جواب : وطن سے محبت ایک فطری چیز ہے، اور احادیث حب وطن کے جواز پر دلالت کرتی ہیں تاہم مذکورہ جملہ حدیث کی کتابوں میں ہمیں نہیں ملا۔ ہوسکتا ہے کسی نے اپنی طرف سے بیان کیا ہو اور یہ مطلب لیا ہو کہ وطن سے محبت ایمان کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب:دارقطنی سمیت کسی حدیث کی کتاب میں یہ روایت نہیں ملی۔ البتہ تاریخ بغداد میں یہ روایت منقول ہے۔حرف العین من آباء الحسنین میں رقم۳۸۷۴کے تحت یہ روایت فیرزان کے قول کی حیثیت سے نقل ہوئی ہے اس کتاب میں یہ روایت جس صورت میں موجود ہے وہ کسی طرح بھی قابل اعتنا نہیں ہے۔دارقطنی حدیث کی کمزور کتب میں شمار ہوتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت جانچنے کے لیے محدثین کرام نے مختلف اصول وضع کیے ہیں۔ ان کا تعلق روایت سے بھی ہے اور درایت سے بھی۔ مثلاً سند حدیث میں کسی راوی کا نام چھوٹ گیا ہو یا کسی راوی کا حافظہ کمزور ہو یا اس نے ضبط الفاظ میں تساہل سے کام لیا ہو یا اس کا اخلاق و کردار مشتبہ ہو یا وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ بولتا ہو تو اس کی روایت کو ضعیف کی اقسام میں شمار کیا گیا ہے۔ اسی طرح روایتوں کی داخلی شہادتوں سے بھی انھیں پرکھا گیا ہے۔ مثلاً کسی روایت میں لفظی یا معنوی رکاکت پائی جائے، وہ حکمت و اخلاق کی عام قدروں کے منافی ہو، حس و مشاہدہ اور عقل عام کے خلاف ہو، اس میں حماقت یا مسخرہ پن کی کوئی بات کہی گئی ہو، اس کا مضمون عریانیت یا بے شرمی کی کسی بات پر مشتمل ہو وغیرہ تو اس کا ضعیف و موضوع ہونا یقینی ہے۔حرمت سود کی شناعت بیان کرنے والی جو حدیث اوپر سوال میں نقل کی گئی ہے، اس کا موضوع ہونا کس اعتبار سے ہے؟ اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ انداز سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر نقد درایت کے پہلو سے ہے۔ لیکن اس بنیاد پر اسے موضوع قرار دینا درست نہیں۔ ماں کی عزت و احترام انسانی فطرت میں داخل ہے۔ تما م مذاہب میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ تقدس کا رشتہ استوار ہوتا ہے، زنا و بدکاری تو دور کی بات ہے، کوئی سلیم الفطرت انسان اپنی ماں کی طرف بری نظر سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ سود کے انسانی سماج پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا شکار ہونے والوں کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں اور سودی کاروبار کرنے والوں کے اخلاق و کردار پر خراب اثر پڑتا ہے۔ اس کی خباثت و شناعت واضح کرنے کے لیے اسے ‘‘ماں کے ساتھ زنا’’ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں عریانیت یا ناشائستگی کی کوئی ایسی بات نہیں، جس کی بنا پر اس کو موضوع قرار دیا جائے۔ ایک زمانے میں منکرین حدیث نے یہ وتیرہ بنا لیا تھا کہ جو حدیث بھی کسی وجہ سے انھیں اچھی نہ لگے، اسے بلا تکلف موضوع قرار دے دیتے تھے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی مایہ ناز تصنیف ‘‘سنت کی آئینی حیثیت’’ میں ان کا زبردست تعاقب کیا ہے اوران کے نام نہاد دعووں کا ابطال کیا ہے، جن لوگوں کے ذہنوں میں ایسے اشکالات پیدا ہوتے ہیں، جن کی ایک مثال اوپر درج سوال میں پیش کی گئی ہے، انھیں اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
()