جواب :قسم کھانے سے احتراز بہتر ہے، تاہم اگر کسی نے جائز امر کی قسم کھائی ہے تو اسکو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ لیکن اگرکوئی اپنی قسم پوری نہ کرسکے تو توبہ واستغفار کرے اورقسم توڑنے کا کفارہ دے۔ کفارہ میں دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا کپڑے دیدے۔ اگر ان دونوں کی استطاعت نہ ہو تو تین روزے رکھے۔فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ماتطعمون اہلیکم او کسوتہم او تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
آپ کے سوالات کے جواب حاضر ہیں۔
بنیادی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے جملے کی زیادہ سے زیادہ حیثیت ایک قسم کی ہے۔یہ ایک ناموزوں اور حق تلفی پر مبنی قسم ہے ۔اسے توڑنا لازم ہے۔ اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔ ان صاحب کو بس یہ کرنا ہے کہ یہ قسم کا کفارہ ادا کردیں اور اپنی سسرال میں نارمل زندگی گزاریں۔ قسم کا کفارہ یہ ہے:‘‘قسم کھانے والا دس مسکینوں کو اس معیار کا کھانا کھلائے جو وہ عام طور پر اپنے اہل وعیال کو کھلاتا ہے، یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے یا غلام آزاد کرے۔ان میں سے کچھ بھی میسر نہ ہو تو اسے تین دن کے روزے رکھنا ہوں گے۔’’
(مولانا طالب محسن)
ج: وہ ایک قسم کھا بیٹھے تھے جوایسی نہیں تھی کہ جس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہو۔ جب وہ صورتحال سے نکلے تو اللہ تعالی نے ان کو گویا ایک طریقہ بتا دیا کہ جس سے ان کی تسکین ہو جائے کہ انہوں نے اپنی قسم پوری کر لی ہے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے سے بھی بچ جائیں۔ یہ طریقہ وہاں اختیار کرنا چاہیے جہاں اللہ کی کسی نافرمانی اور کسی بندے کی حق تلفی کا کوئی امکان نہ ہو ۔
(جاوید احمد غامدی)