جواب:تورات کا کچھ حصہ الواح کی شکل میں نازل ہوا تھا، باقی تورات قرآن ہی کی طرح بتدریج نازل ہوئی تھی۔ قرآ ن مجید میں تورات، انجیل اور خود قرآن تینوں کے لیے نازل کرنے کا لفظ بولا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:''اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا تیری طرف اور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا۔'' (البقرہ۵۴:۲)
''اس نے تم پر کتاب اتاری حق کے ساتھ، مصداق اس کی جو اْس کے آگے موجود ہے اور اْس نے تورات اور انجیل اتاری اس سے پہلے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور پھر فرقان اتارا۔''(آل عمران۴۔۳:۳)
آسمانی کتب اصلاً فرشتوں کے ذریعے سے نازل کی گئی ہیں، جیسا کہ قرآن مجید کی سورہ نحل میں ارشاد فرمایا:”اپنے بندوں میں سے وہ جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی وحی کے ساتھ فرشتے اتارتا ہے کہ لوگوں کو خبر دار کرو کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں، اِس لیے تم مجھی سے ڈرو۔'' (۲:۶۱)
ج: انبیانے ان کتابوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ بعد میں لوگوں نے کیا ۔ انبیا نے اپنی زندگی میں ان کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ بعد کے لوگوں نے اس کو محفوظ نہیں رکھا۔حضورﷺ نے بھی یہ قرآن پوری حفاظت سے امت کو دیا ۔ یہ امت بھی اگراس کو ضائع کرنے پر تل جاتی اور اللہ کی طرف سے بھی اس کی حفاظت کا وعدہ نہ ہوتا،تو یہ بھی ضائع ہو جاتا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ہم ان کتب کو قرآن کی روشنی میں ریفر کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ساری کی ساری کتاب ہی بدل گئی ہے ۔ان میں اللہ کا کلام بہر حال موجود ہے لوگ تحریف وہیں کرتے رہے ہیں جہاں انہیں ضرورت ہوتی تھی ۔ ان کتب کے اندربڑی حکمت اوربڑی روحانیت موجود ہے ، اگر آپ انہیں قرآن کی روشنی میں دیکھیں تو پھر ان کاحوالہ مضر نہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ اگر ہمارے ذہنوں میں قرآن مجید غالب رہتا ہے، تو بائبل کے مطالعے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عمرؓ کو منع کرنے کی وجہ غالباً اِس تاثر کو زائل کرنا تھا کہ قرآن کے ہوتے ہوئے اب کوئی اور کتاب بھی نسخہ ہدایت کی حیثیت اختیار کر سکتی ہے، کیونکہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کو تورات کی باتیں بڑے تاثر کے ساتھ بتانے لگ گئے تھے، اِس صورت میں اللہ کے رسول کی طرف سے اُس تنبیہ کی ضرورت تھی، جو آپؐ نے فرمائی تھی۔
(محمد رفیع مفتی)