موسیقی

جواب:اسلام میں تصویر اور موسیقی بذات خود حرام نہیں ہیں۔ البتہ، ان کے ساتھ اگر کوئی آلایش لگی ہوئی ہو تو وہ انھیں مکروہ یا حرام بنا دیتی ہے۔مثلاً، فحش تصاویر بنانا حرام ہے۔ مشرکانہ تصاویر اور مجسمے بنانا حرام ہے۔ اسی طرح وہ موسیقی جو سفلی جذبات پیدا کرتی ہے یا وہ جس کے ساتھ شراب و کباب کی محفلیں برپا ہوتی ہیں، وہ حرام ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:موسیقی میں سے ہر اس چیز کی نفی کی ضرورت ہے جو اخلاقی اور دینی اعتبار سے ممنوع ہے۔ مثلاًموسیقی کی وہ دھنیں جو سفلی جذبات کو ابھارتی ہیں، ان سب کی نفی ہونی چاہیے۔موسیقی کے ساتھ جو کلام پیش کیا جاتا ہے، اس میں سے شرکیہ، فحش اور انسان میں فتنہ یا کوئی دینی و اخلاقی خرابی پیدا کرنے والے سب مضامین کی نفی ہونی چاہیے۔محافل موسیقی میں ہر اس مغنی یا مغنیہ کی نفی ہونی چاہیے جو اپنے چہرے، جسم یا انداز و ادا ہی سے فتنے کا باعث ہو۔بعض محافل موسیقی میں شراب و کباب کا وجود بھی پایا جاتا ہے، چنانچہ ظاہر ہے ایسی سب حرام چیزوں کی نفی ہونی چاہیے۔سننے والا اگر محسوس کرے کہ موسیقی اس کے تزکیہ نفس کے راستے میں رکاوٹ ہے تو اس کے لیے جائز موسیقی بھی ممنوع ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ موسیقی انسانی فطرت کا جائز اظہار ہے ، اس لیے اس کے مباح ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اسلامی شریعت میں موسیقی حرام ہے ،لیکن جب ہم اس معاملے میں قرآن وسنت اور علوم دین کے دوسرے مصادر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وسنت میں اس کی حرمت کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو ان میں متعدد صحیح اور حسن روایات موسیقی اور آلات موسیقی کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ ممانعت کی روایتیں بھی موجود ہیں، لیکن محدثین نے ان میں سے بیشتر کو ضعیف قرار دیا ہے۔ان روایتوں کے بغور مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کا سبب ان کی بعض صورتوں کا شراب، فواحش اور بعض دوسرے رذائل اخلاق سے وابستہ ہونا ہے۔ چنانچہ اس بنا پر ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ موسیقی مباحات فطرت میں سے ہے اور اسلامی شریعت اسے ہر گز حرام قرار نہیں دیتی۔ لیکن اگر اس کے اندر کوئی اخلاقی یا دینی قباحت موجود ہو تو پھر یہ بعض صورتوں میں لغو، بعض میں مکروہ اور بعض میں حرام قرار دی جائے گی۔مثال کے طور اگر کسی نعت میں مشرکانہ مضامین کے اشعار ہیں تو اس نعت کی شاعری حرام ہو گی۔البتہ، یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس میں زیادہ دلچسپی انسان کو تقویٰ کے اعتبار سے نقصان دیتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: موسیقی کو دیکھا جائے گا کہ کیسی ہے ۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے اندر کوئی اخلاقی مسئلہ نہیں تو کوئی قباحت نہیں ہے او راگر کوئی اخلاقی خرابی ہے تووہ قابل مذمت ہے اس سے آدمی کو بچنا چاہیے۔ اسلام کا مقصد انسان کے ظاہرو باطن کو پاکیزہ بنانا ہے۔ جس طرح ظاہر کی پاکیزگی کے بارے میں آدمی کو حساس ہونا چاہیے اسی طرح باطن کی پاکیزگی کے بارے میں بھی آدمی کو حساس ہونا چاہیے ۔جب غیر اخلاقی چیزیں آدمی کے زیادہ اشتغال کا باعث بن جاتی ہیں تو وہ اس کی پاکیزگی پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لیے ان سے احتراز کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر آپ روح کو اس معنی میں بول رہے ہیں جس معنی میں ہم سمجھتے ہیں تو پھر اس کی غذا صرف اللہ کا ذکراور اللہ کی یاد ہے جس سے اس کو غذا ملتی ہے ، موسیقی نفس کی غذا ہے یعنی ہمارا نفس ایک جسمانی وجود بھی رکھتا ہے اور ایک باطنی وجود بھی رکھتا ہے، جسمانی وجود کے لیے انواع و اقسام کے کھانے کھلانے پڑتے ہیں اور باطنی وجود کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے لیکن جس چیز کو انسان کی روحانی شخصیت کہا جاتاہے اس کی غذا اللہ کا ذکر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: گانا چاہے موسیقی کے بغیر ہو یا موسیقی کے ساتھ، قرون اولی ہی سے فقہائے اسلام کے درمیان موضوع بحث رہا ہے ۔اس بات پر تمام فقہا متفق ہیں کہ ہر وہ گانا جو فحش ، فسق وفجور اور گناہ کی باتوں پرمشتمل ہو اس کا سننا حرام ہے اور اگر اس میں موسیقی بھی شامل کر لی جائے تو اس کی تاثیر دوبالا ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح فقہا کے مابین اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ شادی بیاہ یا عید یا خوشی کے موقع پر ایسے گانے جائز ہیں جو گندے ، فحش اور نازیبا کلمات سے خالی ہوں۔متعدد احادیث سے ان کا جواز ثابت ہوتا ہے۔البتہ بعض علما کے نزدیک ہرقسم کا گانا حرام ہے چاہے وہ موسیقی کے ساتھ ہو یا بغیر موسیقی کے ۔

            میری اپنی رائے یہ ہے کہ گانا یا نغمہ بذات خود حلال ہے کیونکہ ہر چیز کی اصلیت یہ ہے کہ وہ حلا ل ہے الا یہ کہ اس کی حرمت کے سلسلہ میں کوئی واضح دلیل ہو۔گانے کی حرمت کے سلسلہ میں کوئی بھی دلیل قطعی نہیں ہے ۔یہ صحیح ہے کہ بعض صحابہ نے سورہ لقمان کی آیت ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و یتخذھا ھزوا میں لھو الحدیث سے مراد گانا بتایا ہے لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہے ۔حضور ﷺنے ایسا نہیں فرمایا ہے ۔اسی طرح بعض علما اس آیت واذا سمعوا اللغو أعرضوا عنہ میں لغو سے مراد گانا مراد لیتے ہیں حالانکہ اس آیت میں لغو سے مراد گالم گلوچ طعن تشنیع اور احمقانہ باتیں ہیں۔آپ پوری آیت کو سیاق و سباق سے پڑھیں تو یہی مفہوم اخذ ہو گا۔اسی مفہوم کی دوسری آیت ہے واذا خاطبھم الجاہلون قالو ا سلاما۔اگر آیت میں لغو سے مراد گانا لیا جائے تو آیت یوں نہ ہوتی کہ اسے سننے کے بعد وہ اس سے دامن بچاتے ہیں بلکہ آیت یوں ہوتی کہ اس کے سننے سے دامن بچاتے ہیں۔ابن جریح سے کسی نے پوچھا کہ گانا سننا آپ کی نیکیوں میں شمار ہو گا یا برائیوں میں۔انہوں نے جواب دیا کہ اس کا شمار نہ نیکیوں میں ہو گا نہ برائیوں میں بلکہ یہ تو ان لغو چیزوں میں سے ہے جن پر اللہ گرفت نہیں فرماتا۔امام غزالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ بندے کا اس بات پر مواخذہ نہیں کرے گا کہ اس نے یوں ہی اللہ کا نام لے کر قسم کھائی تو شعر و نغمہ پر کیوں گرفت کر ے گا؟ امام غزالی کا ا شارہ اس آیت کی طرف تھا۔لا یواخذکم اللہ بااللغو فی ایمانکم۔علامہ ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہرعمل کادارومدار نیت پرہوتاہے جو شخص اللہ کی نافرمانی کی نیت سے گاناسنے گا وہ گنہ گار ہو گا اورجو شخص اس نیت سے گانا سنتا ہے کہ اس سے بدن میں چستی آئے گی اور یہ چستی اللہ کی عبادت میں معاون ثابت ہو گی تو یہ ایک نیک ارادہ ہے اور اس کا گانا سننا بھی نیک عمل میں شمار ہو گا۔ بشرطیکہ وہ گانا بذات خود بری اور فحش باتوں پر مشتمل نہ ہو۔

            رہی وہ حدیثیں جنہیں علماگانوں کی حرمت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ ساری حدیثیں ضعیف ہیں۔قاضی ابو بکر کہتے ہیں کہ نغموں اور گانوں کی حرمت سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے ۔ابن حزم کہتے ہیں کہ گانوں کی حرمت کے سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ سب موضوع احادیث ہیں۔مزید یہ کہ اس کے جائز ہونے میں متعدد احادیث موجودہیں۔بخاری مسلم میں یہ حدیث موجودہے کہ ابوبکرؓ حضرت عائشہ کے گھر میں حضور ﷺکے پاس تشریف لائے حضرت عائشہ کے پاس دو لڑکیا ں بیٹھی گانا گا رہی تھیں۔حضرت ابو بکر ؓ نے ان لڑکیوں کی سرزنش کی اس پر حضور نے فرمایا کہ چھوڑ دو اے ابو بکر کیونکہ یہ خوشی کے دن ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خوشی کے دن ہوں یا نہ ہوں گانا اپنی اصلیت یعنی جواز پر برقرار رہے گا۔لیکن یہ ضروری ہے کہ گانے میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو۔ مثلا شراب کا تذکر ہ ہویا شباب کا۔بے حیائی کی باتیں ہوں یا اللہ رسول کی گستاخی ہو۔مزید یہ کہ گانا سننے میں اسراف یعنی غلو نہ ہو۔اسلام نے اسراف کو ہر معاملے میں نا پسند فرمایا ہے ۔اس دور میں جو گانے زبان زد عام ہیں ان میں شاذ ہی ایسے ہو ں گے جوان شرائط پر پورے اترتے ہوں اس لیے ان سے پرہیز ہی بہتر ہے ۔اگر یہ احتیاط گاناسننے میں لازمی ہے تو گانے کوپیشہ بنانے میں تواور بھی احتیاط کی ضرورت ہے ۔اور فی زمانہ کسی عورت کو یہ پیشہ اختیار کرنا تو کسی طور پر بھی جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ اس پیشہ میں اس کی عزت ، احترام، شرافت ، شرم و حیا سب کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے اوراجنبی مردوں سے اختلاط تو بالکل حرام ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)