جواب :قرآن مجید میں رزق کے حوالے سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ زمین کے ہر جاندار کا رزق اللہ تعالی پر ہے۔ یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہتے ہیں کھلا رزق دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں نپا تلا رزق دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ تم خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ گھبراؤ اللہ وہاں سے رزق کا سامان کر دے گا جہاں سے تمھیں گمان بھی نہ ہو۔
یہ دنیا آزمایش کے اصول پر چل رہی ہے اس لیے ہماری زندگی کا ایک بڑا دائرہ محنت اور کوشش کے اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ رزق کا حصول بھی اصلاً اسی اصول پر قائم ہے۔ قرآن صرف یہ واضح کرتا ہے کہ رزق کے لیے تمھاری کوشش تمھیں اس زعم میں مبتلا نہ کرے کہ یہ تمھاری کوشش کا نتیجہ ہے۔ یہ اللہ تعالی کی ذات ہے جو تمھاری کوشش کو جتنا چاہتی ہے پھل لگاتی ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہمیں اسی اصول پر زندگی گزارنی ہے کہ اپنے لیے اچھے حالات پیدا کرنے کے لیے محنت اور کوشش کروں لیکن اس میں اصل اعتماد اللہ پر ہونا چاہیے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :اصلاً یہ دنیا تدبیر پر چل رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت تدبیر کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی تدبیر کی کامیابی اور ناکامی میں ایک حصہ تدبیر کے حسن وقبح کا ہے اور اصل چیز خدا کی تائید یا عدم تائید ہے۔ کھیتی کی مثال دیکھیے۔ اگر کسان ہل نہیں جوتے گا، بیج نہیں ڈالے گااور اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرے گا تو کوئی پیداوار نہیں آئے گی۔ لیکن جب وہ یہ سب کچھ کرتا ہے تو اس کھیتی کی کامیابی کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔کسان کی تدبیر کے دائرے سے باہر کے امکانات کی موافقت بھی ضروری ہے۔مثلاً موسم اور دوسری آفات کا نہ ہونا۔ چنانچہ صحیح تدبیر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی توفیق ہی سے کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ناکامی پیش آئے تو دونوں چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک یہ کہ تدبیر میں کیا کمی رہ گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کو کیا آزمایش کرنا پیش نظر تھی۔ ہم اگرچہ پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ کسی عمل کے جو نتائج نکلے ہیں ان میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم مایوسی اور بے ہمتی کا شکار ہونے کے بجائے نئے عزم سے اور بہتر تدبیر کے ساتھ نئی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔باقی رہا تقدیر کا معاملہ تو رزق کے معاملے میں قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو کم اور کسی کو بے حساب رزق دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالی یہ فیصلہ کسی حکمت ہی کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم صحیح تدبیر کریں اللہ تعالی کے ساتھ بندگی اور توکل کے تعلق کو قائم رکھیں اور جو کچھ نتائج نکلیں کامیابی کی صورت میں اسے شکر کی آزمایش سمجھیں اور ناکامی کی صورت میں اسے صبر کی آزمایش کے طور پر دیکھیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :قرآن مجید میں رزق کے حوالے سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ زمین کے ہر جاندار کا رزق اللہ تعالی پر ہے۔ یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہتے ہیں کھلا رزق دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں نپا تلا رزق دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ تم خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ گھبراؤ اللہ وہاں سے رزق کا سامان کر دے گا جہاں سے تمھیں گمان بھی نہ ہو۔ یہ دنیا آزمایش کے اصول پر چل رہی ہے اس لیے ہماری زندگی کا ایک بڑا دائرہ محنت اور کوشش کے اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ رزق کا حصول بھی اصلاً اسی اصول پر قائم ہے۔ قرآن صرف یہ واضح کرتا ہے کہ رزق کے لیے تمھاری کوشش تمھیں اس زعم میں مبتلا نہ کرے کہ یہ تمھاری کوشش کا نتیجہ ہے۔ یہ اللہ تعالی کی ذات ہے جو تمھاری کوشش کو جتنا چاہتی ہے پھل لگاتی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہمیں اسی اصول پر زندگی گزارنی ہے کہ اپنے لیے اچھے حالات پیدا کرنے کے لیے محنت اور کوشش کریں لیکن اس میں اصل اعتماد اللہ پر ہونا چاہیے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :میں آپ کے سوال کو اس معنی میں لے رہا ہوں کہ قرآن مجید میں رزق کا لفظ کس معنی میں آیا ہے۔عربی زبان میں رزق کا لفظ جہاں روزی روٹی کے معنی میں آتا ہے وہاں ہر طرح کی عنایات کے لیے بھی آتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی یہ مال و دولت کے لیے بھی ہے، متاع حیات کے لیے بھی آیا ہے اور ہدایت و معرفت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ مختصرا ًہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رزق کا لفظ اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو عطا ہونے والی ہر عنایت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: نصیب کوسمجھ لینا چاہیے ۔اللہ تعالی کی طرف سے جو چیزیں ملتی ہیں توان کے بارے میں یہ طے ہوتا ہے کہ فلاں فلاں چیز محنت کے بغیر مل جائے گی اور فلاں فلاں چیز محنت کے ساتھ ملے گی ۔چونکہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی چیز محنت کے بغیر مل جائے گی اس لیے ہمیں تو محنت بہر حال کرنی ہے ۔رزق کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ رزق کا کچھ حصہ آپ کو محنت کے بغیر ملے گا اور کچھ حصہ محنت کے ساتھ مشروط ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایک ہی بات ہے ۔ جو حلال ہے وہ طیب ہے اور جو طیب ہے وہ حلال ہے ۔پاکیزہ رزق وہی ہے جس کے اندر کوئی حرام کی آمیزش نہ ہو ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج۔ بے شک انسان کو اُس کا مقدر رزق ہی ملتا ہے۔البتہ کوشش کرنا فضول نہیں، کیونکہ اِس سے وہ رزق ملتا ہے، جس کا ملنا کوشش کے ساتھ ہی مقدر ہوتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)