ج: اگر آپ کے شوہر کا یہ بیان کہ "میں نے طلاق کے الفاظ ارادۃً ادا نہیں کیے تھے، بلکہ صرف تمھیں ڈرانے کے لیے بولے تھے" بالکل درست اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے، یعنی وہ حلفاً ایسا کہہ سکتے ہیں تو پھر صحیح بات یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی۔ چنانچہ آپ تسلی سے ان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔البتہ اگر دوسروں کی باتوں یا کسی اور وجہ سے آپ خود کسی تردد میں مبتلا ہیں تو پھر آپ کے لیے یہ بات شاید بہتر ہو گی کہ آپ ایک طلاق واقع ہونے والا فتوی تسلیم کرتے ہوئے احتیاطاً اپنے شوہر سے دوبارہ نکاح کر لیں۔ تاہم یہ واضح رہے کہ یہ کوئی فقہی و شرعی حل نہیں ہے، بلکہ اس تجویز کا مقصد محض آپ کے تردد کو دور کرنا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب: میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ کوئی بہت آئیڈیل شکل ہے۔ میں نے یہ عرض کیا ہے کہ اس کی گنجایش ہمارے فقہا بہت شروع سے مان چکے ہیں۔ اس کی گنجایش موجود ہے کہ خاوند اپنا حق عورت کو دے دے۔ لڑکی نکاح کے وقت طلاق کا حق مانگ سکتی ہے، لیکن عام حالات میں یہ خاوند کی رضامندی سے مشروط ہے کہ وہ بیوی کو حق طلاق تفویض کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ قانون اس کو پابند نہیں کرتا۔ لڑکی مطالبہ کرے تو شوہر کہہ سکتا ہے کہ میں یہ حق نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو ریاست قانون کا اختیار استعمال کرتے ہوئے خاوند کو پابند کر سکتی ہے۔ قانون اس کا پورا اختیار رکھتا ہے کہ کسی بھی فردکے حق کو restrict کر دے یا کسی بھی فرد کو ایسا حق جو عام طو رپر اس کو حاصل نہیں ہوتا، مخصوص صورت حال میں وہ حق اس کو دے دے۔ تو اگر آپ ایک قانونی پابندی لگا دیں کہ ہر نکاح کے موقع پر خاوند اپنا حق طلاق ان ان شرائط کے ساتھ بیوی کو دے دے تو میرے نزدیک فقہی طور پر اس کی گنجایش موجود ہے۔ یہاں چونکہ بیوی کی طرف سے بھی اس حق کے غلط استعمال کا احتمال ہے اور یہ یقینی نہیں کہ ہر عورت اس حق کا استعمال انصاف سے ہی کرے گی، اس لیے کچھ شرائط بھی لگانی پڑیں گی۔ اگر آپ مطلق طور پر عورت کو حق طلاق دے دیں تو جو سوئے استعمال آپ مرد کی طر ف روکنا چاہتے ہیں، اس کا امکان عورت کی طرف بھی ہے۔ اگر خاتون کو آپ علی الاطلاق، بالکل absolute right دے دیتے ہیں کہ وہ جب چاہے، مرد سے الگ ہو جائے تو رشتہ نکاح کی وہ اصل ہیئت بھی قائم نہیں رہے گی جو اللہ نے قائم کی ہے اور غلط استعمال کی مثالیں بھی خواتین کی طرف سے زیادہ سامنے آئیں گی۔ اس لیے عورت کو حق طلاق کے استعمال کا موقع دینے میں کچھ نہ کچھ restrictions لگانا بہرحال ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر یہ شرط لگائی جا سکتی ہے کہ بیوی اگر کسی موقع پر یہ مطالبہ کرے کہ مجھے طلاق چاہیے اور بیوی کا باپ یا سرپرست یا خاندان کا کوئی دوسرا ذمہ دار آدمی اس مطالبے کی توثیق کر دے کہ ہاں اس کا مطالبہ بجا ہے تو پھر خاوند پابند ہوگا۔ اسی طرح اس مشکل کے حل کے لیے مالکی فقہا کی رائے سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے سورۃ نساء کی آیت ۳۵ میں میاں بیوی کے مابین تنازع اور عدم موافقت کی صورت میں تصفیے کے لیے دونوں خاندانوں کی طرف سے جو حکم (Arbitrator) مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے، ان کا دائرہ اختیار صرف صلح کرانے اور میاں بیوی کو سمجھانے بجھانے تک محدود نہیں، بلکہ اگر اصلاح احوال کی پوری کوشش کے بعد وہ یہ محسوس کریں کہ میاں بیوی کے مابین نباہ نہیں ہو سکتا تو انھیں یہ بھی اختیار ہے کہ وہ دونوں کے ما بین تفریق کر دیں، چاہے فریقین نے انھیں واضح طور پر اس کا اختیار نہ دیا ہو اور ان کے فیصلے کے نتیجے میں قانونی طو رپر طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ مالکیہ کی یہ رائے فقہی طور پر اور عملی مشکلات کے تناظر میں بہت قابل غور ہے اور اگر اس کو قانونی شکل دی جا سکے تو ہمارے ہاں عام طور پر خواتین کو طلاق کے حصول میں جن بے جا رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا ایک معقول حل نکل سکتا ہے۔
(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)
جواب : طلاق کی صورت میں دورانِ عدت یہ مرد کا فرض ہے کہ وہ عورت کے اخراجات برداشت کرے اور اسے نان و نفقہ فراہم کرے۔ یہ مدت غالباً تین ماہ یا اگر عورت حاملہ ہے تو وضع حمل تک ہے۔ اس کے بعد یہ باپ اور بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کو تمام ضروریات زندگی فراہم کریں۔ اگر بالفرض والدین اور بھائی یہ فرض ادا نہیں کر سکتے تو اس صورت میں دیگر قریبی رشتہ داروں کا فرض بنتا ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ بھی ایسا نہیں کر سکتے تو اس صورت میں یہ مسلم اْمت کا فریضہ بن جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ ہم سب کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ایسے ادارے تشکیل دیں اور زکوٰۃ کی تقسیم کا ایسا نظام بنائیں کہ ان خواتین کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب : بہن نے سوال پوچھا ہے کہ مرد کو تو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے سکے۔ لیکن کیا عورت کو بھی یہ حق ہے کہ وہ طلاق دے سکے۔اس سوال کا جواب یہی ہے کہ عورت طلاق نہیں دے سکتی۔ طلاق عربی کا لفظ ہے اور یہ اسی موقع کے لیے خاص ہے جب شوہر اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرے۔ اسلام میں میاں بیوی کی علیحدگی کے پانچ طریقے ہیں۔پہلا طریقہ تو باہمی رضا مندی کا ہے۔ اگر دونوں فریق یہ فیصلہ کر لیں کہ بس ہم اور اکٹھے نہیں چل سکتے اور ہمیں علیحدہ ہو جانا چاہیے تو وہ اس رشتے کو ختم کر سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر اپنی مرضی سے بیوی کو چھوڑ دے۔ اسے طلاق کہتے ہیں۔ اس صورت میں اسے مہر سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور اگر ابھی تک ادا نہیں کیا گیا تو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اور جو کچھ وہ تحایف کی صورت میں دے چکا ہے وہ بھی بیوی ہی کی ملکیت رہتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ عورت اپنی مرضی سے نکاح کو ختم کرنے کا اعلان کر دے۔ جی ہاں۔ بیوی بھی اس طرح کر سکتی ہے اگر یہ بات معائدہ نکاح میں طے ہو جائے کہ بیوی کو بھی یہ حق ہو گا۔چوتھی صورت یہ ہے کہ اگر بیوی کو شوہر سے شکایات ہوں کہ وہ اس سے برا سلوک کرتا ہے یا اس کے حقوق ادا نہیں کرتا یا اس کے اخراجات کے لیے وسائل فراہم نہیں کرتا تو وہ عدالت میں جا سکتی ہے اور قاضی ان کا نکاح فسخ کر سکتا ہے۔ اس صورت میں وہ شوہر کو مہر کی پوری یا جزوی ادائیگی کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ پانچویں اور آخری قسم خلع ہے۔ اگر بیوی محض ذاتی ناپسندیدگی کے باعث علیحدگی چاہتی ہے۔ شوہر میں کوئی خرابی نہیں مگر وہ پھر بھی علیحدہ ہونا چاہتی ہے تو وہ خود علیحدگی کی درخواست کر سکتی ہے۔ اسے خلع کہتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں بہت کم گفتگو کی جاتی ہے۔بہر حال اسلام میں علیحدگی کی یہی اقسام ہیں۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب :بنیادی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے جملے کی زیادہ سے زیادہ حیثیت ایک قسم کی ہے۔یہ ایک ناموزوں اور حق تلفی پر مبنی قسم ہے اسے توڑنا لازم ہے۔ اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔ ان صاحب کو بس یہ کرنا ہے کہ یہ قسم کا کفارہ ادا کردیں اور اپنی سسرال میں نارمل زندگی گزاریں۔
قسم کا کفارہ یہ ہے: ‘‘قسم کھانے والا دس مسکینوں کو اس معیار کا کھانا کھلائے جو وہ عام طور پر اپنے اہل وعیال کو کھلاتا ہے، یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے یا غلام آزاد کرے۔ان میں سے کچھ بھی میسر نہ ہو تو اسے تین دن کے روزے رکھنا ہوں گے۔’’
(مولانا طالب محسن)
آپ کے سوالات کے جواب حاضر ہیں۔
بنیادی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے جملے کی زیادہ سے زیادہ حیثیت ایک قسم کی ہے۔یہ ایک ناموزوں اور حق تلفی پر مبنی قسم ہے ۔اسے توڑنا لازم ہے۔ اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔ ان صاحب کو بس یہ کرنا ہے کہ یہ قسم کا کفارہ ادا کردیں اور اپنی سسرال میں نارمل زندگی گزاریں۔ قسم کا کفارہ یہ ہے:‘‘قسم کھانے والا دس مسکینوں کو اس معیار کا کھانا کھلائے جو وہ عام طور پر اپنے اہل وعیال کو کھلاتا ہے، یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے یا غلام آزاد کرے۔ان میں سے کچھ بھی میسر نہ ہو تو اسے تین دن کے روزے رکھنا ہوں گے۔’’
(مولانا طالب محسن)
ج: دین میں طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طلاق دی جائے اور اس کے بعد جو عدت کا کم و بیش تین مہینے کا زمانہ ہے، اس کو گزرنے دیا جائے۔ اگر اس کے دوران میں رائے بدل گئی تو آپ رجوع کر لیں۔ اس کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں، رجوع کر لینا ہی کافی ہے۔ اگر تین مہینے گزر گئے تو آپ سے آپ طلاق واقع ہو جائے گی۔ اور یہ ایک ہی طلاق ہے، اس کے بعد بیوی بھی آزاد ہے اور آپ بھی آزاد ہیں۔ اگر کبھی دوبارہ نکاح کرنے کا خیال ہوتا ہے تو نکاح ہو جائے گا۔ دین میں طلاق دینے کا یہ طریقہ ہے۔ دو طلاقیں دینا، تین طلاقیں دینا، وقفے وقفے سے طلاق دینا، یہ کوئی چیز نہیں ہے۔ نہ یہ قرآن میں بیان ہوا ہے، نہ یہ پیغمبر نے بیان کیا ہے۔ حضورؐ کے زمانے میں یہ کام بعض احمقوں نے کیا تو آپؐ نے بہت غصے سے یہ کہا کہ میں موجود ہوں اور لوگ اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہیں۔ طلاق دینے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ جب بھی طلاق دینی ہو ایک طلاق دیں۔ اگر آپ نے ایک طلاق دی اور پھر واپس لے لی تو اس کے بعد پھر کبھی زندگی میں لڑائی ہوتی ہے تو آپ کو دوسری مرتبہ طلاق دینے کا ہے۔ دوسری طلاق دے کر بھی آپ نے واپس لے لی تو پھر تیسری طلاق دینے کا حق ہے جو کہ پھر واپس نہیں لی جا سکتی۔ طلاق کا یہ مطلب ہے، یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک ہی دفعہ کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ طلاق، طلاق ، طلاق۔ یہ بالکل احمقانہ بات ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: خاتون اگر اپنے باپ کے گھر میں ہے تو یہ باپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر باپ نہیں ہے تو بھائیوں کی ذمہ داری ہے، اگر اپنے شوہر کے گھر میں ہے تو ان کی ذمہ داری ہے۔ اور اس کی ضروریات پوری کرنا محض کوئی تطوع نہیں ، بلکہ فرض ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس معاملے میں دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کے قانون کے مطابق عائلی عدالتیں موجود ہیں،یا تو وہ عدالت سے رجوع کریں۔ وہاں فیصلہ ہو جائے گا۔اور جو بھی فیصلہ بھی ہو، اس سے بحث نہیں کہ وہ صحیح ہو یا غلط، وہ نافذ ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہی فیصلہ مانا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی صاحب علم کو ثالث بنائیں، اپنا مقدمہ اس کے سامنے پیش کریں اور وہ جو فیصلہ دے اس کو قبول کر یں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اگر والدہ کی بات معقول وجہ پر مبنی ہے تو آپ کو اس پر توجہ دینی چاہیے ۔اگر ظلم یا خاندانی تعصب یا محض دشمنی پر مبنی ہے تو اطاعت نہیں کرنی چاہیے آپ کو بہر حال حق کا اورانصاف کا ساتھ دینا ہے ۔حق اور انصاف کے بغیر ان کی بات مانیں گے تواللہ کی نافرمانی کریں گے اور اللہ کی نافرمانی میں کسی کی طاعت نہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس کے بارے میں دین نے کوئی قانو ن سازی نہیں کی ۔ دونوں طرح دی جا سکتی ہے ۔ اور اگر ریاست نے کوئی قانون سازی کر دی ہو تو اس کو اپنانا چاہیے جس طرح نکا ح کے بارے میں نکاح فارم وغیر ہ بنا دیا گیا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: بالاصورت میں دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں کیونکہ تین طلاقیں مختلف اوقات میں واقع ہوچکی ہیں۔ حدیث ِ رکانہ بن عبدِ یزید اخوبنی مطلب کے قصہ سے یہ بات مترشیح ہے کہ اختلافِ مجلس مؤثر ہے، لہٰذا اس شخص کو چاہیے کہ فوراً اس عورت سے علیحدگی اختیار کرلے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب: صورت حال سے ظاہر ہے کہ دوسری طلاق کے وقت شوہر کا ذہنی توازن درست نہ تھا، ایسی حالت میں طلاق نہیں ہوئی۔ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں حضرت عثمانؓ سے منقول ہے: لیس لمنجنون ولا لسکران طلاق ‘‘دیوانے اور نشئی کی اطلاق قابلِ اعتبار نہیں’’۔ اور ابن عباسؓ نے کہا کہ طلاق السکران والمستکرہ لیس بجائز ‘‘نشئی اور مجبور شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی’’۔
الغرض جب شدتِ مرض کی بنا پر آدمی کے ہوش حواس قائم نہ ہوں تو طلاق شمار نہیں ہوگی۔ عقل و شعور کی مضبوطی کی صورت میں ہی طلاق واقع ہوتی ہے جبکہ محلِ بحث میں معاملہ برعکس ہے اور تیسری طلاق کا معاملہ بھی دوسری طلاق سے مختلف نظر نہیں آتا، البتہ اگر اس کا وقوع عقل و شعور سے ہوا ہے تو پھر شمار ہوگی، بہرصورت رجوع کی گنجائش موجود ہے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
ج۔ خاندان کا ادارہ مرد و عورت کے نکاح سے وجود میں آتا ہے۔اس ادارے کو قائم کرنے میں مرد و عورت یکساں طور پر آزاد ہوتے ہیں۔ جب یہ ادارہ قائم ہو جائے تو اس میں مرد کو خدا کی طرف سے قوام یعنی منتظم کی حیثیت دی گئی ہے، چنانچہ اس ادارے کے قیام کے بعد اسے توڑ دینے کا اختیار بھی اسی منتظم کو دیا گیا ہے۔ اگر یہ اختیار عورت کو دے دیا جاتا تو ضروری تھا کہ پھر منتظم بھی اسی کو بنایا جاتا۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب۔ طلاق ایک عمل ہے۔ جس کے لیے نیت اسی طرح شرط ہے جیسے دوسرے اعمال کے لیے شرط ہے۔ یہ عمل جب نیت سے کیا جاتا ہے ظاہر ہے کہ تبھی اس کا وقوع ہوتا ہے۔ لیکن جب طلاق کا مسئلہ عدالت میں چلا جاتا ہے تو بعض صورتوں میں وہ مجبور ہوتی ہے کہ محض ان الفاظ ہی کو دیکھے جن سے طلاق دی گئی ہے اور طلاق دینے والے کی نیت سے یکسر بے نیاز ہو کر فیصلہ کرے۔ محض وسوسے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ بعض افراد اس طرح کے وساوس اور وہموں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ لغو ہوتا ہے،دین میں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس کی پروا کرنا سخت نقصان دہ ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ دل کا خیال نیت نہیں ہوتا۔ نیت پختہ ارادے کا نام ہے۔ چنانچہ اس شخص کی طلاق کو طلاق کہا جائے گا جو فی الواقع طلاق دیتا ہے، یعنی جو یقین کے ساتھ سے اس کا ارادہ کرتا اور پھر یقین کے ساتھ اس پر عمل کرتا ہے، اگر اسے پتا چلے کہ طلاق واقع ہونے میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ فوراً اس کمی پورا کرنے کے لیے کوشاں ہو جاتا ہے۔ اسے اپنے طلاق دینے کے بارے میں خود کوئی شبہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ مکمل یقین پر کھڑا ہوتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: جب آپ نکاح کرتے ہیں تو بیوی کے نان و نفقے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔مہر اس ذمہ داری کی ٹوکن منی (علامت )ہے ۔ یہ نکاح کے فوراً بعد ادا ہونا چاہیے ، اس کاطلاق سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ اس میں حق مہر صرف اس لیے لکھا جاتا ہے کہ اگر طلاق ہو گئی تو زیر بحث آئے گا ۔ یہ عورت کا حق ہے اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ فوراً اس کوادا کریں۔ یہ نکاح کا ایک لازمی جزو ہے ،اور بغیر کسی تاخیر کے فوراً ًدینا چاہیے ۔ یہ قرض ہے اور اگر ایک دن بھی تاخیر کرتے ہیں تو آپ مقروض کی موت مرتے ہیں، اس وجہ سے اس معاملے میں تاخیر اور طلاق کا کوئی سوال نہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: پھر بیوی کو عدالت میں طلاق کا مطالبہ کرنا پڑے گا ۔ اس کا شوہر رجوع کا حق رکھتا ہے ، وہ اگر نہیں چاہتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ طلاق چاہتی ہے ۔اس کے لیے اسے عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا ، اس کے بعد طلاق واقع ہو گی۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آپ کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ آپ کے بھائی نے پورے شعور سے دو طلاقیں دی ہیں اور تیسری طلاق شعوراً روک رکھی ہے۔ اِس کے بعد پھر سے رجوع کر لیا ہے۔ یہ رجوع چونکہ عدت کے دوران ہی میں ہوا ہے، لہذا، نکاح ثانی کی تو ضرورت نہیں صرف یہ رجوع ہی کافی ہے۔ لیکن ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ دو طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور اب صرف تیسری کا موقع ہے۔ جونہی یہ تیسری طلاق بھی خدا نخواستہ دے دی گئی، تعلق ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گا۔آپ کا دکھ اور کرب اپنی جگہ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں انسانوں کو جب بھی ظلم کا موقع ملتا ہے، تو اُن میں سے ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں ، جو اُس موقع پر اپنی موت کو یاد رکھتے اور خدا سے ڈرتے ہیں۔آپ سوائے اِس کے کچھ بھی نہیں کر سکتیں کہ اپنے بھائی کو خدا کا خوف دلائیں۔ اگر وہ خدا کا ذرا بھی خیال نہیں کرتا، تو پھر بھی آپ اُسے خدا ہی کا خوف دلائیں۔ اِس لیے کہ ہمارے پاس اُس زبردست قہار اور اُس زورآور جبار کا خوف دلانے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ کسی کو ہم پکڑ نہیں سکتے،پکڑتا وہ خود ہے۔ہم چاہے بھائی ہوں باپ ہوں یا بیٹے ،کسی ظلم کرنے والے کو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ تم خدا کے عذاب کو آواز نہ دو۔اُس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔اُس کی رحمت ظالموں کی مخالف ہے۔ وہ ظلم کرنے والوں پر نہیں، بلکہ مظلوموں پر اور ظلم سے توبہ کرنے والوں کے لیے مہربان ہے۔ خود آپ ہرممکن حد تک اپنی مظلوم بھاوج کا ساتھ دیں۔ حالات کو بہتر کرنے کی تدابیر ضرور اختیار کریں۔ لیکن یہ تسلی رکھیں کہ اگر اُسے آخری طلاق بھی دے دی گئی ، تو اِس صورت میں اُس کے حق میں خدا کی طرف سے ضرور کوئی حکمت ہی ہو گی۔اللہ مصائب پر صبر کرنے والے کو بے پناہ اجر دیتا ہے اور اُس کے لیے آسانی کی راہیں کھولتا ہے۔ دین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اصل مسئلہ اُس کا نہیں ہے جس پر دنیا کی کوئی مصیبت آئی ہے ، بلکہ اُس کا ہے جو خدا کی گرفت میں آنے والا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب: طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنے والدین اور شوہر کی طرف سے ملنے والے سامان کی حقدار وہی عورت ہوتی ہے جس کو یہ سامان ملا ہوتا ہے۔
(حافط محمد اشتیاق الازہری)
جواب: اسی طرح کی غلط بیانی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے بعض لوگ اسلامی شریعت کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں اسلامی شریعت پر اعتراض کرنے سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ اسلامی شریعت سے خاطر خواہ واقفیت حاصل کریں۔ اگر انھیں اس کی واقفیت نہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ قرآن و سنت کا مطالعہ کریں تاکہ اسلامی شریعت کا صحیح صحیح علم ہو سکے۔ مصیبت یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ قرآن و حدیث کا مطالعہ کم کرتے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے یا کسی مسلمان کے غلط رویے کو دیکھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہی اسلامی شریعت ہے اور پھر اسلامی شریعت پرسیدھے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں
اس اعتراض سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ شادی اور طلاق سے متعلق قرآن و حدیث کے احکام کا مطالعہ کر لیتے اور جان لیتے کہ اس سلسلے میں اسلام کا کیا موقف ہے۔
اسلام کی نظر میں شادی ایک مضبوط اور مستحکم بندھن ہے اور اس بندھن کی بنیاد باہمی الفت و محبت پر ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے تعان سے پرسکون زندگی گزاریں۔یہ وہ مضبوط رشتہ ہے جو دو خاندانوں کی مستقل دوڑ بھاگ گفت و شنید شادی کی تقریبات مہر کی ادائی اور نہ جانے کن کن مرحلوں کے بعد وجود میں آتا ہے ظاہر ہے اس قدر مضبوط رشتے کو توڑ دینا کوئی قابل تعریف بات ہے اور نہ کوئی آسان بات کہ جب جی چاہا اسے ختم کر دیا نہ تو شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بنیاد پر اس رشتہ کو ختم کردے اور نہ بیوی ہی کو اس کا حق دیا گیا ہے۔ یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردےبالکل غلط بات ہے -یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔ اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضا رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے:فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے۔اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ انصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسا اوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی پوراحق دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور مردوں کو حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھرولواں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھر بھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں- اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے‘ مہر کی ذمے داری ہے‘بیوی بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہےاور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن ختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔
یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردے۔بالکل غلط بات ہے یہ بات وہی کہہ سکتا ہے۔ جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ہے۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضائے رب رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے:
فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ہے۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسااوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو۔ وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی پوراحق دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھروالوں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھربھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے مہر کی ذمے داری ہے۔ بیوی اور بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہے۔ اور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن اختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔