جواب :آپ نے صدقہ، فطر، زکوۃ اور خیرات میں فرق پوچھا ہے اور مصیبت میں صدقہ دینے کی حقیقت دریافت کی ہے۔یہ تمام الفاظ ایک پہلو سے مشترک المعنی ہیں۔ وہ پہلو انفاق فی سبیل اللہ کا ہے اور یہ لفظ اس مشترک پہلو سے بھی لکھے اور بولے جاتے ہیں۔ انفاق سبیل اللہ ہی کی مختلف صورتوں کے لیے ان میں سے کچھ لفظ مختص بھی ہیں۔ مثلا بچتوں پر شریعت کی طرف سے لازم کیے گئے اڑھائی فیصد انفاق کے لیے زکوۃ کا لفظ مستعمل ہے۔ عید الفطر سے پہلے تمام افراد خانہ پر ایک دن کا کھانا عائد ہوتا ہے، جس کی مقدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع مقرر کی تھی، اسے فطرانہ یا صدقہ فطر کہا جاتا ہے۔ صدقہ اور خیرات کا لفظ نفلی خیرات کے لیے آتا ہے۔
ان میں سے صدقے کا لفظ ہمارے ہاں ایک نئے تصور کے ساتھ متعلق ہو گیا ہے۔ وہ تصور یہ ہے کہ کسی مصیبت کو ٹالنے کے لیے کوئی چیز خیرات کی جائے۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ ایک حقیقت کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر تکلیف یا آزمایش ہوتی ہے یا تنبیہ۔ اس لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی طرف متوجہ ہو اور توبہ اور اصلاح کے راستے کو اختیار کرے۔ اصلاح عمل میں نماز ہے۔ حمد و تسبیح ہے۔ گناہوں سے اجتناب ہے اور اسی طرح خیرات اور دوسرے نیکی کے کام بھی ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم کوئی ایسا راستہ نکال لیں جس میں زندگی میں کوئی تبدیلی نہ کرنی پڑے اور مشکل سے جان بھی چھوٹ جائے۔ صدقے کے اس تصور کی ایک وجہ تو یہ ہے۔ دوسری وجہ عامل حضرات ہیں جنھوں نے لوگوں کو توہم پرستی کی چاٹ لگا رکھی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :قرآن مجید میں صدقے کا لفظ خیرات کے مفہوم میں آیا ہے۔ عربی میں صدقہ، خیرات، زکوٰۃ، یہ سب الفاظ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں ضرورت مند لوگوں کی مدد کی جائے، خواہ پیسے دیے جائیں یا کپڑے دیے جائیں یا بھوکے کو کھانا کھلایا جائے یا کسی اور شکل میں ان کی ضرورت پوری کر دی جائے۔ اسلام میں اس طرح کے صدقے کا کوئی تصور نہیں ہے کہ کالا بکرا دے دو یا چوراہے میں سری پھینک دو یا چھت پر یا پانی میں گوشت ڈال دو۔ یہ توہم پرستی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اللہ توفیق دے تو آپ ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: صدقۃ الفطر اس شہر میں دینا چاہیے جہاں عید کی چاند رات گزاری ہو۔ کیونکہ اس صدقے کا سبب رمضان کے روزے نہیں بلکہ روزوں کا ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے اسے اسی مناسبت سے صدقۃ الفطر کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا تعلق عید اور اس کی خوشیوں سے ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ حدیث ہے: اغنوھم فی ھذا الیوم.
‘‘اس دن انھیں (فقر ا اور مساکین کو) بھی مالدار کیا کرو۔’’
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: صدقۃ الفطر اس شہر میں دینا چاہیے جہاں عید کی چاند رات گزاری ہو۔ کیونکہ اس صدقے کا سبب رمضان کے روزے نہیں بلکہ روزوں کا ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے اسے اسی مناسبت سے صدقۃ الفطر کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا تعلق عید اور اس کی خوشیوں سے ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ حدیث ہے: اغنوھم فی ھذا الیوم.
‘‘اس دن انھیں (فقر ا اور مساکین کو) بھی مالدار کیا کرو۔’’
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: ایک شخص نے اپنی اولاد کو عمل صالح کی تربیت دی تو اولاد کے نیک اعمال کا ثواب اس کو بھی ملے گا اور اولاد کو بھی ملے گا ۔ اولاد کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں صدقہ جاریہ بن جا تی ہیں ، انسانوں کی خدمت بھی جب تک کہ اس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے اس کا ثواب ملتا رہتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ یہ نیکیاں الگ ہیں، مگر اس کے علاوہ بھی تو وہ کئی نیکیاں کما سکتے ہیں۔ پتا نہیں امیر آدمی زکوٰۃ، خیرات کرتا ہو، لیکن اس نے کتنے جرائم کیے ہوں، نیکی کمانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے کسی کودولت کا محتاج نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار راستے رکھے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نہیں ، کبھی بھی نہیں بتانا چاہیے ، آپ جو اللہ کی راہ میں دینا چاہتے ہیں اس کی نیت رکھیے اور دیجیے۔ اس کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے چاہییں کہ دوسرے کو احساس بھی نہ ہو کہ اس کے اوپر اس طرح کوئی کرم کیا جا رہا ہے ، آپ کسی کے گھر گئے ہیں ویسے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں ،کچھ چیزیں دے دیتے ہیں ، کوئی تحفے تحائف دیتے ہیں تو اس طرح دے دینا چاہیے ، بتانا ضروری نہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: زکوۃ تو وہ رقم ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے نماز کی طرح فرض کی گئی ہے ۔ صدقہ خیرات ایک آپشنل انفاق ہے ۔ خود زکوۃ بھی ایک طرح سے صدقہ ہی ہے ۔ صدقہ کوئی برا لفظ نہیں ہے ہمارے ہاں یہ اصل میں برے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔اجتماعی یا انفرادی بہبود کے لیے جو خر چ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا جاتا ہے وہ صدقہ ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: صدقہ کسی ظالم خدا کو دیا جانے والاجگا ٹیکس نہیں ہے کہ وہ یہ لے اور ہم پر اپنا ظلم بند کرے اور نہ ہی رشوت ہے بلکہ صدقہ و خیرات اِس امر اور خواہش کا اظہار ہے کہ بندہ خدا کی طرف بڑھنا چاہتا ہے، اُس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُسے اُس کے گناہوں پر سزا نہ دی جائے۔اُس نے خدا کی مخلوق یعنی اپنے بھائی بندوں کے ساتھ اپنا رویہ درست کر لیا ہے ، وہ اُن کا حق پہچانتا ہے اور اُن کی ضروریات پورا کرنے میں اُن کا معاون بن گیا ہے۔لہذا خدا سے درخواست ہے کہ وہ اس کی مشکلات میں مدد فرمائے ۔صدقہ دعا کی عملی صورت ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب:عُشر دسویں حصہ کو کہتے ہیں جو زرعی پیداوار پر ادا کیا جاتا ہے اور نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ بھی اس اطلاق میں شامل ہے دراصل عُشر زکوٰۃ کی طرح ایک ایسا مقررہ حصہ ہے جو زرعی پیداوار پر دینا واجب ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:فِیمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُونُ اَوْ کَانَ عَثَرِیًّا الْعُشْرُ؛ وَمَا سُقِیَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ.
وہ زمین جسے آسمان یا چشمہ سیراب کرتا ہو یا وہ خود بخود نمی کی وجہ سے سیراب ہو جاتی ہو تو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے؛ اور جسے کنوئیں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔بخاری، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب العشر فیما یسقی من ماء السمآء، وبالمآء الجاری، 2: 540، رقم: 1412
عشر چونکہ پیداوار کی زکوٰۃ کا نام ہے اس لئے اس کے مصارف بھی وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں؛ یعنی فقراء، مساکین، عاملینِ عشر، غلاموں کی آزادی، غارِمین، فی سبیل اللہ اور مسافر۔ زکوٰۃ کی طرح عشر کی جنس یا قیمت بنی ہاشم کو، حقیقی والدین یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اور حقیقی اولاد یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی کو اور میاں بیوی ایک دوسرے کو نہیں دے سکتے۔ اگر بہن بھائی، داماد، بہو، ساس سسر یا رشتہ دار وغیرہ مستحقِ زکوٰۃ ہوں تو ان کو عشر دیا جاسکتا ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
جواب:عشر کی ادائیگی میں اصل حکم تو زرعی پیداوار میں سے مخصوص مقدار فی سبیل اللہ دینے کا ہی ہے، تاہم اگر عشر کے بقدر جنس کی قیمت دے دی جائے، تب بھی عشر ادا ہوجائے گا۔
جواب: صدقۃ الفطر اس شہر میں دینا چاہیے جہاں عید کی چاند رات گزاری ہو۔ کیونکہ اس صدقے کا سبب رمضان کے روزے نہیں بلکہ روزوں کا ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے اسے اسی مناسبت سے صدقۃ الفطر کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا تعلق عید اور اس کی خوشیوں سے ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ حدیث ہے:
اغنوھم فی ھذا الیوم۔
’’اس دن انھیں (فقر ا اور مساکین کو) بھی مالدار کیا کرو۔‘‘
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: صدقۃ الفطر کی مقدار سال بہ سال تبدیل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک محدود اور متعین مقدار ہے جسے نبیؐ نے مقرر کیا ہے۔ یہ مقدار ایک صاع یعنی تقریباً دو کلوگرام اناج ہے۔ میرے خیال میں صدقۃ الفطر کو اناج کی صورت میں مقرر کرنے میں دو حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
۱۔ پہلی حکمت یہ ہے کہ اس زمانے میں عربوں ، خاص کر دیہات میں رہنے والوں کے پاس دینار و درہم (پیسوں) کے مقابلے میں اناج اور غلہ زیادہ موجود ہوتا تھا۔ بہت سارے ایسے لوگ تھے جن کے پاس غلہ اور اناج تو ہوتا تھا لیکن نقد رقم کی صورت میں ان کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ صدقۃ الفطر کو پیسوں کی صورت میں ادا کرنا ہو تاتو شاید بہت سارے لوگ پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے۔
۲۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ پیسوں کی قوت خرید ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ آج اگر پانچ روپے کا ایک کلو چاول مل رہا ہے، تو کل اس ایک کلو چاول کی قیمت دس روپے بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے حضوؐر نے صدقۃ الفطر کو اناج اور غلے کی صورت میں مقرر کر دیا تاکہ مقرر شدہ اناج کی پوری مقدار غریبوں تک پہنچتی رہے۔
احناف کے نزدیک اس مقرر شدہ اناج کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ حضوؐر نے صدقۃ الفطر کے لیے اناج کی محض چند قسموں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان قسموں کے علاوہ دوسری قسموں کو بطور صدقۃ الفطر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ جس جگہ صدقۃ الفطر ادا کیا جا رہا ہے وہاں اناج کی جتنی قسمیں مستعمل ہیں، ان میں سے کسی بھی قسم سے صدقۃ الفطر نکالا جا سکتا ہے۔ چاہے گیہوں ہو یا چاول یا کھجور یا مکئی یا اس کے علاوہ دوسری کوئی چیز۔
اگر آدمی صاحب حیثیت ہے تو اسے چاہیے کہ اس مقرر شدہ اناج کے علاوہ کچھ رقم ادا کرے کیونکہ اس دور میں کھانا فقط چاول یا روٹی پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ سالن کی صورت میں دوسرے لوازمات بھی ضروری ہوتے ہیں۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: میاں بیوی کے تعلقات اس طرح کے ہونے تو نہیں چاہیں کہ وہ ایک دوسرے سے مشورہ کیے بغیر کوئی بھی کام کریں۔ اگر بدقسمتی سے کوئی ایسا شوہر ہو کہ وہ اپنی بیوی کو صدقہ خیرات کرنے سے بھی منع کرے تو ایسی صورت میں بیوی بغیر اس کی اجازت لیے صدقہ خیرات کر سکتی ہے، لیکن مناسب حد تک کرے۔ اگر کوئی زیادہ رقم صدقہ خیرات کرنا چاہے یا اپنے ماں باپ رشتہ داروں میں سے کسی حقدار پر خرچ کرنا چاہے تو خاوند سے مشورہ کیے بغیر نہ کرے تاکہ اگر وہ حساب بھی لے تو آپ کو مشکلات پیدا نہ ہوں۔
جو عورت ملازمت کر کے کماتی ہے وہ رقم تو اسی کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کو اپنا مال کسی کو دینے کے لیے خاوند سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن وہ اس کو مناسب جگہ اور مناسب حد تک استعمال کرے، درمیانہ راستہ اختیار کرے حد سے نہ بڑھے۔ لہذا مناسب تو یہی ہے کہ بیوی مشورے سے ہی صدقہ خیرات کرے، اگر خاوند کنجوس ہو تو بغیر اجازت بھی صدقہ خیرات یا ضرورت مند رشتہ داروں کی خدمت کی جا سکتی ہے۔
(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)
جواب:اگر معاملہ ایسے ہی جیسے آپ نے ذکر کیا ہے تو آپ کو اپنے اس عمل پر اجر نہیں ملے گا؛ کیونکہ آپ نے یہ رقم دیتے ہوئے رضائے الہی کو مد نظر نہیں رکھا، آپ نے تو اپنے مدیر سے ڈرتے ہوئے چندہ دیا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ: (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، یقیناً ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔)