جواب: غسل کی ضرورت ہو اور پانی موجود نہ ہو توغسل کے لیے بھی وضو والا تیمم ہی کیا جاتا ہے ۔
(ڈاکٹر محمود احمد غازی)
ج: سستی کوئی وجہ نہیں ہوتی کسی کام کی، آپ اگر معقولیت سے محسوس کرتے ہیں کہ پانی اتنی دور ہے کہ آپ کے لیے زحمت کا باعث بن جائے گا تو آپ تیمم یا مسح کر سکتے ہیں ،اصل اصول زحمت ہے ، دین میں کوئی خاص مسافت مقرر نہیں کی گئی اور یہ حالات کے لحاظ سے ہو بھی نہیں سکتی تھی ، مثال کے طور پر گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ کو نماز پڑھنی ہے ، ہو سکتا ہے کہ پانی ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ہو لیکن وہاں جانا اور وضو کرنا گاڑی چھوٹنے کا باعث بن جائے گا تواس وجہ سے اگر دین اس کی مسافت مقرر کرتا تو یہ حالات کے خلاف معاملہ ہو جاتا تو آپ اپنے طور پر اس کا فیصلہ کر لیجیے باقی اگر نیک نیتی سے آپ نے کوئی اجتہاد کیا ہے اور غلط بھی کیا ہے تو اللہ تعالی کے ہاں اس کا اجر ملتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب :جنبی شخص کے لیے نماز ادا کرنے سے قبل غسل کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ‘‘اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو پاکیزگی اور طہارت اختیار کرو۔’’ اور اگر پانی کی غیر موجودگی یا پھر کسی عذر (مثلاً پانی استعمال کرنے میں بیماری کو ضرر ہو یا پھر شدید سردی میں پانی استعمال کرنے سے بیماری میں اور اضافہ ہونے کا خدشہ ہو ، یا پانی گرم کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو ) کی بنا پر پانی استعمال کرنے سے عاجز ہو تو غسل کی جگہ تیمم کرسکتا ہے کیونکہ فرمان باری تعالی ہے : ‘‘اور اگر تم مریض ہو یا مسافر یا تم میں سے کوئی ایک قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو یاپھر تم نے بیوی سے جماع کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاکیزہ اور طاہر مٹی سے تیمم کر لو۔’’ اس آیت میں دلیل ہے کہ جو مریض شخص پانی استعمال نہ کرسکتا ہو یا پھر اسے غسل کرنے سے موت کا خدشہ ہو یا مریض زیادہ ہونے کا یا پھر مرض سے شفایابی میں تاخیر ہونے کا، تو وہ تیمم کر لے۔’’ اس تشر یع کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘اللہ تعالی تم پر کوئی تنگی نہیں کرنا چاہتا لیکن تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کرنا چاہتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ المائدہ 6 ۔’’ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ‘‘غزوہ ذات سلاسل میں شدید سرد رات میں مجھے احتلام ہو گیا ، اس لیے مجھے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا توہلاک ہو جاؤں گا ۔ اس لیے میں نے تیمم کر کے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھا دی چنانچہ انہوں نے اس واقعہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : ‘‘اے عمرو! کیا آپ نے جنابت کی حالت میں ہی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی تھی؟ ’’ چنانچہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو غسل میں مانع چیز کا بتایا اور کہنے لگا کہ میں نے اللہ تعالی کا فرمان سنا ہے : ‘‘اور تم اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرویقینا اللہ تعالی تم پر رحم کرنے والا ہے۔ النسا 29 ۔ ’’ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے اورکچھ بھی نہیں فرمایا۔ ’’ سنن ابو داؤد حدیث نمبر 334 علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابو داؤد میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ‘‘ اس حدیث میں اس کا جواز پایا جاتا ہے کہ سردی وغیرہ کی بنا پر اگر پانی استعمال کرنے سے ہلاکت کا خدشہ ہو تو تیمم کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح تیمم کرنے والا شخص وضو کرنے والوں کی امامت بھی کروا سکتا ہے۔’’ دیکھیں فتح الباری (454/1) اور شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: ‘‘اگر تو آپ گرم پانی حاصل کرسکیں یا پھرپانی گرم کرسکتے ہوں یا پھر اپنے پڑوسیوں وغیرہ سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ کے لیے ایسا کرنا واجب ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ‘‘اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو۔’’ اس لیے آپ اپنی استطاعت کے مطابق عمل کریں ، یا تو پانی گرم کر لیں یا پھر کسی سے خرید لیں یا پھر اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ جس سے آپ پانی کے ساتھ شرعی وضو کرسکیں۔ لیکن اگر آپ ایسا کرنے سے عاجز ہوں اور شدید سردی کا موسم ہو اور اس میں آپ کو خطرہ ہو اور نہ ہی پانی گرم کرنے کی کوئی سبیل ہو اور نہ ہی اپنے اردگرد سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ معذور ہوں گے اور آپ کے لیے تیمم کرنا ہی کافی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ‘‘اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کا تقوی اختیار کرو۔’’ آپ کو چاہیے کہ جتنے جسم کا آپ غسل کر سکتے ہیں اس کا غسل کریں مثلا اگر آپ کے لیے کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو تو بازوؤں اور ٹانگیں وغیرہ جو کچھ دھو سکتے ہوں وہ دھو لیں اور پھر تیمم کرلیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کو جلد از جلد شفایاب کرے اور آپ کی بیماری کو آپ کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بنائے ۔ واللہ اعلم۔
(عبداللہ صالح المنجد)
ج: تیمم کا تصور ہمیشہ سے امتوں میں ہونا چاہیے۔ میرا رجحان یہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی رہا ہو گا کیونکہ قرآن نے جس طریقے سے خود لفظ تیمم استعمال کیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا Concept پہلے سے موجود تھا۔ دنیا میں ایک سادہ اصول یہ ہے کہ جب تک تصور موجود نہ ہو لفظ وجود میں نہیں آ سکتا۔ اس لیے جس طرح سے یہ قرآن میں استعمال ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس کے اصطلاحی مفہوم سے واقف تھے۔ لیکن یہود نے جس طرح دین میں سختیاں پیدا کیں ، اس میں اس معاملے میں بھی ابہام تھا تو قرآن نے اس کو دور کر دیا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سستی کوئی وجہ نہیں ۔ آپ اگر معقولیت سے محسوس کرتے ہیں کہ پانی اتنی دور ہے کہ آپ کے لیے زحمت کا باعث بن جائے گا تو آپ تیمم یا مسح کر سکتے ہیں ۔اصل اصول زحمت ہے ۔ دین میں کوئی خاص مسافت مقرر نہیں کی گئی اور یہ حالات کے لحاظ سے ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ مثال کے طور پر گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ کو نماز پڑھنی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ پانی ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ہو لیکن وہاں جانا اور وضو کرنا گاڑی چھوٹنے کا باعث بن جائے گا تواس وجہ سے اگر دین اس کی مسافت مقرر کرتا تو یہ حالات کے خلاف معاملہ ہو جاتا۔ آپ اپنے طور پر اس کا فیصلہ کر لیجیے۔اور اس فیصلے کا جواب آپ نے اللہ کو دینا ہے۔ اگر نیک نیتی سے آپ نے کوئی اجتہاد کیا ہے اور غلط بھی کیا ہے تو اللہ تعالی کے ہاں اس کا اجر ملتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)