ج : معراج کا واقعہ ایک معجزہ ہے اور معجزہ مادی قوانین کے مطابق نہیں ہوتا۔ اس لیے انسانی ذہن کی گرفت سے باہر ہے۔ سائنس کی جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ مادی قوانین کے فہم میں ہوئی ہے۔ ماورائے مادی امور مسائل نہ اس کی پہنچ میں ہیں اور نہ اس کا موضوع۔یہ معاملہ اللہ تعالی کے امر سے وقوع پذیر ہوا تھا۔ اور اس کے ماننے کی بنیاد مخبر پر ہمارا یقین ہے۔ البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اگرچہ انسانی عقل ان مسائل کو اپنے وسائل کی مدد سے حل نہیں کر سکتی لیکن ان کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی شعور کی بناوٹ میں مذہب کی قبولیت کا مادہ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تہذیبیں مذہبی ہوتی رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ وہ معاشرے جنھیں ہم ترقی یافتہ معاشرے سمجھتے ہیں وہاں حقیقی مذہب ہو یا نہ ہو توہم پرستی اور عامل ٹائپ لوگوں کا وجود انسانی شعور کی اس سرگرمی کا واضح ثبوت ہے۔
میں نے اپنے جواب میں دو نکات بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ معراج کا واقعہ ہمارے دریافت کردہ طبیعیاتی قوانین سے ماورا ہے لہذا ان قوانین سے اس کی حقیقت سمجھ میں
نہیں آ سکتی۔ دوسرا یہ کہ اس طرح کے واقعات کے ماننے کی بنیاد خبر دینے والے پر ہمارا اعتماد ہے۔پھر میں نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ اعتماد اندھا بہرا نہیں ہے۔ ہم اپنے شعور سے انھیں سمجھنے اور ماننے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ خدا قادر مطلق ہے اور معراج اس کی قدرت کا ایک اظہار ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: جب ایک آدمی عقلی طور پر مان لیتا ہے کہ اس کائنات کا ایک پروردگار ہے اور وہ پروردگار کچھ انسانوں کو منتخب کر کے رسالت کے منصب پر فائز کر دیتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے بعد اس پروردگار پر کیسے قدغن لگائی جاسکتی ہے کہ وہ ہمارے قانون کا پابند ہو کر رہے ۔ عقل تو کہتی ہے کہ معجزات صادر ہونے چاہیےں کیونکہ خداقادر مطلق ہے۔جب خدا کو ایک قادر مطلق ہستی کی حیثیت سے مان لیا تو معجزہ اس کے نتیجے میں عقلاً ماننا چاہیے ۔ نہیں مانتا تو اس کا مطلب ہے کہ آدمی عقلاً غلط بات کر رہا ہے ، وہ ایک قادر مطلق خدا کو سرے سے مان ہی نہیں رہا ۔
(جاوید احمد غامدی)