يسئلون
اجتہاد اورحديث رسولﷺ
مولانا مودودی
اہلحدیث مدرسۂ فکر کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے برصغیر میں ہماری قدیم علمی روایت کے آخری عالم مولانا ابو الاعلیٰ مودودی فرماتے ہیں:
” دراصل آپ لوگ [ اہلحدیث ] جس غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ یہی ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہم اجتہاد و تفقہ کو حدیثِ رسول پر ترجیح دیتے ہیں، یا دونوں کو ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اصل واقعہ یہ نہیں ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ کوئی روایت جو رسول اﷲ ﷺ کی طرف منسوب ہو، اس کی نسبت کا صحیح و معتبر ہونا بجائے خود زیرِ بحث ہوتا ہے۔ آپ کے نزدیک ہر اُس روایت کو حدیثِ رسول مان لینا ضروری ہے جسے محدثین سند کے اعتبار سے صحیح قرار دیں۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے۔ ہم سند کی صحت کو حدیث کے صحیح ہونے کی لازمی دلیل نہیں سمجھتے۔ ہمارے نزدیک اسناد کی صحت حدیث کی صحت معلوم کرنے کا ایک ہی ذریعہ نہیں ہے، بلکہ وہ اُن ذرائع میں سے ایک ہے جن سے کسی روایت کے حدیثِ رسول ہونے کا ظنِ غالب حاصل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم متن پر غور کرنا، قرآن و حدیث کے مجموعی علم سے دین کا جو فہم ہمیں حاصل ہوا ہے، اس کا لحاظ کرنا، اور حدیث کی وہ مخصوص روایت جس معاملہ سے متعلق ہے اُس معاملہ میں قوی تر ذرائع سے جو سنتِ ثابتہ ہمیں معلوم ہو اُس پر نظر ڈالنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ علاوہ بریں اور بھی متعدد پہلو ہیں جن کا لحاظ کیے بغیر ہم کسی حدیث کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کر دینا درست نہیں سمجھتے۔ پس ہمارے اور آپ کے درمیان اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ حدیثِ رسول اور اجتہادِ مجتہد میں مساوات ہے یا نہیں، بلکہ اختلاف دراصل اس امر میں ہے کہ روایات کے ردّ و قبول اور ان سے احکام کے استنباط میں ایک محدث کی رائے بہ لحاظِ سند اور ایک مجتہد کی رائے بہ لحاظِ درایت کا مرتبہ مساوی ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ دونوں میں سے کس کی رائے زیادہ وزنی ہے؟ اس باب میں اگر کوئی شخص دونوں کو ہم پلہ قرار دیتا ہے تب بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا، اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے تب بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا۔ لیکن آپ لوگ اس کو گنہگار بنانے کے لیے اس پر خواہ مخواہ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ حدیث کو حدیثِ رسول مان لینے کے بعد پھر کسی مجتہد کی رائے کو اس کا ہم پلہ یا اس پر قابلِ ترجیح قرار دیتا ہے، حالانکہ اِس چیز کا تصور بھی کسی مومن کے قلب میں جگہ نہیں پا سکتا۔ “ ( تفہیمات، جلد اول، صـ ۳۶۸ )