جواب: ترکہ کی تقسیم سے قبل قرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس کے بعد جو کچھ بچے گا وہ پورے کاپورا والد کاہوگا۔ والد کی موجودگی میں بھائیوں کا کچھ حصہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اگر میت صاحبِ اولاد ہوتو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیاجائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو، پوری کردی جائے اور قرض جو اس پر ہو، ادا کردیاجائے۔“
اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱۔ ترکہ کی تقسیم وصیت کی تکمیل اور قرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی۔
۲۔اگر میت کی اولاد ہو اور اس کے والدین بھی زندہ ہوں تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔
۳۔اگر میت کی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین زندہ ہوں تو ماں کو ایک تہائی ملے گا۔
۴۔اگر میت کے بھائی بہن ہوں اور اس کے والدین بھی زندہ ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔
مذکورہ بالا صورتوں میں سے موخرالذکر دو صورتوں میں باپ کے حصے کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے علماء نے یہ استنباط کیاہے کہ ان صورتوں میں باپ کاکوئی متعین حصہ نہیں ہے، بلکہ ماں کا حصہ نکالنے کے بعد جو کچھ بچے وہ سب باپ کاہوگا۔
کسی شخص کے انتقال کے وقت اگر اس کے والدین زندہ ہوں اور اس کے بھائی بہن بھی ہوں تو بھائیوں بہنوں کو کچھ نہ ملے گا، پورا ترکہ ماں باپ میں تقسیم ہوجائے گا۔ اگر والدہ کا انتقال پہلے ہوچکا ہو اور والد زندہ ہوں تو وہ پورے ترکے کے مستحق ہوں گے، اس صورت میں بھی بھائیوں بہنوں کاکچھ حصہ نہ ہوگا۔
جواب: شوہر کے انتقال کے بعد اس کی میراث اس کے مذکورہ پسماندگان میں اس طرح تقسیم ہونی چاہئے تھی:
بیوی : کل مال کا چوتھائی حصہ (۴/۱)
تین چچیرے بھائی:بقیہ مال ان کے درمیان برابر تقسیم ہونا چاہئے تھا۔ (عصبہ ہونے کی وجہ سے)
چچیری بہن کا کچھ حصہ نہیں۔
پھر بیوی کے انتقال کے بعد اس کا مال اس کے مذکورہ وارثین کے درمیان اس طرح تقسیم ہونا چاہئے کہ اس کے چار حصے کیے جائیں۔ ایک ایک حصہ دونوں بہنوں کو دیا جائے اور دو حصہ بھائی کو۔
جواب:آپ نے اپنے حالات بیان کرکے جو مسائل اٹھائے ہیں ان کا جواب درج ذیل ہے:
۱- آپ نے اپنی بہنوں، ان کے شوہروں اور ان کے بچوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر اللہ تعالیٰ آپ کو اچھا بدلہ دے گا۔ آپ نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کرنے اور آخرت میں اس کا اجر چاہنے کے لیے ہی کیا ہوگا۔ دنیا میں اس کا کوئی بدلہ حاصل کرنا آپ کا مقصود نہیں ہوگا۔
۲- شریعت میں کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ تقسیم کرنے کا صاف الفاظ میں حکم دیاگیا ہے۔ آپ کے والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ تقسیم ہونا چاہیے تھا، جو نہیں ہوا۔ بہرحال اب اس کی تقسیم ہوجانی چاہیے۔
۳- کسی شخص کے وارثان میں صرف لڑکے لڑکیاں ہوں تو ترکہ اس طرح تقسیم ہوگاکہ ہر لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔ آپ کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق ترکہ کے سات حصے کیے جائیں گے۔ ایک ایک حصہ آپ کی تینوں بہنوں کا ہوگا، دو حصے آپ کے اور دو حصے آپ کے بھائی کے۔
۴- آپ کا جو بھائی باہر رہتاہے وہ بھی ترکہ پانے سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
۵- حق داروں میں سے کوئی بھی اگر چاہے تو اپنی مرضی سے اپنا حصہ چھوڑسکتا ہے یا دوسرے کو دے سکتا ہے۔
۶- آپ کی بہن نے اگر کہاتھا کہ ”میری لڑکی کی شادی کرادو میں اپنا حصہ نہیں لوں گی“ تو انھیں اپنی بات پر قائم رہنا چاہیے۔ اگر وہ اس سے انکار کرتی ہیں اور آپ کے پاس کوئی ثبوت ہوتو پیش کیجیے۔
۷-آپ نے اپنی بہنوں، ان کے شوہروں اور ان کے بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی کفالت کرکے جو عظیم اجرو ثواب کمایا
ہے اسے ترکہ کے معاملے میں اپنی بہنوں اور بھائی سے جھگڑا کرکے ضائع مت کیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کشادہ دلی کا اچھا بدلہ دے گا اور امید ہے کہ وہ آخرت میں ان اچھے کاموں کے اجر کے ساتھ اس دنیا میں بھی آپ کو کشادگی عطافرمائے گا۔