ج: بالکل ٹھیک ہے ، خدا کے پیغمبر کے ہوتے ہوئے کوئی اور امامت کی کیسے جسارت کر سکتاہے البتہ ایسا ضرور ہوا کہ حضورﷺ کو کوئی معذوری لاحق ہو گئی یا آپ کو آنے میں تاخیر ہو گئی ، آپ وضو کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے یا کہیں اور مجلس میں شریک تھے تو اس میں نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا تو کسی صحابی نے کھڑے ہو کر جماعت کرادی اور جب حضورﷺ کی آہٹ بھی سنی تو انہوں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی ، اگر کبھی اس طرح نماز شروع ہو گئی تو آپ نے ا شارے سے کہا کہ نہیں ایسے ہی مکمل کر لو تو حضور کے ہوتے ہوئے کوئی جسارت نہیں کر سکتالیکن اگر حضورﷺ موجود نہیں اور نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے تو جماعت ہو جائے گی ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب : آج کل مسجدوں میں جس طرح محراب بنائے جاتے ہیں، اس کا رواج صدرِ اول میں نہیں تھا۔ چنانچہ مسجد نبوی میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں محراب نہیں تھا۔ سب سے پہلے اس کی تعمیر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ۹۱ھ میں کی، جب وہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے۔
محرابِ مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کے سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ شوافع ، مالکیہ (مشہور قول کے مطابق) اور بعض حنفیہ کا قول ہے کہ فرض نماز کے لئے امام کا محراب میں کھڑا ہونا جائز ہے۔ حنابلہ اور بعض احناف اسے مکروہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ بعض فقہائے احناف کہتے ہیں کہ امام کو محراب ہی میں کھڑا ہونا چاہئے، محراب کے علاوہ اس کا اور کہیں کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ امام احمد سے ایک قول یہ مروی ہے کہ امام کا محراب میں کھڑا ہونا مستحب ہے۔
امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد نے الجامع الصغیر میں امام کے محراب میں کھڑے ہونے کو مکروہ لکھا ہے۔ انھوں نے اس مسئلے کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی ہے، اسی لئے بعد کے فقہا میں اس کی تفصیلات میں اختلاف ہوگیا ہے۔ جو حضرات اسے مکروہ قرار دیتے ہیں وہ اس کے مختلف اسباب بیان کرتے ہیں۔ مثلاً بعض حضرات کہتے ہیں کہ محراب میں رہنے سے امام مقتدیوں سے الگ تھلگ سا ہوجاتا ہے، نیز اس میں اہل کتاب کے عمل سے بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس صورت میں مسجد میں دائیں اوربائیں جانب رہنے والے مقتدی امام کے حال سے واقف نہیں رہ پاتے۔ گویا اگر امام محراب میں رہتے ہوئے مقتدیوں سے الگ تھلگ نہ معلوم دے اور مقتدی اس کے حال سے واقف رہیں تو محراب میں کھڑے ہوکر امامت کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے-97 اس موضوع پر تفصیل کے لئے ملاحظہ کیجئے الموسوعہ الفقہیہ الکویت، بہ عنوان ‘محراب’
()
ج: بالکل ٹھیک ہے ۔ خدا کے پیغمبر کے ہوتے ہوئے کوئی اور امامت کی کیسے جسارت کر سکتا ہے؟ البتہ ایسا ضرور ہوا کہ حضورﷺ کو کوئی معذوری لاحق ہو گئی یا آپ کو آنے میں تاخیر ہو گئی ، آپ وضو کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے یا کہیں اور مجلس میں شریک تھے تو اس میں نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا تو کسی صحابی نے کھڑے ہو کر جماعت کرادی اور جب حضورﷺ کی آہٹ بھی سنی تو انہوں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی ،تو آپ نے اشارے سے کہا کہ نہیں ایسے ہی مکمل کر لو۔ حضور کے ہوتے ہوئے کوئی جسارت نہیں کر سکتا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نماز کے دوران میں اگر ہوا خارج ہو جائے، تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ یہ نماز اگر امام کی ٹوٹی ہو،تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں مقتدیوں کی نماز بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔اگر امام فوراً اپنے پیچھے سے کسی مقتدی کا ہاتھ پکڑے اور اسے اپنی جگہ پر کھڑا کر دے، تو اس صورت میں مقتدیوں کی نماز سلامت رہتی ہے۔ پہلا امام اگر چاہے تو وضو کر کے نماز میں اب مقتدی کی حیثیت سے شامل ہو سکتا ہے۔لیکن اگر امام کا وضو ٹوٹنے کے باوجود وہ نماز پڑھاتا رہتا ہے اور مقتدی یہ صورت حال جاننے کے باوجود اس کے پیچھے نماز پڑھتے رہتے ہیں تو کسی کی نماز بھی نہیں ہو گی اور یہ نماز کے ساتھ ایک مذاق ہو گا، جو کیا جا رہا ہو گا۔ اس صورت میں مقتدیوں کو اس مذاق میں ہرگز شامل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ نماز ضرور توڑ دیں اور اس کے بعد حالات کی رعایت سے،خواہ اپنی نماز جماعت کراکے پڑھ لیں یافردا ً فردا ًپڑھ لیں۔ نماز خدا کے دربار میں اس کے بندوں کی طرف سے اظہارِ عبودیت ہے۔اس میں اگر امام سے غلطی ہو رہی ہے اور وہ اس پر متنبہ نہیں ہو رہا، تو اس کا یہ حق ہے کہ اسے متنبہ کیا جائے ۔ اگر ہم اسے متنبہ نہیں کرتے ، تو ہمارا یہ رویہ اس کا حق ادا کرنے سے گریز کرنا ہے اور اگر امام نے اپنا تاثر یہ بنا رکھا ہے کہ لوگ اس کے سامنے اس کی غلطی نکالنے سے خوف کھائیں ۔ تو آپ غور کریں کہ اس امام نے یہ کیا کر رکھا ہے، سوائے اس کے کہ اپنی آخرت تباہ کرنے کا سامان کر رکھا ہے۔
خدا کی اس کائنات میں کوئی شخص اتنا بڑا نہیں کہ اس کے لیے خدا کی بات چھوٹی ہو اور اس کے لیے کوئی شخص اس صورت میں بھی چھوٹا ہو ، جب کہ اس کے پاس خدا کی کوئی ایک بات یا خدا کی شریعت کا کوئی ایک حکم موجود ہے، جو وہ اسے بتانا چاہتا ہے۔ خدا کے دربار میں کیا پیر اور کیا مرید سب برابر ہیں ۔ اس کے سامنے سب بے بس و بے کس ہیں،سب حقیر اور سب ہیچ ہیں۔ آپ نے دورِ نبوی کا یہ واقعہ تو سنا ہو گا کہ ایک دفعہ نبی ﷺ نماز پڑھاتے ہوئے ، چار رکعت کے بجائے غلطی سے دو پڑھا گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو مفتدیوں میں سے ایک نے کہا کہ آپ نماز میں بھول گئے تھے یا نماز کی رکعتیں ہی کم ہو گئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے ان دونوں میں سے کوئی بات نہیں ہوئی۔پھر آپ کو بتایا گیا کہ آپ بھول گئے ہیں۔چنانچہ آپ نے وہ رکعتیں جو رہ گئی تھیں وہ پڑھا دیں۔ صحابہ ؓنے اپنے اس ردیے سے ہمیں یہ درس دیا کہ کوئی شخص اس سے بالا نہیں کہ اس کی غلطی بتائی ہی نہ جائے۔میری رائے ہے کہ آپ کم از کم ایسا ضرور کریں کہ پیر صاحب کو یہ ساری صورت حال لکھ کر دے دیں ،خط میں اپنا نام آپ بے شک ظاہر نہ کریں۔ پھر دیکھیں کہ پیر صاحب اپنی اصلاح کا بھی کوئی مادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔اگر انہیں اپنی اصلاح سے دلچسپی نظر آئے، تو آپ کا مقصود حاصل ہو گیااور اگر ان کے ہاں اس سے بے نیازی ہو ، تو پھر گویا پیر صاحب نے یہ اشارہ دے دیا کہ دین کے احکام ایسے اہم نہیں کہ ان پر لاگو ہوں۔ایسی صورت میں جو فیصلہ آپ کو کرنا چاہیے میرا خیال ہے کہ وہ آپ پر واضح ہی ہو گا۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب:اگر وہ شخص واقعی عشر، زکوٰۃ یا صدقہ خیرات لینے کا حقدار ہے تو کوئی حرج نہیں، لے سکتا ہے اور امامت بھی کروا سکتا ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ امامت کے لیے صحیح العقیدہ اور بنیادی دینی مسائل کا جاننے والا ہونا ضروری ہے، نہ کہ دولت مند، اَن پڑھ جاہل ہونا۔باقی رہا حجام تو اس میں بھی کوئی شرعی ممانعت نہیں جو امامت کے مانع ہو۔ جو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، یہ ان کی جہالت ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔