جواب:حدیثِ رسولﷺ اگر صحیح ہو تو اس کے بارے میں توجیہ اور تطبیق کاذہن بنانا چاہئے، نہ کہ اس پر اعتراض کرنے، شبہ وارد کرنے اور اسے قرآن کے خلاف سمجھ کر رد کردینے کا۔
یہ حدیث سنن ابی داود (۸۴۳۳) میں جس سند سے مروی ہے، اسے علامہ البانی نے صحیح قرا ر دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ صحیح بخاری (۳۴۴،۴۹۳۲)، صحیح مسلم (۹۸۶۱)اور سنن بیہقی (۱۶۲۱۱، ۸۰۳۲۱)میں بھی آئی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی احادیث دیگر صحابہ سے مروی ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی موقع پر ایک شخص سے ایک اونٹ قرض لیا تھا۔ اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ آپ نے اس کی ادائی کا حکم دیا۔ آپ کو بتایاگیا کہ ویسا اونٹ تو نہیں ہے، ہاں، اس سے اچھا اونٹ ہے۔ آپ نے فرمایا: اسی کو دے دو۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: فَاِنَّ خَیرَکْم اَحسَنْکْم قَضَاء ًا (بخاری: ۰۹۳۲)
‘‘تم میں سے بہتر لوگ وہ ہیں جو ادائی بہتر طریقے سے کریں۔’’
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: فَاِنَّ مِن خِیَارِ النَّاسِ اَحسَنْھْم قَضَاء ً (بخاری:۲۹۳۲)
‘‘بہترین لوگ وہ ہیں جو ادائی بہتر طریقے سے کرتے ہیں۔’’
حضرت جابرسے مروی حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجرعسقلانی اور علامہ شوکانی دونوں نے لکھا ہے:
‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنا قرض لیاگیا ہو اس سے بڑھ کر واپس کرنا جائز ہے، اگر معاملہ میں اسے مشروط نہ کیاگیا ہو۔ لیکن اگر قرض لیتے وقت اس میں اضافہ کے ساتھ واپسی کی شرط لگائی گئی ہو تو یہ حرام ہے۔ اس پر جمہور علماء کا اتفاق ہے۔ (فتح الباری، شرح صحیح البخاری، دارالمعرفۃ بیروت، ۷۵۵، نیل الاوطار)
اس سے معلوم ہواکہ سود کا اطلاق اس زیادتی پر ہوتا ہے جسے قرض کے لین دین کے وقت طے کرلیا گیا ہو اور اس کی ادائی قرض لینے والے پر لازم ہو۔ لیکن اگر زیادتی کے ساتھ قرض کی واپسی مشروط نہ ہو اور قرض لینے والا اپنی خوشی سے اس میں کچھ بڑھا کر واپس کرے تو یہ نہ صرف جائز ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے پسندیدہ ہے۔
()
ج: ہمارے ہاں تو لوگ قرض حسنہ سے مراد یہ سمجھتے ہیں کہ جو قرض لے کر واپس نہ کرنے کے لیے لیا جائے، وہ قرض حسنہ ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں قرض حسنہ سے مراد اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا ہے۔ یعنی جب بندہ اللہ کے دین کے لیے خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ یہ میرے اوپر قرض ہے اور میں آدمی کو اس کا بدلہ اور اجر عطا فرماؤں گا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: جی ہاں ، بالکل لازم ہے ، قرآن کے اسلوب سے یہی بات معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی ایسا نہیں کرتا تو اس پر مواخذہ ہو گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ آپ نے صحیح فرمایا کہ اسلام میں سود کی ممانعت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض خوا ہ اور مقروض دونوں کے حقوق ایک جیسے محفوظ نہیں ہوتے ۔قرض خواہ کو تو اس کے قرض کی واپسی کی محفوظ ضمانت ہو جاتی ہے لیکن مقروض کا اس بارے میں کوئی خیال نہیں کیا جاتا۔یہ بات اصل میں سودی معاملے کو غیر اخلاقی بنا دیتی ہے۔
تا ہم ایسے شخص کے لیے اس کا متباد ل موجو د ہے جو سود سے رقم حاصل نہیں کرنا چاہتا اور دوسرے کے ساتھ نفع نقصان کا ساتھی بھی نہیں بننا چاہتا اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا اصل زر محفوظ رہے اور وہ قرض دے کر رقم حاصل کر ے۔یہ معاہد ہ اس طرح ہو گا کہ آپ کسی کو قرض دے کر یہ معاہد ہ کریں کہ اگر تم کو اس سے نفع ہوا تو اس میں میرا حصہ ہو گا تا ہم میں نقصان میں شامل نہیں ہوں گا۔اس میں اس کو نفع ہونا شرط ہے ۔ سود اس صورت میں ہوتا ہے جب آپ یہ کہتے ہیں کہ تمہیں نفع ہویا نقصان ہو جو بھی ہو مجھے بہر حال اتنے فیصد ملنا چاہیے۔
(شہزاد سلیم)
ج: اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ موجودہ زمانے میں لوگ اطمینان کیساتھ لوگوں سے شرکت اور مضاربت پر پیسے لیتے ہیں اور ہاتھ جھاڑ کر دکھا دیتے ہیں کہ نقصان ہو گیا ہے۔ میں تو لوگوں کو ہمیشہ کہتاہوں آپ قرض دیجیے اور یہ طے کر لیجیے کہ بھائی یہ میرا واجب الادا قرض ہے مجھے آپ بعد میں واپس کریں گے۔ اس رقم کے نقصان میں میں شریک نہیں ہوں،کیونکہ میں آپ کے فیصلوں میں بھی شریک نہیں ہوں البتہ اگرنفع ہو جائے تومجھے اس میں سے حصہ دے دیجیے گا۔ یہ سود نہیں ہے ۔ اگر نفع ہو جائے ،اس شرط کیساتھ آپ دے سکتے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرض جب آپ کوواپس ملے گا تو اس وقت اس پر زکوۃ عائد ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض بجائے خود سوسائٹی کی ایک خدمت ہے ۔ آپ نے اپنے کسی بھائی کو اپنے پاس پڑے ہوئے اگر پیسے دے دیے ہیں تو یہ آپ کا اس کے اوپر احسان ہے۔ آپ اس کو اپنے پیسے استعمال کرنے کے لیے دے رہے ہیں ۔ زکوۃ کی طرح آپ نے معاشرے کی یہ خدمت کر دی ۔جب پیسے واپس آئیں گے تو پھر لازم ہے کہ آپ اس کی زکوۃ ادا کریں ۔ البتہ جو لوگ کاروباری نوعیت کے قرض لیتے ہیں جیسے بنکوں سے لوگ کروڑوں روپے کا قرض لے لیتے ہیں تو جن لوگوں نے قرض لے رکھا ہے اور وہ اس کو استعمال کر رہے ہیں تو وہ قرض کی وجہ سے زکوۃ سے مستثنی نہیں ہوں گے۔ ان کے اوپر اسی طرح زکوۃ عائد ہو گی جس طرح دوسری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: آپ کے اوپر 1000 روپے قرض ہے نہ کہ لاکھ۔ اگرچہ اب 1000 روپے کی ویلیو اس وقت کے لحاظ سے کم ہو گئی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ دور میں اس وقت کا ایک ہزار لاکھ کے برابر ہے تو مبالغہ نہ ہو گا لیکن قرض جس بھی وقت میں ہو وہ اتنا ہی رہتا ہے، آپ جو ایک لاکھ روپے دے رہے ہیں یہ بھی شرعی طور پر جائز نہیں ہیں لیکن وقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اپنے والدین کی خاطر احساناً اگر اس شخص کو دیں تو ٹھیک ہے ورنہ وہ شخص لاکھ کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔رہی بات زمین کی تو وہ شخص اس زمین کا حقدار نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس نہ تو کوئی گواہ ہے اور نہ کوئی ثبوت، اگر وہ ثبوت لاتا ہے تو پھر وہ پلاٹ اس کا ہو گا بصورت دیگر بغیر کسی ثبوت کے آپ زمین نہ دیں۔ ہمارے معاشرے کے اندر ایسے دھوکے اور فراڈ بے شمار ہوتے ہیں۔ میت کے ورثاء کو بیوقوف بنایا جاتا ہے کہ میت نے انہیں زمین دینے کا وعدہ کیا تھا یا فلاں چیز میرے نام کر گیا ہے۔ یہ سب فراڈ ہے۔ جب تک وہ صحیح ثبوت نہیں لاتا زمین نہ دیں اور اگر واقعی صحیح ثبوت فراہم کرتا ہے تو زمین کا وہ حقدار ہے ورنہ نہیں۔
(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)
جواب: بہتر ہے آپ پانچ پاؤنڈ کسی مستحق کو صدقہ خیرات کے طور پر دے دیں۔ اگر آپ نے اس عورت کو پاؤنڈ نہیں دیئے ہونگے تو اس صورت میں اس عورت کو ان کا ثواب مل جائے گا اور اگر آپ نے اس عورت کو رقم واپس لوٹا دی ہو گی تو آپ کو ثواب مل جائے گا۔
(مفتی محمد شبیر قادری)