جواب :کپڑے کی جراب اور چمڑے کی جراب میں فرق کرنے کا سبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جربین پر مسح کا ذکر ہوا ہے اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ غالباً متأخرین میں دونوں کی ساخت کا فرق بھی اختلاف کا سبب بنا ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انھی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر مبنی ہے۔جرابوں کی ساخت کی نوعیت اس رخصت کا سبب نہیں ہے۔ رخصت کاسبب رفع زحمت ہے۔ جس اصول پر اللہ تعالی نے پانی کی عدم دستیابی یا بیماری کے باعث اس بات کی اجازت دی ہے کہ لوگ تیمم کر لیں اسی اصول پر قیاس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کی حالت میں جرابیں پہنی ہوں تو پاؤں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اصول اگر رخصت یعنی رفع زحمت ہے تو اس شرط کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جرابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:کپڑے کی جراب اور چمڑے کی جراب میں فرق کرنے کا سبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جربین پر مسح کا ذکر ہوا ہے اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ غالباً متاخرین میں دونوں کی ساخت کا فرق بھی اختلاف کا سبب بنا ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انھی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر مبنی ہے۔جرابوں کی ساخت کی نوعیت اس رخصت کا سبب نہیں ہے۔ رخصت کاسبب رفع زحمت ہے۔ جس اصول پر اللہ تعالی نے پانی کی عدم دستیابی یا بیماری کے باعث اس بات کی اجازت دی ہے کہ لوگ تیمم کر لیں اسی اصول پر قیاس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کی حالت میں جرابیں پہنی ہوں تو پاؤں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اصول اگر رخصت یعنی رفع زحمت ہے تو اس شرط کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جرابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوں۔
(مولانا طالب محسن)
ج: آج کل کی رائج جرابوں پر بھی مسح بالکل ٹھیک ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جرابوں کی نوعیت تو تمدن کے ساتھ بدلتی جائے گی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رخصت دی ہے۔آپ اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ضرور اٹھائیے۔ اور حضور ؐ نے ہمیشہ اس طرح کے معاملات میں رخصت پر عمل کرنے ہی کو بہتر قرار دیا ہے۔ اس معاملے میں اصل چیز یہ ہے کہ جب پاؤں اس طرح جرابوں میں بندھے ہوئے ہوں تو پھر اس زحمت سے لوگوں کو بچا لیا جائے کہ وہ وضو کرتے وقت ان کو نہ اتاریں کیونکہ بعض اوقات سردی بھی ہوتی ہے اوربعض اوقات آدمی سفر میں بھی ہوتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: حضر میں چوبیس گھنٹے اور سفر میں تین دن حد ہے ۔ اس کے بعد آپ کو وضو کر لینا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سستی کوئی وجہ نہیں ۔ آپ اگر معقولیت سے محسوس کرتے ہیں کہ پانی اتنی دور ہے کہ آپ کے لیے زحمت کا باعث بن جائے گا تو آپ تیمم یا مسح کر سکتے ہیں ۔اصل اصول زحمت ہے ۔ دین میں کوئی خاص مسافت مقرر نہیں کی گئی اور یہ حالات کے لحاظ سے ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ مثال کے طور پر گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ کو نماز پڑھنی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ پانی ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ہو لیکن وہاں جانا اور وضو کرنا گاڑی چھوٹنے کا باعث بن جائے گا تواس وجہ سے اگر دین اس کی مسافت مقرر کرتا تو یہ حالات کے خلاف معاملہ ہو جاتا۔ آپ اپنے طور پر اس کا فیصلہ کر لیجیے۔اور اس فیصلے کا جواب آپ نے اللہ کو دینا ہے۔ اگر نیک نیتی سے آپ نے کوئی اجتہاد کیا ہے اور غلط بھی کیا ہے تو اللہ تعالی کے ہاں اس کا اجر ملتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: آپ نے وضو کر کے جرابیں پہنی ہوئی ہیں ۔پھر آپ کو وضو کی ضرورت اگر پڑتی ہے تو آپ صرف مسح کر سکتے ہیں یہ کا فی ہے ۔کوئی حرج نہیں ہے اس میں ۔جراب کی کوئی بھی قسم ہو سکتی ہے ۔چمڑے کی یا کپڑے کی ۔جب تک دنیا ہے جراب کی قسمیں بدلتی رہیں گی۔جو جراب بھی آ پ نے پہنی ہے آپ اس پہ مسح کر سکتے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)