریت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے چہرہ اور ہاتھ مراد لیتی ہے۔
(3) سورہ احزاب کی آیت وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ (اور جب ان سے کوئی شے مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو) کی تفسیر کرتے ہوئے یہ علماء فرماتے ہیں کہ پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگنے کا مقصد اور منشایہ ہے کہ عورت کا مکمل جسم حتی کہ چہرہ اور ہاتھ بھی نہ نظر آئے۔
یہ دلیل اس لیے مناسب نہیں ہے کہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے خاص تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس پورے سیاق و سباق کی ابتدایوں کی ہے: يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کی بیویو! تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو) تمھارا رتبہ اور مقام عام عورتوں کی طرح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاص مقام کی وجہ سے ان کے لیے کچھ خاص احکام تھے مثلاً یہ کہ وہ اپنا زیادہ وقت گھر پر گزاریں انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دوسری شادی کی اجازت نہیں تھی۔ انھیں مسلمانوں کی ماؤں کا درجہ عطا کیا گیا ان ہی خاص احکام میں سے ایک خاص حکم یہ ہے کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کچھ مانگو تو پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگو۔
(4) بخاری شریف کی حدیث ہے لَا تَنْتَقِبِ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلاَ تَلْبَسِ الْقُفَّازَيْنِ ”احرام کی حالت میں عورت نہ نقاب لگائے گی اور نہ دستانے پہنے گی۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اس زمانے میں عورتیں چہرہ نقاب اور ہاتھوں میں دستانے استعمال کرتی تھیں اور احرام کی حالت میں ان کے استعمال سے روک دیا گیا۔لیکن اس حدیث کو بہ طور دلیل پیش کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ اس زمانے میں عورتیں چہرے پر نقاب اور ہاتھوں میں دستانے پہنتی تھیں پھر بھی اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے کہ عورتوں کے لیے ان دونوں کا استعمال ضروری اور لازمی ہے۔
(5) ترمذی کی حدیث ہے: المرأة كلها عورة ”عورت مکمل ستر ہے“
اس حدیث سے علماء یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ چونکہ عورت کا مکمل جسم ستر میں داخل ہے اس لیے چہرہ اور ہاتھ سمیت مکمل جسم کو ڈھکنا لازمی ہے۔ حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے۔ اس حدیث کا یہ منشا نہیں ہے کہ عورت کا مکمل جسم ستر ہے اسلیے اسے مکمل طور پر چھپانا ضروری ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عورت کا جسم اپنی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے سر تاپاکشش ہوتا ہے۔ اس حدیث میں عورت کے پورے جسم کو"عورت" کہا گیا ہے۔ عورت (ستر) کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اسے چھپانا ضروری ہے ورنہ احرام کی حالت میں عورتوں کو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا کیوں کہ جو ستر ہوتی ہے اسے کسی بھی حالت میں کھولنا جائز نہیں ہے۔
(6) چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردینے کے لیے یہ علماء حضرات جس بات کو کثرت کے ساتھ بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ عورت کا سارا حسن اور ساری کشش اس کے چہرے میں ہوتی ہے چہرہ کھلا رہے تو باعث فتنہ ہوتا ہے۔ اس فتنہ کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ چہرہ ڈھکارہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس فتنہ کے وہم اور خوف کی وجہ سے سخت گیر قسم کے علماء نے معاشرےمیں بہت ساری ایسی چیزوں کو ناجائز قراردیا ہے جو اصلاً جائز اور حلال ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حد درجہ رحمت کی بنا پر ان چیزوں کو حلال قرار دیا ہے اور ان کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہے لیکن محض فتنہ پھیلنے کے خوف سے اور احتیاط کے نام پر بعض علماء کرام نے ان حلال چیزوں پر پابندی لگا دی ہے۔ مثال کے طور پر علماء نے فتنے کے خوف سے عورتوں کومسجد میں جا کر نماز با جماعت ادا کرنے سے منع کردیاحالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ (اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو) اس کے باوجود ان علماء نے محض خیالی فتنہ کے ڈرسے انھیں مسجد جانے سے روک دیااس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں نماز سے دور ہونے لگیں۔ ان ہی علماء نے فتنہ کے خوف سے عورتوں کو اسکول اور کالج جانے اور تعلیم حاصل کرنے سے منع کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں جاہل اور ناکارہ ہوگئیں ۔ اب ان علماء کو ہوش آیا ہے تو انھوں نے عورتوں کو اسکول اور کالج جانے کی اجازت دے دی۔ اگر پہلے ہی عورتوں پر تعلیم کا دروازہ نہ بند کردیا گیا ہوتا تو اتنی کثرت سے ہماری عورتیں جاہل اور غیر مفید بخش نہ رہتیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھام ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھا م کی وجہ سے جائز باتیں ناجائز کردی جائیں۔ فتنے کی روک تھام کے لیے اللہ کے وہ احکام اور اسلامی آداب کافی ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے۔ اپنی طرف سے مزید اور نئی نئی بند شیں لگانا اللہ کی مرضی و منشا کے خلاف بھی ہے اور ہمارے معاشرے کے لیے مہلک اور نقصان دہ بھی۔
یہ ہیں وہ دلائل جنھیں نقاب کو لازمی قراردینے والے علماء پیش کرتے ہیں اور آپ نے دیکھا کہ ان میں سے کوئی بھی دلیل اتنی مضبوط اور اتنی واضح نہیں ہےکہ اس کی بنیاد پر نقاب کو واجب قراردیا جا سکے۔ فقہی اصول ہے کہ کسی چیز کو واجب قراردینے کے لیے قرآن و سنت کی واضح اور صریح دلیل ضروری ہے۔ ان کے مقابلہ میں ان علماء کے دلائل زیادہ مضبوط اور واضح ہیں جو نقاب کو لازمی نہیں قرار دیتے ۔ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اس لیے میرا اپنا موقف بھی وہی ہے جو جمہور علماء کا ہے۔وہ یہ کہ چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری اور واجب نہیں ہے۔ اپنے اس موقف کی تائید میں میں مزید دلائل پیش کرتا ہوں۔
(1) کسی امر کو اس وقت تک واجب العمل نہیں قراردیا جا سکتا جب تک اس کے حق میں قرآن یا حدیث کی واضح اور صریح دلیل نہ ہو محض شک کی بنیاد پریا اندیشے اور احتیاط کے نام پر کسی شے کو نہ تو واجب قراردیا جا سکتا ہے اور نہ کسی حلال چیز کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے فقہ کا اصول ہے کہ واجب صرف وہی چیزیں ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واجب کیا ہے اور حرام وہی چیزیں ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف کسی چیز کو واجب یا حرام قرار دینے میں عجلت اور جلد بازی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ قرآن و سنت سے ثابت ہونے کے بعد ہی واجب یا حرام قراردیتے تھے۔
اسلامی فقہ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اصلاً تمام چیزیں حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے- کسی چیز کے حلال ہونے کے لیے دلیل پیش کرنا ضروری نہیں ہے کیوں کہ اصلاً یہ چیز حلال ہے بلکہ اس کے حرام ہونے کی دلیل پیش کرنا ضروری ہے جہاں تک چہرے پر نقاب لگانے کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں قرآن وسنت میں کوئی ایسی واضح دلیل نہیں ہے جواسے واجب قرار دے۔ محض احتیاط اور اندیشے کی وجہ سے اسے واجب قرار دینا یا کسی حلال چیز کو ناجائز قراردینا اللہ کی منشا اور اصول فقہ دونوں کے خلاف ہے۔ لوگوں نے جب جائز اور حلال کھانوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا تو اللہ نے ان کی اس طرح سر زنش کی تھی:
قُلْ اٰۗللہُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَي اللہِ تَفْتَرُوْنَ (یونس:59)”کہو کہ کیا اللہ نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے یا تم اللہ پر بہتان تراشی کر رہے ہو۔“
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عورتوں کی شخصیت اور ان کے امیج(Image)کو بہتر بنانے کے لیے جدو جہد کریں معاشرے میں انھیں ان کا جائز مقام دلائیں اور ان کے تعلیمی اور معاشرتی معیار کو بلند کریں تاکہ ایک طرف عورتیں ہمارے معاشرے کے لیے مفید اورکار آمد بن سکیں اور دوسری طرف دشمنان اسلام کو اسلام پر کیچڑاچھالنے کا موقع نہ مل سکے۔
(2) پرانے زمانے کے مقابلے میں آج کے ترقی یافتہ دور میں روزمرہ کی بنیادی ضرورتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ہماری عورتیں بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ گھروں سے نکل کر اپنی ضروریات کی تکمیل کریں۔ایسی حالت میں انھیں نقاب کا پابند کر کے مزید مشقتوں اور زحمتوں میں مبتلا کرنا مناسب نہیں ہے اور یہ بات اللہ کی منشا کے بھی خلاف ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین میں زحمت و مشقت نہیں رکھی ہے بلکہ حتی الامکان ہمارئے لیے آسانیاں رکھی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ۭ (الحج: 78)”اور ا س دین میں تمھارے لیے کوئی مشقت نہیں رکھی ہے۔“دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے:يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ (البقرۃ: 185)
”اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ تنگی اور پریشانی نہیں چاہتا ہے۔“
اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ (مسند احمد)”میں ایسے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں جو عقیدہ میں پاک اور خالص ہے اور معاملات میں نرم ہے۔“
جو لوگ چہرہ پر نقاب کے سختی سے قائل ہیں اور وقتاً فوقتاً ان پردہ دار خواتین پر تنقید کرتے رہتے ہیں جو چہرے پر نقاب نہیں لگاتی ہیں ان سے میری گزارش ہے کہ وہ ان خواتین پر تنقید کے بجائے ایسی مسلم عورتوں کی اصلاح کی جانب دھیان دیں جو سرے سے پردہ ہی نہیں کرتی ہیں اور نت نئے فیشن کر کے بے حجابانہ گھروں سے باہر وقت گزارتی ہیں۔
آخر میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
(1) چہرہ اور ہاتھ پیر کھلا رکھنا جائز ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چہرے پر مختلف قسم کے میک اپ کر کے اور ہاتھ پیر ناخنوں کو نیل پالش سے مزین کر کے غیر محرم مردوں کے سامنے جانے کی بھی اجازت ہے- اجازت صرف اس بات کی ہے کہ غیر محروں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر بہت ہلکی سی زیبائش کر لی جائے مثلاًآنکھوں میں سرمہ لگالیا جائے یا ہاتھ کی انگلیوں میں انگوٹھی پہن لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے غرض کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتیں گھر سے باہر نکلتے وقت شرعی لباس میں رہیں شریفانہ انداز اپنائیں اور الٹے سیدھے میک اپ اور فیشن کے ذریعے غیروں کو لبھانے والا انداز نہ اختیار کریں۔
(2) میں اگر یہ کہتا ہوں کہ چہرے پر نقاب لگانا ضروری نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو عورتیں چہرہ پر نقاب لگانا چاہتی ہیں انھیں میں نقاب لگانے سے منع کر رہا ہوں وہ اگر نقاب لگانا چاہتی ہیں تو شوق سے لگائیں۔ انھیں اس کا پورا حق حاصل ہے۔
(3) چہرے پر نقاب لگانا ضروری نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ عورتوں کے چہروں کو تکا کریں۔ کیوں کہ بہر حال مردوں کو اس بات کا حکم ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اپنی نگاہیں عورتوں پر نہ ڈالیں ۔ البتہ عورتوں سے معاملات کے دوران کسی ضرورت کے تحت انھیں دیکھنا ضروری ہو تو ان پر نظر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے بہ شرطے کہ یہ نظر شہوت اور ہوس بھری نہ ہو۔
جواب: میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ میں دور حاضر کے اس چلن سے بالکل متفق نہیں ہوں کہ پہلے محبت کی جائے پھر شادی کی جائے۔یہ وہ راستہ ہے جس کی ابتدا بھی نامناسب ہوتی ہےاور جس کا انجام بھی اکثر و بیشتر غیر اطمینان بخش ہوتا ہے۔مثلاًوہ محبت جو ٹیلی فون پر گفت و شنیدسے شروع ہوتی ہے یا وہ محبت جو جوانی کے جوش میں لڑکیوں کے پیچھے چکر لگانے سے شروع ہوتی ہے یہ ایسی محبت ہوتی ہےجس میں عقل اور سوجھ بوجھ کا عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔محض جذباتیت ہوتی ہےاکثر تو یہ ہوتا ہے کہ ایسے لڑکے لڑکیوں میں محبت ہو جاتی ہے جن کے درمیان سماجی تفاوت ہوتا ہے یا خاندانی چپقلش ہوتی ہے یا کوئی ایسی بات ہوتی ہے جوان کی شادی کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔چونکہ اس محبت کی ابتدا جذباتیت سے ہوتی ہے اس لیے یہ لڑکے اور لڑکیاں غلطیاں اور گناہ کر بیٹھتے ہیں اس لیے کہ بہر حال وہ انسان ہیں۔ فرشتے نہیں ہیں۔میری نظر میں شادی کا افضل اور مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ طرفین خوب سوچ سمجھ کر ایک دوسرے کےبارے میں مکمل واقفیت حاصل کر کے شادی کا فیصلہ کریں۔ شادی کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کا اطمینان کر لیا جائے کہ فی الحال ایسی کوئی بات تو نہیں ہے جو آگے چل کر اس شادی کو ناکام یا شادی شدہ زندگی کو جہنم بنادے ۔ مثلاً طرفین کے درمیان کفو یعنی برابری نہ ہو یا کسی قسم کی قانونی رکاوٹ ہو وغیرہ -یہ بھی ضروری ہے کہ طرفین ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔ ایسے موقعے پر مناسب یہ ہوگا کہ لڑکا اس طرح لڑکی کو دیکھے کہ لڑکی کو اس کی خبرنہ ہوتاکہ رشتہ طے نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے جذبات مجروح نہ ہوں اور مناسب یہ ہے کہ لڑکے والے یہ رشتہ لے کر لڑکی کے گھروالوں کے پاس جائیں اور نہایت اطمینان اور تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے اس معاملے کو طے کریں۔اگر کوئی ایسی صورت حال ہوتی ہے جس کا تذکرہ سوال میں ہے طرفین کے درمیان خودبخود محبت ہو جاتی ہے اور یہ دونوں شادی کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کی اس مدت میں کوئی غلط قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو ایسی صورت حال میں گھر والوں کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیں اور دوپیار کرنے والوں کو محض چھوٹے چھوٹے اسباب کی بنا پر ایک دوسرے سے جدانہ کریں اور ان کی شادی کردیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لم يَر لِلَمُتَحَابِينَ مِثَل النَكاَح (ابن ماجہ)”دومحبت کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔“
ذرا اس حدیث کے پس منظر پر غور کیجیے ۔ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس ایک یتیم بچی ہے جس سے شادی کے خواہش منددو شخص ہیں ان میں سے ایک غریب ہے اور دوسراامیر،لیکن یہ یتیم بچی غریب شخص سے محبت کرتی ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس بات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو پیار کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ دوپیار کرنے والوں کے درمیان غریبی اور امیری کو نہ آنے دیا جائے اور ان کی مرضی کے مطابق ان کی شادی کر دی جائے یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسلام ایک عملی (Practical)دین ہے کسی سے محبت ہو جانا ایک فطری بات ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ کوئی گناہ نہیں ہے نہ اسلام اس فطری جذبہ کی روک تھام چاہتا ہے بلکہ اسلام اس بات پر ابھارتا ہے کہ اس فطری جذبہ کو شرعی اور قانونی حیثیت عطا کردی جائے۔ان دونوں کو گناہوں میں ملوث نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کی شادی کردی جائے۔ بہ شرطے کہ اس شادی میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین جھوٹی شان کی وجہ سے یا حسب نسب کے چکر میں پڑ کر یا محبت کو غیر اسلامی عمل سمجھ کر دو محبت کرنے والوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں خود بھی مصیبت میں پڑتےہیں اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی تباہ کر ڈالتے ہیں۔ بعض بچے ذرا تیز قسم کے ہوتے ہیں تو وہ والدین سے بغاوت کر کے اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جھوٹی شان اور حسب ونسب کو معیار بنانے کی بجائے دین اور بااخلاق ہونے کو معیار بنایا جائے۔ دین اور اخلاق کے معیار پر اترنےوالے رشتہ کو ٹھکرانا یقیناًبڑی بد قسمتی کی بات ہوگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ (ترمذی،ابن ماجہ)”جب تمھارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کے اخلاق اور دین داری سے تم مطمئن ہو تو اسے شادی کے لیے منتخب کرلو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں زبردست فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔ “
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں- اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔
قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:
﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت و وقار اللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد وعورت میں سے ہر ایک دوسرے کا فطری طور پر محتاج ہے۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔یہی اللہ کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے۔انسانوں کے لیے بھی اور تمام کائنات کی مخلوقات کے لیے بھی، اللہ کا ارشاد ہے:وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (الذاريات : 49)”اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔“
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کوبھی گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے ارشاد ربانی ہے:وَالّٰتِي تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاہْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِــعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْہِنَّ سَبِيْلًا ۭ (النساء: 34)”وہ بیویاں جن کی بغاوت کا تمھیں اندیشہ ہو تو تم انھیں نصیحت کرو اور بستر سے انھیں الگ کردو اور انھیں مارو۔ پس اگر وہ مان جائیں تو پھر انھیں ستانے کا کوئی بہانہ نہ تلاش کرو۔“
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ با مرتبہ اور وسیع الظرف انسان کو زیب نہیں دیتا کہ ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے- کسی مرد کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔
جواب: اسی طرح کی غلط بیانی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے بعض لوگ اسلامی شریعت کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں اسلامی شریعت پر اعتراض کرنے سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ اسلامی شریعت سے خاطر خواہ واقفیت حاصل کریں۔ اگر انھیں اس کی واقفیت نہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ قرآن و سنت کا مطالعہ کریں تاکہ اسلامی شریعت کا صحیح صحیح علم ہو سکے۔ مصیبت یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ قرآن و حدیث کا مطالعہ کم کرتے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے یا کسی مسلمان کے غلط رویے کو دیکھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہی اسلامی شریعت ہے اور پھر اسلامی شریعت پرسیدھے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں
اس اعتراض سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ شادی اور طلاق سے متعلق قرآن و حدیث کے احکام کا مطالعہ کر لیتے اور جان لیتے کہ اس سلسلے میں اسلام کا کیا موقف ہے۔
اسلام کی نظر میں شادی ایک مضبوط اور مستحکم بندھن ہے اور اس بندھن کی بنیاد باہمی الفت و محبت پر ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے تعان سے پرسکون زندگی گزاریں۔یہ وہ مضبوط رشتہ ہے جو دو خاندانوں کی مستقل دوڑ بھاگ گفت و شنید شادی کی تقریبات مہر کی ادائی اور نہ جانے کن کن مرحلوں کے بعد وجود میں آتا ہے ظاہر ہے اس قدر مضبوط رشتے کو توڑ دینا کوئی قابل تعریف بات ہے اور نہ کوئی آسان بات کہ جب جی چاہا اسے ختم کر دیا نہ تو شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بنیاد پر اس رشتہ کو ختم کردے اور نہ بیوی ہی کو اس کا حق دیا گیا ہے۔ یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردےبالکل غلط بات ہے -یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔ اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضا رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے:فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے۔اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ انصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسا اوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی پوراحق دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور مردوں کو حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھرولواں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھر بھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں- اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے‘ مہر کی ذمے داری ہے‘بیوی بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہےاور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن ختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔
جواب: حرام وحلال اور جائز وناجائز کے سلسلے میں اسلامی شریعت کی دو اُصولی باتیں ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہییں:
(1) پہلی بات یہ کہ اصولی طور پر دنیا کی ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیاہو۔کسی حلال چیزکو حلال ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے کہ اُصولی طور پر تمام چیزیں حلال ہیں۔البتہ کسی چیز کو حرام ثابت کرنے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کے بغیر کسی بھی چیز کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔حرام وہی چیز ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہو اور اس کی صراحت قرآن وحدیث میں موجود ہو۔کسی بندے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی سمجھ اور دانش کے مطابق کسی چیز کوحرام قراردے۔
اسلامی شریعت کے ان اصولوں کی روشنی میں آپ کے سوال کے سلسلے میں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا قرآن وحدیث میں کوئی ایسی واضح اور صریح دلیل موجود ہے،جو عورتوں کو سیاسی حقوق اور سرگرمیوں سے محروم کردے۔آپ پورے قرآن کو خوب سمجھ سمجھ کرپڑھ جائیے اور تمام صحیح حدیثوں کا تفصیلی مطالعہ کرجائیے مجھےیقین کامل ہے کہ قرآن وحدیث میں آپ کو ایک بھی ایسی دلیل نہیں ملےگی جس کی بنیاد پر عورتوں کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم کیا جاسکے۔بلکہ اس کے برعکس آپ اگر قرآن وحدیث کی عمومی تعلیمات پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ عورتوں کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم کردینا نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ مسلم معاشرے پر اس کے برے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
اگر آپ قرآن وحدیث کی تعلیمات پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کو فرائض وواجبات ادا کرنے کامکلف بنایا ہے،اسی طرح عورتوں کوبھی فرائض وواجبات ادا کرنے کی مکلف بنایا ہے۔اس معاملے میں دونوں برابر ہیں۔چنانچہ مردوں کی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے کہ پانچ وقت کی نماز ادا کریں ،روزہ رکھیں ،اقامت ِدین کے لیے جدوجہد کریں،حرام چیزوں سے اجتناب کریں،حلال رزق کھائیں، بھلائیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں وغیرہ وغیرہ۔ان فرائض وواجبات میں مرد اور عورت برابر کے شریک ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نےقرآن میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا ہے بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ (تم دونوں ایک دوسرے کا حصہ اور شریک ہو) اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: إِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ (عورتیں مردوں کی شریک ہیں) اور قرآن نے جہاں جہاں يَا أَيُّهَا النَّاسُ اور يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (اے لوگو! یا اے ایمان والو) کہہ کر مخاطب کیاہے ،وہاں مردوں کی طرح عورتیں بھی مخاطب ہیں ۔ اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔قرآن نے مردوں اور عورتوں کو بیک وقت یہ حکم دیا ہے کہ دونوں مل جل کر معاشرے کی اصلاح کریں۔برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں اورنیکیوں کو عام کریں۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ (التوبہ: 71) ”مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے“
اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے منافق مرداور منافق عورتوں کی صفت بیان کی ہے کہ منافق مرد کی طرح منافق عورتیں بھی مل جل کرمعاشرے میں فساد اوربرائیاں پھیلانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اس لیے مومن عورتوں کو بھی چاہیے کہ مومن عورتوں کے ساتھ مل کر معاشرے میں اصلاح اور بھلائی کے کام میں لگ جائیں ۔ تاریخی حقائق سےپتا چلتا ہے کہ اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد کی عورتوں نے بھی اپنی ان ذمے داریوں کو بخوبی انجام دیا ہے۔چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور موافقت میں سب سے پہلی آواز جو بلند ہوئی تھی وہ ان کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آواز تھی۔ اسلام کی سربلندی کی راہ میں سب سے پہلی شہید ہونے والی خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔متعدد صحابیات نے جنگوں اور غزوات میں شرکت کی اور وقت پڑنے پر تلوار بھی اٹھائی اورجنگ میں مشرکین وکفار کو قتل کیا۔اسلام کی نشرو اشاعت کے سلسلے میں جو ہجرت ہوتی تھی اس میں مردوں کےساتھ عورتیں بھی شریک تھیں۔آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ بعض ایسے فرائض ہیں جو صرف عورتوں کےلیے خاص ہیں اور بعض ایسے ہیں جو صرف مردوں کےلیے خاص ہیں۔لیکن عورتوں کے ساتھ صرف وہی فرائض خاص ہیں جنھیں اپنی جسمانی ساخت کی وجہ سے صرف عورتوں ہی انجام دے سکتی ہیں مثلاً حیض ونفاس یا حمل اور ولادت سے متعلق فرائض واحکام اور مردوں کے ساتھ صرف وہی فرائض خاص ہیں،جنھیں اپنی جسمانی ساخت کی وجہ سے صرف مرد ہی انجام دے سکتے ہیں،مثلاً نان ونفقہ کی ذمہ داری وغیرہ۔جو فرائض عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور وہ فرائض جو مردوں کے ساتھ خاص ہیں ان سب کی تفصیل قرآن وحدیث میں موجود ہے۔اب کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اوراپنی سمجھ کے مطابق عورتوں یا مردوں کے لیے،کسی فرض کو خاص کردے۔چونکہ سیاسی حقوق سے متعلق فرائض واحکام قرآن وحدیث میں صرف مردوں کے ساتھ خاص نہیں کیے گئے ہیں،اس لیے ہمارے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ ہم ان سیاسی حقوق کو مردوں کےساتھ خاص کرکے عورتوں کو ان سے محروم کردیں۔اور ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کہ کسی چیز کو حرام قراردینے کےلیے قرآن وحدیث کی واضح اورصریح دلیل ضروری ہے۔عورتوں پر سیاسی حقوق کو حرام قراردینے کے لیے قرآن وحدیث میں کوئی بھی صریح اور واضح دلیل نہیں ہے۔ البتہ چند ضعیف احادیث ہیں لیکن اُن کی بنیاد پر ایک حلال چیز کو حرام نہیں کیا جا سکتا۔ خاص کر ایسے معاملے میں جس کا تعلق پورے معاشرے کے نفع ونقصان سے ہو ۔ یہ بڑے ستم کی بات ہوگی کہ ایک ضعیف حدیث پر عمل کرکے پورے مسلم معاشرہ کو نقصان پہنچایا جائے۔ضعیف حدیث کے علاوہ چند قرآنی آیات اورصحیح حدیثیں ہیں لیکن ان کی تفسیر اور تشریح میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔اس لیے مختلف فیہ تفسیر کے ذریعہ کسی شے کو حرام قراردینا کسی صورت مناسب بات نہیں ہے۔کسی چیز کوحرام وحلال قراردینے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کے علاوہ ایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہے زمانے کے حالات اور ماحول کی رعایت۔چنانچہ فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ زمانے کے بدلنے،حالات کے مختلف ہونے اور ماحول کے بدلنے سے فتوے بھی بدل جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کا زمانہ آج کی اکیسویں صدی سے بالکل مختلف تھا۔دونوں زمانوںکے حالات مختلف ہیں۔ اسی طرح مسلم ملک کا جو ماحول ہوتا ہے کسی کافر ملک کے ماحول سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ حالات کی ان تبدیلیوں سے فتوے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔اس بات پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی عمل رہا ہے۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے آغاز میں ماحول اور ضروریات کے لحاظ سے ایک حکم دیا اور جب ہجرت کے بعداسلام طاقت ورہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حکم سے بالکل مختلف حکم صادر فرمایا۔یہی رویہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شریعت اسی وجہ سے سب سے عمدہ اور بہترین شریعت ہے کہ اس میں اس بات کی گنجائش ہے کہ زمانہ اور ماحول کے لحاظ سے احکام تبدیل ہوسکیں۔
ایک اور بات ذہن میں رکھنی چاہیے۔وہ یہ کہ دورحاضر کے سیکولر حضرات عورتوں کے مسائل میں خصوصی دلچسپی اور جوش وولولہ دکھانے گئے ہیں۔انھیں ذرا بھی عورتوں کی حق تلفی کا علم ہوتا ہے تو اپنے سارے ہتھیار لے کر میدان میں کود پڑتے ہیں اور حق تلفی کرنے والوں کے خلاف برسرپیکار ہو جاتےہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم امت نے اپنی عورتوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں اور حق تلفیاں کی ہیں۔انھیں فتنوں کے ڈرسے تعلیم میں پیچھے رکھا۔ انھیں گھر کے اندر قید کردیا اور ان پر بے جا پابندیاں عائد کردیں۔جب یہ سیکولر حضرات مسلم عورتوں کی یہ زبوں حالی اور پسماندگی دیکھتے ہیں توا نھیں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہراگلنے کا بڑا اچھا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام عورتوں کا دشمن ہے،اور جو رویہ ہم اپنی عورتوں کےساتھ اختیار کرتے ہیں اسے دیکھ کر دنیا والے بھی فوراً یقین کرلیتے ہیں کہ واقعی اسلام عورتوں کا دشمن ہے۔
اس لیے میں اپنی اُمت کے عالموں اور دانشوروں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیں۔جو غلطیاں پہلے ہوچکی ہیں ان کی تلافی کریں۔بہت سارے ایسے میدان ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنی عورتوں کو ان سے دوررکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان میں ایک سیاست کا میدان ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے میں قرآن وسنت کا صحیح حکم معلوم کریں تاکہ دوبارہ ایسی غلطی نہ ہو،جس سے ہماری امت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے اور ہم سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہ کرسکیں۔
آپ یقین کریں کہ قرآن اور صحیح حدیثوں میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جوعورتوں کو سیاسی حقوق استعمال کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکتی ہو۔آج کا جو سیاسی سسٹم ہے اس میں عورتیں ووٹ دینے کا حق استعمال کرسکتی ہیں، پارلیمنٹ،اسمبلی اور شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہیں اور حکومت کو سیاسی مشورے دے سکتی ہیں۔میں جانتا ہوں کہ عام طور پر مسلمانوں کا ذہن میری اس رائے کو قبول نہیں کرے گا کیونکہ عورت کا سیاست میں حصہ لینا ان کے نزدیک گناہ عظیم ہے۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کسی بھی معاملے کو حرام اور گناہ قراردینے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل ضروری ہے۔محض اس وجہ سے کوئی چیز حرام نہیں ہوسکتی کہ ہمارا ذہن اسے قبول نہیں کررہا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے علماء عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے کون سے دلائل پیش کرتے ہیں اور کیا واقعی یہ دلائل قابل قبول ہیں؟
(1) ان کی پہلی دلیل قرآن کا یہ حکم ہے: وَقَرْنَ فى بُيُوتِكُنَّ (اور اپنے گھروں ہی میں رہا کرو) اس آیت کی روشنی میں عورتوں کا بلاوجہ گھر سے باہرنکلنا جائز نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے یہ دلیل ناقابلِ قبول ہے اس لیے کہ:
(الف) سیاق وسباق سے واضح ہے کہ اس حکم کی مخاطب عام عورتیں نہیں بلکہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں۔ اسی سیاق وسباق کی ابتدا میں اللہ ان سے فرماتا ہے کہ: يـٰنِسآءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسآءِ(اے نبی کی بیویو!تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو) اور ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو جو رتبہ ومنزلت حاصل ہے اس کالازمی تقاضا ہے کہ ان کا رہن سہن عام عورتوں کی طرح نہ ہو۔اسی بنا پر انھیں حکم دیا گیا کہ ان کا زیادہ وقت گھروں میں گزرے۔
(ب) اس حکم کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنگ جمل کے موقع پر گھر سے باہر بلکہ مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئیں اور انھوں نے پوری فوج کی قیادت کی۔معلوم ہوا کہ دینی واجبات کی ادائی کی خاطر گھر سے باہرنکلنا بھی ایک دینی فریضہ ہے۔
(ج) اس حکم کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ عورتیں گھرکے اندر مقید رہتی ہیں۔علماء نے انھیں مختلف ضروریات کی تکمیل کے لیے گھرسے باہرنکلنے کی اجازت دی ہے ۔ اور عورتیں ان ضروریات کی تکمیل کے لیے نکلتی ہیں۔پھر آخر سیاسی واجبات کی ادائیگی کے لیے انھیں گھر سے نکلنے سے کیوں محروم کیا جارہا ہے۔
(د) گھر کے اندر ہی رہنا اور گھر سے باہر قدم نہ نکالنا تو ایک سزاہے جسے اللہ تعالیٰ نے زنا کارعورت کے لیے تجویز کیا تھا ۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے سورہ نساء کے حوالے سے عرض کرچکے ہیں۔اگر ہم نے تمام عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت سے محروم کردیا توگویا ہم انہیں زنا کار عورت کی سزا دےرہے ہیں۔
(ہ) صورت حال یہ ہے کہ سیاسی میدان سے دین دار قسم کی عورتیں غائب ہوچکی ہیں اور ان کی جگہ وہ عورتیں اس میدان میں ہیں جنھیں اسلام اور مسلمانوں کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ظاہر ہے اس قسم کی دنیادار عورتیں پارلیمنٹ میں جاکر اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے کوئی کام نہیں کرسکتیں بلکہ اس کے برعکس وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔کیا اب ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ میں ہماری دین دار اور پرہیزگار قسم کی عورتیں بھی ہونی چاہییں تاکہ وہ ایک طرف مسلم عورتوں کے مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرسکیں اور دوسری طرف پوری مسلم امت کے مفاد میں کام کرسکیں۔ذرا غور کیجئے کہ ایک مسلم عورت اپنی ذاتی ضروریات کی تکمیل کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے،بازار جاسکتی ہے اور سفر کرسکتی ہے تو پوری مسلم قوم کے مفاد کے لیے گھر سے باہر کیوں نہیں نکل سکتی؟
(2) بعض لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سیاسی سرگرمیوں میں مسلم عورتوں کی شرکت کی وجہ سے مختلف فتنے جنم لے سکتے ہیں۔مثلاً بے پردگی،مردوں سے اختلاط اور کبھی مردوں کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا وغیرہ۔چونکہ یہ چیزیں حرام ہیں اس لیے سیاسی سرگرمیاں بھی حرام ہیں۔
یہ دلیل بھی کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔یہ تو محض اندیشے اور حددرجہ احتیاط والی بات ہوئی اور تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ اندیشوں اور حددرجہ احتیاط کے چکر میں پڑ کرمسلم امت نے اپنا بڑا نقصان کیا ہے ۔ اس طرح کےاندیشے فتنوں کو دبانے کے بجائے انھیں اُبھارتے ہیں۔اگر ہم اپنی عورتوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیں گے تو مسلمانوں کا بہت سارا قیمتی ووٹ ضائع ہوجائےگا۔جواگراستعمال ہوتا تو شاید پارلیمنٹ میں کوئی اچھا مسلمان منتخب ہوکرجاتا اور مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا۔اسی طرح اگر ہم اپنی عورتوں کو الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ کی ممبر بننے سے روک دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں وہ عورتیں جائیں گی جنھیں دین اور مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور وہ عورتوں کے لیے ایسے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کریں گی،جو اسلام کے خلاف ہیں۔کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ پارلیمنٹ میں ہمارے مرد اورہماری عورتیں جائیں تاکہ وہ ہمارے مفاد کے لیے کام کرسکیں۔
جہاں تک فتنوں،بے پردگی اورمردوں کے ساتھ اختلاط کی بات ہے تو میں بھی ان کے حق میں نہیں ہوں لیکن ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ پردے میں رہ کراوردوسرے اسلامی آداب کا خیال رکھتے ہوئے ہماری عورتیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں ۔ خصوصاً وہ عورتیں جو پختہ عمر کو پہنچ چکی ہیں اور بچوں کی تعلیم وتربیت سے فارغ ہوچکی ہیں اور پڑھی لکھی ہونے کے باوجود گھروں میں خالی بیٹھ کر اپناقیمتی وقت برباد کررہی ہیں۔یہ عورتیں اگر مسلمانوں کےمفاد کے لیے سیاست کے میدان میں آتی ہیں تو اس سے ایک طرف یہ فائدہ ہوگا کہ ہماری عورتوں کے مسائل اسلامی قوانین کی روشنی میں حل کیے جاسکیں گے اور دوسری طرف یہ فائدہ ہوگا کہ اس طرح ہماری عورتوں کا امیج(Image) بہتر ہوگا جو کہ فی الحال کافی خراب ہے۔
(3) ان کی تیسری دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے: لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً (وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے عورت کو اپنا حکمران بنایا۔)
اس حدیث میں یہ خبر دی گئ ہے کہ عورت کو حکمران بنانے والی قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس لیے عورتوں کو کسی قسم کا سیاسی منصب عطا کرناجائزنہیں ہے۔دوسری بات یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر"قوامیت" عطا کی ہے نہ کہ عورتوں کو مردوں پر۔جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ۭ (النساء: 34)
”مرد نگہبان ہیں عورتوں پر اس لیے اللہ نے بعض کوبعض پر فضیلت بخشی ہے اور اس لیے کہ یہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں(یعنی نان ونفقہ کی ذمے داری مردوں پر ہے)“
عورتوں کو کسی قسم کا سیاسی منصب عطا کرنے کا مطلب ہے کہ انھیں مردوں پر قوامیت عطا ہوگئی اور یہ بات اللہ کےمنشا کے خلاف ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو سیاسی حقوق سےمحروم کرنے کے لیے مذکورہ حدیث اور مذکورہ آیت کو بطور دلیل پیش کرنا سراسرغلط ہے۔کیونکہ ان دونوں میں عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کی جس قوامیت کا تذکرہ کیا ہے وہ محض خانگی زندگی تک محدود ہے۔مرد صرف اپنی فیملی اورگھر کی حدود میں نگہبان کی حیثیت رکھتا ہے۔ایک عورت گھر کی نگہبان نہیں ہوسکتی اور اس کیوجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ مرد ہی پر نان ونفقہ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ نان ونفقہ کی ذمے داری والی بات صرف گھر ہی تک محدود ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کی جس قوامیت کا اللہ نے ذکر کیا ہے ،وہ صرف گھر تک محدود ہے۔مرد اپنے گھر کے حدود میں قوام ہوتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرداپنی قوامیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی من مانی کرتا پھرے ۔ کیونکہ قرآن کی دوسری آیتوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ثابت ہے کہ اس قوامیت کےباجود شوہر کوگھریلو معاملات میں اپنی بیوی سے مشورے کی
تا کیدکی گئی ہے۔اس لیے اس آیت سے یہ ثابت کرنابالکل غلط ہے کہ عورتوں کو سیاسی منصب عطا کرنا جائز نہیں ہے۔رہی وہ حدیث جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ عورتوں کو حکمران بنانے والی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی تو اس میں جس چیز سے خبردار کیا گیا ہے۔وہ ہے عورتوں کی ”ولایت“ ایسی حکمرانی جس میں حکمران تمام سیاہ وسپید کا مالک ہوتا ہے اور جسے ہم مطلق العنان حکمران کہتے ہیں۔حدیث کا سیاق وسباق یہ ہے کہ کسریٰ کی موت کے بعد اہل فارس نے اس کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا تھا۔اہل فارس کے کسریٰ کس قسم کے مطلق العنان حکمران ہوا کرتے تھے،سبھی جانتے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوقوم اس طرح کی مطلق العنانی عورتوں کو سونپے گی وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ دورحاضر میں جب کہ جمہوریت کا دوردورہ ہے کوئی صدر یا وزیر اعظم یاکسی قسم کاسیاسی اہلکار نہ مطلق العنان ہوتا ہے اور نہ ہی ملک کا سیاہ وسپید اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔صدر ہویا وزیر اعظم حکومت چلانے کے لیے یہ سب اپنے وزراء اور عوام سے باہمی مشورے کرتے ہیں۔حکومت پر فائز لوگوں کو ہرآن مخالف سیاسی پارٹی کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے ۔ یعنی دور حاضر میں بڑے سے بڑا سیاسی منصب مطلق العنانیت نہیں عطا کرتا ہے ۔ اس لیے اس حدیث کی بنیاد پر عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کردینا صحیح نہیں ہے۔
علاوہ ازیں بعض علمائےکرام اس حدیث کو صرف کسریٰ کی بیٹی کے ساتھ خاص مانتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات صرف اہل فارس اور کسریٰ کی بیٹی کے سلسلے میں فرمائی ہے۔یہ کوئی عمومی بات نہیں ہے کہ جب جب عورتیں حکمراں بنیں گی تب تب قوم تباہ وبرباد ہوگی۔اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں بے شمار ایسی حکمران عورتوں کے واقعات درج ہیںجنھوں نے مردوں سے زیادہ حسن وخوبی سے حکومت کی اور اپنی قوم کو فلاح وبہبود سےہمکنار کیا۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری حکمران عورتوں کے لیے یہ بات کہی ہوتی تو تاریخ میں اس طرح کی کامیاب حکمران عورتوں کے واقعات درج نہ ہوتے۔قرآن نے بھی ایک ایسی حکمران عورت یعنی ملکہ سبابلقیس کا واقعہ تعریف و توصیف میں بیان کیا ہے۔ملکہ سبا بلقیس نے کمال حکمت ودانائی کے ساتھ حکومت کی اور سلیمان علیہ السلام کےساتھ دانشورانہ معاملہ کیا حتی کہ اس نے اسلام قبول کرلیا اور اپنی قوم کو تباہی وبربادی سے بچالیا۔یہ حکمران عورت اپنی قوم کے لیے باعث تباہی نہیں بلکہ باعث فلاح ثابت ہوئی۔
ان دلیلوں کے علاوہ کچھ عقلی دلیلیں بھی پیش کی جاتی ہیں مثلاً یہ کہ عورتوں کے اندر جذباتیت زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ کسی اہم سیاسی منصب کے لیے موزوں نہیں ہوسکتیں۔عورتیں صرف انھی کاموں کے لیے موزوں ہیں جو عورتوں سے متعلق ہیں مثلاً بچے پیدا کرنا ،ان کی پرورش کرنا اور امورخانہ داری سنبھالنا وغیرہ۔اس طرح کی دلیل پیش کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ایسی جذباتیت صرف عورتوں میں نہیں بلکہ بہت سارے مردوں میں بھی ہوتی ہے۔ مرد بھی جذباتی ہوتے ہیں اور جذباتی انداز میں فیصلے کرتے ہیں اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
آپ نے دیکھ لیا کہ عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے ایک بھی ایسی دلیل نہیں ہے جسے واضح اور دوٹوک کہا جاسکے۔بلکہ یہ بات اسلام کی عمومی تعلیمات کے خلاف ہے کہ عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے کلیتہً روک دیا جائے۔بلکہ میں تو کہوں گا کہ عورتوں کی سیاسی سرگرمیوں کو ناجائز قراردینے کے لیے قرآن وحدیث میں کسی دلیل کا نہ ہونا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے لیے سیاسی سرگرمیاں جائز ہیں۔کیونکہ اگر یہ بات ناجائز ہوتی تو قرآن وحدیث میں اس کاذکر لازماً ہوتا۔
آج کے جمہوری دور میں کسی وزیراعظم ،وزیر،پارلیمانی ممبر یاکسی بھی منصب پر فائز شخص کی ذمے داریوں کا ایک بڑا حصہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے کاموں کی نگرانی کی جائے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کیا جائے۔معاشرے میں جرائم اور فسادات کی روک تھام کی جائے اور اربابِ حکومت کو حکومت چلانے کےلیے مفید مشورے دیے جائیں۔اور یہ سارے کام اور ذمہ داریاں وہی ہیں جنھیں قرآن اپنی زبان میں ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“ کہتا ہے۔اور حدیث میں ان کے لیے اس طرح کے الفاظ ہیں ”الدين النصيحة“ (دین نام ہے لوگوں کے لیے خیرخواہی کا) ان ذمے داریوں کو انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کیا ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (التوبہ: 71)
”مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار اور رفیق ہیں۔یہ سب مل کر بھلائی کا حکم دیتے ہیں اوربُرائی سے روکتے ہیں۔“
اور تاریخ گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد میں مردوں اور عورتوں دونوں نے مل کر یہ ذمے داریاں نبھائی ہیں۔صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سیاسی مشورے کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشوروں پر عمل کیا اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔یہ واقعہ بھی سب جانتے ہیں کہ مسجد میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دے رہے تھے۔کسی غلطی پر ایک عورت نے بھرے مجمع میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ٹوکا۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اورفرمایا ”أصابت إمرأة وأخطأ عمر (رضی الله عنہ) “(عورت نے صحیح کہا اورعمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے غلطی ہوگئی) اس طرح کی بےشمار مثالیں تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔
جب انفرادی طور پر عورت کو سیاسی مشورے دینے اور سیاسی محاسبہ کا حق حاصل ہے تو اجتماعی حالات میں اسے حق سے محروم کردینے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ عورت اگر باصلاحیت اور اس قابل ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کی خیرخواہی کے لیے بہتر طریقہ سے اپنی ذمے داریاں نبھاسکتی ہے تو اسے اس کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کو فائدہ پہنچاسکے۔اوروہ اس بات کی حقدار ہے کہ اسے کوئی سیاسی یا غیر سیاسی منصب عطا کیا جائے۔چنانچہ ان ہی صلاحیتوں کودیکھتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خاتون حضرت الشفاء بنت عبداللہ العدویہ کو بازار کانگران اور محاسب مقرر کیا تھا۔دور حاضر کے لحاظ سے اس منصب کو ایک اعلیٰ عوامی منصب کے طور پر تصور کیا جاسکتا ہے ۔بلاشبہ اگر ہم نے کسی عورت کی صلاحیتوں کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا اور یہ عورت یوں ہی گھر میں بیٹھ کر اپناقیمتی وقت برباد کرتی تو اس کا مطلب یہ ہواکہ ہم نے اس عورت کو خدا داد صلاحیتوں کو ضائع کردیا اور یہ بات کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے۔
سب سے زیادہ خطرناک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دین دار اور باصلاحیت خواتین کو ہم ہرقسم کے سیاسی اور غیر سیاسی منصب کو حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ ان مناصب پر غیر دین دار اور مغرب پرست عورتیں فائز ہوجاتی ہیں جن کے کام کرنے کاڈھنگ بالکل غیر اسلامی ہوتا ہے اور پالیسیوں کےنفاذ میں انھیں اسلامی احکام کا ذرہ برابرخیال نہیں ہوتا ہے ۔کیا اچھاہوتا کہ ان مناصب پر ہماری دین داری اور با صلاحیت عورتیں فائز ہوتیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں کام کرتیں اورایسے قوانین بتاتیں جن سے اسلام کی اشاعت میں مدد ملتی۔
(1) اس سلسلے میں ایران کی پارلیمنٹ ایک روشن خیال ہے ،جہاں عورتیں پردے میں رہتے ہوئے اور مکمل اسلامی آداب کا لحاظ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی ممبر بنی ہوئی ہیں۔ اور ملک کی تعمیر وترقی میں اپنے حصہ کا کردار ادا کررہی ہیں۔
جواب: بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کردیںلیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے۔وارثوں کی نامزدگی اور وراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے ۔ یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اللہ اس سلسلے میں حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
يُوْصِيْكُمُ اللہُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ (النساء: 11)
”اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے سلسلے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں
کے برابر ہونا چاہیے۔“
اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کر ڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔ (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔ (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالیاوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائےگا۔لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔
جواب: آپ نے اسلامی پردے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے اولاً تو وہ ایسی خرابیاں نہیں ہیں کہ اس کی بناء پر آدمی لاینحل مشکلات میں مبتلا ہو جائے اور ثانیاً حیاتِ دنیوی میں آخر کون سی ایسی چیز ہے جس میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی نہ پائی جاتی ہو۔ لیکن کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ اس کے صرف ایک یا دو پہلوؤں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر اس میں مصالح کو غلبہ حاصل ہے یا مفاسد کو۔ یہی اصول پردے کے بارے میں اختیار کیا جائے گا۔ اسلامی پردہ آپ کی رائے میں بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے لیکن فقط یہ مشکل کہ اس کی پابندی سے آدمی کو شادی کے لیے اپنی مرضی کے مطابق لڑکی منتخب کرنے کی آزادی نہیں مل سکتی، پردے کی افادیت کو کم یا اس کی پابندی کو ترک کرنے کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔ بلکہ اگر ہر لڑکے کو لڑکی کے انتخاب اور ہر لڑکی کو لڑکے کے انتخاب کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو اس سے اس قدر قبیح نتائج برآمد ہوں گے کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور پھر خاندانی نظام جو کہ معاشرے کی مضبوطی اور پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اور ایک موہومہ مشکل کو حل کرتے کرتے بے شمار حقیقی مشکلات کے دروازے کھل جائیں گے۔
آپ کا یہ خیال کہ باپردہ لڑکی وسعت نظر اور فراست سے بے بہرہ ہوتی ہے درست نہیں ہے۔ اور اگر اسے بالفرض درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس میں پردے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایک لڑکی باپردہ رہ کر بھی علم و فن میں کمال پیدا کرسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں پردے سے باہر ہو کر بھی ایک لڑکی علم و عقل اور فراست و بصیرت سے کوری رہ سکتی ہے۔ البتہ بے پردہ لڑکی کو یہ فوقیت ضرور ہوگی کہ وہ معلومات کے لحاظ سے چاہے وسیع النظر نہ ہو لیکن تعلقات کے لحاظ سے اس کی نگاہیں ضرور پھیل جائیں گی۔ ایسی حالت میں اگر موزوں ترین رفیقِ حیات کی تلاش میں کامیابی ہو بھی جائے تب بھی جو نگاہیں وسعت کی عادی ہو چکی ہوں انہیں سمیٹ کر ایک مرکز تک محدود رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
سوال: (۲) آپ کا جواب ملا۔ مگر مجھے اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ آپ نے اسے بالکل معمولی مسئلہ قرار دیا۔ کامیاب شادی کی تمنا تو ایک جائز خواہش ہے اور ایسے حالات پیدا کرنا، جن کی وجہ سے ایک شخص کے لیے اپنی پسند کی لڑکی چننے کا راستہ بند ہو جائے میں انسانی مسرت اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے مضر سمجھتا ہوں اور دینِ فطرت کے منافی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ہمارے مروجہ طریقے کے مطابق عورت زیادہ سے زیادہ گھر کی منتظم ہوتی ہے اور خاوند کی اور اپنی جنسی تسکین کا ایک ذریعہ، لیکن دو افراد کے اپنے آپ کو پوری طرح ایک دوسرے کے حوالے کرنے اور زندگی کے فرائض ایک بار کی بجائے خوشی خوشی پورا کرنے کے جو امکانات اپنی پسند اور ذوق کی شادی کر لینے میں ہوتے ہیں وہ اس صورت میں قطعاً ممکن نہیں کہ اپنی پسند اور بصیرت استعمال کیے بغیر کسی دوسرے کے انتخاب پر شادی کر لی جائے۔
میرا خیال ہے کہ ایک نوجوان محض جنسی تسکین کا خواہش مند نہیں ہوتا، وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی کے لیے کچھ قربانی کرے، کسی سے محبت کرے، کسی کی خوشی کا خیال رکھے اور کوئی اس کی خوشی پر خوش ہو۔ اس جذبے کے فطری نکاس کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جسے اس نے تعلیم، اطوار، کردار اور دوسری خوبیوں کی بناء پر اپنی طبیعت کے مطابق حاصل کیا جائے (حقیقی محبت کسی کی باطنی خوبیوں کے دیکھنے سے ہی پیدا ہوتی ہے نہ کہ شکل دیکھ لینے سے) اور یہ بات ناممکنات میں ہے کہ پہلے تو کسی کی شادی کرا دی جائے اور پھر اس سے مطالبہ کیا جائے کہ اب اسے ہی چاہو اور یوں جیسے تم نے اس کو خود پسند کیا ہے۔ اس فطری محبت کا راستہ بند کر لینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبہ اپنے لیے دوسرے راستے نکال لیتا ہے۔
پردے کی وجہ سے جو حالات پیدا ہیں ان میں حقیقتاً کردار دیکھ کر تلاش کرنا ممکن نہیں۔ لڑکے کے باپ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لڑکی کا پتہ چلاسکے، لڑکی کی والدہ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ لڑکے کے متعلق براہ راست کچھ اندازہ لگا سکے۔ کیونکہ پردے کی وجہ سے ان افراد میں بھی تعلق اور آزادانہ گفتگو ناممکن ہے۔ (خود لڑکے اور لڑکی کا ملنا تو ایک طرف رہا) بڑی سے بڑی آزادی جو اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی شکل دیکھ لے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کی شکل چند سیکنڈ دیکھ لینے سے کیا ہو جاتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے، اب تو تمام علماء نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ موجودہ تمدنی ضروریات پوری کرنے کے لیے علم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے ضروری ہے۔ لیکن مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی کام کر سکتی ہیں۔ یا تو اسلامی احکام کی پابندی کریں یا علم حاصل کریں۔ پردے کی پابند ہوتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ طبقات الارض، آثار قدیمہ، انجینئرنگ اور تمام ایسے علوم جن میں سروے اور دور دراز سفر کی ضرورت ہوتی ہے، ان علوم کے لیے خواتین کس طرح کام کر سکتی ہیں جب کہ محرم کے بغیر عورت کا تین دن سے زائد کی مسافت پر نکلنا بھی منع ہے۔ اب کیا ہر جگہ وہ اپنے ساتھ محرم کو لیے لیے پھرے گی؟
یہ علوم تو ایک طرف رہے، میں تو ڈاکٹری اور پردے کو بھی ایک دوسرے کی ضد سمجھتا ہوں۔ اول تو ڈاکٹری کی تعلیم ہی جو جسمانیات کی نگاہیں پھیلا دینے والی معلومات سے پُر ہوتی ہے، حیا کے اس احساس کو ختم کر دینے کے لیے کافی ہے جس کی مشرقی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے، خواہ وہ ڈاکٹری پردے ہی میں سیکھی جائے اور پڑھانے والی تمام خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ دوم ڈاکٹر بننے پر ایک خاتون کو مریضوں کے لواحقین سے روابط کی اس قدر ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے غیر مردوں سے بات چیت پر قدغن لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اس کے پیش نظر اگر ہم خواتین کو ڈاکٹر بننے سے روکتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے گھروں کی مریض خواتین کے ہر مرض کے علاج کے لیے مرد ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی اور رائج الوقت نظریہ حیا کے مطابق یہ تو اس سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جائے گا۔
جناب عالی آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان معاشرتی اور تمدنی الجھنوں کا اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے کیا حل ہے؟
جواب: آپ کا دوسرا خط ملا۔ شادی کے معاملے میں آپ نے جو الجھن بیان کی ہے وہ اپنی جگہ درست ہی سہی، اس کا حل کورٹ شپ کے سوا اور کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس تفصیل کے ساتھ رفیقِ زندگی بنانے سے پہلے لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے کے اوصاف، مزاج، عادات، خصائل اور ذوق و ذہن سے واقف ہونے کی ضرورت آپ محسوس کرتے ہیں ایسی تفصیلی واقفیت دوچار ملاقاتوں میں، اور وہ بھی رشتہ داروں کی موجودگی میں حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے مہینوں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، تنہائی میں بات چیت کرنا، سیر تفریح، سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا اور بے تکلف دوستی کی حد تک تعلقات پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ کیا واقعی آپ یہی چاہتے ہیں کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان اس اختلاط کے مواقع بہم پہنچنے چاہئیں۔ آپ کے خیال میں ان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر ان معصوم فلسفیوں کا فی صدی تناسب کیا ہوگا جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ صرف رفیق زندگی کی تلاش میں مخلصانہ تحقیقاتی روابط قائم کریں گے۔ اور اس دوران میں شادی ہونے تک اس طبعی جذب و اجذاب کو قابو میں رکھیں گے جو خصوصیت کے ساتھ نوجوانی کی حالت میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے اپنے اندر رکھتے ہیں؟ بحث برائے بحث اگر آپ نہ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ شاید دو تین فی صدی سے زیادہ ایسے لوگوں کا اوسط ہماری آبادی میں نہ نکلے گا۔ باقی اس امتحانی دور ہی میں فطرت کے تقاضے پورے کر چکے ہوں گے اور وہ دو تین فیصدی جو اس سے بچ نکلیں گے وہ بھی اس شبہ سے نہ بچ سکیں گے کہ شاید وہ باہم ملوث ہو چکے ہوں۔
پھر کیا یہ ضروری ہے کہ ہر لڑکا اور لڑکی جو اس تلاش و تحقیق کے لیے باہم خلا ملا کریں گے وہ لازماً ایک دوسرے کو رفاقت کے لیے منتخب ہی کر لیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ ۲۰ فیصدی دوستیوں کا نتیجہ نکاح کی صورت میں برآمد ہو۔ ۸۰ فیصدی یا کم ازکم ۵۰ فیصدی کو دوسرے یا تیسرے تجربے کی ضرورت لاحق ہوگی۔ اس صورت میں ان ’’تعلقات‘‘ کی کیا پوزیشن ہوگی جو دوران تجربہ میں آئندہ نکاح کی امید پر پیدا ہو گئے تھے اور ان شبہات کے کیا اثرات ہوں گے جو تعلقات نہ ہونے کے باوجود ان کے متعلق معاشرے میں پیدا ہو جائیں گے؟
پھر آپ یہ بھی مانیں گے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ان مواقع کے دروازے کھولنے کے بعد انتخاب کا میدان لامحالہ بہت وسیع ہو جائے گا ایک ایک لڑکے کے لیے صرف ایک ہی ایک لڑکی مطمع نظر نہ ہو گی جس پر وہ اپنی نگاہ انتخاب مرکوز کر کے تحقیق و امتحان کے مراحل طے کرے گا اور علی ہذا القیاس لڑکیوں میں سے بھی ہر ایک کے لیے ایک ہی ایک لڑکا امکانی شوہر کی حیثیت سے زیر امتحان نہ ہوگا۔ بلکہ شادی کی منڈی میں ہر
طرف ایک سے ایک جاذب نظر مال موجود ہوگا جو امتحانی مراحل سے گزرتے ہوئے ہر لڑکے اور ہر لڑکی کے سامنے بہتر انتخاب کے امکانات پیش کرتا رہے گا۔ اس وجہ سے اس امر کے امکانات روز بروز کم ہوتے جائیں گے کہ ابتداً جو دو فرد ایک دوسرے سے آزمائشی ملاقاتیں شروع کریں وہ آخر وقت تک اپنی اس آزمائش کو نباہیں اور بالآخر ان کی آزمائش شادی پر منتج ہو۔اس کے علاوہ یہ ایک فطری امر ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ جو رومانی طرز کا کورٹ شپ کرتے ہیں ان میں دونوں ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے روشن پہلو ہی دکھاتے ہیں۔ مہینوں کی ملاقاتوں اور گہری دوستی کے باوجود ان کے کمزور پہلو ایک دوسرے کے سامنے پوری طرح نہیں آتے اس دوران میں شہوانی کشش اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ وہ جلدی سے شادی کر لینا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لیے دونوں ایک دوسرے سے ایسے ایسے پیمان وفا باندھتے ہیں، اتنی محبت اور گرویدگی کا اظہار کرتے ہیں کہ شادی کے بعد معاملات کی زندگی میں وہ عاشق و معشوق کے اس پارٹ کو زیادہ دیر تک کسی طرح نہیں نباہ سکتے، یہاں تک کہ جلدی ہی ایک دوسرے سے مایوس ہو کر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ کیونکہ دونوں ان توقعات کو پورا نہیں کرسکتے جو عشق و محبت کے دور میں انہوں نے باہم قائم کی تھیں اور دونوں کے سامنے ایک دوسرے کے وہ کمزور پہلو آجاتے ہیں جو معاملات کی زندگی ہی میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔ عشق و محبت کے دور میں کبھی نہیں کھلتے۔
اب آپ ان پہلوؤں پر بھی غور کر کے دیکھ لیں۔ پھر آپ مسلمانوں کے موجودہ طریقے کی مزعومہ قباحتوں اور اس کورٹ شپ کے طریقے کی قباحتوں کے درمیان موازنہ کر کے خود فیصلہ کریں کہ آپ کو ان دونوں میں سے کون سی قباحتیں زیادہ قابل قبول نظر آتی ہیں۔ اگر اس کے بعد بھی آپ کورٹ شپ ہی کو زیادہ قابل قبول سمجھتے ہیں تو مجھ سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس اسلام کے ساتھ آپ اپنا تعلق رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں جو اس راستے پر جانے کی اجازت دینے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔ یہ کام آپ کو کرنا ہو تو کوئی دوسرا معاشرہ تلاش
کریں۔ اسلام سے سرسری واقفیت بھی آپ کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس دین کی حدود میں ’’کامیاب شادی‘‘ کا وہ نسخہ استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جسے آپ مباح کرنا چاہتے ہیں۔
عورتوں کی تعلیم کے متعلق آ پ نے جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں بھی کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ فطرت نے عورت اور مرد کے دائرہ کار الگ رکھے ہیں۔ اپنے دائرہ کار کے فرائض انجام دینے کے لیے عورت کو جس بہتر سے بہتر تعلیم کی ضرورت ہے وہ اسے ضرور ملنی چاہیے اور اسلامی حدود میں وہ پوری طرح دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح عورت کے لیے ایسی علمی و ذہنی ترقی بھی ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے جو عورت کو اپنے دائرہ کار کے فرائض انجام دیتے ہوئے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس معاملہ میں کوئی انتظامات نہ کرنا مسلمانوں کی کوتاہی ہے نہ کہ اسلام کی۔ لیکن وہ تعلیم جو مرد کے دائرہ کار کے لیے عورت کو تیار کرے عورت ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے آپ میری کتاب ’’پردہ‘‘ کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۵، عدد۴۔ جنوری ۱۹۶۱ء)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔
یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردے۔بالکل غلط بات ہے یہ بات وہی کہہ سکتا ہے۔ جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ہے۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضائے رب رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے:
فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ہے۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسااوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو۔ وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی پوراحق دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھروالوں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھربھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے مہر کی ذمے داری ہے۔ بیوی اور بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہے۔ اور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن اختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔
بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کر دیں ۔ لیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے ۔ وارثوں کی نامزدگی اوروراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے۔یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کرڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔ (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔ (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالی۔اوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائے گا لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔
جواب:عورت اپنے محرم رشتہ داروں اور خواتین کے سامنے بالوں کو کھولے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور چاہے اکیلی بھی ہو تو تب بھی کوئی حرج نہیں، یہ بات تو اہل علم کے ہاں متفقہ طور پر مسلمہ ہے، مسلمان خواتین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے لے کر اب تک اس پر عمل پیرا ہیں۔یہ دعوی کرنا کہ عورت اگر اپنے بالوں کو گھر میں کھولتی ہے تو شیطان اس کے بالوں سے کھیلتا ہے، تو یہ جھوٹا دعوی ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث یا اقوال سلف میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے، اس لیے یہ دعویٰ کرنا جائز نہیں ہے، نہ ہی ایسی بات کو لوگوں کے درمیان بیان کرنا جائز ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولَئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا
ترجمہ: ایسی بات کے پیچھے مت لگ جس کے متعلق تجھے علم نہیں ہے؛ یقیناً سماعت، بصارت، اور دل ان تمام چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ] الإسراء :36[شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے درج ذیل سوال پوچھا گیا:جب کوئی مؤذن نماز کے لیے اذان دے، اور کسی عورت کے بال اپنے ذاتی گھر میں یا اہل خانہ کے ساتھ، یا پڑوسیوں کے گھر میں ہوتے ہوئے کھلے ہوں، وہاں پر اسے محرم مردوں اور خواتین کے علاوہ کوئی اور نہ دیکھ رہا ہو تو کیا یہ حرام عمل ہے؟ اور جب تک اذان ہوتی رہے گی اس وقت تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے؟تو انہوں نے جواب دیا:یہ بات صحیح نہیں ہے، چنانچہ اگر عورت کو کوئی اجنبی نہ دیکھ رہا ہو تو اسے بال کھولے رکھنے کی اجازت ہے چاہے مؤذن اذان دے رہا ہو، تاہم عورت جب نماز ادا کرے گی تو پھر اپنے چہرے کے علاوہ مکمل جسم کو ڈھانپے گی، نماز کی حالت میں متعدد اہل علم نے اپنی ہتھیلیوں اور قدموں کو بھی کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ انہیں بھی ڈھانپ لے، صرف چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب اس کے آس پاس اجنبی لوگ نہ ہوں، چنانچہ اگر اجنبی لوگ موجود ہوں گے تو اس پر چہرہ بھی ڈھانپ کر رکھنا لازمی ہے؛ کیونکہ اجنبی لوگوں کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں، صرف خاوند اور محرم مردوں کے سامنے جائز ہے۔''