ج: برائی اور اچھائی انسان کی معلوم تاریخ میں ایک ہی جگہ کھڑی ہیں۔ ان کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ یہ انسان کی فطرت کا فتویٰ ہے اور اس کا الہام اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے۔ جو صورت آپ بیان کرتے ہیں یہ آج پیدا نہیں ہوئی یہ ہمیشہ سے ہے۔ انسان کو آزمایش میں ڈالا گیا ہے اور یہ آزمایش ہمیشہ اس کے ساتھ رہی ہے۔ وہ نوح علیہ السلام کے زمانے میں آزمایش میں ناکام ہوا۔ اللہ کے پیغمبر نے ساڑھے نو سو سال تک اتمام حجت کیا اور آخر میں صرف اتنے لوگ بچے جو ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ اس وجہ سے اس کے یہ ہر گز معنی نہیں ہوسکتے کہ آج کوئی نیا معاملہ ہو گیا یا ہمارا طریقہ کمزو ر ہے۔ موجودہ زمانے میں بھی باوجود اس کے کہ میڈیا نے بے شمار ایسی چیزوں کی یلغار کر رکھی ہے جو دین واخلاق کے بالکل خلاف ہیں، لوگ مسجدوں میں آتے ہیں، دین سنتے ہیں، دینی مجالس میں شریک ہوتے ہیں، آخر یہ سب کیا ہے؟ ہمیں اس معاملے میں رجائیت پسند ہونا چاہیے۔ اچھے پہلو کو دیکھیں۔ کیا وجہ ہے کہ برے پہلو پر ہی ہماری نگاہ پڑتی ہے۔ آپ کسی محلے میں جا کر کہیں بھی مسجد بنا دیجیے ، کچھ دنوں کے بعد وہاں نماز بھی ہو رہی ہوگی اور لوگ آ کر جماعت میں شریک بھی ہورہے ہو ں گے۔ جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے کم و بیش تناسب یہی ہے۔ اس وجہ سے اس میں کوئی تردد کی بات نہیں ہے۔ دین کی بات کیجیے، خیر کی بات کیجیے، لوگوں تک پہنچائیے اور اس معاملے میں زیادہ متردد نہ ہوں۔ آدمی کو اپنے اوپر زیادہ نگاہ رکھنی چاہیے۔یہ بھی موجودہ زمانے کا ایک حادثہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل بن گئی ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے یا یہ کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ جبکہ اصل میں دیکھنا یہ چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
س: اس میں ایک مغالطہ ہے جو سمجھ لینا چاہیے ۔ مسلمانوں کی حکومت اس وقت تقریبا ً۵۵ ممالک میں قائم ہے ۔ ان حکومتوں کو دین اور شریعت کا پابند بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ کسی نئی خلافت کو قائم کرنے کی۔ آپ کسی بھی اسلامی ملک میں رہتے ہوں آپ کویہ کوشش کرنی چاہیے یعنی ہمیں اپنی حکومت کو یہ بتانا چاہیے کہ جس طرح فرد پر شریعت کی اطاعت ضروری ہے اسی طرح نظم اجتماعی پر بھی ضروری ہے اور اس آیت میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ایک مسلمان حکومت کی صرف یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ امن امان قائم کر دے ، دفاع کا بندوبست کر دے بلکہ مسلمان حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ایسا نظام قائم کرے جو بھلائی کو پھیلانے والا ہو اور برائی کے روکنے والا ہو ۔ اہل سیاست کو یہ ذمہ داری ادا کرنی چاہیے کہ وہ حکومت کو متوجہ کریں ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ کسی گنہگار سے گنہگار شخص کا بھی اپنی حالتِ توبہ میں دوسرے کو برائی سے منع کرنا اور نیکی کی تلقین کرنا بالکل صحیح اور درست ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر انتہائی ضروری ہے کہ آدمی کو ہر وقت حالت توبہ میں رہنا چاہیے، یعنی جس وقت بھی اس سے کوئی گناہ سرزد ہو، اُسے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: مطلب یہ ہے کہ اس دنیامیں کی جانے والی کوئی بھی نیکی اورکوئی بھی بدی ضائع نہیں جائے گی۔سب کاوزن ہو گا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی کو ہر برائی کا بدلہ بھگتنا ہو گا او ر ہر نیکی اس کے لیے انفرادی جزا کا سبب بنے گی بلکہ بحیثیت مجموعی میزان میں اپنا وزن ڈالے گی ۔یعنی جب آپ نے ایک پلڑ ے میں کچھ باٹ رکھنا شروع کیے تو چھٹانک بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے اور سیر بھی۔اگر آپ پلڑے سے ایک چھٹانک اٹھالیں توکوئی تو فرق واقع ہوتا ہے نا ۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے وزن میں اپنا کردار ادا کر دیا۔ باقی رہی یہ بات کہ یہ میزان اور پلڑا کیا ہے یہ امور متشابہات میں سے ہے۔یہاں ہمیں بات سمجھانے کے لیے کہی گئی ہے اس کی اصل حقیقت قیامت ہی میں سامنے آئے گی۔
کمپیوٹر کی ایجاد نے سمجھا دیا ہے کہ ایک ذرے کا وزن بھی کیا جاسکتاہے تو اللہ کے پاس کتنے حساس کمپیوٹر ہیں اس کااندازہ کون کر سکتا ہے ؟کسی بھی نیکی اورگناہ کوہلکا نہ سمجھا جائے یہ سب پلڑے کو جھکانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
(جاوید احمد غامدی)