ج:عورتوں کا اپنی زیب و زینت کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا خالصتاً معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف تہذیبیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہمیں دوسری تہذیب سے غیر شرعی رسوم لینے سے منع کرتا ہے اور جو رسوم غیر شرعی نہیں ہیں، ان کو اپنا لینے پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ناک میں سوراخ کرا کر لونگ پہننا مسلمانوں نے خواہ ہندووں ہی سے لیا ہو، لیکن اب یہ خود بعض علاقوں کے مسلمانوں میں رائج ہو گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی اسے اختیار کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ناخن کتروائیں۔ یہ چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی انبیا نے ایک سنت کے طور پر جاری کی ہے۔ اور اس چیز کو لازماً اختیار کرنا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ضروری تو بالکل بھی نہیں بلکہ اگر وہ نہ پہنیں توزیادہ بہتر ہے۔ ان کو صرف اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر چاہیں تو سونے چاندی کے زیورات پہن سکتی ہیں کیونکہ آرائش عورت کے لیے ایک فطری چیز ہے ۔ نہ پہنیں توکوئی مضائقہ نہیں بلکہ بہترہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: حنبلی مسلک کے مطابق قربانی کرنے والے شخص کے لیے چاند دیکھنے کے بعد بال یا ناخن کٹوانا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ حجاج کرام احرام کی حالت میں یہ چیزیں نہیں کٹواتے۔ اس لیے اس کیفیت کو زندہ رکھنے کے لیے قربانی کرنے والے کو بھی یہ چیزیں نہیں کٹوانی چاہئیں۔البتہ راجح قول یہ ہے کہ ایسا کرنا صرف مکروہ ہے۔ اگر کسی نے ناخن کٹوایا یا بال بنوا لیے تو اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ سے مغفرت طلب کرے اور بس۔ اگر کسی شخص کو زیادہ دن تک ناخن یا بال چھوڑنے سے تکلیف ہوتی ہو اور اس نے یہ چیزیں کٹوا لیں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اپنی زینت ظاہر کرنے سے منع کیا ہے۔ چنانچہ خوشبو لگا کر نکلنا بھی ممنوع ہے اور وہ قریبی اعزہ اور متعلقین ،جن کی فہرست قرآن مجید میں بیان کر دی گئی ہے، ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سامنے آرائش و زیورات اور اس طرح کی دوسری چیزوں کے اظہار پر بھی یکسر پابندی ہے۔ ‘‘الا ما ظہر منہا’’ کے الفاظ سے جو استثنا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کے زیور یا ان کی آرائش جو کہ عادۃً ظاہر ہوتی ہے،اس کے ظاہر ہونے پر گرفت نہیں ہے۔ لیکن اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ ‘‘ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کا زیور یا ان کی آرائش کا اظہار کرنے میں عورت آزاد ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ عورت کو نامحرموں کے درمیان اپنے ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کے زیور یا ان کی آرائش کا اظہار کرنے کی اجازت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ محرم اعزہ کے علاوہ لوگوں کے سامنے زیب و زینت کے ہر اظہار پر پابندی ہے، خواہ یہ جسم کے کسی بھی حصے کا ہو، حتی کہ چہرے ، ہاتھ اور پاؤں کی زینت کو بھی ارادتاً یعنی جان بوجھ کر ظاہر کرنا دین میں ممنوع ہے۔ البتہ ان حصوں کی زینت چونکہ عادتاً ظاہر ہوتی ہے اس لیے اس کے خود بخود ظاہر ہونے پر گرفت نہیں ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: نبیﷺ نے بڑے ناخن رکھنے سے منع فرمایا ہے ۔ ناخن تزکیہ اور طہارت کے خلاف ہیں ۔ اسلامی اصول یہ ہے کہ جس طرح مردوں کو اپنی مونچھیں کم رکھنی چاہیں اور ناخن کاٹ کر رکھنے چاہیں، اسی طرح خواتین کو اپنے ناخن کاٹ کر رکھنے چاہیں۔ ناخنوں میں مرد یا عورتوں کا سوال نہیں ۔بڑے ناخن رکھنا دونوں کے لیے ناجائز ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)