نکاح کے مسائل

بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسئلہ کی نوعیت سمجھے بغیر دونوں پر ایک ہی حکم جاری کر دیتے ہیں جو عوام الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہم ذیل میں دونوں موضوعات پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ادْعُوہُمْ لِآبَاءِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاء ہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ ۔۔۔۔۔ 
تم اْن (مْنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔(الاحزاب، 33: 5)
آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اْن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (بخاری، الصحیح، 3: 1292، رقم: 3317، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامۃ)
جان بوجھ کر ولدیت تبدیل کرنے کا حکم:
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘
بخاری، الصحیح، 6: 2485، رقم: 6385
مسلم، الصحیح، 1: 80، رقم: 63
باپ دادا سے منہ پھیرنے والے کا حکم:
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے آبا ؤ اجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔(بخاری، الصحیح، 6: 2485، رقم: 6386مسلم، الصحیح، 1: 80، رقم: 62)
باپ کی بجائے غیر کی طرف نسب ظاہر کرنا بھی باعث لعنت ہے:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔(ابن ماجہ، السنن، 2: 870، رقم: 2609، بیروت: دار الفکر)
مذکورہ بالا قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً پاکستانی، عربی، دمشقی، کوفی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشندی، چشتی، سہروردی، شازلی، سلفی دیوبندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا اِمْرَأَۃَ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃَ لُوطٍ۔۔۔۔
اللہ نے اْن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت (واعلہ) اور لوط (علیہ السلام) کی عورت (واہلہ) کی مثال بیان فرمائی ہے۔( التحریم، 66: 10)
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے۔ اور درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے:
وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا اِمْرَأَۃَ فِرْعَوْنَ ۔۔۔۔اور اللہ نے اْن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجہِ فرعون (آسیہ بنت مزاحم) کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 11
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔بخاری، الصحیح، 2: 531، رقم: 1393
اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔ اور حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:
یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔بخاری، الصحیح، 5: 1950، رقم: 4780
جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے اْن کے والد کی بجائے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کی، اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہرات کی نسبت متعدد بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ 
لہٰذا عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا میں ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔ تحقیق کئے بغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔


 

(مفتی محمد شبیر قادری)

نکاح کے معاملہ میں شریعت نے مردو عورت کو پسند اور ناپسند کا پورا اختیار دیا ہے اور والدین کو جبر و سختی سے منع کیا ہے۔ دوسری طرف لڑکے اور لڑکی کو بھی ترغیب دی کہ وہ والدین کو اعتماد میں لے کر ہی کوئی قدم اٹھائیں۔بہتر یہی ہے کہ والدین کو راضی کر لیں تاکہ آنے والی زندگی میں وہ آپ کا ساتھ دے سکیں، اور خدا نہ کرے کوئی مسئلہ بن جائے تو آپ کو والدین کی حمایت حاصل ہو۔ ان کو شادی میں بھی شامل کریں۔ انہیں قرآن وحدیث کا حکم سنائیں اور دکھائیں کہ شرعی طور پر یہ حکم ہے۔ امید ہے راضی ہو جائیں گے۔ اگر کسی صورت بھی وہ آپ کی پسند کی شادی نہیں کرتے تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن والدین کا احترام کرنا اور ہر صورت ان کی خدمت کرنا آپ کا فرضِ اولین ہے

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب: عہدِ جاہلیت میں نکاح کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ آدمی دوسرے سے کہتا تھا : تم اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے کردو ، میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تم سے کردوں گا اور دونوں کا مہر معاف ہوجائے گا۔ اسے ’نکاحِ شغار‘ کہاجاتا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ نکاح سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرفرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’شغار سے منع کیا ہے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’اسلام میں ’شغار ‘ جائز نہیں ہے۔‘‘
بعض روایات میں ’ شغار‘ کا مطلب بھی بتایا گیا ہے:
’شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی سے دوسرے آدمی کا نکاح (اس شرط پر ) کردے کہ دوسرا اپنی بیٹی سے اس کا نکاح کردے اوران میں سے کسی کے ذمے اپنی بیوی کا مہر نہ ہو۔‘‘
علامہ شوکانی نے’ نکاح شغار‘ کی دو علّتیں قرار دی ہیں: ایک یہ کہ اس میں ہر لڑکی کوحقِ مہر سے محروم کردیا جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ اس میں ہر نکاح دوسرے نکاح سے مشروط اوراس پر موقوف ہوتا ہے۔ (نیل الاوطار)
اگراس طریقہ نکاح میں دونوں لڑکیوں کا مہر تو مقرر کیا گیا ہو، لیکن دونوں نکاح ایک دوسرے سے مشروط اورمعلّق ہوں توبھی وہ ناجائز ہوں گے۔روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس کے بیٹے عباس نے عبدالرحمن بن الحکم کی لڑکی سے اورعبدالرحمن نے عباس بن عبداللہ کی لڑکی سے نکاح کیا اور دونوں لڑکیوں کا مہر بھی مقرر کیا گیا ، لیکن حضرت معاویہ کواس نکاح کی خبر پہنچی توانہوں نے مدینہ کے گورنر حضرت مروان کولکھا کہ اس نکاح کوفسخ کردیا جائے ، اس لیے کہ یہ وہی نکاحِ شغار ہے ، جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے نکاح شغار کی تین صورتیں بتائی ہیں اورتینوں کو ناجائز قرار دیا ہے : ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کوبدلے میں اپنی لڑکی دے گا اوران میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔دوسرے یہ کہ شرط تووہی ادلے بدلے کی ہو، مگر دونوں کے برابر مہر(مثلاً پچاس پچاس ہزار روپیہ )مقرر کیے جائیں اورمحض فرضی طورپر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کیا جائے،دونوں لڑکیوں کوعملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔ تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو ، بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔‘‘
بدلے کی شادیوں میں عموماً تلخی اورناخوش گواری کا اندیشہ رہتا ہے اوردونوں خاندانوں پر خانہ بربادی کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے۔ مثلاً اگرایک خاندان میں شوہر نے جایا بے جابیوی کی پٹائی کردی یا دونوں کے درمیان تعلق میں خوش گواری باقی نہیں رہی یا اس نے طلاق دے دی تو دوسرے خاندان میں لڑکے پر اس کے والدین یا دوسرے رشتے دار دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بھی لازماً وہی طرزِ عمل اپنی بیوی کے ساتھ اختیار کرے۔لیکن اگر دونوں رشتوں کی مستقل حیثیت ہو، دونوں لڑکیوں کا مہر طے کیا جائے اوران کوادا کیا جائے اورایک رشتہ کسی بھی حیثیت میں دوسرے رشتے کومتاثر کرنے والا نہ ہو تو ایسے رشتوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(ابو یحییٰ)

جواب: جن عورتوں سے نکاح حرام ہے ان کی فہرست سورہ نساء میں مذکور ہے۔ ان میں بہن بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”تم پر حرام کی گئیں تمھاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں ……..،،(النسا)
نسبی رشتے سے بہن کی تین قسمیں ہیں:
(۱) سگی بہن (یعنی لڑکے اور لڑکی کی ماں  بھی ایک ہو اور باپ بھی)
(۲) علّاتی بہن (یعنی دونوں کا باپ ایک ہو، لیکن ماں الگ الگ ہوں)
(۳) اخیافی بہن (یعنی دونوں کی ماں ایک ہو، لیکن باپ الگ الگ ہوں)
ان تینوں قسموں پر بہن کا اطلاق ہوتا ہے اور ان سے نکاح کرنا حرام ہے۔ بہ الفاظ دیگر نسبی حرمت اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جب لڑکے اور لڑکی دونوں کا، والدین یا ان میں سے کسی ایک میں اشتراک ہو۔
سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے اس میں لڑکے اور لڑکی کے ماں اور باپ الگ الگ ہیں،اس لیے ان دونوں کے درمیان آپس میں نکاح ہوسکتا ہے۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

ج:آپ نے نکاح کے حوالے سے خدا کی گواہی کی جو بات سنی ہے، وہ درست نہیں ہے اور اس پرآپ کا تردد بالکل صحیح ہے.
شریعت نے نکاح کیلیے جن باتوں کو لازم قرار دیا ہے. وہ درج ذیل ہیں:
1.    حق مہر
2.    پاک دامنی
3.    علانیہ ایجاب و قبول(کم از کم دوگواہوں کا موجود ہونا)
4.    مستقل رفاقت کی نیت

 

(محمد رفیع مفتی)

جواب : نکاح کے ضمن میں جن چیزوں کا حکم دیاگیاہے ان میں سے ایک مہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاٰتْواالنِّسَاء صَدْقٰتِہِنَّ نِحلَۃٍ                                                (النساء:۴)
”اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو۔“
نکاح منعقدہوتے ہی لڑکی مہر کی مستحق ہوجاتی ہے اور اگر بروقت شوہر مہر ادا نہ کرسکے تو وہ اس کے ذمّے قرض رہتاہے۔ اس لیے اگر رخصتی سے قبل شوہر کا انتقال ہوجائے تو بھی لڑکی پورے مہر کی مستحق ہوگی۔
قرآن کریم میں عدّتِ وفات کاتذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے:
وَالَّذِینَ ْتَوَفَّونَ مِنہْم وَتذَرْونَ اَزوَاجًا َّتَرَبَّصنَ بِاَنفْسِہِنَّ اَربَعۃََ اَشہْرٍ وَّعَشرًا                                                         (البقرۃ:)”تم میں سے جو لوگ مرجائیں، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کوچار مہینے دس دن روکے رکھیں۔“
یہ حکم عام ہے، اس لیے اس میں ہرطرح کی عورتیں شامل ہیں۔ وہ بھی جن کانکاح تو ہوگیا ہو، لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی ہو۔ عدّتِ وفات کا حکم اصلاً شوہر کی وفات پر اظہارِ غم کے لیے دیاگیا ہے۔

()

جواب: خلع کے وقت اگر شوہر نے ایک طلاق کی صراحت کی تھی تو دوبارہ ازدواجی رشتہ قائم ہونے کی گنجائش ہے، لیکن اگر اس وقت تین طلاق دینے کی صراحت کی گئی تھی تو اب دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں۔ خلع کے نتیجے میں ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔ یعنی نئے نکاح اور نئے مہر کے ساتھ دونوں کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم ہوسکتا ہے۔
 

()

جواب: دیگر مذاہب کے ماننے والے مرد اور عورت اگر اپنے مذہب کے مطابق نکاح کے بندھن میں بندھے ہوں تو اسلام اسے تسلیم کرتا ہے۔ قرآن کریم میں امراۃ فرعون القصص:۹، امراۃ العزیز یوسف:۲۱،، امراۃ ابی لہب لھب:۴ وغیرہ کا تذکرہ موجود ہے۔ اس بنا پر اگر کوئی جوڑا اسلام قبول کرے تو اس کے نکاح کی تجدید کی ضرورت نہیں۔ عہد نبوی میں جو حضرات
 اپنی بیویوں کے ساتھ اسلام لائے تھے، ان میں سے کسی کے بارے میں مذکور نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازسرِنو اس کا نکاح پڑھایا ہو۔ شرح السنہ میں ہے کہ ”بہت سی خواتین نے اسلام قبول کیا، بعد میں ان کے شوہر بھی اسلام لے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ نکاح پر ہی انھیں ان کے شوہروں کے حوالے کردیا۔“ حضرت ام حکیم بنت حارث کا واقعہ مشہور ہے۔ وہ اسلام لائیں، مگر ان کے شوہر عکرمہ بن ابی جہل نے اسلام قبول نہیں کیا اور بھاگ کر یمن چلے گئے۔ حضرت ام حکیم کی خواہش پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں امان دے دی۔ وہ یمن جاکر انھیں بلالائیں اور ان کی کوشش سے حضرت عکرمہ  ایمان لے آئے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کے سابقہ نکاح پر باقی رکھا۔لموسوعہ الفقہیہ کویت میں ہے:
”زوجین کا نکاح اگر حالتِ شرک میں جائز طریقے سے ہواتھا تو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے درست ماناجائے گا۔“
مشہور عالم دین مفتی عبدالرحیم لاجپوری  نے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں یہ فتویٰ دیا ہے:”شوہر اور بیوی پہلے ہندوتھے اور انھوں نے ہندو طریقہ کے مطابق نکاح کیاتھا اور اس کے بعد خدا کی توفیق سے دونوں مسلمان ہوگئے تو دوبارہ نکاح کرنا ضروری نہیں۔ اسلام لانے کے بعد بلاتجدید نکاح دونوں میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔“٭٭٭

 

()

جواب: عورت مسلمان ہو کر کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے، وہ مسلمان ہونے کے بعد تین حیض گزار لے اور پھر نکاح کرے تو نکاح درست ہوجائے گا۔ اسلام لانے کے بعد تین حیض گزرنے سے خود بخود نکاح ختم ہوجائے گا۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: اللہ تعالیٰ نے مساجد کے بارے میں فرمایا: فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔ (النور:۳۶)

‘‘ان گھروں میں جن کے بلند کرنے ، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہا ں صبح و شام اللہ تعالٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں’’۔

سیدنا ابن عباسؓ، مجاہدؒ، حسن بصری ؒ وغیرہ کے نزدیک اس آیت کریمہ میں بیوت سے مراد مساجد ہیں۔ اہلِ علم کا موقف یہ ہے کہ مساجد دراصل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اقامت ِ صلوٰۃ کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ مساجد کی تعظیم کی جانی چاہیے اور ان کو نجس و گندگی جیسی چیزوں سے پاک رکھنا چاہیے جیساکہ امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں بھی بیان کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ‘‘مساجد کو لہوولعب، بے کار اور ایسے اُمور سے پاک رکھنا چاہیے جو اُن کے لائق نہیں ہیں’’۔ علامہ جلال الدین سیوطی کے مطابق: ‘‘یہ آیت کریمہ مساجد کی عظمت اور اُنھیں ہلکی نوعیت کے کاموں سے دُور رکھنے کو بیان کرتی ہے’’۔ غرض ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ مساجد کے مخصوص احکام و آداب ہیں جن کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں مساجد کی ہیبت و احترام اور وقار برقرار رہے۔ جیساکہ سیدنا بریدہؓ سے مروی حدیث میں آتا ہے کہ ایک موقع پر ایک صحابی مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کر رہا تھا تو آپؐ نے فرمایا: لا وجدت انما بنیت المساجد لما بینت لہ۔

‘‘اللہ کرے تو اپنی گم شدہ چیز نہ پائے۔ مساجد ان مقاصد کے لیے ہی ہیں جن کے لیے اُنھیں تعمیر کیا گیا ہے’’۔

امام نوویؒ فرماتے ہیں: ‘‘اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ مساجد میں گم شدہ چیزیں ڈھونڈنا ممنوع ہیں۔ ایسے ہی مساجد میں خریدوفروخت کرنا بھی ناجائز ہے۔ مساجد میں آوازیں بلند کرنا بھی درست نہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے شخص کے لیے یہ کہنا کہ تمھیں وہ اعلان کرنا چیز نہ ملے ، اس سے تہدید و توبیخ کا بھی پتا چلتا ہے’’۔ (شرح النووی علی مسلم:۲۱۵/۲)

ایک بار سیدنا عمر بن خطاب نے ایک شخص کو مسجد میں بلندآواز سے باتیں کرنا سنا تو اس سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ: ‘‘یہ بلند آواز مسجد میں کیسی؟ تمھیں معلوم نہیں کہ تم کہاں کھڑے ہو’’۔ (تفسیر قرطبی: ۲۶۹/۱۲)

ایسے ہی سیدنا ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھے تو آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ بلندآواز سے تلاوتِ قرآن کر رہے ہیں تو آپ نے پردہ ہٹا کر اُنھیں فرمایا: الا ان کلکم مناجٍ ربہ فلا یؤذین بعضکم بعضًا ولا یرفع بعضکم علٰی بعض فی القراء ۃ أو قال فی الصلاۃ (سنن ابی داؤد:۱۳۳۲)

‘‘تم میں سے ہرشخص رب کریم سے مناجات کرتا ہے۔ کوئی شخص دوسرے کے لیے باعث ِ اذیت بنے اور نہ ہی تلاوتِ قرآن یا نماز میں اپنی آواز بلند کرے’’۔

حتیٰ کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے مساجد میں بلند آواز اختیار کرنے والوں کو تعزیر یعنی سزا دینے کا بھی ارادہ فرمایا۔

مذکورہ بالا آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد کے احکام دیگر عمارتوں سے مختلف ہیں۔ اور ایک دین دار مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ شعائر اللہ کا احترام کرے اور بلاشبہہ مساجد شعائراللہ ہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ (الحج:۳۲)

‘‘جو شعائر اللہ کا احترام کرے تو ایسا دلوں میں اللہ سے تقویٰ کی بنا پر ہے’’۔

مذکورہ بالا اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے واضح رہنا چاہیے کہ مساجد میں نکاح کرنا اچھا عمل ہے جیساکہ فقہائے حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور بعض حنابلہ کے ہاں مساجد میں نکاح کا انعقاد بہتر عمل ہے۔ تاہم نکاح سے مراد یہاں عقدِ نکاح ہی ہے اور عقد ایجاب و قبول کا نام ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم و دیگر اہلِ علم کا بھی موقف یہی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی اس حدیث سے ہے جس میں نبی کریمؐ کا فرمانِ گرامی روایت کیا گیا ہے: أعلنوا ہذا النکاح واجعلوہ فی المساجد (جامع ترمذی:۱۰۸۹)

‘‘نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس کو مساجد میں منعقد کرو’’۔

واضح رہے کہ اس حدیث کا آخری جملہ مستند طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ نہیں، حافظ ابن حجر نے تلخیص الحبیر (۲۰۱/۴) میں اس جملہ کو ضعیف قرار دیا ہے اور اکثر محدثین کرام کا یہی موقف ہے کہ حتیٰ کہ علامہ محمد ناصرالدین البانی نے اپنی کتاب میں اس جملہ کو‘منکر’ قرار دیا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ:۹۸۲)

 اس حدیث کے بعض راویوں کو حافظ ذہبی نے تلخیص العلل المتناہیہ میں اور حافظ ابن جوزی اور امام ابوحاتم نے بھی ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔

سعودی عرب کے مشہور مفتی و عالم شیخ محمد عثیمین فرماتے ہیں:

‘‘ائمہ فقہا اورسلف کا مساجد میں نکاح کو مستحب قرار دینے کی وجہ دراصل اس مبارک جگہ کی برکت سے فائدہ اُٹھانے کا نظریہ ہے۔ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی مل جائے تو بہتر ہے، تاہم میں اس بارے میں کسی صحیح حدیث کو نہیں جانتا’’۔ (الشرح الممتع: ۱۳۲/۵)

تاہم جمہور فقہائے کرام کا مساجد میں نکاح کا موقف صرف مذکورہ بالا حدیث کی بنا پر نہیں بلکہ اس سلسلے میں صحیح بخاری میں ایک اور مشہور حدیث بھی آتی ہے جو سہل بن سعد ساعدیؓ سے مروی ہے:‘‘ایک خاتون نے کہا کہ میں اپنی ذات آپؐ کو ہبہ کرنے کے لیے آئی ہوں۔ نبی کریمؐ نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ اسی اثنا میں ایک صحابی رسولؐ کھڑے ہوئے اور نبی کریمؐ سے مخاطب ہوئے کہ اگر آپؐ کو اس میں کوئی حاجت نہیں تو آپؐ اس خاتون کا نکاح مجھ سے فرما دیجیے۔ تو نبی مکرمؐ نے اس صحابی کی طرف سے اس عورت کا حق مہر قرآنِ کریم کی تعلیم کو قرار دے کر، ان دونوں کا نکاح کرا دیا’’۔ (بخاری:۵۱۴۹)

اس حدیث مبارکہ کے بارے میں حافظ ابن حجر صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ خاتون کی آمد کا یہ واقعہ مسجد میں پیش آیا تھا جیساکہ امام سفیان ثوری کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے۔ (فتح الباری: ۲۰۶/۹)

اس حدیث نبویؐ سے معلوم ہوا کہ مساجد میں نکاح منعقد کیا جاسکتا ہے اوراس کا شریعت اسلامیہ میں جواز موجود ہے تاہم واضح رہنا چاہیے کہ دورِ نبوی میں آپؐ کے صحابہ کے بہت سے نکاح ہوئے، خلفائے راشدینؓ کے اَدوار میں بھی بہت سے نکاح منعقد ہوتے رہے لیکن مساجد میں نکاح کی مستند روایت ان اَدوار میں شاذونادر ہی ملتی ہے۔ چنانچہ مساجد میں نکاح کے لیے درج ذیل ضوابط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:

۱- مساجد میں یہ نکاح روزمرہ معمول نہیں بننے چاہییں، اور نہ ہی اس کو مسجد میں کوئی خاص باعث ِفضیلت سمجھنا چاہیے۔

۲- مساجد کے احکام، اوراس کے شرعی آداب بہرطور ملحوظ رکھنے جانے چاہییں۔ چنانچہ مساجد میں آوازیں بلند کرنا، اور مساجد کو کھانے پینے اور حلویات سے آلودہ کردینا بالکل درست نہیں ہے۔

۳- مساجد میں آنے والے دولہا کو سادگی اور وقار اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ مساجد تفریح کے مراکز نہیں اور ان میں وقار قائم رہنا چاہیے جیساکہ نبی کریمؐ کا فرمان اُوپر گزرا کہ ‘‘مساجد اسی کے لیے ہیں، جس لیے انھیں بنایا گیا ہے’’۔

۴- مساجد میں مرد وزن کا اختلاط بالکل منع ہے۔ اسی طرح مساجد میں فیشن زدہ خواتین کا اپنے زرق برق یا شرم و حیا سے عاری ملبوسات میں آنا، مساجد میں یادگاری تصاویر وغیرہ لینا، یہ چیزیں بالکل غیر شرعی ہیں، ان سے کُلی اجتناب ہونا چاہیے۔

۵- مساجد میں موسیقی، طبلے، گانے بجانے، گانوں اور عروسی نظموں سے بھی پرہیز ہونا چاہیے۔

الغرض یاد رہنا چاہیے کہ نکاح کی تقریبات کے ذریعے کسی طرح بھی مسجد کا وقارو احترام متاثر نہ ہونے پائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مساجد اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، اللہ کی عبادت کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان کا احترام شعائر اللہ ہونے کے ناتے ہرمسلم پر فرض ہے۔ جہاں تک مساجد میں شادی کی تقریبات کا تعلق ہے تو اس کا مقصد، مساجد کے مقام و مرتبہ کو لوگوں کو ذہنوں میں راسخ کرنا اور لوگوں کا مساجد سے تعلق کو پختہ کرناوغیرہ ہے۔ یہ مقاصد نیک ہیں، اور ان مقاصد کو دیگر اچھے ذرائع سے حاصل کرنے کی بھی جدوجہد کرنا چاہیے۔

شیخ محمد صالح العثیمین سے پوچھا گیا کہ کیا مساجد میں نکاح کرنا عیسائیوں سے مشابہت رکھتا ہے کہ وہ بھی اپنے گرجاؤں میں نکاح کی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔

جواب: نہیں، ایسی بات نہیں ہے حتیٰ کہ علمائے شریعت نے مساجد میں نکاح کو مستحب قرار دیا ہے اور ان کی یہ دلیل ہے: ان أحب البقاع الی اللّٰہ مساجدہا،‘‘روئے ارض پر سب سے مبارک قطعہ ارضی اللہ کی مساجد ہیں’’۔ سو اللہ کے گھر ہونے کے ناتے مساجد میں نکاح کرنا ایک بابرکت فعل ہونا چاہیے۔ تاہم یہ ایک منطقی توجیہ ہی ہے، ہمیں نبی کریمؐ کی سنت ِ مبارک میں ایسے نہیں ملتا کہ آپ بطور ِ خاص مسجد میں تشریف لے جاتے ہوں اور وہاں نکاح منعقد کرنے کی جستجو کرتے ہوں۔ جب سنت ِ مطہرہ میں ایسا منقول نہیں ہے تو اس کو روز مرہ عادت بنا لینا بھی مناسب نہیں۔

شیخ عبدالعزیز بن بازؒ سے سوال کیا گیا کہ مساجد میں نکاح کے بارے میں آپ کا فتویٰ کیا ہے، ہم یہ کام اس مقصد سے کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے نئے جوڑے اور دونوں خاندانوں کو اللہ کی رحمت اور برکت حاصل ہوگی۔

جواب: کسی مخصوص مقام پر نکاح کے انعقاد کے بارے میں ، میرے علم میں کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ مساجد یا دیگر مقامات پر نکاح میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم میرے علم میں مساجد میں نکاح کا التزام کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔

شرعی طور پر یہ امر واضح ہے کہ کتاب و سنت میں مساجد میں نکاح منعقد کرنے کی پختہ روایت نہیں ملتی۔ تاہم فی زمانہ برصغیر پاک و ہند میں نکاح کے ساتھ شان و شوکت، نمائش و اِسراف ، بینڈ باجے اور بے جا رسومات کی جو متعدد عادات و رواجات منسلک ہوچکے ہیں تو مساجد میں نکاح منعقد کر کے ان غیرشرعی رسومات کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے، کیونکہ مساجد کا ماحول ایسی بہت سی باتوں کا اپنی پاکیزگی کی بنا پر متحمل نہیں ہوسکتا۔ عقدِ نکاح سے قبل جو خطبہ ارشاد فرمایا جاتا ہے، اس کی تاثیر کے لیے بھی مبارک اور باوقار ماحول درکار ہے، تب ہی اس کے اثرات اوراس موقع پر کی جانے والی دعا کی تاثیر پیدا ہوسکتی ہے۔ ان مقاصد کے پیش نظر ، جن میں سادگی، رسوم و رواج کا خاتمہ اور ہندوانہ عادات کی بیخ کنی وغیرہ شامل ہیں، مساجد میں نکاح کو اختیار کیا جاسکتا ہے، تاہم یہ بعض نیک مقاصد کی بنا پر ہی ہے۔ اور اگر لوگ یہ طریقہ اختیار کرلیں کہ نکاح تو مسجد میں کریں اور غیراسلامی عادات اور شان و شوکت کے لیے شادی کی مستقل تقریبات منعقد کریں تو اس سے یہ اصل مقصد ختم ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ چونکہ ان کی پرشکوہ مجالسِ شادی بیاہ کے لیے خطبہ نکاح یا کسی عالم دین کا آکر وہاں وعظ و تلقین کرنا اجنبی محسوس ہوتا ہے۔ اس بنا پر وہ شادی کی تقریب میں اپنے دنیادارانہ شوق پورے کرتے ہیں اور اس کے دینی پہلو کے لیے مسجد میں ایک رسمی مجلس کرکے، جس میں چند ایک رشتہ دار حاضر ہوجاتے ہیں، نکاح کے شرعی پہلو سے عہدہ برآ ہوجاتے ہیں۔ جن مقاصد کے لیے مساجد میں نکاح کو فروغ دیا جا رہا ہے ، اگر وہ مقاصد پورے نہیں ہو رہے بلکہ اس سے اسلام اور اہلِ اسلام کی بے توقیری سامنے آرہی ہو تو پھر مساجد میں نکاح کے انعقاد کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ شریعت ِ اسلامیہ کی رُو سے مساجد میں نکاح منعقد ہوسکتا ہے اور نیک مقاصد کے لیے اس کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک صرف اِس کے مبارک ہونے اور اس سے برکت لینے کا تعلق ہے تو دورِ نبویؐ اور ادوارِ صحابہؓ و تابعینؒ میں مساجد سے اس تبرک کی کوئی مستند روایت موجود نہیں ہے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

ج ۔ نکاح کے لئے ایجاب و قبول شرط ہے، یعنی ایک طرف سے کہا جائے کہ: ‘‘میں نے نکاح کیا’’ اور دْوسری طرف سے کہا جائے: ‘‘میں نے قبول کیا’’۔ ایجاب و قبول ایک بار کافی ہے، تین بار کوئی ضروری نہیں، اور کلمے پڑھانا بھی کوئی شرط نہیں، مگر آج کل لوگ جہالت کی وجہ سے کفر کی باتیں بکتے رہتے ہیں، اس لئے بعض مولوی صاحبان کلمے پڑھادیتے ہیں تاکہ اگر لڑکے نے نادانی سے کبھی کلمہ کفر بک دیا ہو تو کم سے کم نکاح کے وقت تو مسلمان ہوجائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج ۔ نکاح ایجاب و قبول سے ہوجاتا ہے، خطبہ اس کے لئے سنت ہے، دو گواہوں کا ہونا اس کے لئے شرط ہے۔ قاضی صاحبان جو کلمے پڑھاتے ہیں وہ کچھ ضروری نہیں، غالباً ان کلموں کا رواج اس لئے ہوا کہ لوگ جہالت کی وجہ سے بسااوقات کلماتِ کفر بک دیتے ہیں اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کلمہ کفر زبان سے کہہ کر اسلام سے خارج ہو رہے ہیں۔ نکاح سے پہلے کلمے پڑھادئیے جاتے ہیں تاکہ خدانخواستہ ایسی صورت پیش آئی ہو تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائیں تب نکاح ہو۔ بہرحال نکاح سے پہلے کلمے پڑھانا کوئی ضروری نہیں اور کوئی بْری بات بھی نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج - شریعت نے کوئی کم سے کم وقفہ تجویز نہیں کیا، البتہ جلدی رْخصتی کی ترغیب دی ہے، اس لئے جہیز کی وجہ سے رْخصتی کو ملتوی کرنا غلط ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج - شرعاً جائز ہے، اور کوئی خاص رْکاوٹ نہ ہو تو لڑکے لڑکی کے جوان ہوجانے کے بعد اسی میں مصلحت بھی ہے، ورنہ بگڑے ہوئے معاشرے میں غلط کاریوں کے نتائج اور بھی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ حلال کے لئے ‘‘تباہ کن نتائج’’ (جو محض فرضی ہیں) پر نظر کرنا اور حرام کے ‘‘تباہ کن نتائج’’ (جو واقعی اور حقیقی ہیں) پر نظر نہ کرنا، فکر و نظر کی غلطی ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب :نکاح میں مہر کا ہونا ضروری ہے۔البتہ اس کی مقدار مقرر نہیں اور نہ ہی کوئی خاص قسم۔ حتی کہ ایک لوہے کی انگوٹھی کے عوض بھی نکاح ہو سکتاہے اور عورت کو قرآن مجید یا حدیث یا کوئی اور نفع مند علم سکھانے کے عوض نکاح کرنا بھی جائز ہے۔ اور جب انسان کسی عورت سے بغیر مہر شادی کرے تو اسے مہر مثل دینا ہو گا۔ مہر عورت کا حق ہے ۔اگر وہ خود مہر نہ لے اور اسے معاف کر دے تو یہ بھی صحیح ہو گا۔البتہ مہر مقرر کر نا ضروری ہے۔

(عبداللہ صالح المنجد)

ج: یہ جو فون پر نکاح کر دیا جاتا ہے اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ اگر والدین نے لڑکے سے اجازت لے لی ہے ۔ تو والد نکاح پڑھ سکتے ہیں یعنی وہ بیٹھ کر اپنی طرف سے یہ کہہ دیں کہ میں نے اپنے بچے کا نکاح اس بچی سے کر دیا اور یہ یہ شرائط میں نے قبول کر لی ہیں۔ اس سے نکاح ہو جائے گا۔ اس کے بعد اگر لڑکا اگر ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو وہ تو ٹیلی فون پر نکاح کرنے کے بعد بھی اس سے انکار کر سکتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے ، لیکن اس تکلف کی ضرور ت نہیں ہوتی۔ اب اگر لڑکا دو سال تک پاکستان نہیں آتا تو اس صورت میں بھی نکاح موجود رہے گا۔ اگر معلوم ہوتا ہے کہ نیت میں خرابی پیدا ہو گئی ہے یا اس طرح کا کوئی مسئلہ ہو گیا ہے تو عورت اگر چاہے تو اس کے نہ آنے کی بنیاد پر نکاح کو فسق کرنے کی درخواست کر سکتی ہے، اس کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نکاح اصل میں تومرد اور عورت کے درمیان ایک آزادانہ معاہدہ ہے لیکن قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ سوسائٹی کے جو معروفات ہیں ان کے مطابق ہونا چاہیے ۔ انہی معروفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح میں خاندان اور اس کے بڑے شریک ہوں تاکہ سوسائٹی کے اندر اچھی روایات پیدا ہوں ۔ اگرصورت حال یہ ہو کہ نہ باپ موجود ہے نہ بھائی موجود ہے نہ خاندان والے موجود ہیں تو یہ ایک مخدوش صورتحال ہوتی ہے ۔ ایسے میں عدالت فیصلہ کر سکتی ہے کہ یہ نکاح اصل میں نکاح ہی نہیں ہے ۔نکاح کے لیے اعلان بھی شرط ہے خفیہ نکاح کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

سوال: کچھ عرصہ پہلےمیرا محمد یوسف کی بیٹی حمیدہ سے نکاح ہوا ساتھ ہی رخصتی بھی ہو گئی لیکن ہمارے گاؤں میں امام صاحب نے کوئی تحریر یا دستحط نہیں لیے اور ہم دونوں کا شرعی اعتبار سے نکاح پڑھایا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد میری بیوی حمیدہ جو کہ میرے چچا کی لڑکی ہے کسی وجہ سے ناراض ہو کر اپنے باپ کے گھر چلی گئی اور دو تین ماہ کے اندر اُس کا دوسرا نکاح محمد رمضان ولد محمد واحد بخش جو کہ اتحاد ٹاؤن، کراچی سے آئے تھے وہ میری بیوی کو اپنے نکاح میں لیکر چلے گئے جبکہ میں نے اُسے طلاق نہیں دی تھی۔ تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ پڑھانے والے نکاح خواں جو کراچی سے آئے تھے۔ سید محمد شاہ نواز اخترا نہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ لڑکی طلاق شدہ نہیں ہے۔گھر کے تمام لوگوں نے اور کچھ محلے کے لوگوں نے جھوٹی گواہی دی کہ اس کو طلاق ہو گئ ہے تو اُنہوں نےگواہی پر نکاح پڑھایا۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میری بیوی جس کا نام حمیدہ ولد محمد یوسف جس کو میں نے طلاق نہیں دی اور جھوٹی گواہیوں پر اُس کا دوسرا نکاح محمد رمضان ولد محمد واحد بخش سے ہوا تو کیا نکاح اور اس سے ہونے والے بچے شریعت میں جائز ہیں یا حرام ہیں؟

جواب: اگر تو واقعی دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں بالغ لڑکے اور لڑکی نے ایجاب وقبول کیا تھا پھر تو شرعاً یہ نکاح ہو گیا لیکن اس کو تحریری صورت میں نہ لا کر امام صاحب نے ملکی قانون کی خلاف ورزی کی اور آپ دونوں پر بھی ظلم کیا۔

بقول آپ کے آپ نے اسے طلاق نہیں دی تو دوسرے شخص کے ساتھ نکاح قائم ہی نہیں ہوا۔ قرآن پاک میں ہے :

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِالنساء 4 : 24

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں)۔

یعنی نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا۔

لہذا دوسرے شخص کے ساتھ نکاح نہیں ہوا اگر وہ اکھٹے رہیں گے تو ساری عمر زنا کریں گے جب تک پہلا شوہر طلاق نہ دے دے اور عدت گزرنے کے بعد وہ دوبارہ نکاح نہ کر لیں یا پہلا شوہر وفات پا جائے پھر بھی عدت کے بعد وہ نکاح کر سکتے ہیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: غلط بیانی اور دھوکہ بازی سے کیا ہوا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ نکاح کے انعقاد کے لیے متعین لڑکے اور متعین لڑکی کی رضامندی سے ایجاب و قبول ضروری ہے۔ جو لوگ ایسی دھوکہ دہی میں ملوث ہیں قرآنی نص کے مطابق وہ خدا تعالیٰ کے لعنت کے مستحق ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب: اس سوال کے ساتھ سائل نے پوری تفصیل کے ساتھ فریقین کے دلائل جمع کردیے ہیں، لہٰذا پہلے ہم ان دلائل کو یہاں نقل کردیتے ہیں:
(۱) حنفیہ کا استدلال حسب ذیل آیات اور احادیث سے ہے:
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں، پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو جو کچھ وہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے کریں، اس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔‘‘
 (البقرہ۔ 234)
’’پھر اگر (تیسری بار شوہر نے بیوی کو) طلاق دے دی، تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الا یہ کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے‘‘۔
(البقرہ۔ 230)
’’پھر تم ان عورتوں کو اس سے مت روکو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ بھلے طریقے سے باہم رضامند ہوجائیں‘‘۔
(البقرہ۔ 232)
’’نافع ابن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حقدار ہے، اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حقدار ہے‘‘۔ (نصب الروایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۲)
ابی سلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرے باپ نے میرا نکاح ایک مرد سے کردیا ہے اور میں اسے ناپسند کرتی ہوں۔ آپ نے باپ سے فرمایا کہ نکاح کا اختیار تمہیں نہیں ہے اور لڑکی سے فرمایا کہ جاؤ جس سے تمہارا جی چاہے نکاح کرلو۔(نصب الروایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۲)
مالک نے عبدالرحمٰن سے، انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حفصہ بنت عبدالرحمٰن کا منذر ابن زبیر سے نکاح کردیا۔ اس وقت عبدالرحمٰن شام میں تھے۔ جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے کہ کیا میری رائے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ تب حضرت عائشہؓ نے منذر ابن زبیر سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر عبدالرحمٰن نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ جس معاملے کو آپ نے طے کردیا ہے، میں اس کی تردید نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ حفصہ منذر کے پاس ہی رہیں اور یہ طلاق نہ تھی۔
ابوداؤد اور نسائی نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا شوہر دیدہ عورت پر ولی کو کچھ اختیار حاصل نہیں ہے۔
نسائی اور احمد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول! میرے باپ نے اپنے بھتیجے کے ساتھ میرا بیاہ صرف اس لیے کردیا ہے کہ میرے ذریعے سے اسے ذلت سے نکالے۔ آپ ﷺ نے نکاح کی تنسیخ و استقرار کا حق لڑکی کو دے دیا۔ لڑکی نے کہا، میرے والد نے جو کچھ کیا ہے، میں اسے جائز قرار دیتی ہوں، میری خواہش صرف یہ ہے کہ عورتیں جان لیں کہ باپوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
(۲) اہل حدیث حضرات اپنی تائید میں مندرجہ ذیل احادیث پیش کرتے ہیں:
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے … پس اگر جھگڑا ہو تو جس عورت کا ولی نہ ہو تو سلطان اس کا ولی ہے۔
’’ ابو موسیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ولی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت دوسری عورت کا (ولی بن کر) نکاح نہ کرے، اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا جس عورت کا نکاح ولی یا حکام نہ کریں، اس کا نکاح باطل ہے۔
عکرمہ ابن خالد سے روایت ہے کہ ایک شوہر دیدہ عورت نے اپنا معاملہ ایک ایسے شخص کے سپرد کردیا جو اس کا ولی نہ تھا اور اس شخص نے عورت کا نکاح کردیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے نکاح کرنے اور کرانے والوں کو کوڑوں کی سزا دی اور نکاح منسوخ کردیا۔
’’حضرت علیؓ نے فرمایا جس عورت نے بھی اپنے ولی کے اذن کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ بلا اجازت ولی کوئی نکاح نہیں‘‘۔
امام شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ ، حضرت عمرؓ ، شریح اور مسروق نے فرمایا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔
ان دلائل پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف کافی وزن ہے اور یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فریقین میں سے کسی کا مسلک بالکل غلط ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شارع نے فی الواقع دو متضاد حکم دیئے ہیں؟ یا ایک حکم دوسرے حکم کو منسوخ کرتا ہے؟ یا دونوں حکموں کو ملا کر شارع کا منشا ٹھیک طور پر متحقق ہوسکتا ہے؟ پہلی شق تو صریحاً باطل ہے۔ کیوں کہ شریعت کا پورا نظام شارع کی حکمت کا ملہ پر دلالت کر رہا ہے اور حکیم سے متضاد احکام کا صدور ممکن نہیں ہے۔ دوسری شق بھی باطل ہے کیوں کہ نسخ کا کوئی مثبت یا منفی موجود نہیں ہے۔ اب صرف تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور ہمیں اس کی تحقیق کرنی چاہیے۔ میں دونوں طرف کے دلائل جمع کرکے شارع کا جو منشا سمجھ رہا ہوں وہ یہ ہے۔
۱۔ نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیائے عورت۔ اسی بنا پر ایجاب وقبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے۔
۲۔ بالغہ عورت (باکرہ ہو یا ثیبہ) کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر یا اس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہوسکتا، خواہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضامندی نہ ہو، اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہوسکے۔
۳۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہوجائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں، اپنے اولیا کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں  اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے، شارع نے اس کے نکاح کے لیے اس کی اپنی مرضی کے ساتھ اس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرلے، اور نہ ولی کے لیے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح جہاں چاہے کردے۔
۴۔ اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کرے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا، وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا، نامنظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کو نکاح نا منظور ہے تو عدالت اسے باطل قرار دے گی۔
۵۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے تو اسکا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا۔ ولی منظور کر لے تو نکاح برقرار رہے گا، نا منظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض و انکار کی بنیاد کیا ہے۔ اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بنا پر اس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہ کرتا ہو تو یہ نکاح فسخ کردیا جائے گا اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا ، یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آکر اپنا نکاح خود کرلیا تو پھر ایسے ولی کو سئی الاختیار ٹھہرادیا جائے گا اور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

جواب: عام طور پر ادلے بدلے کے نکاح کا جو طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے، وہ دراصل اسی شغار کی تعریف میں آتا ہے جس سے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے۔ شغار کی تین صورتیں ہیں اور وہ سب ناجائز ہیں۔
ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کے بدلے میں اپنی لڑکی دے گا اور ان میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔
دوسرے یہ کہ شرط تو وہی ادلے بدلے کی ہو مگر دونوں کے برابر برابر مہر (مثلاً ۵۰، ۵۰ ہزار روپیہ) مقرر کئے جائیں اور محض فرضی طور پر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کرلیا جائے۔ دونوں لڑکیوں کو عملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔
تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی اختیار کی جائے گی، شریعت کے خلاف ہوگی۔ پہلی صورت کے ناجائز ہونے پر تو تمام فقہا کا اتفاق ہے۔ البتہ باقی دو صورتوں کے معاملہ میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ لیکن مجھے دلائل شرعیہ کی بنا پر یہ اطمینان حاصل ہے کہ یہ تینوں صورتیں شغار ممنوع کی تعریف میں آتی ہیں اور تینوں صورتوں میں اس معاشرتی فساد کے اسباب یکساں طور پر موجود ہیں جن کی وجہ سے شغار کو منع کیا گیا ہے۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)