جواب :اس روایت کے حوالے سے دو رائیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس واقعے ہی کو سرے سے نہ مانا جائے۔ اس کے قرائن بھی اس روایت میں موجود ہیں۔ سب سے قوی قرینہ یہ ہے کہ کاغذ اور قلم نہ لانے کی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب کی جارہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو مطعون کرنا ایک زمانے میں باقاعدہ مسئلہ رہا ہے۔ ممکن ہے یہ واقعہ بھی اسی جذبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہو۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وفات سے تین چار دن پہلے پیش آیا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعۃ کوئی چیز لکھوانا چاہتے تھے تو آپ وہ چیز دوبارہ کہہ کر لکھوا سکتے تھے۔ تیسرا قرینہ یہ ہے کہ اس روایت کے راویوں میں ابن شہاب بھی ہیں۔ حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں وہ روایات جن میں ان کی کوئی نہ کوئی خرابی سامنے آتی ہو ان کی سند میں بالعموم یہ موجود ہوتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس واقعے کو درست مان لیا جائے۔شارحین نے اس واقعے کو درست مانتے ہوئے اس اعتراض کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ نے یہ رائے قائم کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات ان کی طرف سے جاری کردہ کوئی امر نہیں تھا بلکہ محض ایک مشورہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کو افاقہ بھی ہوا تو آپ نے یہ خواہش دوبارہ نہیں کی۔میں ذاتی طور پر یہی محسوس کرتا ہوں کہ یہ واقعہ قابل قبول نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: تفصیلی معلومات کے لیے آپ مولانا فہیم عثمانی صاحب کی کتاب حفاظت وحجیت حدیث کا مطالعہ فرمائیں۔ مختصراً عرض ہے کہ تاریخ میں متعدد صحابہ کے نام آتے ہیں جن کے پاس لکھی ہوئی احادیث کا ذخیرہ موجود تھا۔اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو لکھنے کی اجازت دی اور بعض لوگوں کی لکھ کر دینے کی فرمایش بھی پوری کی۔بہر حال دور اول کی جو تصنیف اب بھی دستیاب ہے وہ موطا امام مالک رحمہ اللہ ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: دور اول کی تصنیفات میں سے موطا امام مالک رحمہ اللہ ہی دستیاب ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا سال وفات۱۷۹ھ ہے۔ غرض یہ کہ یہ دوسری صدی ہجری کی تصنیف ہے۔ کتب حدیث کا ماخذ مختلف راوی ہوتے ہیں۔ بعض راوی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس احادیث لکھی ہوئی صورت میں بھی ہوتی تھیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: قرآن اس امت کواجماع وتواتر سے منتقل ہوا ہے اور حدیث خبر واحد ہے۔ قرآن قطعی ہے اور حدیث ظنی ہے۔ حدیث سے قرآن کے لفظ ومعنی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی جبکہ قرآن کی روشنی میں حدیث کو سمجھا جائے گا اور تطبیق کی کوئی صورت پیدا نہ ہو تو اسے مخالف قرآن قرار دیا جائے گا اور اس سے دین میں استشہاد نہیں کیا جائے گا۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ کوئی حدیث قرآن کی کسی آیت کا متبادل نہیں ہو سکتی۔سوال: امام بخاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کتنے سال بعد بخاری لکھی اور اس کا ماخذ کیا تھا؟جواب:امام بخاری کا سال وفات۲۵۶ھ ہے۔ اس طرح یہ تیسری صدی ہجری کے نصف اول کی تصنیف معلوم ہوتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہ کتاب رواۃ سے احادیث لے کر مرتب کی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:بخاری کی حدیثوں کی گنتی میں فرق ہے ۔ ابن حجررحمہ اللہ کی گنتی کے مطابق بخاری میں ۵۷۵۶روایات ہیں۔ چند روایات کو چھوڑ کر بخاری کی روایات صحیح کے محدثانہ معیار پر پوری اترتی ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: حدیث اور قرآن میں تضاد کی بیشتر مثالیں بالعموم قرآن کی روشنی میں حدیث کو حل نہ کرنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ مزید برآں کلام فہمی کے جو اصول بعض فقہا کے پیش نظر رہے ہیں وہ بھی اس کا باعث بنے ہیں کہ بعض چیزوں کو متضاد یا مختلف قرار دے دیاجائے۔ ہمارے خیال میں صحیح روایت اور قرآن مجید میں تضاد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ بطور اصول یہی بات کہی جائے گی کہ جو حدیث قرآن سے ٹکرا رہی ہو وہ قبول نہیں کی جا سکتی۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: کتب حدیث میں کچھ روایات کو چھوڑ کر تمام روایات روایت بالمعنیٰ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو راوی نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ حدیث کہنے کی وجہ یہ ہے کہ محدث کے نزدیک وہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ جب کوئی فن مرتب ہو جاتا ہے تو اس کے بنیادی الفاظ اصطلاح کے طور استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کا لغوی مفہوم پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: روایت کا لفظ راوی کی نسبت سے بولا جاتا ہے اور حدیث کا لفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے۔ یعنی موقع استعمال کے پہلو سے یہ دو لفظ ہیں۔یہ اطلاق کے پہلو سے انھیں مترادف ہی قرار دیا جائے گا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : تفصیلی معلومات کے لیے آپ مولانا فہیم عثمانی صاحب کی کتاب حفاظت وحجیت حدیث کا مطالعہ فرمائیں۔ مختصراً عرض ہے کہ تاریخ میں متعدد صحابہ کے نام آتے ہیں جن کے پاس لکھی ہوئی احادیث کا ذخیرہ موجود تھا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو لکھنے کی اجازت دی اور بعض لوگوں کی لکھ کر دینے کی فرمایش بھی پوری کی۔بہر حال دور اول کی جو تصنیف اب بھی دستیاب ہے وہ موطا امام مالک رحمہ اللہ ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : دور اول کی تصنیفات میں سے موطا امام مالک رحمہ اللہ ہی دستیاب ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا سال وفات۱۷۹ھ ہے۔ غرض یہ کہ یہ دوسری صدی ہجری کی تصنیف ہے۔ کتب حدیث کا ماخذ مختلف راوی ہوتے ہیں۔ بعض راوی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس احادیث لکھی ہوئی صورت میں بھی ہوتی تھیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : حدیث اور قرآن میں تضاد کی بیشتر مثالیں بالعموم قرآن کی روشنی میں حدیث کو حل نہ کرنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ مزید برآں کلام فہمی کے جو اصول بعض فقہا کے پیش نظر رہے ہیں وہ بھی اس کا باعث بنے ہیں کہ بعض چیزوں کو متضاد یا مختلف قرار دے دیاجائے۔ ہمارے خیال میں صحیح روایت اور قرآن مجید میں تضاد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ بطور اصول یہی بات کہی جائے گی کہ جو حدیث قرآن سے ٹکرا رہی ہو وہ قبول نہیں کی جا سکتی۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : کتب حدیث میں کچھ روایات کو چھوڑ کر تمام روایات روایت بالمعنیٰ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو راوی نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ حدیث کہنے کی وجہ یہ ہے کہ محدث کے نزدیک وہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ جب کوئی فن مرتب ہو جاتا ہے تو اس کے بنیادی الفاظ اصطلاح کے طور استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کا لغوی مفہوم پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : روایت کا لفظ راوی کی نسبت سے بولا جاتا ہے اور حدیث کا لفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے۔ یعنی موقع استعمال کے پہلو سے یہ دو لفظ ہیں۔ اطلاق کے پہلو سے انھیں مترادف ہی قرار دیا جائے گا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : فن حدیث میں روایت ہی کو بطور حدیث قبول کیا جاتا ہے۔ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ راوی کے الفاظ کو حضور کے الفاظ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے تو آپ کی بات درست ہے۔ لیکن محدثین نے واضح درست اور عملی وجوہ کے تحت اس بات پر اصرار نہیں کیا کہ صرف وہی روایت قبول کی جائے گی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ روایت ہوئے ہوں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:دارقطنی سمیت کسی حدیث کی کتاب میں یہ روایت نہیں ملی۔ البتہ تاریخ بغداد میں یہ روایت منقول ہے۔حرف العین من آباء الحسنین میں رقم۳۸۷۴کے تحت یہ روایت فیرزان کے قول کی حیثیت سے نقل ہوئی ہے اس کتاب میں یہ روایت جس صورت میں موجود ہے وہ کسی طرح بھی قابل اعتنا نہیں ہے۔دارقطنی حدیث کی کمزور کتب میں شمار ہوتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت جانچنے کے لیے محدثین کرام نے مختلف اصول وضع کیے ہیں۔ ان کا تعلق روایت سے بھی ہے اور درایت سے بھی۔ مثلاً سند حدیث میں کسی راوی کا نام چھوٹ گیا ہو یا کسی راوی کا حافظہ کمزور ہو یا اس نے ضبط الفاظ میں تساہل سے کام لیا ہو یا اس کا اخلاق و کردار مشتبہ ہو یا وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ بولتا ہو تو اس کی روایت کو ضعیف کی اقسام میں شمار کیا گیا ہے۔ اسی طرح روایتوں کی داخلی شہادتوں سے بھی انھیں پرکھا گیا ہے۔ مثلاً کسی روایت میں لفظی یا معنوی رکاکت پائی جائے، وہ حکمت و اخلاق کی عام قدروں کے منافی ہو، حس و مشاہدہ اور عقل عام کے خلاف ہو، اس میں حماقت یا مسخرہ پن کی کوئی بات کہی گئی ہو، اس کا مضمون عریانیت یا بے شرمی کی کسی بات پر مشتمل ہو وغیرہ تو اس کا ضعیف و موضوع ہونا یقینی ہے۔حرمت سود کی شناعت بیان کرنے والی جو حدیث اوپر سوال میں نقل کی گئی ہے، اس کا موضوع ہونا کس اعتبار سے ہے؟ اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ انداز سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر نقد درایت کے پہلو سے ہے۔ لیکن اس بنیاد پر اسے موضوع قرار دینا درست نہیں۔ ماں کی عزت و احترام انسانی فطرت میں داخل ہے۔ تما م مذاہب میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ تقدس کا رشتہ استوار ہوتا ہے، زنا و بدکاری تو دور کی بات ہے، کوئی سلیم الفطرت انسان اپنی ماں کی طرف بری نظر سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ سود کے انسانی سماج پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا شکار ہونے والوں کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں اور سودی کاروبار کرنے والوں کے اخلاق و کردار پر خراب اثر پڑتا ہے۔ اس کی خباثت و شناعت واضح کرنے کے لیے اسے ‘‘ماں کے ساتھ زنا’’ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں عریانیت یا ناشائستگی کی کوئی ایسی بات نہیں، جس کی بنا پر اس کو موضوع قرار دیا جائے۔ ایک زمانے میں منکرین حدیث نے یہ وتیرہ بنا لیا تھا کہ جو حدیث بھی کسی وجہ سے انھیں اچھی نہ لگے، اسے بلا تکلف موضوع قرار دے دیتے تھے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی مایہ ناز تصنیف ‘‘سنت کی آئینی حیثیت’’ میں ان کا زبردست تعاقب کیا ہے اوران کے نام نہاد دعووں کا ابطال کیا ہے، جن لوگوں کے ذہنوں میں ایسے اشکالات پیدا ہوتے ہیں، جن کی ایک مثال اوپر درج سوال میں پیش کی گئی ہے، انھیں اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
()
ج:کوئی فرق نہیں۔ تمام جلیل القدر اہل علم حدیث کو اسی حیثیت سے مانتے رہے ہیں جس حیثیت سے میں مانتا ہوں ۔میرے اور ان کے موقف میں اصول کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ۔ پیغمبر کا اسوہ جاننے کے لیے وہ بھی اسی جانب رجوع کرتے تھے اور میں بھی ۔ وہ بھی تحقیق کر کے اس کو قبول کرتے تھے میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں ۔ وہ بھی کسی روایت کو محض اس لیے قبول نہیں کرتے تھے کہ فلاں صاحب نے کتاب میں لکھی ہے ، میں بھی ایسے ہی کرتا ہوں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: حدیث رسالت مآبﷺ کی سیرت ، سوانح اورآپ کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے اور آپ سے دین کے بارے میں جو باتیں پوچھی گئی ہیں ا ن کا علم و عمل اس میں بیان ہوا ہے ۔اس وجہ سے دین میں اس کی بڑی اہمیت ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ ہر آدمی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی بھی صحیح حدیث جو اس کی سمجھ میں نہ آئے ، اسے رد کردے۔ درایتاً رد کرنے کے بھی کچھ اصول ہیں جن کی روشنی میں صرف ایک محقق عالم ہی اس حدیث کو رد کر سکتا ہے۔ اگر کسی عام آدمی کو یہ مسئلہ پیش آئے تو اس کو کسی جید عالم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب۔ بخاری میں بھی بعض غلط احادیث موجود ہیں مثلاًبخاری کی یہ حدیث کہ عمرو بن میمون کہتے ہیں :‘‘میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بندریا کو دیکھا، اس نے زنا کیا تھا اور اس کے پاس بہت سے بندر جمع تھے، (میرے سامنے) ان بندروں نے اسے سنگسار کیا، (یہ دیکھ کر) میں نے بھی ان کے ساتھ اسے سنگسار کیا۔’’(بخاری، رقم:۳۸۴۹)اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اور جانور دونوں ہی یکساں طور پر انسانی شریعت کے مکلف ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب: بخاری میں یہ روایت سب سے پہلے کتاب الجنائز کے باب الصلوۃ علی الشہید میں نقل ہوئی ہے۔ بخاری کے ایک شارح بدر الدین عینی نے اس روایت کی سند پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سند کو صحیح ترین اسناد میں گنا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے سیاق وسباق کو سمجھنے کے لیے اس کا پورا متن سامنے رکھنا لیناچاہیے:
عن عقبۃ بن عامر أن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم خرج یوما فصلی علی أہل أحدعلی المیت ثم انصرف الی المنبر فقال إنی فرط لکم وأنا شہید علیکم وإنی واﷲ لأنظر إلی حوضی الآن وإنی أعطیت مفاتیح خزائن الأرض أو مفاتیح الأرض وإنی واﷲ ما أخاف علیکم أن تشرکوا بعدی ولکن أخاف علیکم أن تنافسوا فیہا۰
‘‘ عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے ۔ آپ نے اہل احد کے لیے نماز جنازہ پڑھی۔ پھر آپ منبر کی طرف پلٹے اور فرمایا: میں تم سے آگے ہوں۔ میں تم پر گواہ ہوں۔ بخدا ، میں اس وقت اپنا حوض دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی یا دنیا کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ بخدا اپنے بعد مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ تم شرک کرو گے۔لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تم اس (دنیوی )دولت میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرو گے۔’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایک خاص پس منظر رکھتا ہے۔ حضورﷺ نے جب مکہ میں دعوت کا آغاز کیا تھا تو آخرت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بیان کی تھی کہ انھیں ایک عظیم کامیابی حاصل ہوگی اورقیصر وکسری کی سلطنتیں ان کے زیر نگیں آجائیں گی۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں بڑے بڑے خزانے بھی ہاتھ آئیں گے۔ بدر کی فتح اس کامیابی کا نقطہ آغاز تھا۔ احد کے شہدا کی تعداد اگرچہ زیادہ تھی لیکن کامیابی کا سفر بہرحال جاری تھا۔ وہ وقت قریب نظر آرہا تھا جب مذکو رہ کامیابی واقعتا میں حاصل ہونے والی تھی۔ اسیطرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی دکھایا جا رہا تھا کہ اس دنیا سے جانے کے بعد وہ کیسے اپنے ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے حوض پر آئیں گے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ کامیابی کے نتیجے میں ان کے ساتھی ایک آزمایش سے دو چار ہوں گے۔ اس جملے میں آپ نے اپنے اسی احساس کو بیان کیا ہے۔ آپ اس حقیقت سے واقف تھے کہ وہ اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو شرک کے بارے میں پوری شدت سے متنبہ کر چکے ہیں اس لیے اس کا امکان تو نہیں کہ یہ لوگ واپس شرک کی طرف چلے جائیں گے لیکن جو(دنیوی) دولت حاصل ہوگی وہ انھیں اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ آپ نے اس خدشے کو بیان کر دیا تاکہ اہل ایمان اس کے بارے میں متنبہ رہیں۔اس تفصیل سے واضح ہے کہ شرک کی نفی کا تعلق ایک خاص جماعت(یعنی صحابہ) سے ہے۔ عملًا بھی ایسا ہی ہوا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متصل زمانے میں تو شرک راہ نہیں پا سکا لیکن بعد کے زمانوں میں بعض شرکیہ اعمال مسلمانوں کے گمراہ گروہ اختیار کرتے رہے ہیں۔باقی رہا، ہمارے ہاں فتاوی کا چلن تو اس کی وجہ فرقہ وارانہ کشمکش بھی ہے اور دعوت کی حکمت عملی سے نا آگاہی بھی۔ اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ لوگ جو غلط استدلال کی وجہ سے مشرکانہ اعمال میں مبتلا ہیں انھیں اس غلاظت سے نکالا جائے لیکن اس کا راستہ فتوی بازی نہیں بلکہ استدلال ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: سنت رسول اللہﷺ کا وہ طریقہ ہے جسے آپ نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ، اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے قرآن مجید ہے ۔سنت بھی قرآن کی طرح بالکل متعین ، ہر شک و شبہ سے بالا اور صحابہ کے اجماع سے ملی ہے ۔حدیث رسول اللہﷺکے علم و عمل کا ریکارڈ ہے ۔ اس کے اندر ہر طرح کی چیزیں بیان ہوتی ہیں ۔ واقعات و ہدایات بھی بیان ہوتی ہیں، سوالات کے جوابات بھی بیان ہوتے ہیں ۔ حدیث کا تعلق تاریخ سے ہے اور سنت کا تعلق دین کے ماخذ سے ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ بڑی خوبصورت ادبی تعبیر ہے اس بات کی کہ خدا کے عرفان کی جو صلاحیت اور اللہ کی صفات کا جوشعور ایک بندہ مومن کے دل میں ہوتا ہے وہ بڑی حد تک اللہ تعالیٰ کی صفات کا احاطہ کر لیتا ہے ۔ ِجبکہ زمین و آسمان اس سے عاجز ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ انسان کا بڑا شرف ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ ہمارے ہاں تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ ہم اس بات کے عادی ہی نہیں رہے کہ دوسروں کی بات بھی صحیح ہو سکتی ہے ۔اختلاف کو سلیقے سے حل کرنا ہمارا شیوہ نہیں۔ مذہب کی جزیات اور علما آئمہ کی آرا کوبھی ہم نے عین دین بنا لیا ہے ہم سمجھنے ’سمجھانے،ڈائیلاگ کرنے،بات سننے ،سنانے کے ببجائے اس میں سے فتویٰ بر آمد کرتے ہے ۔اور فتوی لگا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔یہ تربیت کا فقدان ہے ۔ اس کا اسلام یا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اسلام اور دین نے ہمیں جو تربیت دی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ سے مختلف بات کرے ، اختلاف کرے یا آپ کی کسی بات پہ تنقید کرے ۔تو سب سے بڑھ کر اس کی بات سنئے۔اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی غلطی پر ہوں اور وہ آپ کا محسن ہو اور وہ آپ کو اس غلطی سے نکالنا چاہتا ہو۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: عام لوگوں کو حدیث پڑھانے کے لیے مشکوۃ ایک اچھا انتخاب ہے ۔ جتنے بھی محدثین ہیں جیسے بخاری یا مسلم ،ان سب نے اپنے اپنے زاویے سے حدیث کی کتابیں مرتب کی ہیں۔مشکوۃمیں تمام کتابوں کا انتخاب کرلیا گیا ہے اوراس کی ترتیب بہت اچھی ہے یعنی مسئلہ پوری طرح سامنے آجاتا ہے۔ بخاری اصل میں اہل علم کی کتاب ہے ، اس لیے میرے خیال میں عوامی درس کے لیے اس کا انتخاب بہتر نہیں۔ اسی طرح مسلم ایک ہی روایت کو مختلف طریقوں سے لاتے چلے جاتے ہیں اس میں بھی مخاطب بوریت محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ مشکوۃ ایک خوبصورت انتخاب ہے۔ جو روایتیں میں چھوڑتا ہوں وہ ضعیف ہیں ۔ صاحبِ مشکوۃ نے کچھ ضعیف روایتیں بھی جمع کر دی ہیں ۔اس وجہ سے میں ان کو چھوڑ دیتا ہوں ، صحیح روایتوں کو لے لیتا ہوں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: کوئی بھی انسان الہامی علم کا حامل نہیں ھوتا۔ ہم سب ہی علم اپنے والدین ، اساتذہ اورماحول سے حاصل کرتے ہیں تو جوں ہی ہمارے علم میں دلائل سے یہ بات آجائے کہ ہمارا موجود علم غلط ہے تو فوراً انسان مان لے اور اپنی غلطی درست کر لے ۔ اس میں ڈسٹرب ہونے کی کیا بات ہے ۔ صحیح بات کو قبول کر لینا اور غلط بات کو چھوڑ دیناایک امتحان ہے جس میں ہمیں کامیاب ہونے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: مسئلہ تقدیر کے حوالے سے دو طرح کی احادیث ہمارے سامنے آتی ہیں۔پہلی قسم تو وہ ہے جن کے بارے میں یہ بات صاف محسوس ہوتی ہے کہ اُن میں نبی ﷺ کی بیان کردہ اصل بات روایت ہونے سے رہ گئی ہے ۔جو الفاظ اِن روایات سے ہمارے سامنے آتے ہیں انہیں وہ شعور قبول نہیں کرتا ، جو قرآن مجید کے کسی طالب علم کو اُس سے حاصل ہوتا ہے۔اِن روایات کے علاوہ باقی رویات میں کوئی تضاد نہیں اوروہ آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں البتہ آسانی تفہیم کے لیے ان کے بھی گروپ بنائے جا سکتے ہیں۔مثلاً بعض میں علم الہی کا بیان ہے کہ اللہ تعالٰی کسی واقعے کے وقوع سے پہلے اپنے کمالِ علم کی بنا پر اُسے جانتا ہے۔اُس کا یہ کمال علم ،اُس کے کمال قدرت کی بنا پر کسی جبر کو مستلزم نہیں ہے۔اگر وہ اپنی قدرت اور اپنے علم میں کامل نہ ہوتا اور اُس کا علم ،اُس کے ذہن میں موجود طے شدہ مستقبل کا مرہون منت ہوتا تو بے شک پھر جبر لازم آتا۔ لیکن خدا کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔وہ احادیث جہاں آدمی کے اعمال اور اُس کے نیک بخت یا بد بخت ہونے کا بیان ہے،یہ بھی دراصل، خدا کے علم ہی کو بیان کرتی ہیں۔بعض احادیث خدا کی قدرت کو بیان کر تی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ خدا کی قدرت اِس کی حکمت کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ اِس بات کا انکار تو وہی کرے گا جو خدا کی صفات کے سارے معاملے کو صرف کسی ایک حدیث سے طے کرنا چاہے گا۔ وہ احادیث جہاں رزق ،زندگی اور موت وغیرہ کا ذکر ہے، ان میں دراصل، خدا کی طرف سے ملنے والی اُن نعمتوں اور تکالیف کا بیان ہے، جو خدا کی مطلق مرضی اور اُس کی لا محدود حکمت کے ساتھ انسان کی آزمایش کے لیے اُسے دی جاتی ہیں۔ظاہر ہے کہ اِس معاملے میں سارے کا سارا فیصلہ یک طرفہ طور پر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ اُسی طرح کا ہے جیسا کہ ایک ممتحن یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُسے امتحان دینے والے سے کون سا سوال پوچھنا ہے اور کون سا نہیں پوچھنا۔جن احادیث میں تقدیر پرغورسے منع کیا گیا ہے ان میں در اصل خدا کے لامحدود علم کا احاطہ کرنے کی کوشش کرنے سے منع کیا گیا ہے ،کیونکہ یہ کوشش سراسر حماقت ہے۔‘‘وما اوتیتم من العلم الا قلیلا’’۔ انسان کا علم بہت محدود ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: احادیث کی تدوین صحابہ کرام کے زمانے ہی میں شروع ہو گئی تھی ۔ بعض اصحاب نے اپنے چھوٹے چھوٹے مجموعے بھی مرتب کر لیے تھے آہستہ آہستہ یہ کام ایک باقاعدہ فن کی صورت اختیار کر گیا اور تقریبا اڑھائی تین سو سال میں یہ کام منظم مجموعوں کی شکل میں مرتب ہو گیا ۔ جہاں تک اس کام کے محرکات کا تعلق ہے تو یہ بات ہم سب پر واضح ہے کہ پیغمبر ﷺ کوئی معمولی ہستی نہیں تھے ۔ جس ہستی کے جسم اطہر سے چھو کر ٹپکنے والے پانی کے قطروں کولوگ زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے ، اس کی زبان سے نکلنے والے لافانی الفاظ سے وہ کیونکر صرف نظر کر سکتے تھے ۔ لوگ تو ہم آپ جیسوں کی باتوں کو محفوظ کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ وہ ہستی تو پیغمبر کی ہستی تھی ۔ ہم جیسے تو ان کی خاک پا کے برابر بھی نہیں ہیں جو لوگ ان کے زمانے میں موجود تھے ، انہوں نے بالکل فطری طور پر آپ کے علم وعمل کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ۔ بلاشبہ انسانیت پر یہ ان کا عظیم احسان ہے ۔ آپ کے علم وعمل کی روایات کو آگے بیان کرنے میں بعض لوگ البتہ ، بے حد احتیاط کا طریقہ اختیار کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر سیدنا ابو بکر صدیق ؓ اور سیدنا عمر فاروق ؓ اس معاملے میں حد درجہ محتاط تھے یہی وجہ ہے کہ ان سے بہت کم روایات بیان ہوئی ہیں
(جاوید احمد غامدی)