جنات

ج: قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اوپر جنات کا جو کچھ بھی تصرف ہوتا ہے ، وہ نفسیاتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ جب وہ نفسیاتی تصرف کرتے ہیں تو خود انسان کے اندر بعض اوقات ایسی تبدیلیاں آ جاتی ہیں کہ جس سے وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جنات بھی با اختیار قوم ہیں۔ جنات کے جو مکالمے قرآن مجید میں نقل ہوئے ہیں بالخصوص سورۂ جن میں، اس میں خود جنات نے بڑی تفصیل سے یہ بتایا ہے کہ ہم میں صالح بھی ہیں اور شر پسندبھی۔ ہمارے اندر خدا پر جھوٹ باندھنے والے بھی ہیں اور خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے والے بھی۔جس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم یا مخلوق کی حیثیت سے پیدکیا ہے جو خیر و شر کا مادہ رکھتی ہے ایسے ہی ان کو پیدا کیا گیاہے۔ ابلیس کے عمل سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے چنانچہ اس نے یہ نافرمانی کی۔ اور اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو معاملہ ہمارے ساتھ ہو گا، وہی معاملہ ان کے ساتھ ہو گا۔ پھر قرآن نے بتایا ہے کہ جس طرح ہماری طرف اللہ کے نبی آئے ہیں اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ نے اپنے پیغمبر اور اپنے نبی بھیجے ہیں۔ اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ ان پر بھی اتمام حجت کریں گے۔یہ انسانوں سے باعتبار خِلقت افضل ہیں۔ یہ بات تو خود قرآن میں بیان ہو گئی ہے ۔ ابلیس نے اسی سے دلیل پکڑی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ مجھے تو آپ نے آگ سے پیدا کیا ہے۔ مادے کی جو مختلف شکلیں ہیں ،ان میں سب سے لطیف شکل وہ ہے جس سے فرشتے بنے ہیں، اس کے بعد جنات ہیں اور اس کے بعد انسان ہیں۔ اس لحاظ سے جنات بے شک انسانوں سے افضل ہیں، لیکن انسان اگر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا سچا بندہ بنا کر رکھے تو وہ اعلیٰ ترین مقام پانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔ خلقت کے لحاظ سے افضل ہونا اور چیز ہے اور اعمال کے لحاظ سے افضل مقام حاصل کر لینا بالکل ایک اور چیز ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآ ن نے یہ بات بڑی صراحت سے کہہ دی ہے کہ یعمشرالجن والانس الم یاتکم رسل منکم کہ اے جنو اور انسانو ! کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ میرے پیغمبر تمہارے اندر سے تمہارے پاس آئے اور یہ چیز ویسے بھی خدا کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے کہ ان کے لیے اور ہمارے لیے ا یک دوسرے کے رسول واجب الاطاعت ہوں ۔ اللہ نے قرآن مجید میں واضح کہا ہے کہ انسانوں میں انسانوں کے اندر سے پیغمبر بنا کر بھیجوں گا ۔جنات کے بارے میں قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے معاملات کو دیکھتے ہیں، ہم ان کے معاملات کونہیں دیکھ سکتے۔ اگروہ ہمارے معاملات کو دیکھتے ہیں تو ان پر اجمالی ایمان لازم ہے کہ ہمارے پیغمبروں پر بھی ایمان لائیں یعنی شریعت ان کے پیغمبروں کی ہو گی لیکن حق کا وہ انکار نہیں کرسکتے ۔یہی چیز ہے جس کو انہوں نے اپنی قوم میں بیان کیا کہ خدا کی دعوت نازل ہوئی ہے ، جس طرح پہلے تورات کی دعوت تھی ، اب قرآن کی دعوت ہے ۔اگر ہم ان کو دیکھتے تو ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے تھا ۔ قرآن میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جنوں کے لیے جنوں کے پیغمبر ہیں او رانسانوں کے لیے انسانوں کے پیغمبر ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: رحمت للعالمین ہونے سے ہرگز یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ آپ تمام مخلوقات کے نبی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے بارے میں یہ کہا گیا کہ فضلنھم علی العالمین تو کیاان کو اللہ تعالی نے جنات کے معاملے میں بھی فضیلت دی تھی ؟ اس بات کو ہمارے علما میں سے کوئی بھی نہیں مانتا کہ تما م بنی اسرائیل کو جنات پر بھی فضیلت تھی اور ان کے تمام انبیا جنات کے بھی نبی تھے ۔ عالمین کے الفاظ قرآن میں وسعت کو بیان کرنے کے لیے آتے ہیں اور بالکل موجود دنیا کے لیے آجاتے ہیں ۔وسعت بیان کرنے کے لیے یہ عربی زبان کا خاص اسلوب ہے ۔ جنات میں نبی جنات ہی میں سے آئے ہیں البتہ جنات چونکہ ہمارے انبیا سے واقف ہوتے ہیں اس لیے جس طرح ہم پر پہلے نبیوں پر ایمان لانا لازم ہے ، ایسے ہی انسانوں کے انبیا پر ان کا ایمان لانا بھی ضروری ہے ۔بشرطیکہ ان تک دعوت پہنچ گئی ہو اور ان کے علم میں آ گیا ہو۔ اگر ہم بھی جنات کے نبیوں سے باخبر ہوتے تو ہم پر بھی ان پر ایمان لانا ضروری ہوتا ، اس لیے کہ حق کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ ایمان اجمالی ہوتا ہے جیسے حضرت مسیحؑ ، حضرت موسیؑ پر ہمارا ایمان ہے ۔ شریعت میں ہم محمد ﷺ کی پیروی کرتے ہیں اور مانتے سب کو ہیں ۔ یہ بات قرآن سے بالکل واضح ہے کہ نبیﷺ کی جنات سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی بلکہ اللہ کی کتاب جب انہوں نے سنی تو حضور کو وحی کے ذریعے سے یہ بات بتائی گئی ۔ اگر روایتوں میں اس کے برعکس کوئی بات بیان ہوئی ہے تو وہ قرآن کے بالکل خلاف ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جنات بھی انسانوں کی طرح مکلف ہیں اور اپنے اعمال کے جواب دہ ہوں گے۔

(محمد رفیع مفتی)

کیا جن انسانوں ہی کی ایک قسم ہے
سوال: یہ بات غالباً آپ کے علم میں ہو گی کہ قرآن کے بعض نئے مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں جن و انس سے مراد دو الگ الگ قسم کی مخلوق نہیں ہے بلکہ جنوں سے مراد دیہاتی اور انسانوں سے مراد شہری لوگ ہیں ۔ آج کل ایک کتاب ’’ابلیس و آدم‘‘ زیر مطالعہ ہے۔ اس میں دیگر جملہ دور ازکار تاویلات سے قطع نظر ایک جگہ استدلال قابل غور معلوم ہوا۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’سورہ اعراف (۷) کی آیت میں بنی آدم سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ) آئیں گے اور سورہ انعام (۶) کی آیت میں جن و انس کے گروہ سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ) آئے تھے۔ قرآن کریم میں جنات (آتشیں مخلوق) کے کسی رسول کا ذکر نہیں۔ تمام رسولوں کے متعلق حصر سے بیان کیا ہے کہ وہ انسان بنی آدم تھے اور انسانوں میں سے مردتھے۔ اس لیے جب ’’گروہ جن و انس‘‘ سے کہا گیا کہ تم میں سے (مِنْکُمْ) رسول آئے تھے، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’گروہ جن و انس‘‘ سے مقصود بنی آدم ہی کی دو جماعتیں ہیں۔ اس سے انسانوں سے الگ کوئی اور مخلوق مراد نہیں ہے‘‘۔ براہ کرم واضح کریں کہ یہ استد لال کہاں تک صحیح ہے۔ اگر جن کوئی دوسری مخلوق ہے اور اس میں سے رسول نہیں مبعوث ہوئے تو پھر مِنْکُمْ کے خطاب میں وہ کیسے شریک ہو سکتے ہیں؟


جواب: جنوں کے بارے میں آیت أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْاالزمر39، 71 کی نقل کردہ تفسیر سے آپ کے ذہن میں جو الجھن پیدا ہوگئی ہے، اس کو آپ خود حل کر سکتے ہیں، اگر دو باتوں پر غور کریں۔
اول یہ کہ اگر دو گروہوں کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے خطاب کیا جا رہا ہو اور کوئی ایک چیز ان میں سے کسی ایک کے متعلق ہو، تو اس مجموعی خطاب کی صورت میں کیا اس چیز کو پورے مجموعہ کی طرف منسوب کرنا غلط ہے؟ اگر کسی عبارت میں اسے مجموعے کی طرف منسوب کر دیا گیا ہو تو کیا اس سے یہ استد لال کرنا صحیح ہو گا کہ یہ سرے سے دو گروہوں کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک گروہ ہے؟ فرض کیجیے کہ ایک مدرسے میں کئی کلاسیں ہیں قصور ان میں سے ایک کلاس نے کیا ہے، مگر ہیڈ ماسٹر تادیباً تمام کلاسوں کو اکٹھا کر کے ان سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اے مدرسے کے بچو! تم میں سے کچھ لڑکوں نے یہ قصور کیا ہے‘‘ تو کیا اس سے استد لال کیا جا سکتا ہے کہ اس مدرسے میں سرے سے کلاسیں ہیں ہی نہیں بلکہ ایک ہی کلاس پائی جاتی ہے؟ اگر یہ استد لال صحیح نہیں ہے تو نقل کردہ استد لال بھی صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جن اور انس کے مجموعے کو خطاب فرما رہا ہے۔ مجموعے میں سے ایک گروہ کے اندر انبیا آئے ہیں۔ لیکن انبیا نے تبلیغ دین دونوں گروہوں میں کی ہے اور ان پر ایمان لانے کے لیے دونوں گروہ مکلف ہیں۔ اس لیے دونوں گروہوں سے مجموعی خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ تم میں سے انبیا آئے ہیں۔ محض اس طرز خطاب سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں گروہ الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب قرآن مجید متعدد مقامات پر صاف صاف یہ بتا چکا ہے کہ جن اور انس دو بالکل الگ قسم کی مخلوق ہیں، تو پھر محض أَلَمْ يَأْتِكُمْ سے یہ مفہوم نکالنا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا کہ جن بھی انسانوں ہی میں سے ہیں۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات کو لیجیے:
(۱) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ( 26 ) وَالْجَآنَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ ( 27 ) (الحجر27:15۔26)
’’ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی پختہ مٹی سے پیدا کیا اور اس سے پہلے جنوں کو ہم نے آگ کی لپٹ سے پیدا کیا تھا‘‘۔
(۲) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ( 14 ) وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ ( 15 ) (الرحمٰن : 15:55۔14)
’’انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہوئی پختہ مٹی سے پیدا کیا اور جنوں کو آگ کی لپٹ سے‘‘۔
(۳) وَجَعَلُواْ لِلّهِ شُرَكَاء الْجِنَّ (الانعام100:6)
’’اور لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے جن شریک ٹھہرالیے‘‘۔
(۴) وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ (الجن6:72 )’’اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے‘‘۔
(۵) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ( الکہف 50:18)
’’اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ سجدہ کرو آدم کو تو انہوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ جنوں میں سے تھا اور وہ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کرگیا‘‘۔
(۶) قَالَ أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (الاعراف12:7)
’’اس نے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے‘‘۔
(۷) يَا بَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَهُمْ (الاعراف27:7)
’’اے بنی آدم ! شیطان ہر گز تمہیں اس طرح فتنے میں نہ ڈالنے پائے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا  وہ اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
(۸) يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء (النساء1:4)
’’اے انسانو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں ایک متنفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیں‘‘۔
(۹) وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ( 28 ) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَ ( 29 ) فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ( 30 ) إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ( 31 ) (الحجر  31:15۔28)
’’اور جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے پختہ گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ تو جب میں اسے پورا پورا بنادوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ پس ملائکہ سب کے سب سجدہ ریز ہوگئے۔ بجز ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا‘‘۔
ان آیات سے چند باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں:
اول یہ کہ انسان، بشر، الناس اور بنی آدم قرآن میں ہم معنی الفاظ ہیں۔ اولاد آدم کے سوا قرآن مجید کسی انسانی مخلوق کا قطعاً ذکر نہیں کرتا۔ اس کی رو سے نہ کوئی انسان آدم سے پہلے موجود تھا اور نہ آدم کی اولاد کے ما سوا دنیا میں کبھی انسان پایا گیا ہے یا اب پایا جاتا ہے۔ یہ نوع آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی ہی سے پیدا ہوئی ہے اور اس کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے۔
دوم، یہ کہ جن ایک دوسری نوع ہے جس کا مادہ تخلیق ہی نوع انسانی سے مختلف ہے۔ نوع انسانی مٹی سے بنی ہے اور نوع جن آگ سے، یا آگ کی پھونک سے۔
سوم، یہ کہ نوع جن انسان کی تخلیق سے پہلے موجود تھی۔ اس نوع کے نمائندہ فرد کو نوع انسانی کے پہلے فرد کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس نے انکار کر دیا تھا۔ اس کا استدلال یہ تھا کہ میں من حیث النوع اس سے افضل ہوں کیوں کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اور یہ مٹی سے بنایا گیا ہے۔
چہارم، یہ کہ جن ایسی مخلوق ہے جو انسان کو دیکھ سکتی ہے مگر انسان اس کو نہیں دیکھ سکتا۔
پنجم، یہ کہ مشرکین اپنی جہالت کی بنا پر اس مخلوق کو خدا کا شریک ٹھہراتے اور اس کی پناہ مانگا کرتے تھے۔
کیا اتنی تصریحات کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ محض أَلَمْ يَأْتِكُمْ مِّنْکُمْ کا خطاب جنوں اور انسانوں کو ایک نوع قرار دینےکے لیے کافی ہے؟ آخر وہ کون سے دیہاتی یا جنگلی یا پہاڑی انسان ہیں جو اولاد آدم سے خارج ہیں اور مٹی کے بجائے آگ سے پیدا کیے گئے ہیں؟ جو آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے پائے جاتے تھے جنہیں انسان نہیں دیکھ سکتا اور وہ انسان کو دیکھ سکتے ہیں؟ جنہیں مشرک انسانوں نے کبھی اپنا معبود بنایا ہے اور اللہ کا شریک ٹھہرا کر ان سے تعوذ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی بے تکی تاویلیں صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو قرآن مجید کی پیروی کرنے کے بجائے اس سے اپنے خیالات کی پیروی کرانا چاہتے ہیں۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)