انسانیت

جواب۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنا صحیح مقام پہچانیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ اگر ہم نہ ہوتے تو فلاں فلاں انسان تو کافر ہی مر جاتے، اللہ نے اُس کی ہدایت تو بس میرے وجود پر منحصر کر رکھی تھی یا کسی کے بارے میں وہ یہ سمجھے کہ أُس کی ہدایت تو بس میرے اوپر منحصر ہے۔ ہدایت خدا کی جانب سے ملتی ہے، وہ اپنی حکمت اور اپنے علم سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ وہ ہدایت کے لیے سیکڑوں چیزوں میں سے جس کو چاہتا ہے ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اُس نے کائنات اور انسان کا اپنا وجود بھی اپنی نشانیوں سے بھر دیا ہے۔ چنانچہ کسی انسان کو یہ روا نہیں کہ وہ خود کو دوسرے کی ہدایت کا واحد ذریعہ سمجھے۔ البتہ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے اوپر دوسرے کا یہ حق سمجھنے سے بھی عاری ہو جائے کہ اُسے حق بات اور اُس پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی جائے۔ ہر انسان کا دوسرے پر یہ حق ہے کہ وہ اُسے حق اور حق پر ثابت قدمی کی تلقین کرے اور بس، اُس کے حوالے سے اپنے آپ کو کوئی اہمیت نہ دینے لگ جائے۔

(محمد رفیع مفتی)

کیا جن انسانوں ہی کی ایک قسم ہے
سوال: یہ بات غالباً آپ کے علم میں ہو گی کہ قرآن کے بعض نئے مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں جن و انس سے مراد دو الگ الگ قسم کی مخلوق نہیں ہے بلکہ جنوں سے مراد دیہاتی اور انسانوں سے مراد شہری لوگ ہیں ۔ آج کل ایک کتاب ’’ابلیس و آدم‘‘ زیر مطالعہ ہے۔ اس میں دیگر جملہ دور ازکار تاویلات سے قطع نظر ایک جگہ استدلال قابل غور معلوم ہوا۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’سورہ اعراف (۷) کی آیت میں بنی آدم سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ) آئیں گے اور سورہ انعام (۶) کی آیت میں جن و انس کے گروہ سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ) آئے تھے۔ قرآن کریم میں جنات (آتشیں مخلوق) کے کسی رسول کا ذکر نہیں۔ تمام رسولوں کے متعلق حصر سے بیان کیا ہے کہ وہ انسان بنی آدم تھے اور انسانوں میں سے مردتھے۔ اس لیے جب ’’گروہ جن و انس‘‘ سے کہا گیا کہ تم میں سے (مِنْکُمْ) رسول آئے تھے، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’گروہ جن و انس‘‘ سے مقصود بنی آدم ہی کی دو جماعتیں ہیں۔ اس سے انسانوں سے الگ کوئی اور مخلوق مراد نہیں ہے‘‘۔ براہ کرم واضح کریں کہ یہ استد لال کہاں تک صحیح ہے۔ اگر جن کوئی دوسری مخلوق ہے اور اس میں سے رسول نہیں مبعوث ہوئے تو پھر مِنْکُمْ کے خطاب میں وہ کیسے شریک ہو سکتے ہیں؟


جواب: جنوں کے بارے میں آیت أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْاالزمر39، 71 کی نقل کردہ تفسیر سے آپ کے ذہن میں جو الجھن پیدا ہوگئی ہے، اس کو آپ خود حل کر سکتے ہیں، اگر دو باتوں پر غور کریں۔
اول یہ کہ اگر دو گروہوں کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے خطاب کیا جا رہا ہو اور کوئی ایک چیز ان میں سے کسی ایک کے متعلق ہو، تو اس مجموعی خطاب کی صورت میں کیا اس چیز کو پورے مجموعہ کی طرف منسوب کرنا غلط ہے؟ اگر کسی عبارت میں اسے مجموعے کی طرف منسوب کر دیا گیا ہو تو کیا اس سے یہ استد لال کرنا صحیح ہو گا کہ یہ سرے سے دو گروہوں کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک گروہ ہے؟ فرض کیجیے کہ ایک مدرسے میں کئی کلاسیں ہیں قصور ان میں سے ایک کلاس نے کیا ہے، مگر ہیڈ ماسٹر تادیباً تمام کلاسوں کو اکٹھا کر کے ان سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اے مدرسے کے بچو! تم میں سے کچھ لڑکوں نے یہ قصور کیا ہے‘‘ تو کیا اس سے استد لال کیا جا سکتا ہے کہ اس مدرسے میں سرے سے کلاسیں ہیں ہی نہیں بلکہ ایک ہی کلاس پائی جاتی ہے؟ اگر یہ استد لال صحیح نہیں ہے تو نقل کردہ استد لال بھی صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جن اور انس کے مجموعے کو خطاب فرما رہا ہے۔ مجموعے میں سے ایک گروہ کے اندر انبیا آئے ہیں۔ لیکن انبیا نے تبلیغ دین دونوں گروہوں میں کی ہے اور ان پر ایمان لانے کے لیے دونوں گروہ مکلف ہیں۔ اس لیے دونوں گروہوں سے مجموعی خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ تم میں سے انبیا آئے ہیں۔ محض اس طرز خطاب سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں گروہ الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب قرآن مجید متعدد مقامات پر صاف صاف یہ بتا چکا ہے کہ جن اور انس دو بالکل الگ قسم کی مخلوق ہیں، تو پھر محض أَلَمْ يَأْتِكُمْ سے یہ مفہوم نکالنا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا کہ جن بھی انسانوں ہی میں سے ہیں۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات کو لیجیے:
(۱) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ( 26 ) وَالْجَآنَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ ( 27 ) (الحجر27:15۔26)
’’ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی پختہ مٹی سے پیدا کیا اور اس سے پہلے جنوں کو ہم نے آگ کی لپٹ سے پیدا کیا تھا‘‘۔
(۲) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ( 14 ) وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ ( 15 ) (الرحمٰن : 15:55۔14)
’’انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہوئی پختہ مٹی سے پیدا کیا اور جنوں کو آگ کی لپٹ سے‘‘۔
(۳) وَجَعَلُواْ لِلّهِ شُرَكَاء الْجِنَّ (الانعام100:6)
’’اور لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے جن شریک ٹھہرالیے‘‘۔
(۴) وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ (الجن6:72 )’’اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے‘‘۔
(۵) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ( الکہف 50:18)
’’اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ سجدہ کرو آدم کو تو انہوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ جنوں میں سے تھا اور وہ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کرگیا‘‘۔
(۶) قَالَ أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (الاعراف12:7)
’’اس نے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے‘‘۔
(۷) يَا بَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَهُمْ (الاعراف27:7)
’’اے بنی آدم ! شیطان ہر گز تمہیں اس طرح فتنے میں نہ ڈالنے پائے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا  وہ اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
(۸) يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء (النساء1:4)
’’اے انسانو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں ایک متنفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیں‘‘۔
(۹) وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ( 28 ) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَ ( 29 ) فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ( 30 ) إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ( 31 ) (الحجر  31:15۔28)
’’اور جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے پختہ گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ تو جب میں اسے پورا پورا بنادوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ پس ملائکہ سب کے سب سجدہ ریز ہوگئے۔ بجز ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا‘‘۔
ان آیات سے چند باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں:
اول یہ کہ انسان، بشر، الناس اور بنی آدم قرآن میں ہم معنی الفاظ ہیں۔ اولاد آدم کے سوا قرآن مجید کسی انسانی مخلوق کا قطعاً ذکر نہیں کرتا۔ اس کی رو سے نہ کوئی انسان آدم سے پہلے موجود تھا اور نہ آدم کی اولاد کے ما سوا دنیا میں کبھی انسان پایا گیا ہے یا اب پایا جاتا ہے۔ یہ نوع آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی ہی سے پیدا ہوئی ہے اور اس کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے۔
دوم، یہ کہ جن ایک دوسری نوع ہے جس کا مادہ تخلیق ہی نوع انسانی سے مختلف ہے۔ نوع انسانی مٹی سے بنی ہے اور نوع جن آگ سے، یا آگ کی پھونک سے۔
سوم، یہ کہ نوع جن انسان کی تخلیق سے پہلے موجود تھی۔ اس نوع کے نمائندہ فرد کو نوع انسانی کے پہلے فرد کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس نے انکار کر دیا تھا۔ اس کا استدلال یہ تھا کہ میں من حیث النوع اس سے افضل ہوں کیوں کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اور یہ مٹی سے بنایا گیا ہے۔
چہارم، یہ کہ جن ایسی مخلوق ہے جو انسان کو دیکھ سکتی ہے مگر انسان اس کو نہیں دیکھ سکتا۔
پنجم، یہ کہ مشرکین اپنی جہالت کی بنا پر اس مخلوق کو خدا کا شریک ٹھہراتے اور اس کی پناہ مانگا کرتے تھے۔
کیا اتنی تصریحات کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ محض أَلَمْ يَأْتِكُمْ مِّنْکُمْ کا خطاب جنوں اور انسانوں کو ایک نوع قرار دینےکے لیے کافی ہے؟ آخر وہ کون سے دیہاتی یا جنگلی یا پہاڑی انسان ہیں جو اولاد آدم سے خارج ہیں اور مٹی کے بجائے آگ سے پیدا کیے گئے ہیں؟ جو آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے پائے جاتے تھے جنہیں انسان نہیں دیکھ سکتا اور وہ انسان کو دیکھ سکتے ہیں؟ جنہیں مشرک انسانوں نے کبھی اپنا معبود بنایا ہے اور اللہ کا شریک ٹھہرا کر ان سے تعوذ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی بے تکی تاویلیں صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو قرآن مجید کی پیروی کرنے کے بجائے اس سے اپنے خیالات کی پیروی کرانا چاہتے ہیں۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)