فقہِ حنفی میں ہے کہ عرفات میں غروبِ آفتاب کا یقین ہوجانے پر مزدلفہ روانہ ہو، وہاں پہنچ کر مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کرے اور پھر طلوعِ فجر سے قبل مناسب وقت تک آرام کرنا سنت ہے کہ آپ ﷺ نے امت کی آسانی کے لیے اس رات تہجد کی نماز بھی ادا نہیں فرمائی۔ صبح صادق کے بعد اور سورج کے طلوع ہونے سے پہلے تک مزدلفہ کی حدود میں وقوف واجب ہے، اگر نہیں کرے گا تو دم لازم آئے گا۔ البتہ بیماری، کمزوری یا بڑھاپے کے سبب ضُعف لاحق ہو تو صبح صادق سے پہلے جاسکتا ہے۔ علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ‘‘اگر مزدلفہ کی حدود سے طلوعِ فجر سے پہلے چلا گیا، تو اس پر دم لازم ہے، کیونکہ اس نے وقوفِ مزدلفہ کو ترک کیا، لیکن اگر اُسے کوئی عذر درپیش ہے یا بیمار ہے یا ضعیف ہے اور اژدحام کا خوف ہے اور وہ رات ہی کو چلا گیا تو اس پر دم واجب نہیں ہے۔ اَلسِّرَاجُ الْوَہَّاج میں اسی طرح ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، ج: 1، ص:231)’’۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج کل اژدحام بھی عذر ہے۔ ‘‘حضرت عبداللہ بن عمر اپنے گھر کے کمزور افراد کو پہلے منیٰ بھیج دیا کرتے تھے’’۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: ‘‘میں اُن لوگوں میں سے تھا جن کو نبی ﷺ نے مزدلفہ کی رات میں کمزور افراد کے ساتھ منیٰ روانہ کردیا تھا۔ (صحیح البخاری : 1676-78)’’۔ لہٰذا اگر ضعیف لوگ یا کم عمر بچے یا عورتیں بیماری اور کمزوری کے سبب یا اژدحام کے خوف سے صبح صادق سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ چلے جائیں تو عذر کی بنا پر اُن کو اجازت ہے اور اُن پر دم واجب نہیں ہوگا۔
(مفتی منیب الرحمان)
فقہِ حنفی کا اصولی مسئلہ تو یہی ہے کہ سفرحج و عمرہ کا ہو یا دیگر مقاصد کے لیے، اگر اس کی مسافت اٹھانوے کلومیٹر کے برابر ہے، تو عورت شوہر یا محرم کی رفاقت کے بغیر سفر نہیں کرسکتی۔ لیکن عورتوں کو مشکلات درپیش ہیں کہ یا تو وہ کسی محرم کا خرچ برداشت کریں یا اس عذر کے سبب حج و عمرے پر جانے سے محروم رہیں۔ نیز ہمارے فقہائے کرام نے اس مسئلے پر بھی بحث کی ہے کہ اگر عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت دستیاب نہیں ہے، اور وہ اپنی زندگی میں فریضہ حج ادا نہیں کرسکتی، تو کیا اس پر حجِ بدل کی وصیت کرنا یا کسی کو فرض حجِ بدل کے لیے بھیجنا لازم ہے۔ فقہائے کرام میں سے جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے محرم کی رفاقت حج کے فرض ہونے کی شرط ہے، اُن کے نزدیک اس پر نہ کسی کو حجِ بدل پر بھیجنا اور نہ اس کی وصیت کرنا لازم ہے، البتہ جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے شوہر یا محرم کی رفاقت حج کے ادا کرنے کی شرط ہے، تو اُن کے نزدیک اس کے لیے فرض حجِ بدل کرانا یا اس کی وصیت کرنا لازم ہے، ورنہ گناہگار ہوگی۔امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر ثقہ عورتوں کی ایک جماعت حج یا عمرے پر جا رہی ہے، توجس عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے، وہ اُن کے ساتھ جا سکتی ہے۔ بعض حالات میں ہمارے فقہائے کرام نے دفعِ حرج اور یُسر کے لیے دوسرے ائمہ کے مذہب پر عمل کی اجازت دی ہے، اور ہمارے معاصر فقہاء میں سے مفتی محمد رفیق حسنی نے لکھا ہے: ‘‘اب احناف کو موجودہ دور میں امام شافعی کے مذہب کے مطابق فتویٰ دینا چاہیے، اگر ثقہ خواتین عورتوں کا کوئی گروپ ہو تو وہ عورت جسے شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے، اُن کی رفاقت میں فریضہ حج ادا کرلے۔(رفیق المناسک،ص: 481)
ہماری رائے میں اب مفتیانِ کرام کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے، اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں سفر آسان ہے، بس یا ہوائی جہاز میں عورتوں کو ایک ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ ٹورسٹ گروپوں میں یا سرکاری اسکیم میں حج پرجاتے ہیں، اُن میں بھی عورتوں کو الگ کمرے میں ٹھہرایا جاتا ہے اور اس میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہیں ہوتا۔ سو بجائے اس کے کہ گروپ لیڈر جھوٹ کا سہارا لے کر کسی مرد کو کسی عورت کا محرم ظاہر کرے، بعض مخصوص صورتوں میں اس رخصت پر غور کرنا چاہیے۔
ج: میں آپ کا سوال الٹ کیوں نہ دوں ، مجھے احناف کے بہت سے مسائل قرآن وسنت کے مطابق لگتے ہیں ۔یعنی مثبت بات کیوں نہ کی جائے ، لوگوں کو منفی بات جاننے سے بہت دلچسپی ہوتی ہے ۔بہت تھوڑی باتیں ہیں جن میں احناف سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)