ج: قرآن مجید میں صریح الفاظ میں یہ کہا گیا ہے کہ حضور خاتم النبیین ہیں۔ قرآن نے اس میں بہت کمال یہ کیا ہے کہ ‘خَاتَمَ النبیین’ کہا ہے، ‘خَاتِمَ النبیین’ نہیں کہا۔ اور کسی تاویل کی گنجایش نہیں رہنے دی۔ ‘خَاتَمَ النبیین’ کا مطلب ہے ، نبیوں کی مہر ۔ مہر یا تو Seal ہوتی ہے یا Stamp ہوتی ہے۔ آپ Seal کے معنی میں لیں گے تب بھی نبوت ختم ہو گئی۔ stamp کے معنی میں لیں گے تب بھی ختم ہو گئی۔ اس لیے کہ پھر یہ سوال پوچھا جائے گا کہ اگر بعد میں کوئی آیا ہے تو اس کی نبوت کی تصدیق حضورؐ سے دکھا دیجیے۔ حضورؐ نے کسی آنے والے کی تصدیق نہیں فرمائی، لہٰذا آپ پر نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔
جہاں تک عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ کو آخری نبی قرار دینے کے معاملہ ہے تو اس بات کی تردید خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اپنی زندگی میں ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل ہمارے پاس موجود ہے۔ اس میں وہ جگہ جگہ فرماتے ہیں کہ ‘‘میرے بعد آنے والا مددگار ’’،‘‘ میرا اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے’’، ‘‘دیکھو میں جا رہا ہوں اور دنیا کا سردار آنے والا ہے’’۔ وہاں تو ختم نبوت کی کوئی آیت ہی نہیں ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: رحمت للعالمین ہونے سے ہرگز یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ آپ تمام مخلوقات کے نبی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے بارے میں یہ کہا گیا کہ فضلنھم علی العالمین تو کیاان کو اللہ تعالی نے جنات کے معاملے میں بھی فضیلت دی تھی ؟ اس بات کو ہمارے علما میں سے کوئی بھی نہیں مانتا کہ تما م بنی اسرائیل کو جنات پر بھی فضیلت تھی اور ان کے تمام انبیا جنات کے بھی نبی تھے ۔ عالمین کے الفاظ قرآن میں وسعت کو بیان کرنے کے لیے آتے ہیں اور بالکل موجود دنیا کے لیے آجاتے ہیں ۔وسعت بیان کرنے کے لیے یہ عربی زبان کا خاص اسلوب ہے ۔ جنات میں نبی جنات ہی میں سے آئے ہیں البتہ جنات چونکہ ہمارے انبیا سے واقف ہوتے ہیں اس لیے جس طرح ہم پر پہلے نبیوں پر ایمان لانا لازم ہے ، ایسے ہی انسانوں کے انبیا پر ان کا ایمان لانا بھی ضروری ہے ۔بشرطیکہ ان تک دعوت پہنچ گئی ہو اور ان کے علم میں آ گیا ہو۔ اگر ہم بھی جنات کے نبیوں سے باخبر ہوتے تو ہم پر بھی ان پر ایمان لانا ضروری ہوتا ، اس لیے کہ حق کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ ایمان اجمالی ہوتا ہے جیسے حضرت مسیحؑ ، حضرت موسیؑ پر ہمارا ایمان ہے ۔ شریعت میں ہم محمد ﷺ کی پیروی کرتے ہیں اور مانتے سب کو ہیں ۔ یہ بات قرآن سے بالکل واضح ہے کہ نبیﷺ کی جنات سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی بلکہ اللہ کی کتاب جب انہوں نے سنی تو حضور کو وحی کے ذریعے سے یہ بات بتائی گئی ۔ اگر روایتوں میں اس کے برعکس کوئی بات بیان ہوئی ہے تو وہ قرآن کے بالکل خلاف ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ختم نبوت کی بے شمار حکمتیں علما نے بیا ن کی ہیں لیکن میرے خیال میں یہ سوال خدا کے باطن میں جھانکنے کی لاحاصل کوشش ہے۔ ہم بس یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے علم کے مطابق جہاں جہاں اور جب جب رسول بھجنا چاہا ہے، بھیجا ہے اور جب اُس کے نزدیک اِس کی ضرورت نہیں رہی اُس نے ختم نبوت کا اعلان کر دیا۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: بہائی فرقے کا جو استدلال آپ نے لکھا ہے یہ کوئی علمی استدلال نہیں ہے، بلکہ یہ صرف ایک منطقی مغالطہ ہے جو یہ حضرات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔نبوت کے معاملے میں اِس استدلال پر آپ غور کریں۔ اِس کے مطابق ہرامت کی لازماً ایک انتہا ہوتی ہے، اُس انتہا کے بعد لازماً، ایک رسول آتاہے اور پھر وہ ایک نئی امت تشکیل دیتا ہے، جس کی پھر ایک انتہا ہو گی اور جس کے بعد پھر ایک رسول آئے گا۔ یہ استدلال متعلقہ آیات کے حوالے سے اپنے اندر کیا سقم رکھتا ہے، یہ الگ بحث ہے لیکن ایک عجیب بات آپ یہ دیکھیں کہ اِس کے نتیجے میں یہ بات ہمیشہ کے لیے طے ہو جاتی ہے کہ نہ کبھی امتوں کا پیدا ہونا اور مرنا ختم ہو گا اور نہ کبھی رسولوں کا آنا۔ نتیجتہً یہ ثابت ہوا کہ یہ دنیا ہمیشہ ہمیش کے لیے باقی رہے گی، اِس میں رسول آتے رہیں گے اور امتیں پیدا ہوتی رہیں گی۔ چنانچہ قرآن کے وہ سب بیان غلط ہوئے، جن میں اِس دنیا کے خاتمے کی خبر دی گئی ہے۔
سورہ اعراف کی جن آیات کے حوالے سے یہ استدلال انہوں نے بیان کیا ہے ، اُن آیات میں فی نفسہ نبوت کا مسئلہ بیان ہی نہیں کیا جا رہا کہ اُس کا سلسلہ چلتا رہے گا یا کبھی بند ہو جائے گا۔ بلکہ اُن آیات میں بنی نوع آدم سے یہ کہاجا رہا ہے کہ اگر اُن کے پاس انھی میں سے رسول آئیں، یعنی اگر آئیں ،تو انہیں اُن کی بات ماننا ہو گی، وغیرہ وغیرہ۔ آپ دیکھیں کہ اِس آیت سے ہم ختم نبوت کا عقیدہ صحیح ہے یا نہیں، اِس مسئلے کو کیسے سمجھیں، یہ آیت تو اِس کے بارے میں کوئی بات کر ہی نہیں رہی۔ پھر مسئلہ یہ ہے ہے کہ ایک دوسری آیت ختمِ نبوت کے اِس مسئلے کے بارے میں باقاعدہ بات کر رہی ہے۔ اُس آیت کو ہم کیسے چھوڑیں اور اِس مسئلے کے لیے خاص اِس آیت کی طرف کیسے رجوع کریں۔مختصراً یہ کہ سورہ اعراف کی اِن آیات کا اول تو ترجمہ ہی غلط کیا گیا ہے، بالفرض محال ہم اِس ترجمے کو صحیح مان بھی لیں، تو ختم نبوت کے بارے میں یہ آیات انتہائی غیر واضح ہیں، چنانچہ ہم خاتم النبیین کی واضح آیت کے ہوتے ہوئے ، کسی دوسری طرف کیسے رجوع کر سکتے ہیں۔
(محمد رفیع مفتی)