فتویٰ

جواب: یہ ہمارے ہاں تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ ہم اس بات کے عادی ہی نہیں رہے کہ دوسروں کی بات بھی صحیح ہو سکتی ہے ۔اختلاف کو سلیقے سے حل کرنا ہمارا شیوہ نہیں۔ مذہب کی جزیات اور علما آئمہ کی آرا کوبھی ہم نے عین دین بنا لیا ہے ہم سمجھنے ’سمجھانے،ڈائیلاگ کرنے،بات سننے ،سنانے کے ببجائے اس میں سے فتویٰ بر آمد کرتے ہے ۔اور فتوی لگا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔یہ تربیت کا فقدان ہے ۔ اس کا اسلام یا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اسلام اور دین نے ہمیں جو تربیت دی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ سے مختلف بات کرے ، اختلاف کرے یا آپ کی کسی بات پہ تنقید کرے ۔تو سب سے بڑھ کر اس کی بات سنئے۔اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی غلطی پر ہوں اور وہ آپ کا محسن ہو اور وہ آپ کو اس غلطی سے نکالنا چاہتا ہو۔

 

(جاوید احمد غامدی)