انبیاؑ

ج: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیا کے درمیان بھی درجات ہیں۔ اُن میں سے اللہ تعالیٰ نے کسی کو کسی معاملے میں فضیلت دی ہے اور کسی کو کسی معاملے میں فضیلت دی ہے۔ پھر نبیوں اور رسولوں میں بھی ایک درجے کا فرق ہے۔ انبیا علیہم السلام کا معاملہ عموم کا ہے اور اُن میں سے ایک خاص منصب ہے جس کو اللہ تعالیٰ رسالت سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ باتیں قرآنِ مجید میں بڑی صراحت سے بیان ہوئی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ آیت ایک خاص مقام پر آئی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ محض بن ماں کا بیٹا ہونے کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ خدا نہیں ہو گئے۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے ماں باپ، دونوں کے بغیر پیدا کیا، اس کے باوجود وہ خدا نہیں ہو گئے تو پھر حضرت عیسیٰ کیسے خدا ہو سکتے ہیں؟

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید میں صریح الفاظ میں یہ کہا گیا ہے کہ حضور خاتم النبیین ہیں۔ قرآن نے اس میں بہت کمال یہ کیا ہے کہ ‘خَاتَمَ النبیین’ کہا ہے، ‘خَاتِمَ النبیین’ نہیں کہا۔ اور کسی تاویل کی گنجایش نہیں رہنے دی۔ ‘خَاتَمَ النبیین’ کا مطلب ہے ، نبیوں کی مہر ۔ مہر یا تو Seal ہوتی ہے یا Stamp ہوتی ہے۔ آپ Seal کے معنی میں لیں گے تب بھی نبوت ختم ہو گئی۔ stamp کے معنی میں لیں گے تب بھی ختم ہو گئی۔ اس لیے کہ پھر یہ سوال پوچھا جائے گا کہ اگر بعد میں کوئی آیا ہے تو اس کی نبوت کی تصدیق حضورؐ سے دکھا دیجیے۔ حضورؐ نے کسی آنے والے کی تصدیق نہیں فرمائی، لہٰذا آپ پر نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔

جہاں تک عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ کو آخری نبی قرار دینے کے معاملہ ہے تو اس بات کی تردید خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اپنی زندگی میں ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل ہمارے پاس موجود ہے۔ اس میں وہ جگہ جگہ فرماتے ہیں کہ ‘‘میرے بعد آنے والا مددگار ’’،‘‘ میرا اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے’’، ‘‘دیکھو میں جا رہا ہوں اور دنیا کا سردار آنے والا ہے’’۔ وہاں تو ختم نبوت کی کوئی آیت ہی نہیں ہے۔

 

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل کو قربانی کے لیے پیش کیا تھا۔ حضرت اسماعیل کا ذبیح ہونا قرآن مجید سے بھی واضح ہے اور تورات سے بھی واضح ہے۔ باوجود اس کے کہ تورات میں اس جگہ حضرت اسحاق کا نام داخل کیا گیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نمرود اتنا بیوقوف نہیں تھا ، بہرحال اگر وہ ایسا سوال کرتا تو اللہ اس کے اطمینان کا سامان کرتے یا اس پر اتمام حجت کرتے ۔اپنے پیغمبر کو رسوا نہ کرتے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انبیا سے گناہ صادر نہیں ہوتا اور ان کی لغزش بھی نفس کی جانب سے نہیں ہوتی۔ان کی جو بات لغزش محسوس ہوتی ہے وہ بھی اصل میں حق کی حمایت مگر حدود سے زیادہ ہوتی ہے ۔یعنی اللہ کی خوشنودی پانے میں وہ بعض اوقات کسی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے حد سے بڑھ جاتے ہیں تو انکے ہاں نفس کے داعیات کے تحت لغزش نہیں ہوتی بلکہ جانب حق ہی ہوتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انبیانے ان کتابوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ بعد میں لوگوں نے کیا ۔ انبیا نے اپنی زندگی میں ان کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ بعد کے لوگوں نے اس کو محفوظ نہیں رکھا۔حضورﷺ نے بھی یہ قرآن پوری حفاظت سے امت کو دیا ۔ یہ امت بھی اگراس کو ضائع کرنے پر تل جاتی اور اللہ کی طرف سے بھی اس کی حفاظت کا وعدہ نہ ہوتا،تو یہ بھی ضائع ہو جاتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ قرآنِ مجید میں جہاں یہ بات کی گئی ہے کہ تمہارے اوپر آنے والی مصیبتیں تمہارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہوتی ہیں ، وہاں یہ بات مخاطبین کے حوالے سے کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ انبیا پر آنے والے مصائب اِس میں شامل نہیں ہیں۔وہ معصوم ہو تے ہیں۔ ان کے مصائب ان کی تربیت اور درجات کی بلندی کے لیے ہوتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: ہو سکتا ہے آئے ہوں لیکن اس حوالے سے ہمیں قرآن و حدیث سے کوئی معلومات نہیں ملتیں اس لیے یقینی بات کہنا ممکن نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: یہ نقطۂ نظر کہ حضرت حوابہ الفاظ دیگر عورت تمام نسل انسانی کی بدبختی اور بربادی کی ذمہ دار ہے، بلاشبہ غیر اسلامی نقطۂ نظر ہے۔ اس نقطۂ نظر کا ماخذ تحریف شدہ تورات ہے جس پر یہود و نصاریٰ ایمان رکھتے ہیں اور اسی کے مطابق ان کے دانشور اور مفکرین لکھتے اور بولتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلم دانشور بھی بلا سوچے سمجھے ان کے راگ میں راگ ملاتے ہیں۔

            قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں حضرت آدمؑ اور ان کے جنت سے نکالے جانے کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس قصے سے متعلق آیتوں کو یکجا کرنے اور ان کے مطالعے سے درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:

(1) اللہ تعالیٰ نے ممنوعہ درخت کا پھل نہ کھانے کا حکم بیک وقت حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ دونوں کو دیا تھا۔ اللہ کے حکم کے مطابق دونوں ہی اس بات کا مکلّف تھے کہ اس درخت کے قریب بھی نہ جائیں۔ اللہ فرماتا ہے:

وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَامِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا    ۠وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ؀ (البقرۃ: 35)

”اور ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بہ فراغت جو چاہو کھاؤ مگر تم دونوں اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے“

(2) آدمؑ کو ورغلانے والی حضرت حوا نہیں تھیں بلکہ ان دونوں کو بہکانے والا اور جنت سے نکلوانے والا شیطان تھا۔ اس سلسلے میں اللہؑ کا فرمان ملاحظہ ہو:

فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَ خْرَ جَهُمَا  مِمَّا كَانَا فِيْهِ     ۠ (البقرۃ: 36)

”مگر شیطان نے ان دونوں کو اسی درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا چھوڑا جس میں وہ تھے۔“

سورہ بقرہ کے علاوہ سورہ اعراف میں بھی اس واقعے کی تفصیل ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

وَيٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ؀ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَاوٗرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ ؀  وَقَاسَمَهُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ ؀ (الاعراف: 19-21)

”اور اے آدم تم اور تمہاری بیوی تم دونوں اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب تم دونوں نہ جانا ورنہ تم دونوں اپنے آپ پر بڑا ظلم کرو گے۔ چنانچہ شیطان نے ان دونوں کو بہلایا پھسلایا تا کہ ان کی جو شرم گاہیں ڈھکی ہوئی ہیں وہ کھول دے اس نے ان دونوں سے کہا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ کہیں تم فرشتہ نہ بن جاؤ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی نہ عطا ہو جائے۔ اور اس نے ان دونوں سے قسمیں کھا کھا کر کہا میں تمہیں بہت خلوص کے ساتھ نصیحت کر رہا ہوں۔“

سورہ طہٰ میں بھی اس واقعہ کا تذکرہ ہے اور اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے جو تعبیر اختیار کی ہے اس کے مطابق بہکنے اور گمراہ ہونے کی پہلی ذمے داری آدمؑ پر عاید ہوتی ہے نہ کہ حضرت حوا پر اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کی سرزنش اور تنبیہ کا سارا رخ حضرت آدمؑ کی طرف ہے نہ کہ حواکی طرف۔ ملاحظہ ہو:

فَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰي ؀ اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرٰى  ؀ وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَلَا تَضْحٰي ؀ فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى ؀ فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى ؀ (طہٰ: 117-121)

”پس ہم نے آدم سے کہا کہ اے آدم یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، دیکھو یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے ورنہ تم بڑے بد بخت ہوگے۔ اس جنت میں تمہارے لیے یہ نعمت ہے کہ نہ تمہیں بھوک لگے گی اور نہ ننگے ہو گے۔ نہ پیاس لگے گی اور نہ دھوپ ستائےگی۔ چنانچہ شیطان نے آدم ؑ کو بہلایاپھسلایا۔ اس نے کہا اے آدم کیا میں ہمیشگی والے درخت اور نہ ختم ہونے والی بادشاہت کا تمہیں پتا نہ بتاؤں۔ چنانچہ ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ تو ان کی شرم گاہیں کھل گئیں اور یہ دونوں اپنی شرم گاہوں پر جنت کےپتے ڈالنے لگے۔ آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہو گیا۔“

مذکورہ آیت میں نافرمانی اور گمراہی کی نسبت واضح طور پر آدمؑ کی طرف کی گئی ہے۔

(3) وہ جنت جس میں آدمؑ تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے اور جس کے درخت کا پھل کھانے کی وجہ سے زمین پر بھیج دیے گئے تھے۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ یہ وہی جنت ہو ، جو آخرت میں نیک اور صالح بندوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جس جنت میں حضرت آدمؑ تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے وہ اسی زمین کی کوئی جنت ہے اور جنت سے مراد خوبصورت باغ اور سرسبز و شاداب علاقہ ہے، کیوں کہ عربی زبان میں جنت خوبصورت باغ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں متعدد مقامات پر لفظ جنت کو ایس زمینی باغ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ قلم کی آیت:

اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ  ۚ (القلم:17)

”ہم نے ان لوگوں کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔“

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا    ۭ ؀ (الکہف: 32)

”ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ ان دو لوگوں کی جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے او رگرد کھجور کے درخت کی باڑ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ خوب پھلے اور پھل دینے میں کوئی کمی نہیں کی۔“لہذا یہ ثابت ہوا کہ یہ تصور گمراہ کن ہے کہ حوا جنت سے  نکلوائے جانے کی ذمہ دار ہے -

(علامہ یوسف القرضاوی)