امام بخاری روایت کرتے ہیں :
حضرت سالم اپنے والد سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے تکبر سے اپنا تہبند یا شلوار ٹخنوں سے نیچی رکھی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے تہبند کا ایک سرا نیچے ہوتا ہے۔ لیکن یہ تکبر کی وجہ سے نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ان میں سے نہیں جو تکبر سے ایسا کرتے ہیں۔(بخاری، 1 : 860)
امام ترمذی روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند نیچے رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نگاہ رحمت سے نہیں دیکھے گا۔(ترمذی، 1 : 206)
ایسی متعدد احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خْیلاء(متکبرین) کی قید لگائی ہے۔ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اس بات پر صریح دلالت کرتی ہیں کہ اگر ایسا کرنا تکبر سے نہ ہو تو جائز ہے۔ علماء اور محدثین کرام بھی جواز کے قائل ہیں۔ آج کل بعض لوگ کسی بھی معاملے پر ایک آدھ حدیث کو پڑھ کر دوسروں پر فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں، انہیں چاہیے کہ محض کسی ایک حدیث کو کل دین سمجھنے کی بجائے اس موضوع پر دیگر سینکڑوں کتب احادیث کا بھی مطالعہ کریں۔ سینکڑوں احادیث ایسی ہیں جو کراہیت اور جواز دونوں پر دلالت کرتی ہیں۔
جواب :قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس سے حتمی طور پر معلوم ہوکہ جہنم کہاں ہو گی۔ البتہ قرآن مجید سے ہمیں احوال قیامت کے ضمن میں جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کی روشنی میں ہم ایک اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمین وآسمان زبردست تباہی سے گزریں گے۔ ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اسی طرح لپیٹ دیا جائے گا جیسے کاغذ رول کیا جاتا ہے۔ ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان زمین وآسمان کو نئے زمین و آسمان سے بدل دیا جائے گا۔اس تفصیل سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ جہنم اور جنت کسی نئی دنیا میں ہوں گے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: وہ لوگ جو اللہ کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار کرتے ہیں او رجان بوجھ کر حق کا انکار کرتے ہیں ، ان کے لیے ابدی ہوگی باقی کے لیے نہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: صحیح احادیث سے واضح طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ بعض مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی کچھ سزا دینے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا، پھر اللہ کی رحمت سے انھیں معاف کر دیا جائے گا۔ یہ وہ مؤمنین ہوں گے جن کے پاس حقیقی ایمان خواہ وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو بہرحال، موجود ہو گا۔ سورہ آل عمران کی آیت ۷۷ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قیامت کے روز بعض لوگوں کو ان کے گناہوں کی سزا دے کر پاک کیا جائے گا۔ جو لوگ دوزخ کی ابدی سزا پائیں گے وہ حقیقی کافر ، حقیقی مشرک اور حقیقی منافقین وغیرہ ہی ہوں گے۔ حقیقی مسلمان لازماً دوزخ سے بچائے جائیں گے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: قرآن مجید میں عذاب کے ساتھ تبشیر(خوش خبری) کے فعل کے استعمال میں ایک خاص بلاغت ہے۔یہ اسلوب بالعموم ان مواقع پر اختیار کیا گیا ہے جہاں اہل کفر کی ہٹ دھرمی اور اپنے جھوٹے معبودوں پر اندھا اعتماد زیر بحث ہو۔مراد یہ ہے کہ اگر تمھیں اس حق کو قبول کرنے میں یہ چیزیں آڑے آرہی ہیں تو پھر جہنم میں ڈالے جانے کی خوش خبری لے لو۔یہ ایک اعتبار سے ان کے اندھے پن اور ھٹ دھرمی پر طنز ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: بعض احادیث میں اِس طرح کی بات آئی ہے، لیکن وہ احادیث ایک تو اتنی مستند نہیں ہیں اور دوسرے یہ کہ یہ اگر کوئی حدیث ہے بھی تو یہ قرآن مجید کی آیات کے خلاف کوئی مفہوم نہیں رکھتی۔ دوزخ کی ابدیت کوقرآنِ مجید کی کئی آیتیں بیان کرتی ہیں۔مثلاً :‘‘ومن یعص اللہ و رسولہ فان لہ نار جہنم خٰلدین فیہا ابدا۔’’ ( الجن ۷۲:۲۳) جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے ، تو بے شک اُن کے لیے جہنم کی آگ ہو گی،جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔
(محمد رفیع مفتی)
بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کر دیں ۔ لیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے ۔ وارثوں کی نامزدگی اوروراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے۔یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کرڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔ (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔ (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالی۔اوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائے گا لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔