جواب: اسلام کی تعلیم کے مختلف حصے ہیں ایک حصہ وہ ہے جس کا تعلق انسان کے عقائد سے ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق انسان کے جذبات و احساسات سے ہے۔ تیسر ا حصہ وہ ہے جس کاتعلق انسان کے ظاہری اعمال اور جوارح سے ہے۔ پہلے دو حصو ں کا ریاست سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے اس میں فرد خود ہی بڑی حد تک شریعت پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ معاشرہ اپنے اثرو رسوخ سے، خاندان اپنے دباؤ سے،اور نظام تعلیم اپنی تعلیم وتربیت سے ان دونوں چیزوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا ۔
شریعت کا تیسرا حصہ جس کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال سے ہے اس میں بھی کچھ احکام تو وہ ہیں جو فرد کی براہ راست ذمہ داری ہے اور فرد ہی ان پر عمل درآمد کا مکف ہے۔ عبادات کے معاملات ہوں،اسی طرح سے نکاح و طلاق ،گھر کے اندر کے معا ملات ہوں ان میں بھی عمومی طور پر عام حالات میں ریاست کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔ اسی طرح معاشرت اور آداب ہیں جن کے بارے میں قرآن پاک اور سنت نے ہدایت دی ہے ۔ان معاشرتی آداب پر عمل درآمد میں بھی چند مستثنیات کے علاوہ ریاست کا کوئی رول اور کوئی کردار نہیں ہے البتہ جہاں تک تعلق ہے ان قوانین کا جن کے مخا طین اصحاب حکومت ہیں جن کے مخاطبین اولو الامر ہیں وہ براہ راست ریاست کی ذمہ داری ہیں اور ریاست بہرحال انکو نافذ کرے گی اور انکو توڑنے والوں کو سزا بھی دے گی ۔اگر اسلام کوئی معاشرہ قائم کرتا ہے کوئی تہذیب قائم کرتا ہے تو اس تہذیب کے تحفظ کے لئے ریاست بھی قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اور وہ ریاست اسلامی قوانین کے مطابق کام کرتی ہے تو وہاں یہ کہنا انتہائی لغو اور مہمل بات ہے کہ ریاست قا نون پر عمل درآمد کے معاملہ میں مداخلت نہ کرے اس لغو اور مہمل بات کے معنی یہ ہیں کہ مثلاً چور کو کچھ نہ کہا جائے اس لئے کہ شریعت نے انسانوں کو آزادی دی ہے۔ یہ بات دنیا کا کوئی بھی نظام یا نظریہ قبول نہیں کرتا۔ نہ یہ کوئی معقول عذر ہو گا کہ چونکہ شریعت نے آزادی دی ہے لہذا چوری کی آزادی ہو نی چاہئے بد اخلاقی کی آزادی بھی ہو نی چاہئے مخدرات کے استعمال کی آزادی بھی ہو نی چاہئے۔ ان امور کا تعلق اسلام کے قوانین فوجداری سے ہے اوریہ وہ چیزیں ہیں جن پر عمل در�آمدکرانا لازماً ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ دنیا کی ہر ریاست کی طرح اسلامی ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فوجداری قوانین کو نافذ کرے۔ دنیا کی ہر ریاست اپنے قوانین کو نافذکرتی ہے اسی طرح اسلام کی ریاست بھی قوانین کو نافذ کرے گی۔
اسلام کے قوانین کی اساس اخلاقی ضوابط اور رو حانی اصولوں پر ہے اس لئے اسلام میں بعض او قات قانون اور اخلاقیات کی حدودمل جاتی ہیں۔ کہیں کہیں ایک ہو جاتی ہیں اور وہاں تعیین دشوار ہو تاہے کہ کس حد تک قانون کی ذمہ داری ہے اورکہاں قانون کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ شریعت نے اس معاملہ میں واضح ہدایات دی ہیں۔ اس ضمن میں کہیں کہیں دو ر جدید کے قانونی تصورات سے اسلامی قانون کا اختلاف پیدا ہو تا ہے۔اسلامی قانون بنیادی طور پر ایک اخلاقی قانون ہے اور وہ اسلام کی دینی تعلیم اور اخلاقی اصو لوں سے ہی اپنی سند جواز حاصل کرتا ہے۔ وہ اپنی قوت نافذہ قانونی اصول سے اخذ کرتا ہے لہذٰ ا اسلام میں قانونی اصو ل کا اصل مقصد اخلاقی اصول پر عملدرآمد کو یقینی بنانا اور اخلاقی معاشرہ قائم کرنا ہے ۔لہذا یہاں قانون اور اخلاق میں اس نو عیت کی علیحدگی ممکن ہی نہیں جواہل مغرب نے پید اکر دی ہے تاہم ریاست کی مداخلت کا دائرہ عام طور پر صرف قانونی معاملات ہیں اخلاقی امور عام طور پر ریاست کی مداخلت کے بغیر ہی انجام پانے چاہییں ۔
اسلامی تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں کہ حکومت وقت نے کوئی فیصلہ کرنا چاہا اورریاست کے کسی شہری نے اس کو ذاتی آزادی کے خلاف سمجھا سیدنا عمر فاروقؓ نے ایک مرتبہ یہ فیصلہ کیا کہ مہر کی رقم کو محدود کر دیا جائے، لوگ مقابلہ کرنے لگے ہیں کہ زیادہ کون مہر رکھتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے سوچ کر یہ طے کیا کہ اس کی ایک حد بندی ہونی چاہئے اور پابند کیا جائے کہ لوگ ایک خاص حد سے زیادہ مہر ادا نہ کریں انہوں نے اس کا اعلان کیا جب وہ خطبہ دے کر نماز کے بعد مسجدسے باہر نکل رہے تھے تو دیکھا کہ ایک خاتون کھڑی ہوگئیں بوڑھی خاتون تھیں انہوں نے خلیفہ راشد کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے قرآن پاک تو کہتا ہے ’’ واٰتیتم احداھن قنطارا فلا تأ خذوا منہ شیئا ،،( اگر تم نے اسے سونے کا ایک ڈھیر بھی دیا ہوا ہو تو واپس نہ لو )لہذا جہاں سونے کا ڈھیر دیا جاسکتا ہے تو وہاں آپ کی حد بندی کیا معنی رکھتی ہے حضرت عمرؓ نے کہا کہ اصابت امرأۃ و اخطأعمر ،، (عورت نے صحیح کہا اور عمر نے غلطی کی ) دوبارہ لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا لوگ دوبارہ جمع ہوئے فرمایا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی میں اس کو واپس لیتا ہوں ۔اس لیے کہ انہوں نے فوراً احساس کر لیا کہ یہ فرد کا معاملہ ہے اور خاندان کے افراد آپس میں مشورے سے جو طے کرنا چاہتے ہیں وہ کر یں اس طرح کے معاملا ت میں ریاست کو مدا خلت نہیں کرنی چاہئے لہذا اخلاقی ہدایات اور قانونی احکام کے درمیان میر اخیال ہے حدوو ہیں وہ بہت واضح ہیں ان میں کوئی التباس اسلامی شریعت کے اعتبار سے نہیں ہے ۔
*
واب:جی ہاں ان کے حق میں دعا کرے اور حسن سلوک ترک نہ کرے کیونکہ پھر بیٹا بھی حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے ظالم ہوجائے گا اور بیٹے کا ظالم ہونا باپ کی نسبت زیادہ سنگین ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )