ج: اس کے ناجائز ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔لیکن آدمی کو کوئی ایسا عضو دوسرے کو نہیں دینا چاہیے جس سے خود اُس کے اندر کوئی نقص پیدا ہو جائے۔ مثلاً اللہ نے آپ کو دو آنکھیں دی ہیں، آپ کہیں کہ ایک نکال لیجیے، یہ درست نہیں ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں کہ آدمی کے اوپر کیا بوجھ ڈالے گئے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسا عضو ہے جس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا، جیسا کہ عام طور پر اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایک گردہ نکال لینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتاتو آپ دے سکتے ہیں۔ دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد تو کوئی مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا، اس لیے آدمی جو عضو بھی دینا چاہے اُس کے بارے میں وصیت کر سکتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: زکوۃ تو وہ رقم ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے نماز کی طرح فرض کی گئی ہے ۔ صدقہ خیرات ایک آپشنل انفاق ہے ۔ خود زکوۃ بھی ایک طرح سے صدقہ ہی ہے ۔ صدقہ کوئی برا لفظ نہیں ہے ہمارے ہاں یہ اصل میں برے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔اجتماعی یا انفرادی بہبود کے لیے جو خر چ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا جاتا ہے وہ صدقہ ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)