ج-85 اس شخص کے جو حالات آپ نے لکھے ہیں، ان کے نفسیاتی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ‘‘پڑھا لکھا پاگل’’ ہے، گالیاں بکنا، تہمتیں دھرنا، مارپیٹ کرنا، وعدوں سے پھرجانا، اور قسمیں کھاکھاکر توڑ دینا، کسی شریف آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔ جو شخص کسی پاک دامن پر بدکاری کا الزام لگائے اور اس پر چار گواہ پیش نہ کرسکے، اس کی سزا قرآنِ کریم نے ۸۰ دْرّے تجویز فرمائی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بڑے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے، اور جو شخص اپنی بیوی پر تہمت لگائے، بیوی اس کے خلاف عدالت میں لعان کا دعویٰ کرسکتی ہے، نکاح ختم کرنے کا دعویٰ کرسکتی ہے، جس کی تفصیل یہاں ذکر کرنا غیرضروری ہے۔ اب اگر آپ اپنا معاملہ یوم الحساب پر چھوڑتی ہیں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آپ کو ان تمام زیادتیوں کا بدلہ دِلائیں گے، اور اگر آپ دْنیا میں اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہیں تو آپ کو عدالت سے رْجوع کرنا ہوگا کہ مظلوم لوگوں کے حقوق دِلانا عدالت کا فرض ہے۔ اس کے علاوہ آپ یہ بھی کرسکتی ہیں کہ دو چار شریف آدمیوں کو درمیان میں ڈال کر اس سے طلاق لے لیں اور کسی دْوسری جگہ عقد کرکے باعزت زندگی بسر کریں۔ حضور ؐ نے فرمایا ‘‘خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی۔’’(مشکوٰۃ ص:۱۸۲)
‘‘تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے سب سے اچھا ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب سے بڑھ کر اچھا ہوں۔’’
لڑکیوں سے قطع تعلق اور حصے سے محروم کرنا
ج-عورتوں کی معاش کا ذمہ دار مردوں کو بنایا گیا ہے، مگر عورتوں نے یہ بوجھ خود اْٹھانا شروع کردیاہے ۔ جب عورت اپنی خوشی سے کماکر لاتی ہے تومردوں کے لئے کیوں حلال نہیں؟البتہ عورتوں کو کمانے پر مجبور نہیں کیاجا سکتا۔
()