والدین کے فرائض

نکاح کے معاملہ میں شریعت نے مردو عورت کو پسند اور ناپسند کا پورا اختیار دیا ہے اور والدین کو جبر و سختی سے منع کیا ہے۔ دوسری طرف لڑکے اور لڑکی کو بھی ترغیب دی کہ وہ والدین کو اعتماد میں لے کر ہی کوئی قدم اٹھائیں۔بہتر یہی ہے کہ والدین کو راضی کر لیں تاکہ آنے والی زندگی میں وہ آپ کا ساتھ دے سکیں، اور خدا نہ کرے کوئی مسئلہ بن جائے تو آپ کو والدین کی حمایت حاصل ہو۔ ان کو شادی میں بھی شامل کریں۔ انہیں قرآن وحدیث کا حکم سنائیں اور دکھائیں کہ شرعی طور پر یہ حکم ہے۔ امید ہے راضی ہو جائیں گے۔ اگر کسی صورت بھی وہ آپ کی پسند کی شادی نہیں کرتے تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن والدین کا احترام کرنا اور ہر صورت ان کی خدمت کرنا آپ کا فرضِ اولین ہے

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

واب:جی ہاں ان کے حق میں دعا کرے اور حسن سلوک ترک نہ کرے کیونکہ پھر بیٹا بھی حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے ظالم ہوجائے گا اور بیٹے کا ظالم ہونا باپ کی نسبت زیادہ سنگین ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

اسلامی اَحکامات میں والدین کی نافرمانی کس حد تک؟
س-85 آج کل کے ماحول میں اگر اسلامی تعلیمات پر کوئی شخص پوری طرح عمل کرنا چاہے تو باقی دْنیا اس کے پیچھے پڑجاتی ہے، اور اگر وہ شخص اپنی ہمت اور قوّتِ برداشت سے ان کا مقابلہ کر بھی لیتا ہے تو اس کے گھر والے خصوصاً والدین اس کے راستے میں سب سے بڑی رْکاوٹ بن جاتے ہیں۔ مثلاً: میں کئی لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اپنے ماں باپ کی وجہ سے تنگ آکر اپنی داڑھیاں تک کٹوادیں، اور اگر والدین کو سمجھاؤ تو کہتے ہیں کہ:‘‘اسلام میں تو باپ اور ماں کا بہت مقام ہے، ماں کی اجازت کے بغیر جہاد پر بھی نہیں جاسکتے، لہٰذا کوئی عمل بھی ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا۔’’ خصوصاً جب کوئی شخص اپنا لباس اور چہرہ سنت کے مطابق بنالیتا ہے تو پھر اس کے گھر والے اس کا جینا حرام کردیتے ہیں، یا کوئی شخص ٹی وی دیکھنا چھوڑ دے، گانے سننا چھوڑ دے، بینک میں نوکری نہ کرے، نامحرَم سے بات چیت نہ کرے، اور حتی الامکان اپنے آپ کو منکرات سے بچائے تو والدین کہتے ہیں کہ: ’’جناب! یہ کونسا اسلام ہے کہ آدمی باقی دْنیا سے الگ تھلگ ہوکر بیٹھ جائے‘‘ اسلام کے اندر کیا حدود ہیں، کسی سنت کو اگر والدین منع کریں تو ہم اس کو چھوڑ دیں؟

ج-85 یہ اْصول سمجھ لینا چاہئے کہ جس کام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو، اس میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ نہ ماں باپ کی، نہ پیر اور اْستاد کی، نہ کسی حاکم کی۔ 
والدین کے کہنے سے ٹی وی دیکھنا، گانے سننا اور نامحرَموں سے ملنا بھی حرام ہے، جب ان گناہوں پر قہرِ اِلٰہی نازل ہوگا تو نہ والدین بچاسکیں گے اور نہ عزیز و اقارب اور دوست احباب۔
والدین کا بڑا درجہ ہے اور ان کی فرمانبرداری اولاد پر فرض ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ والدین کسی جائز کام کا حکم کریں، لیکن اگر بگڑے ہوئے والدین اپنی اولاد کو جہنم کا ایندھن بنانے کے لئے گناہوں کا حکم کریں تو ان کی فرمانبرداری فرض کیا، جائز بھی نہیں، بلکہ ایسی صورت میں ان کی نافرمانی فرض ہے۔ ظاہر ہے کہ والدین کا حق اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر نہیں۔ اور یہ دلیل جو پیش کی گئی کہ والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانا بھی جائز نہیں، یہ دلیل غلط ہے، اس لئے کہ یہ تو شریعت کا حکم ہے کہ اگر جہاد فرضِ عین نہ ہو اور والدین خدمت کے محتاج ہوں تو والدین کی خدمت کو فرضِ کفایہ سے مقدّم سمجھا جائے، اس سے یہ اْصول کیسے نکل آیا کہ والدین کے کہنے پر فرائضِ شرعیہ کو بھی چھوڑ دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانیوں کا بھی ارتکاب کیا جائے۔اور یہ کہنا کہ ‘‘یہ کونسا اسلام ہے کہ آدمی باقی دْنیا سے الگ تھلگ ہوکر بیٹھ جائے؟’’ نہایت لچر اور بے ہودہ بات ہے، اسلام تو نام ہی اس کا ہے کہ ایک کے لئے سب کو چھوڑ دیا جائے قرآنِ کریم میں ہے:‘‘آپ فرمادیجئے کہ یقینا میری نماز اور میری ساری عبادات اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے، جو مالک ہے سارے جہان کا، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں۔’’(سورہ اَنعام)کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اللہ تعالیٰ کے اَحکام کی تعمیل کے لئے باقی ساری دْنیا سے الگ تھلگ نہیں ہوگئے تھے؟
 اگر دْنیا بگڑی ہوئی ہو تو ان سے الگ تھلگ ہونا ہی آدمی کو تباہی و بربادی سے بچاسکتا ہے۔

()

جواب: بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کردیںلیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے۔وارثوں کی نامزدگی اور وراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے ۔ یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اللہ اس سلسلے میں حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
يُوْصِيْكُمُ اللہُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ  ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ   ۚ (النساء: 11)
”اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے سلسلے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں 
کے برابر ہونا  چاہیے۔“
اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کر ڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔  (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔  (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالیاوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل  طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ      ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائےگا۔لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)

 بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کر دیں ۔ لیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے ۔ وارثوں کی نامزدگی اوروراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے۔یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کرڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔  (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔  (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالی۔اوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل  طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ      ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائے گا لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)