جواب: جو زائد بال بکھرے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے چہرہ بدنما لگتا ہے ان بالوں کو کٹواسکتے ہیں، گنجائش ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب :آپ کا سوال مکمل واضح نہیں ہے، بظاہر جو مفہوم سمجھ میںآ تا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے چند باتیں لکھی جاتی ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ کا ہرچز پر قادر ہونا ایک مستقل عقیدہ ہے؛ لیکن کسی چیز پر قدرت ہونے کے لیے اس کا صادر ہونا لازم نہیں ہے، قدرت اللہ کی صفت کمال ہے،اس کے بغیر عجز لازم آتا ہے، جو الوہیت کے منافی ہے اور کسی ایسی چیز کا اللہ تعالیٰ کی ذات سے صادر ہونا جو اس کی شایانِ شان نہ ہو، یہ عیب اور نقص ہے، اس لیے اجمالاً بس اتنا عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے؛ لیکن قدرت کے لیے فعل کا صادر ہونا ضروری نہیں ہوتا، لہٰذا قدرت کی نفی جیسے کفر ہے، اسی طرح عیب اور اس کی شان کے خلاف کسی فعل کے صدور کا عقیدہ رکھنا بھی کفر ہے، لہٰذا جو شخص صدورِ کذب کا قائل ہوگا وہ کافر ہوگا۔
(۲) اللہ تعالیٰ جگہ اورمکان سے منزہ وبالاتر ہے وہ کسی مکان میں محدود نہیں ہے، اس کو کسی مکان کے ساتھ مختص کرنا کفر ہے۔ اور نصوص میں جو عرش کی بات آئی ہے، اس سے مراد عرش پر اس کا خاص تسلط اور استیلاء ہے جس کی کیفیت وہی خوب جانتا ہے وہ اپنے علم کے اعتبار سے ہرچیز کو محیط ہے۔
(۳) نصوص میں اللہ تعالیٰ کے لیے جو اعضا وغیرہ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یا تو ان کو مخلوق جیسے اعضاء سے تشبیہ کی نفی کرتے ہوئے ظاہری معنی پر محمول کیا جائے گا اور اس کی حقیقت کا علم اللہ کے حوالے کیا جائے گا اور یا ان کی تاویل کی جائے گی، مثلاً ید سے مراد اللہ کی قدرت ہوگی۔
جواب :جب ایک مرتبہ کسی جگہ مسجد تعمیر ہوجاتی ہے تو وہ تحت الثری سے لے کر عنانِ سماء تک ہمیشہ کے لیے مسجد ہوجاتی ہے یعنی اس کے اوپر نیچے پورا حصہ بہ حکم مسجد ہوتا ہے؛ لہٰذا آپ کے یہاں پرانی مسجد کی جگہ پر از سر نو جو مسجد تعمیر ہوگی، مسجد شرعی کی حدود میں اس کے کسی منزل میں بھی وضو خانہ، ٹوائلٹ اور امام مؤذن کے رہائش کمرے وغیرہ تعمیر کرنا جائز نہیں ہے، وضو خانہ وغیرہ کے لیے کوئی اور تدبیر سوچی جائے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: دین کا حکم یہ ہے کہ صلہ رحمی کرو۔ میری سمجھ کے مطابق یہ حکم اس اصرار کے ساتھ اور اس اہتمام کے ساتھ اس لیے دیا گیا ہے کہ اس پر عمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بعض اوقات ناشکری اور حق تلفی کے رویے کے باعث اور بعض اوقات ظلم اور زیادتی کے سبب سے۔
آپ نے جو احوال لکھے ہیں کسی نہ کسی رنگ انداز اور سطح پر تقریبا تمام لوگ ہی اس تجربے سے گزرتے ہیں۔ جن کے ساتھ ہمارا تعلق ہوتا ہے ان سے ہماری بہت سی اچھی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا رویہ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ مزید برآں اگر ان سے کوئی زیادتی سامنے آرہی ہو تو ہماری تکلیف بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
اصولی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے رشتے داروں کے ساتھ ہر حال میں حسن سلوک کرنا ہے۔ ان کی بے اعتنائی، نا شکری اور زیادتی کے باوجود۔ لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تین درجے ہو سکتے ہیں۔
پہلا یہ کہ آپ جس حد تک زیادتی ہوئی ہے اس کا بدلہ لے لیں اور تعلقات کو منقطع نہ کریں لیکن میل جول بھی نہ رکھیں۔ مطلب یہ کہ اگر کہیں ملاقات ہو جائے تو بس سلام دعا کے بعد ایک دوسرے سے دور رہیں۔
دوسرا یہ کہ آپ اس طرح کے رشتے داروں کے ساتھ صرف غمی اور خوشی کا تعلق رکھیں اور عام حالات میں ان سے میل ملاقات نہ کریں۔ لیکن اگر کوئی شدید ضرورت سامنے آجائے تو آپ مدد کرنے سے گریز نہ کریں۔
تیسرا یہ کہ آپ زیادتیوں کو نظر انداز کریں اور حسن سلوک اور مہربانی کا برتاؤ بھی جاری رکھیں۔
پہلا درجہ اختیار کرنے پر آپ گناہ گار نہیں ہوں گے۔
دوسرا درجہ اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ نیکی کے مواقع ضائع نہیں ہوں گے۔
تیسرا درجہ فضیلت کا درجہ ہے۔ اللہ کی رضا زیادہ زیادہ حاصل کرنا پیش نظر ہو تو اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔
جواب :سلام کہنا سنت ہے، اور اس کا جواب دینا واجب ہے، جو پہلے سلام کرے اس کو بیس نیکیاں ملتی ہیں اور جواب دینے والے کو دس۔ غیرمسلم کو ابتدا میں سلام نہ کہا جائے اور اگر وہ سلام کہے تو جواب میں صرف ‘‘وعلیکم’’ کہہ دیا جائے۔
جواب: آپ کی ٹریننگ کا یہ اْصول کہ سینٹر میں داخل ہوتے وقت یا باہر سے آنے والے اساتذہ وغیرہ کے سامنے رْکوع کی طرح جھکنا پڑتا ہے، شرعی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کرتے وقت جھکنے کی ممانعت فرمائی ہے، چہ جائیکہ مستقل طور پر اساتذہ کی تعظیم کے لئے ان کے سامنے جھکنا اور رْکوع کرنا جائز ہو۔ حدیث شریف میں ہے، جس کا مفہوم ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ‘‘ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی یا دوست سے ملے تو اس کے سامنے جھکنا جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں!
مجوسیوں کے یہاں یہی طریقہ تھا کہ وہ بادشاہوں، امیروں اور افسروں کے سامنے جھکتے تھے، اسلام میں اس فعل کو ناجائز قرار دیا گیا۔ ٹریننگ کا مذکورہ اْصول اسلامی اَحکام کے منافی ہے، لہٰذا ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ وہ فوراً اس قانون کو ختم کریں۔ اگر وہ اسے ختم نہیں کرتے تو طلباء کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس سے انکار کریں، اس لئے کہ خدا کی ناراضی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
جواب:اس طرح بلند آواز سے سلام نہ کیا جائے جس سے نمازیوں کو تشویش ہو، البتہ کوئی فارغ بیٹھا ہو تو قریب آکر آہستہ سے سلام کہہ دیا جائے۔
()
جواب: سلام میں پہل کرنا افضل ہے، عالم کے لئے بھی اور دْوسروں کے لئے بھی۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج : واضح رہے کہ بچے کی جنس معلوم کرنے کے لیے جستجو پسندیدہ عمل نہیں۔بچے کی جنس جو بھی ہو وہ دنیا میں آکر ہی رہے گا اور اگر جنس معلوم کرنے کے لیے الٹرا ساؤنڈ کرایا جائے اور اس کے لیئے ستر کھولنا پڑے تو یہ ناجائز عمل ہے ۔رہی سورہ لقمان کی آیت نمبر ۳۴ ،جس میں ارشاد باری تعالی ہے: ویعلم ما فی الارحام کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے، آیت سے مراد بچہ کی جنس کا علم نہیں بلکہ آیت غیبی امور پر دلالت کرتی ہے۔بچے کے غیبی امور یہ ہیں، ماں کے پیٹ میں کتنی مدت رہے گا، اس کی زندگی کتنی ہے، عمل کیسے ہوں گے، رزق کتنا ہوگا، نیک بخت ہے یا بدبخت، اور تخلیق مکمل ہونے سے پہلے بچہ ہے یا بچی۔ لیکن خلقت مکمل ہوجانے کے بعد یہ پتہ چل جانا آیا وہ بچہ ہے یا بچی تو یہ علم غیب میں سے نہیں کیونکہ اس کی خلقت مکمل ہوجانے کے بعد یہ علم ، علم الشہادۃ میں آچکا ہے۔واللہ اعلم۔
()
ج : مذکورہ معاملے کاتعلق باہمی معاہدے سے ہے اس لیے جو معاہدہ ہواہو اسی کے مطابق عمل درآمدکرنا چاہیے۔اگر کوئی معاہدہ نہ ہوتو اسکولوں کے رواج کے مطابق اگر فیس لی جاتی ہے تو ادائیگی واجب ہے۔فقط واللہ اعلم
(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
جواب ۔اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ ’’خدا‘‘ کا استعمال جائز ہے۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں ’’عجمی سازش‘‘ نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ عربی میں لفظ رب ،مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ’’خدا‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جس طرح لفظ ’’رب‘‘ کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر اللہ پر نہیں کیا جاتا اسی طرح لفظ ’’خدا‘‘ جب بھی مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پرہوتاہے۔ کسی دوسرے کو ’’خدا‘‘ کہنا جائز نہیں۔
’’اللہ‘‘ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتاہے نہ کیا جاتاہے۔ دوسرے اسمائے الہٰیہ ’’صفاتی نام‘‘ ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتاہے۔ اور ہوتاہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کردیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ ’’خدا‘‘’’صاحب‘‘اور ’’مالک‘‘ کے معنی میں ہے۔ اور لفظ’’رب‘‘ کے مفہوم کی ترجمانی کرتاہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ ’’رب‘‘ کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جائیگا؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ ایسی خودرائی سے اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھیں۔
جواب :صورت مسؤلہ میں کمرشل پلاٹ چونکہ حکومت کی ملکیت میں ہے لہٰذاآپ کے لیے صرف اپنا مکان بیچنا جائز ہے، کمرشل پلاٹ کو فروخت کرنا درست نہیں ہے۔ اور جو رقم بچوں نے کمرشل پلاٹ کی تعمیر میں لگائی ہے وہ چونکہ حکومت کی اجازت کے بغیر لگائی ہے ،لہٰذا اب وہ اس رقم کا تقاضا اور مطالبہ کسی سے نہیں کرسکتے۔
جواب :صورت مسؤلہ میں مشترکہ غسل خانہ اوربیت الخلاجس میں داخل ہونیکے لیے ایک ہی دروازہ ہوتاہے اس قسم کے غسل خانوں میں وضو کے دوران جودعائیں پڑھی جاتی ہیں وہ نہ پڑھی جائے کیونکہ یہ بیت الخلامیں پڑھنا شمارہوگااوربیت الخلا میں اذکار پڑھنے سے شریعت نے منع کیا ہے۔
جواب:عورت جنازے کو کندھا نہیں دے سکتی اور نہ ہی جنازے کے ساتھ چل سکتی ہے، لیکن نماز جنازہ ادا کر سکتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:نُہِینَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَاءِزِ وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا.ہمیں (عورتوں کو) جنازوں کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا‘ مگر تاکید سے منع نہیں ہوا۔مراد یہ ہے کہ عورت جنازے کو کندھا دے یا جنازے کے ساتھ چلے تو مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہو گا جس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے، لہٰذا عورتیں باپردہ ہو کر الگ سے جناز گاہ پہنچ جائیں تو وہاں اُن کے لیے نماز جنازہ میں شریک ہونے کا باپردہ الگ تھلگ انتظام ہو تو وہ نماز جنازہ ادا کر سکتی ہیں کیونکہ حدیث مبارکہ سے ثبوت ملتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازِ جنازہ ادا کی تھی جیسا کہ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:ادْخُلُوا بِہِ الْمَسْجِدَ حَتَّی اُصَلِّیَ عَلَیْہِ.ان کی میت کو مسجد میں لاؤتاکہ میں اس پر نماز جنازہ پڑھوں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازِ جنازہ باقی مسلمانوں کی طرح دعائے مغفرت کی صورت میں نہیں ہوئی تھی بلکہ تمام مرد وخواتین اور بچوں نے باری باری گروہوں کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درودو سلام بھیجا تھا یعنی عورتیں بھی شامل تھیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے تو مردوں کو داخل کیا تو انہوں نے بغیر امام کے اکیلے اکیلے صلاۃ و سلام پڑھا پھر عورتوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا پھر بچوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا۔ پھر غلاموں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ پڑھا اکیلے اکیلے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر امامت نہ کروائی۔
اگر مرد موجود نہ ہوں تو عورتوں کا نمازِ جنازہ ادا کرنا بھی جائز ہے:جان لو کہ نماز جنازہ میں عورتوں کی جماعت مکروہ نہیں کیونکہ یہ نماز فرض ہے۔اگر عورت اکیلی نماز جنازہ پڑھ لے تو فرض ساقط ہوجاتا ہے۔
درج بالا تمام اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ عورتیں نمازِ جنازہ میں شریک ہو سکتی ہیں‘
جواب:ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَا یَنْہٰکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔اور مزید فرمایا:
اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo
اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر
(تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔(الممتحنۃ، 60: 8-9)
مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں ہم ان لوگوں سے بھلائی کر سکتے ہیں جو ہمارے ساتھ جنگ نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں گھروں سے نکالتے ہیں یعنی فتنہ فساد نہیں کرتے۔ یہ بھلائی مالی حوالے سے تعاون کرنا بھی ہو سکتی ہے اور دیگر معاملات میں مدد کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا
جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)۔(المائدۃ، 5: 32)
مذکورہ بالا آیت مقدسہ میں مسلم وغیر مسلم کی تقسیم کئے بغیر ناحق انسانی جان کو قتل کرنا، تمام انسانیت کو قتل کرنے اور اس کو بچانا، تمام حیاتِ انسانی کو بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا فتنہ پرور غیر مسلموں کے علاوہ باقی کفار کے ساتھ بطورِ انسان بھلائی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مَرَّتْ بِنَا جَنَازَۃٌ فَقَامَ لَہَا النَّبِیُّ وَقُمْنَا لَہٗ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللہِ، إِنَّہَا جِنَازَۃُ یَہُودِیٍّ قَالَ: إِذَا رَاَیْتُمْ الْجِنَازَۃَ فَقُومُوا.
ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ ہم عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! یہ تو کسی یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو (خواہ مرنے والے کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو)۔
مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے امن پسند غیر مسلم کی جان بچانے کی خاطر خون کا عطیہ دینا جائز ہے۔(مفتی: عبدالقیوم ہزاروی)
جواب:لڑکی آرائش و زیبائش کے لیے بال کاٹ سکتی ہے مگر اس کا انداز ایسا نہ ہو جس سے مَردوں کی مشابہت ہو۔
فتاوی دارالعلوم دیو بند
جواب:جی رات میں ناخن کاٹ سکتے ہیں، بالوں میں کنگھا بھی کرسکتے ہیں اور پہنے ہوئے کپڑے کی سلائی بھی کرسکتے ہیں،شرعااس میں کوءی مضاءقہ نہیں
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب:اس سے قبل کئی مرتبہ اس طرح کا انکشاف ہوچکا ہے، مگر ہرانکشاف معتبر نہیں ہوتا ہے۔ دو چار دین دار دیانت دار مسلمان جب تک اپنی آنکھوں سے شراب سے بنی ہوئی الکوحل ملاتے ہوئے نہ دیکھیں اور وہ لوگ اس کی باقاعدہ گواہی نہ دیں، کو کاکولا پر کوئی شرعی حکم نہیں لگایا جائے گا۔ افواہوں اور بے بنیاد باتوں پر کوئی شرعی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ صرف یقینی اور قطعی مشاہَدْ چیزوں پر شرعی حکم لاگو ہوتا ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
ج:موسیقی میں سے ہر اس چیز کی نفی کی ضرورت ہے جو اخلاقی اور دینی اعتبار سے ممنوع ہے۔ مثلاًموسیقی کی وہ دھنیں جو سفلی جذبات کو ابھارتی ہیں، ان سب کی نفی ہونی چاہیے۔موسیقی کے ساتھ جو کلام پیش کیا جاتا ہے، اس میں سے شرکیہ، فحش اور انسان میں فتنہ یا کوئی دینی و اخلاقی خرابی پیدا کرنے والے سب مضامین کی نفی ہونی چاہیے۔محافل موسیقی میں ہر اس مغنی یا مغنیہ کی نفی ہونی چاہیے جو اپنے چہرے، جسم یا انداز و ادا ہی سے فتنے کا باعث ہو۔بعض محافل موسیقی میں شراب و کباب کا وجود بھی پایا جاتا ہے، چنانچہ ظاہر ہے ایسی سب حرام چیزوں کی نفی ہونی چاہیے۔سننے والا اگر محسوس کرے کہ موسیقی اس کے تزکیہ نفس کے راستے میں رکاوٹ ہے تو اس کے لیے جائز موسیقی بھی ممنوع ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج:مغربی جمہوریت کو اگر اس کے پورے تصور کے ساتھ دیکھا جائے تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہے، کیونکہ وہ انسان کو خدا سے ہٹ کر قانون سازی کا اختیار دیتی ہے۔ اس کے نزدیک انسان کثرت رائے سے اپنے لیے جس چیز کو چاہے حلال کر لے اور جس چیز کو چاہے حرام کر لے۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ اختیار انسان کو حاصل نہیں ہے، چنانچہ جو فلسفہ و فکر انسان کو یہ اختیار دیتا ہے وہ سراسر باطل ہے۔ البتہ مغربی جمہوریت کا ایک پہلو جو " امرھم شوری بینھم" سے مماثل ہے اور وہ جائز ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہم خدا اور اس کے رسول کی فرماں برداری میں " امرھم شوری بینھم" کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جب اپنے معاملات طے کر رہے ہوں اور اس میں نزاع کا کوئی موقع پیدا ہو جائے تو کیا ہمارے لیے اسی طرح کثرت رائے سے کسی نتیجے تک پہنچنا جائز نہیں ہے جیسے اہل جمہوریت اپنے نزاعات کو ووٹنگ کے ذریعے سے حل کرتے ہیں؟ ہمارے خیال میں یہ بالکل جائز ہے۔ مثلاً قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ذیلی قانون سازی کرتے ہوئے باہمی اختلاف کی صورت میں ووٹنگ وغیرہ کے طریقے کو اختیار کیا جا سکتا ہے یا خلیفہ اور صدر کے انتخاب میں اسی طریقے کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'ان العین حق'،''بے شک نظر کا لگ جانا سچ ہے۔'' (بخاری، رقم 5740، 5944؛ مسلم، رقم 2187، 2188)نظرِ بد کیا چیز ہے؟ یہ غالباً بعض کیفیتوں میں انسان کی آنکھ سے نکلنے والے وہ اثرات ہیں جو دوسرے شخص پر خدا کے اذن سے اثر انداز ہوتے اور اسے بیمار وغیرہ کر دیتے ہیں۔ ان اثرات کا معاملہ بالکل وہی ہے جو عام انسانی اقدامات کا معاملہ ہوتا ہے، جیسا کہ ایک آدمی (خدا کے قانون کے تحت) دوسرے کو پتھر مار کر زخمی کر سکتا ہے، اسی طرح بعض لوگوں کی نظر بھی خدا ہی کے اذن سے دوسرے پر اثر انداز ہو جاتی ہے۔ نظر مؤثر بالذات ہرگز نہیں ہوتی جو کچھ ہوتا ہے،خدا کے قانون ہی کے تحت ہوتا ہے۔
نظر اگر لگ گئی ہو تو اس کو اتارنے کے لیے لوگوں نے مختلف حل تلاش کیے ہیں، سرخ مرچوں کو جلا کر سنگھانا، انھی میں سے ایک ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر اتارنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جس آدمی کی نظر لگی تھی، اس کے وضو کا مستعمل پانی نظر کے مریض پر ڈالا۔ہمارا خیال ہے کہ نظر بد کے اثرات جو کہ شاید نفسیاتی ہوتے ہیں یا کسی اور طرح کے غیر مادی اثرات ہوتے ہیں، انھیں دور کرنے کے لیے یہ طریقے لوگوں نے اپنے تجربات سے ایجاد کیے ہیں، ان میں اگر کوئی مشرکانہ بات نہ ہو تو انھیں اختیار کیا جا سکتا ہے۔جس طرح عام بیماری میں ہم خدا سے شفا کے طالب ہوتے ہیں، کیونکہ شفا اسی کی طرف سے ملتی ہے، اسی طرح نظر بد سے شفا کے معاملے میں بھی دوا کے ساتھ اللہ ہی کی پناہ پکڑی جائے گی اور اسی سے دعا کی جائے گی۔
جواب : شریعت میں وراثت اور وصیت دونوں کے احکام کھول کھول کر بیان کردیے گئے ہیں، اس لیے وصیت کی بنیاد پر وراثت کے احکام کو معطل نہیں کیاجاسکتا۔ وصیت کسی وارث کے حق میں جائز نہیں اور غیروارث کے لیے کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت نہیں کی جاسکتی۔
صورتِ مسؤلہ میں گود لی ہوئی لڑکی اور اس کے شوہر کے حق میں صرف ایک تہائی مال و جائداد (پراپرٹی) کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ سائل کا انتقال ہونے کی صورت میں ان کی اہلیہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ایک چوتھائی ترکہ کی حق دار ہوں گی (النساء:۱۲) بقیہ ترکہ عصبہ ہونے کی وجہ سے ان کے بھائیوں کو ملے گا۔
ج-عورتوں کی معاش کا ذمہ دار مردوں کو بنایا گیا ہے، مگر عورتوں نے یہ بوجھ خود اْٹھانا شروع کردیاہے ۔ جب عورت اپنی خوشی سے کماکر لاتی ہے تومردوں کے لئے کیوں حلال نہیں؟البتہ عورتوں کو کمانے پر مجبور نہیں کیاجا سکتا۔
()
جواب : قرآن مجید نے بیان کر دیا ہے کہ جو آدمی لوگوں کا مال، لوگوں کا حق ناجائز طریقے سے کھاتا ہے، وہ اپنے لیے جہنم خریدتا ہے۔ غریبوں کے حقوق میں جب آپ خرابی پیدا کرتے ہیں تو یہ بہت بڑا جرم ہے، اس میں اللہ تعالیٰ سے بھی معاملہ کرنا ہوگا،بندے سے بھی کرنا ہوگا۔ یہ بہت سنگین جرم ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: جو آدمی ناجائز کام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق مارتا ہے۔ اس کوجان بچانی مشکل ہو گی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی آدمی لوگوں کے حقوق نہیں دیتا تو وہاں اس کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سوائے نیکیوں کے کہ ان سے تبادلہ کر لے۔ اگر کوئی لوگوں کو تنگ کرتاہے، طرح طرح کے جرم کرتا ہے اور اس کے بعد وہ نماز پڑھتا ہے۔ نماز سے جو اجر ملتا ہے، روزے سے جو اجر ملتا ہے، اس کا ثواب حقوق العباد ادا نہ کرنے کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔ اس کی آپ کو عملی طور پر تلافی کرنی چاہیے، لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے۔اصل میں آپ پر کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ یہ فرائض آپ پر خدا کے حوالے سے بھی عائد ہوتے ہیں اور کچھ انسانوں کے حوالے سے بھی۔ لوگوں کی یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جنت اہلیت کے بغیر مل جائے گی، آپ پہلے اپنے آپ کو جنت میں جانے کا اہل ثابت کریں گے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے ساری زندگی بے شمار نمازیں پڑھی ہیں۔ کوئی لیلتہ القدر ایسی نہیں، جس میں اس نے عبادت نہیں کی، ہر سال حج کیا ہے۔لیکن ایک معصوم انسان کو قتل کر دیا ہے تو اس کا جنت میں جانے کا استحقاق ختم ہو گیا، اسی طرح ایک آدمی ظلم کرتا ہے، اس کے والد نے جو میراث چھوڑی، وہ اس کی صحیح تقسیم نہیں کرتا۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
پہلا مسئلہ تو جنت جانے کے لیے اہل ثابت کرنا ہے۔جنت میں جانے کا اہل ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جو جنت میں جانے سے روکے۔ میں نے آپ کو دو جرائم کی مثال دی ہے۔ ان کے بارے میں قرآن مجید میں بالکل واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی آدمی جنت میں نہیں جا سکتا ۔ اسی طرح قرآن میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ وہ آدمی جو تکبر کرتا ہے اور تکبر کی تعریف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ کسی صحیح چیز کے مقابلے میں انانیت کی وجہ سے ڈٹ جاتا ہے اور لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ داخل ہو سکتا ہے، وہ جنت میں نہیں جا سکتا۔ اگر آپ لیلۃ القدر یا کسی اور رات میں بہت معافی مانگتے ہیں۔ بے شمار استغفار کرتے ہیں۔ آپ حج پر چلے جاتے ہیں، مگر آپ نے کسی کے پلاٹ پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے، جب تک آپ اسے مالک کو نہیں لوٹاتے، کیسی معافی اور کیسا ثواب؟
(جاوید احمد غامدی)