پہناوا

جی ہاں آدھے بازو تک شرٹ پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے اور نماز ہو جاتی ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

سیاہ رنگ کے لباس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ آپ نے سیاہ رنگ کا لباس استعمال کیا ہو اور نہ ہی اس کی ممانعت پر کوئی روایت ہے اس لیے جائز ہے۔ البتہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاہ رنگ کا عمامہ استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ لباس اور جوتوں کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے۔

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

امام بخاری روایت کرتے ہیں :
حضرت سالم اپنے والد سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے تکبر سے اپنا تہبند یا شلوار ٹخنوں سے نیچی رکھی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے تہبند کا ایک سرا نیچے ہوتا ہے۔ لیکن یہ تکبر کی وجہ سے نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ان میں سے نہیں جو تکبر سے ایسا کرتے ہیں۔(بخاری، 1 : 860)
امام ترمذی روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند نیچے رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نگاہ رحمت سے نہیں دیکھے گا۔(ترمذی، 1 : 206)
ایسی متعدد احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خْیلاء(متکبرین) کی قید لگائی ہے۔ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اس بات پر صریح دلالت کرتی ہیں کہ اگر ایسا کرنا تکبر سے نہ ہو تو جائز ہے۔ علماء اور محدثین کرام بھی جواز کے قائل ہیں۔ آج کل بعض لوگ کسی بھی معاملے پر ایک آدھ حدیث کو پڑھ کر دوسروں پر فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں، انہیں چاہیے کہ محض کسی ایک حدیث کو کل دین سمجھنے کی بجائے اس موضوع پر دیگر سینکڑوں کتب احادیث کا بھی مطالعہ کریں۔ سینکڑوں احادیث ایسی ہیں جو کراہیت اور جواز دونوں پر دلالت کرتی ہیں۔

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ کوئی لباس انگریزی، عیسائی، ہندو یا یہودی نہیں ہوتا۔ ہر وہ لباس جو باپردہ ہو، گرمی سردی کی شدت سے بچائے اور پہنا ہوا اچھا لگے وہ اسلامی لباس ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے علاوہ کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اس لیے مذکورہ بالا شرائط پر پورا اترنے والا ہر لباس پہنا جا سکتا ہے۔اسلام ہر علاقے کے لوگوں کو اپنے ثقافتی لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے، اگر وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں۔ کیونکہ ہر علاقے، ثقافت اور کلچر کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ اسلام کسی ایک علاقے کے لیے نہیں آیا بلکہ یہ ایک آفاقی دین ہے جس نے ساری دنیا میں قابلِ قبول بننا ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسلام آفاقی انداز اپنائے۔ کسی ایک علاقے کے لباس، زبان اور رسوم کو لاگو نہ کرے۔ہر دور اور ہر علاقے کے اپنے رنگ ہوتے ہیں، جو عربوں سے نہ بھی ملتے ہوں یا عہدِ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہ بھی ہوں توبھی قابلِ قبول ہیں۔اگر برِ صغیر پاک و ہند کے اکثر مسلمانوں کا لباس دیکھا جائے تو وہ شلوار قمیض ہے، جبکہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شلوار قمیض پہننے کی کوئی مستند روایت نہیں ملتی الاّ یہ کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پسند فرمایا۔ اس کے علاوہ کھانے، پینے، سواری کرنے اور دیگر بہت سی اشیاء ہم ایسی استعمال کرتے ہیں جن کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استعمال نہیں کیا۔ جیسے موبائل فون، کمپیوٹر، گاڑیاں، موٹر سائیکل، اے سی، پنکھے، کھانے پینے میں برگر، بوتل، پیزے وغیرہ اور ہزاروں ایسی اشیاجن کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔رہا لباس کا مسئلہ تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ مدینہ اور عرب علاقوں کے یہودی اور عیسائی جبّے پہنتے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دیکھ کر جبہ پہننے کو ناجائز اور غیر اسلامی قرار نہیں دیا بلکہ خود پہن کر یہ ثابت کر دیا کہ کوئی لباس غیر اسلامی نہیں ہے جو باپردہ اور دیدہ زیب ہو۔ٹائی لباس کا حصہ ہے، مذہب کا نہیں۔ کوئی بھی اس کو عیسائیت کا حصہ نہیں سمجھتا۔ اگر ٹائی عیسائیت کی علامت ہوتی تو عیسائی اپنے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو یہ نہ پہننے دیتے اور دوسری طرف ہر ٹائی پہنے ہوئے کو عیسائی سمجھا جاتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے یہ درست نہیں کہ پینٹ کوٹ اور ٹائی کو عیسائی لباس قرار دے دیا جائے اور ہر ٹائی لگانے والے کو عیسائی سمجھا جائے۔ جب نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان ہونے کے لیے کسی ایک لباس کو لازمی قرار نہیں دیا تو ہمارا بھی یہ فریضہ ہے کہ ہم امت پر تنگی نہ کریں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب :لباس کی کیفیات اور تفصیلات کے بارے میں قرآن وحدیث میں ہدایات نہیں ملتیں۔ دنیا میں ہرملک اور ہرقوم کا علیحدہ علیحدہ لباس ہے، البتہ یہ اصول ضرور بتایا گیا ہے کہ ایسا لباس جو کسی خاص قوم کا مذہبی یا قومی لباس ہو تو اسے اپنانا اور ان کی مشابہت اختیارکرنا مسلمانوں کے لیے منع کیا گیا ہے۔ کرتا، لنگی، پاجامہ پہننا، چادر اوڑھنا یہ سب جائز لباس ہے، کرتے کی کالر اور جیب کی تفصیلات احادیث میں نہیں ملتیں۔ اگر کسی کا ستر نماز کی حالت میں ایک چوتھائی یا اس سے زیادہ کھل گیا تو اس کی نماز نہ ہوگی۔ پیچھے دیکھنے والوں کی نماز صحیح ہوگی۔ ان کی نماز میں کوئی فساد نہ ہوگا۔ 

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :اگر ساڑھی پہننے کا آپ کے علاقہ میں عام رواج ہے ، غیر مسلم اور مسلمان سب عورتیں ساڑھی پہنتی ہیں تو وہاں ساڑھی پہننے میں مضائقہ نہیں ہے، بشرطیکہ ساڑھی اس طرح پہنی جائے کہ اس سے پورا جسم چھپ جائے اور اس طرح کی ساڑھی پہن کر نماز پڑھنا بھی درست ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )


جواب:نماز کے لیے ستر ڈھانپنا بنیادی شرط ہے، اگر تہبند سے ستر چھپ جائے تو اس کے ساتھ زیرجامہ وغیرہ پہنے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے۔ مطلوب ستر چھپانا ہے، جس لباس سے بھی ستر چھپ جائے اس سے شرط پوری ہو جاتی ہے اور نماز بھی ادا ہو جاتی ہے۔ اس لیے تہبند سے ستر چھپا لینے کے بعد اس کے نیچے زیرجامہ پہننا لازم نہیں ہے، زیرجامہ کے بغیر بھی نماز ہو جائے گی۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)