جواب:قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کفار اور یہود کے اس نوعیت کے مطالبات زیر بحث آئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خارق عادت امور صادر ہوں۔ اللہ تعالی نے ان کے جواب میں قرآن مجید کو پیش کیا ہے۔ شق قمر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ بعض سچی پیشین گوئیاں قرآن میں مذکور ہیں۔ احادیث میں متعدد خارق عادت واقعات مذکور ہیں۔ آپ نے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ واقعہ ہر اعتبار سے ایک معجزہ ہے۔جو واقعات اخبار آحاد سے نقل ہو رہے ہیں۔ ان پر محدثانہ تنقید تو ہوسکتی ہے لیکن بطور اصول ان کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: جب ایک آدمی عقلی طور پر مان لیتا ہے کہ اس کائنات کا ایک پروردگار ہے اور وہ پروردگار کچھ انسانوں کو منتخب کر کے رسالت کے منصب پر فائز کر دیتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے بعد اس پروردگار پر کیسے قدغن لگائی جاسکتی ہے کہ وہ ہمارے قانون کا پابند ہو کر رہے ۔ عقل تو کہتی ہے کہ معجزات صادر ہونے چاہیےں کیونکہ خداقادر مطلق ہے۔جب خدا کو ایک قادر مطلق ہستی کی حیثیت سے مان لیا تو معجزہ اس کے نتیجے میں عقلاً ماننا چاہیے ۔ نہیں مانتا تو اس کا مطلب ہے کہ آدمی عقلاً غلط بات کر رہا ہے ، وہ ایک قادر مطلق خدا کو سرے سے مان ہی نہیں رہا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بالکل کر سکتا ہے ، اگر آدمی میں ضد اور ہٹ دھرمی نہ ہو تو انبیا کا معجزہ ایسا واضح ہوتا ہے کہ ایک سلیم الطبع آدمی اسے جادو قرار نہیں دے سکتا چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ فرعون کے خوف سے لوگ ایمان نہیں لائے لیکن جب جادوگروں نے ہمت کی تو بہت سے لوگوں کے دلوں میں ا یمان اترا ہو گا ۔ قرآن کریم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قریش کے سرداروں کے خوف کی وجہ سے مکے کے لوگ ایک عرصے تک ایمان نہیں لائے لیکن سورہ فتح میں اللہ تعالی کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ دل سے مان چکے تھے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ معجزات کی دو قسمیں ہیں، حسی، جیسے عصا کا سانپ بن جانااور عیسٰی علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا،اور معنوی، جیسے قرآنِ مجید۔ جو لوگ معجزات طلب کرتے ہیں عام طور پر اُن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں حق پوری طرح سے واضح ہوتا ہے لیکن وہ اُسے ماننا نہیں چاہتے۔ ایسے لوگوں کو جب معجزہ نظر آتا ہے تو اِس سے اُن کی عقل تو بے شک آخری درجے میں عاجز ہو جاتی ہے لیکن وہ اُسے جادو وغیرہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔کیونکہ ایمان لانے کے بعد اُنہیں اپنی زندگی یکسر تبدیل کرنا پڑتی ہے اور اپنی اندھی خواہشات کو لگام ڈالنا پڑتی ہے۔عیسٰی ؑ بن باپ ہی کے پیدا ہوئے تھے۔ یہ بات قرآن سے ثابت ہے۔ دیکھیں سورہ مریم کی آیت ۱۶ سے ۲۱ تک۔
(محمد رفیع مفتی)