جواب :ناخن تراشنے کے لیے کوئی خاص دن کوئی خاص وقت اور کوئی مخصوص طریقہ مروی نہیں ہے، جب چاہے جس دن چاہے اور جس انگلی سے چاہے شروع کرسکتا ہے۔ اسی طرح ناخن تراشنے کا طریقہ بعض فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے، جو صرف بہتر ہے مسنون نہیں ہے۔ طریقہ یہ ہے: داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے کاٹتے ہوئے خنصر تک آئے، اور پھر بائیں ہاتھ کی خنصر سے کاٹتے ہوئے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کرے ۔جب کہ پیر کے اندر داہنے پیر کی خنصر سے شروع کرے اور بائیں پیر کی خنصر پر ختم کرے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب :مروجہ تبلیغی جماعت میں جانا نہ تو فرض ہے نہ واجب نہ سنت، بلکہ یہ عمل مْباح ہے اگر کوئی جائے اور دینی محنت کرے وہ اجر وثواب کا مستحق ہوگا، اور اگر کوئی نہیں گیا تو اللہ کے یہاں اس کی کوئی پکڑ نہ ہوگی، جو شخص یہ کہتا ہے کہ مروجہ تبلیغی جماعت میں چلنا جنت میں داخل ہونے کی ضمانت ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص پوری زندگی جماعت میں نہیں نکلا تووہ گنہ گار نہ ہوگا۔
جواب:ہمارے دین میں کسی شخص کو اللہ کے نزدیک کیا مقام حاصل ہے اس کا فیصلہ قرآن کریم اپنے نزول کے وقت ہی کر چکا ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو‘‘ (الحجرات 13:49)
اس بات کو مزید سمجھنا ہو تو قرآن مجید میں بیان ہونے والی بنی اسرائیل کی داستان پڑھیے۔ وہ حضرت ابراہیم اور ان کے بعد آنے والے متعدد جلیل القدر انبیا کی اولاد تھے۔ مگر کیا اس سے کوئی فرق پڑا۔ ہرگز نہیں اللہ نے ان سے ان کے اعمال کے مطابق معاملہ کیا اور جب ان کے اعمال بگڑے تو ان پر لعنت کر دی گئی۔خود حضور کو دیکھ لیجیے۔ ابو لہب کا رشتہ حضور سے سگے چچا کا تھا، مگر وہ بھی اس کے کام نہ آیا۔ اس کا انجام سورہ لہب میں پڑھ لیں۔قرآن کی طرح حدیث میں بھی کوئی ایسی بات ہرگز نہیں بیان ہوئی ہے جس سے یہ تاثر ملے کہ کسی خاندان سے نسبت انسان کو دوسروں پر شرف اور برتری دے دیتی ہے۔ کچھ احادیث آپ ہی نے نقل کر دی ہیں، ان کے علاوہ خطبہ حجۃ الوداع سے متعلق ایک روایت میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ کسی عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو عربی پر، اسی طرح کسی گورے کو کالے پر کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے۔
رہی سورہ احزاب کی آیت کی بات تو یہ فضیلت کا نہیں ذمہ داری کا معاملہ تھا۔ یعنی حضور کی ازواج کا معاملہ اور ان کی ذات کی حساسیت عام خواتین کی طرح نہ تھی۔ بلکہ ان کے حوالے سے کوئی الزام لگایا جاتا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا تو اس سے خود حضور کی ذات اور شخصیت کا متاثر ہونا لازمی امر تھا۔ اس لیے ان کو کچھ خصوصی احکام دیے گئے تاکہ منافقین کو کسی طرح کی فتنہ انگیزی کا ذریعہ نہ مل سکے۔ آپ کا نقل کردہ جملہ اسی پس منظر کا ہے۔ قرآن مجید کے سیاق و سباق سے بالکل واضح ہے کہ یہ کسی خاندانی فضیلت کا بیان نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منصب کی بنا پر عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں، اسی طرح ان کی ازواج بحیثیت اہل خانہ عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان پر لگی ہوئی کسی بھی تہمت سے آپ کا متاثر ہونا لازمی ہے۔
باقی ہاتھ پاؤں چومنے کا جو معاملہ ہے تو سمجھ لیجیے کہ یہ اظہار عقیدت کا ایک ذریعہ ہے۔ انسان محبت میں اپنے فطری جذبات کے اظہار کے لیے ماں یا باپ کے ہاتھ چوم لیتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر مذہبی لوگوں سے اس طرح کی عقیدت اکثرخرابی کا سبب بنتی ہے۔ اس سے بچنا بہتر ہے۔
ج:خود قرآن نے یہ بتایا ہے کہ انفاق ایک بڑی نیکی ہے اور یہ اعلانیہ بھی ہوتا ہے اور بغیر ظاہر کیے بھی ہوتا ہے یعنی آدمی چھپا کر بھی کرتا ہے اور بعض اوقات اس طرح کے محرکات کے تحت اعلانیہ بھی کرتا ہے ، اصل میں نیت صحیح ہونی چاہیے یعنی مقصد کیا ہے ، مقصد لوگوں کو اپنی برتری دکھانا ہے یا کسی حکمت کے تحت ایسا کر رہے ہیں تو اس کا تعلق اس سے ہے کہ آپ کی نیت کیا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: جو آدمی ناجائز کام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق مارتا ہے۔ اس کوجان بچانی مشکل ہو گی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی آدمی لوگوں کے حقوق نہیں دیتا تو وہاں اس کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سوائے نیکیوں کے کہ ان سے تبادلہ کر لے۔ اگر کوئی لوگوں کو تنگ کرتاہے، طرح طرح کے جرم کرتا ہے اور اس کے بعد وہ نماز پڑھتا ہے۔ نماز سے جو اجر ملتا ہے، روزے سے جو اجر ملتا ہے، اس کا ثواب حقوق العباد ادا نہ کرنے کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔ اس کی آپ کو عملی طور پر تلافی کرنی چاہیے، لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے۔اصل میں آپ پر کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ یہ فرائض آپ پر خدا کے حوالے سے بھی عائد ہوتے ہیں اور کچھ انسانوں کے حوالے سے بھی۔ لوگوں کی یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جنت اہلیت کے بغیر مل جائے گی، آپ پہلے اپنے آپ کو جنت میں جانے کا اہل ثابت کریں گے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے ساری زندگی بے شمار نمازیں پڑھی ہیں۔ کوئی لیلتہ القدر ایسی نہیں، جس میں اس نے عبادت نہیں کی، ہر سال حج کیا ہے۔لیکن ایک معصوم انسان کو قتل کر دیا ہے تو اس کا جنت میں جانے کا استحقاق ختم ہو گیا، اسی طرح ایک آدمی ظلم کرتا ہے، اس کے والد نے جو میراث چھوڑی، وہ اس کی صحیح تقسیم نہیں کرتا۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
پہلا مسئلہ تو جنت جانے کے لیے اہل ثابت کرنا ہے۔جنت میں جانے کا اہل ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جو جنت میں جانے سے روکے۔ میں نے آپ کو دو جرائم کی مثال دی ہے۔ ان کے بارے میں قرآن مجید میں بالکل واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی آدمی جنت میں نہیں جا سکتا ۔ اسی طرح قرآن میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ وہ آدمی جو تکبر کرتا ہے اور تکبر کی تعریف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ کسی صحیح چیز کے مقابلے میں انانیت کی وجہ سے ڈٹ جاتا ہے اور لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ داخل ہو سکتا ہے، وہ جنت میں نہیں جا سکتا۔ اگر آپ لیلۃ القدر یا کسی اور رات میں بہت معافی مانگتے ہیں۔ بے شمار استغفار کرتے ہیں۔ آپ حج پر چلے جاتے ہیں، مگر آپ نے کسی کے پلاٹ پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے، جب تک آپ اسے مالک کو نہیں لوٹاتے، کیسی معافی اور کیسا ثواب؟
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ غریب آدمی کے پاس بھی اتنے ہی مواقع ہیں، جتنے امیر آدمی کے پاس ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا کلمہ منہ سے نکالنا اور راستے سے کانٹے اٹھانا بھی بہت بڑی نیکیاں ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ یہ نیکیاں الگ ہیں، مگر اس کے علاوہ بھی تو وہ کئی نیکیاں کما سکتے ہیں۔ پتا نہیں امیر آدمی زکوٰۃ، خیرات کرتا ہو، لیکن اس نے کتنے جرائم کیے ہوں، نیکی کمانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے کسی کودولت کا محتاج نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار راستے رکھے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ لوگوں کے حقوق ادا کریں اور ان کے ساتھ احسان کریں،انسانو ں کے ساتھ آپ کا اخلاقی رویہ بنیاد ی کردار ادا کرے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ یہ تو آپ کی نیت پر ہے کہ آپ نے سمجھا کہ وہ مستحق تھا، اس نے ثابت کیا کہ وہ مجرم ہے، آپ نے تو نہیں کیا۔ آپ کا اجر’ آپ کی نیت اور آپ کے ارادے پر ہے، یہ کسی دوسرے کی وجہ سے نہیں ملتا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: مطلب یہ ہے کہ اس دنیامیں کی جانے والی کوئی بھی نیکی اورکوئی بھی بدی ضائع نہیں جائے گی۔سب کاوزن ہو گا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی کو ہر برائی کا بدلہ بھگتنا ہو گا او ر ہر نیکی اس کے لیے انفرادی جزا کا سبب بنے گی بلکہ بحیثیت مجموعی میزان میں اپنا وزن ڈالے گی ۔یعنی جب آپ نے ایک پلڑ ے میں کچھ باٹ رکھنا شروع کیے تو چھٹانک بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے اور سیر بھی۔اگر آپ پلڑے سے ایک چھٹانک اٹھالیں توکوئی تو فرق واقع ہوتا ہے نا ۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے وزن میں اپنا کردار ادا کر دیا۔ باقی رہی یہ بات کہ یہ میزان اور پلڑا کیا ہے یہ امور متشابہات میں سے ہے۔یہاں ہمیں بات سمجھانے کے لیے کہی گئی ہے اس کی اصل حقیقت قیامت ہی میں سامنے آئے گی۔
کمپیوٹر کی ایجاد نے سمجھا دیا ہے کہ ایک ذرے کا وزن بھی کیا جاسکتاہے تو اللہ کے پاس کتنے حساس کمپیوٹر ہیں اس کااندازہ کون کر سکتا ہے ؟کسی بھی نیکی اورگناہ کوہلکا نہ سمجھا جائے یہ سب پلڑے کو جھکانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
(جاوید احمد غامدی)