ج:عورتوں کا اپنی زیب و زینت کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا خالصتاً معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف تہذیبیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہمیں دوسری تہذیب سے غیر شرعی رسوم لینے سے منع کرتا ہے اور جو رسوم غیر شرعی نہیں ہیں، ان کو اپنا لینے پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ناک میں سوراخ کرا کر لونگ پہننا مسلمانوں نے خواہ ہندووں ہی سے لیا ہو، لیکن اب یہ خود بعض علاقوں کے مسلمانوں میں رائج ہو گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی اسے اختیار کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج- شادی کی یہ ہندوانہ رسمیں جائز نہیں، بلکہ بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہیں۔ اور ‘‘خوشی میں سب کچھ جائز ہے’’ کا نظریہ تو بہت ہی جاہلانہ ہے، قطعی حرام کو حلال اور جائز کہنے سے کفر کا اندیشہ ہے۔ گویا شیطان صرف ہماری گنہگاری پر راضی نہیں بلکہ اس کی خواہش یہ ہے کہ مسلمان، گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھیں، دِین کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام نہ جانیں، تاکہ صرف گنہگار نہیں بلکہ کافر ہوکر مریں۔ مرد کو سونا پہننا اور مہندی لگانا نہ خوشی میں جائز ہے نہ غمی میں۔ ہم لوگ شادی بیاہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے اَحکام کو بڑی جرات سے توڑتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ ایسی شادی آخرکار خانہ بربادی بن جاتی ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- دْلہن پر قرآنِ کریم کا سایہ کرنا محض ایک رسم ہے، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، اور دْلہن کو سجاکر نامحرَموں کو دِکھانا حرام ہے، اور نامحرَموں کی محفل میں اس پر قرآنِ کریم کا سایہ کرنا قرآنِ کریم کے اَحکام کو پامال کرنا ہے، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- آپ سے دو غلطیاں نہیں ہوئیں بلکہ آپ کو دو غلط فہمیاں ہوئی ہیں، پہلی رات بیوی کا آنچل بچھاکر نماز پڑھنا نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت، نہ مستحب، یہ محض لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی بات ہے، لہٰذا آپ کی پریشانی بے وجہ ہے۔ آپ کے دوست کا یہ کہنا بھی غلط فہمی بلکہ جہالت ہے کہ میاں بیوی ایک دْوسرے کا جھوٹا کھاپی لینے سے بھائی بہن بن جاتے ہیں، یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں، لہٰذا آپ پر کوئی کفارہ نہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
جواب (1) ایسا شخص جو خود جانتا ہے کہ وہ اتنا خرچ کرنے کے قابل نہیں ہے۔اور محض دنیا کے دکھاوے اور اپنی غلط خواہشات کی تسکین کی خاطراپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا چاہتا ہےوہ تو جان بوجھ کر اپنے آپ کو معصیت کے گڑھے میں پھینک رہا ہے۔اپنی غلط خواہش کی وجہ سےیا تو وہ سودی قرض لے گایا کسی ہمدرد کی جیب پر ڈاکہ ڈالے گا۔اور اگر اسے قرض حسنہ مل گیا، جس کی اُمید نہیں ہے، تو ا سے مار کھائے گا۔ اور اس سلسلے میں خدا جانے کتنے جھوٹ اور کتنی بے ایمانیاں اس سے سرزد ہوگی۔ آخر ایسے شخص کو کیا سمجھایا جاسکتا ہے جو محض اپنے نفس کی غلط خواہش کی خاطر اتنے بڑے بڑے گناہ جانتے بوجھتے اپنے سر لینے پر آمادہ ہے۔
ب: ایسے شخص کو اپنےلڑکے لڑکیوں کی شادیاں ان لوگوں میں کرنی چاہیےجومالی حیثیت سےاسی جیسے ہوں اور جو اس کے لیے تیار ہوں کہ اپنی چادر سے نہ وہ خود زیادہ پاؤں پھیلائیں اور نہ دوسرے کوزیادہ پاؤں پھیلانے مجبور کریں۔اپنے سے بہترمالی حالات رکھنے والوں میں شادی بیاہ کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو خوامخواہ مشکلات میں مبتلا کرنا ہے۔
ج:یہ صورت تو کچھ فطری سی ہے، لیکن اس کو حد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کی لڑکی جوان اور شادی کے قابل ہو چکی ہو اور اسے کوئی مناسب لڑکا نظر آئے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ خود اپنی طرف سے پیغام دینے میں ابتداء کرے۔ اس کی مثالیں خود صحابہ کرام میں ملتی ہیں۔ اگر یہ بات حقیقت میں کوئی ذلت کی بات ہوتی تو نبی کریمﷺ اس کو منع فرما دیتے۔
د۔ یہ سب چیزیں وہ پھندے ہیں جو لوگوں نے اپنے گلے میں خود ڈال لیے ہیں، ان میں پھنس کر ان کی زندگی اب تنگ ہوئی جارہی ہے، لیکن لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ان کو کسی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ براہ راست ان رسموں کے خلاف کچھ کہا جائے، بلکہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن اور سنت کی طرف دعوت دی جائے،خدا اور رسول ﷺ کے طریقے پر لوگ آجائیں۔ تو بڑی خرابیاں بھی دور ہوں گی اور یہ چھوٹی چھوٹی خرابی بھی نہ رہیں گی۔