ج: اس وہم کودور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالکل بے پروا ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیں ۔اللہ کے پیغمبر نے اس کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے ، وہم کی بیماری آدمی کو دین سے دور لے جاتی ہے اور بالکل ایک ایسا آدمی بنا دیتی ہے جس سے لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں ، اس لیے آپ بالکل بے پروا ہو جائیں ۔ اس بات کو بالکل نہ سوچیں ، نماز پڑھیں ، جب آپ اس طرح بے پروا ہو جائیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کا وہم بھی ختم ہو جائے گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: کلی کرنا، ناک صاف کرنا، منہ کو صاف رکھنایہ سب خود دین کے اندر ایک سنت کے طور پر جاری کیے گئے ہیں، لیکن وضو کا یہ لازمی حصہ نہیں ہیں۔ آپ کریں تو بہت اچھی بات ہے، آدمی کو اچھا وضو ہی کرنا چاہیے، لیکن اگر کسی وقت آپ نے نہیں کیا تو اس کے بغیر بھی وضو ہو جائے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: جسمانی اور روحانی دونوں طہارتیں مقصود ہیں لیکن اگر پانی میسر نہیں ہوتا تو پھر اس کا علامتی اظہار کیا جاتا ہے ۔جب جسمانی طہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا تو پھر روحانی حاصل کی جاتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس کا تعلق حالات سے ہے ، بعض اوقات بڑی سہولت ہوتی ہے ، آدمی نکل سکتا ہے اور بعض اوقات معلوم ہوتا ہے کہ ساری صفیں ڈسٹرب ہونگی تو اس وقت بیٹھ جانا چاہیے اور نماز مکمل ہونے کے بعد وضو کر کے اپنی نماز مکمل کر لیجیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آپ اگر محسوس کرتے ہیں کہ پاکیزگی حاصل ہو گئی ہے اور منہ صاف ہو گیا ہے تو اتارنے کی ضرورت نہیں ۔ اگر محسوس ہوتا ہے کہ ایسا نہیں تو اتار لیجیے ۔اس میں شریعت کا کوئی واضح حکم نہیں ہے ، آپ کی اپنی کامن سینس پر ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس وہم کودور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالکل بے پروا ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیں۔ وہم کی بیماری آدمی کو دین سے دور لے جاتی ہے اور ایک ایسا آدمی بنا دیتی ہے جس سے لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس بات کو بالکل نہ سوچیں ، نماز پڑھیں ، جب آپ اس طرح بے پروا ہو جائیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کا وہم بھی ختم ہو جائے گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، اصل میں شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ٹوٹ نہ گیا ہوتو اس میں مناسب یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وضو کر لیا جائے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: وضو تو خون نکلنے سے ٹوٹ جائے گا اور روزے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خون حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج: نماز کے دوران میں اگر ہوا خارج ہو جائے، تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ یہ نماز اگر امام کی ٹوٹی ہو،تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں مقتدیوں کی نماز بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔اگر امام فوراً اپنے پیچھے سے کسی مقتدی کا ہاتھ پکڑے اور اسے اپنی جگہ پر کھڑا کر دے، تو اس صورت میں مقتدیوں کی نماز سلامت رہتی ہے۔ پہلا امام اگر چاہے تو وضو کر کے نماز میں اب مقتدی کی حیثیت سے شامل ہو سکتا ہے۔لیکن اگر امام کا وضو ٹوٹنے کے باوجود وہ نماز پڑھاتا رہتا ہے اور مقتدی یہ صورت حال جاننے کے باوجود اس کے پیچھے نماز پڑھتے رہتے ہیں تو کسی کی نماز بھی نہیں ہو گی اور یہ نماز کے ساتھ ایک مذاق ہو گا، جو کیا جا رہا ہو گا۔ اس صورت میں مقتدیوں کو اس مذاق میں ہرگز شامل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ نماز ضرور توڑ دیں اور اس کے بعد حالات کی رعایت سے،خواہ اپنی نماز جماعت کراکے پڑھ لیں یافردا ً فردا ًپڑھ لیں۔ نماز خدا کے دربار میں اس کے بندوں کی طرف سے اظہارِ عبودیت ہے۔اس میں اگر امام سے غلطی ہو رہی ہے اور وہ اس پر متنبہ نہیں ہو رہا، تو اس کا یہ حق ہے کہ اسے متنبہ کیا جائے ۔ اگر ہم اسے متنبہ نہیں کرتے ، تو ہمارا یہ رویہ اس کا حق ادا کرنے سے گریز کرنا ہے اور اگر امام نے اپنا تاثر یہ بنا رکھا ہے کہ لوگ اس کے سامنے اس کی غلطی نکالنے سے خوف کھائیں ۔ تو آپ غور کریں کہ اس امام نے یہ کیا کر رکھا ہے، سوائے اس کے کہ اپنی آخرت تباہ کرنے کا سامان کر رکھا ہے۔
خدا کی اس کائنات میں کوئی شخص اتنا بڑا نہیں کہ اس کے لیے خدا کی بات چھوٹی ہو اور اس کے لیے کوئی شخص اس صورت میں بھی چھوٹا ہو ، جب کہ اس کے پاس خدا کی کوئی ایک بات یا خدا کی شریعت کا کوئی ایک حکم موجود ہے، جو وہ اسے بتانا چاہتا ہے۔ خدا کے دربار میں کیا پیر اور کیا مرید سب برابر ہیں ۔ اس کے سامنے سب بے بس و بے کس ہیں،سب حقیر اور سب ہیچ ہیں۔ آپ نے دورِ نبوی کا یہ واقعہ تو سنا ہو گا کہ ایک دفعہ نبی ﷺ نماز پڑھاتے ہوئے ، چار رکعت کے بجائے غلطی سے دو پڑھا گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو مفتدیوں میں سے ایک نے کہا کہ آپ نماز میں بھول گئے تھے یا نماز کی رکعتیں ہی کم ہو گئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے ان دونوں میں سے کوئی بات نہیں ہوئی۔پھر آپ کو بتایا گیا کہ آپ بھول گئے ہیں۔چنانچہ آپ نے وہ رکعتیں جو رہ گئی تھیں وہ پڑھا دیں۔ صحابہ ؓنے اپنے اس ردیے سے ہمیں یہ درس دیا کہ کوئی شخص اس سے بالا نہیں کہ اس کی غلطی بتائی ہی نہ جائے۔میری رائے ہے کہ آپ کم از کم ایسا ضرور کریں کہ پیر صاحب کو یہ ساری صورت حال لکھ کر دے دیں ،خط میں اپنا نام آپ بے شک ظاہر نہ کریں۔ پھر دیکھیں کہ پیر صاحب اپنی اصلاح کا بھی کوئی مادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔اگر انہیں اپنی اصلاح سے دلچسپی نظر آئے، تو آپ کا مقصود حاصل ہو گیااور اگر ان کے ہاں اس سے بے نیازی ہو ، تو پھر گویا پیر صاحب نے یہ اشارہ دے دیا کہ دین کے احکام ایسے اہم نہیں کہ ان پر لاگو ہوں۔ایسی صورت میں جو فیصلہ آپ کو کرنا چاہیے میرا خیال ہے کہ وہ آپ پر واضح ہی ہو گا۔
(محمد رفیع مفتی)