جواب:یہ عمل شروع سے ہو رہا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اس پر عمل پہلے بھی ہوتا تھا آج بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہو گا
شریعت نے نہ امام ابوحنیفہ کی تقلید کا حکم دیا ہے اور نہ امام شافعی ؒ کی نہ امام احمد ؒ کی شریعت تو رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد مکمل ہوگئی الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتینعمت تمام ہو گئی ہے دین مکمل ہوگیا شریعت مکمل ہوگئی ،اس لئے حضور ﷺکے بعد آنے والے کسی بھی آدمی کا کوئی قول فی نفسہ واجب التعمیل نہیں ہے حتیٰ کہ کسی صحابیؓ کی رائے بھی as such واجب اتعمیل نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص خود صاحب علم ہے اور اللہ نے اسے علم دیا ہے اور وہ دلائل سے یہ جان سکتا ہے کہ کسی امام کا قول قوی ہے یا بہتر ہے تو ا س کو اس رائے یا قول کو اختیا ر کرنے کی اجازت ہے لیکن ایک ایسے آدمی کو جس کے پاس شریعت کا علم نہ ہو یہ راستہ اختیار کرنے کی اجازت دی جائے تو بہت ساری قباحتیں پیدا ہو ں گی جن سے بچنا بہت دشوار ہے۔ اس کی ایک مثال فقہ کی سب کتابوں میں ملتی ہے میں آپ کو دیتا ہوں اکثر لوگوں نے یہ مثال بیان کی ہے شریعت کا حکم یہ ہے کہ انسانی معاشرہ میں تعلقات حیا کی بنیاد پر استوار ہوں خاص طور پر دو جنسوں کے درمیان میل جول شریعت کی حدود کے اندر ہو اور حیا کے احکام کے مطابق ہو۔ جب دو افرادرشتہ ازدواجی میں منسلک ہوں تو یہ کام اللہ کے احکام اور شریعت کے مطابق ہو یہ تعلق انسانوں کے علم میں ہو تمام لوگوں میں اس کا اعلان کیا گیا ہو کہ فلاں دو افراد آج سے رشتہ ازدواجی میں منسلک ہو رہے ہیں۔ یہ شریعت کے احکام ہیں ۔
اب شریعت کے ان احکام کے ضمن میں قرآن پاک میں بعض نصوص آئی ہیں احادیث میں کچھ نصوص آئی ہیں ان کو سامنے رکھ کر اور ان کامقصد سمجھ کر فقہا نے کچھ تفصیلی ضوابط مرتب کئے ہیں امام مالک ؒ نے اپنی فہم کے مطابق یہ ضابطہ مقرر فرمایا کہ جب نکاح ہو رہا ہو تو اس کے لئے کسی کو با قاعدہ گواہ بنانے کی ضرورت تو نہیں البتہ عام اعلان کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ اگر نکاح اس طرح ہو کہ معاشرہ میں عام لوگوں کو معلوم ہو جائے ،محلہ میں سب کو پتہ چل جائے کہ فلاں اور فلاں کی شادی ہو رہی ہے تو یہ کافی ہے چاہے دو آدمی بطور خاص گواہ بننے کے لیے موجود نہ ہوں۔ یہ امام مالکؒ کا نقطہ نظر ہے۔امام ابوحنیفہ ؒ یہ فرماتے ہیں کہ کم از کم دو متعین گواہ ضروری ہیں جو عقدہ نکاح میں موجود ہوں جو ایجاب ور قبول کو ہوتے دیکھیں یہ کم سے کم تقاضا ہے اور اس سے کم پر نہیں ہوگا یہ امام ابوحنیفہ ؒ کا نقطہ نظر ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اصل عقد میں تو دو گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں ہے لیکن جب لڑکی رخصت ہو اور شوہر کے گھر جائے اس وقت کم از کم دو گواہ ہونے چاہئیں اور یہ ضروری ہے ۔
اب یہ تین مختلف نقطہ نظر ہیں مقصد سب کا ایک ہی ہے اب اگر کوئی شخص ایسا کرے کہ ایک لڑکا اور لڑکی آپس میں رہنے لگیں اور یہ کہیں کہ امام مالک کے نزدیک دو گواہ ضروری نہیں تھے اور لوگوں کو بتانا بھی ضروری نہیں تھا اور صرف چراغاں اور دعوت کھلانا کافی ہے امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک چراغاں اور دعوت بھی ضروری نہیں تھی لہذا ہم نے چراغاں اور دعوت بھی نہیں کی عقد نکاح کے وقت امام شافعی ؒ کے نزدیک دو گواہ ضروری نہیں تھے وہ بھی نہیں کئے۔ رخصتی کے وقت امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ضروری نہیں تھے وہ بھی نہیں کئے یہ تو شریعت کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے اور محض بدکاری ہے یہ تو پرلے درجہ کی بداخلاقی اور بے حیائی ہے یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہو گا کہ اگر کسی شخص کو اپنے نفس کی پیروی کی اجازت دی جائے تو ا س کے نتائج اس طرح کے نکل سکتے ہیں ۔
اس لئے دو شرائط کا خیال رکھیں ۔ آپ جس فقیہ کے نقطہ نظر سے دلائل کے ساتھ اتفاق کریں ایک شرط یہ کہ واقعی اللہ کے حضور جوابدہی کے احساس کے ساتھ یہ اردہ ہو کہ اللہ کے حکم پرچلنا اور اللہ کی شریعت پر عمل کرنا ہے اور اس کو سمجھنا ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ارادہ ہے کہ نہیں ہے ۔دوسرا یہ کہ اتنا علم ہو کہ یہ معلوم ہو سکے کہ شریعت کا اصل مقصد کیا ہے شریعت کی تعلیمات اس بارے میں کیا ہیں اور ان کو کس انداز سے سمجھ کر اس فقیہ نے یہ رائے قائم کی ہے اس رائے سے یہ فقیہہ شریعت کے کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے یہ اگر حاصل ہے تو پھر دوسرے کسی فقیہہ کی رائے اختیار کر لینے کا عمل قابل قبول ہے ۔
فقہِ حنفی کا اصولی مسئلہ تو یہی ہے کہ سفرحج و عمرہ کا ہو یا دیگر مقاصد کے لیے، اگر اس کی مسافت اٹھانوے کلومیٹر کے برابر ہے، تو عورت شوہر یا محرم کی رفاقت کے بغیر سفر نہیں کرسکتی۔ لیکن عورتوں کو مشکلات درپیش ہیں کہ یا تو وہ کسی محرم کا خرچ برداشت کریں یا اس عذر کے سبب حج و عمرے پر جانے سے محروم رہیں۔ نیز ہمارے فقہائے کرام نے اس مسئلے پر بھی بحث کی ہے کہ اگر عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت دستیاب نہیں ہے، اور وہ اپنی زندگی میں فریضہ حج ادا نہیں کرسکتی، تو کیا اس پر حجِ بدل کی وصیت کرنا یا کسی کو فرض حجِ بدل کے لیے بھیجنا لازم ہے۔ فقہائے کرام میں سے جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے محرم کی رفاقت حج کے فرض ہونے کی شرط ہے، اُن کے نزدیک اس پر نہ کسی کو حجِ بدل پر بھیجنا اور نہ اس کی وصیت کرنا لازم ہے، البتہ جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے شوہر یا محرم کی رفاقت حج کے ادا کرنے کی شرط ہے، تو اُن کے نزدیک اس کے لیے فرض حجِ بدل کرانا یا اس کی وصیت کرنا لازم ہے، ورنہ گناہگار ہوگی۔امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر ثقہ عورتوں کی ایک جماعت حج یا عمرے پر جا رہی ہے، توجس عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے، وہ اُن کے ساتھ جا سکتی ہے۔ بعض حالات میں ہمارے فقہائے کرام نے دفعِ حرج اور یُسر کے لیے دوسرے ائمہ کے مذہب پر عمل کی اجازت دی ہے، اور ہمارے معاصر فقہاء میں سے مفتی محمد رفیق حسنی نے لکھا ہے: ‘‘اب احناف کو موجودہ دور میں امام شافعی کے مذہب کے مطابق فتویٰ دینا چاہیے، اگر ثقہ خواتین عورتوں کا کوئی گروپ ہو تو وہ عورت جسے شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے، اُن کی رفاقت میں فریضہ حج ادا کرلے۔(رفیق المناسک،ص: 481)
ہماری رائے میں اب مفتیانِ کرام کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے، اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں سفر آسان ہے، بس یا ہوائی جہاز میں عورتوں کو ایک ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ ٹورسٹ گروپوں میں یا سرکاری اسکیم میں حج پرجاتے ہیں، اُن میں بھی عورتوں کو الگ کمرے میں ٹھہرایا جاتا ہے اور اس میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہیں ہوتا۔ سو بجائے اس کے کہ گروپ لیڈر جھوٹ کا سہارا لے کر کسی مرد کو کسی عورت کا محرم ظاہر کرے، بعض مخصوص صورتوں میں اس رخصت پر غور کرنا چاہیے۔