معاش

اگر مرد و خواتین شرعی حدود، اخلاقی آداب اور شرم و حیاکا خیال رکھیں تو مرد لیکچرار عورتوں کو لیکچر دے سکتا ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک مجالس میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی شامل ہوتیں تھیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو بھی وعظ و نصیحت کرتے تھے۔

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب: اصلاً یہ دنیا تدبیر پر چل رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت تدبیر کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی تدبیر کی کامیابی اور ناکامی میں ایک حصہ تدبیر کے حسن وقبح کا ہوتاہے لیکن اصل چیز خدا کی تائید یا عدم تائید ہے۔ کھیتی کی مثال دیکھیے۔ اگر کسان ہل نہیں جوتے گا، بیج نہیں ڈالے گااور اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرے گا تو کوئی پیداوار نہیں آئے گی۔ لیکن جب وہ یہ سب کچھ کرتا ہے تو اس کھیتی کی کامیابی کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔کسان کی تدبیر کے دائرے سے باہر کے امکانات کی موافقت بھی ضروری ہے۔مثلا موسم اور دوسری آفات کا نہ ہونا۔ چنانچہ صحیح تدبیر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی توفیق ہی سے کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ناکامی پیش آئے تو دونوں چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک یہ کہ تدبیر میں کیا کمی رہ گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کو کیا آزمایش کرنا پیش نظر تھی۔ ہم اگرچہ پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ کسی عمل کے جو نتائج نکلے ہیں ان میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم مایوسی اور بے ہمتی کا شکار ہونے کے بجائے نئے عزم سے اور بہتر تدبیر کے ساتھ نئی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔باقی رہا تقدیر کا معاملہ تو رزق کے معاملے میں قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو کم اور کسی کو بے حساب رزق دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالی یہ فیصلہ کسی حکمت ہی کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم صحیح تدبیر کریں اللہ تعالی کے ساتھ بندگی اور توکل کے تعلق کو قائم رکھیں اور جو کچھ نتائج نکلیں کامیابی کی صورت میں اسے شکر کی آزمایش سمجھیں اور ناکامی کی صورت میں اسے صبر کی آزمایش کے طور پر دیکھیں۔

(مولانا طالب محسن)

ج: دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہیں۔ نماز روزے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔روزے سال میں ایک بار آتے ہیں اور نماز پڑھنے میں پانچ دس منٹ لگتے ہیں ۔ باقی سارا وقت معاشی جدوجہد کے لیے ہے۔معاش کی جدوجہد فطرت کا تقاضا ہے اور اس کے لیے اللہ نے انسان کو پوری صلاحیت دی ہے ، اسے اپنے رب سے مایوس ہونے کے بجائے اس پربھروسہ رکھنا چاہیے اور نئے نئے راستے نکالنے چاہیےں ۔ نماز روزہ اسے اللہ سے جوڑتا ہے اور اللہ سے جڑنا معاشی جدوجہد میں بھی معاون و مددگار ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سب سے پہلی چیز قومی مزاج کا تبدیل کرنا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دنیا پر ایک ہزارسال تک حکومت کرتے رہے تو اس وجہ سے فخر کی نفسیات سے ہم ابھی تک نکل نہیں پائے۔ زمینی حقائق کو بالعموم نظر انداز کرتے ہیں اور حقائق کے خلاف زندگی بسر کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے یعنی وہ چیزیں جن کو ہم موخر کر سکتے تھے ان کو خواہ مخواہ ہم نے مسئلہ بنا لیا دوسری بڑی وجہ کرپشن ہے ۔جب ایک سوسائٹی کرپٹ ہو جاتی ہے تو پھر اس پر اللہ تعالی کی طرف سے ایک سزا قرضوں کی صورت میں نافذ کر دی جاتی ہے ۔ تورات میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے یہود سے یہ کہا ہے کہ قرض میرا عذاب ہے جو میں نافذ کر دیتا ہوں کسی قوم پر۔یہ عذاب اسی وقت نازل ہوتا ہے جب کسی قوم کی اخلاقی حالت انتہائی پستی کو پہنچ جائے ۔ہمارا معاشرہ انفرادی اور اجتماعی طور پر کس اخلاقیات کو پہنچا ہوا ہے ہم سب جانتے ہیں ۔ جہاد اور قتال کی بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں لیکن معمولی معمولی اخلاقیات سے بھی ہم عاری ہیں۔ وہ چیزیں جو ہم پر نافذ ہونی چاہیےں ہم انہیں سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے جبکہ ساری دنیا پرخدائی فوجدار بن کر شریعت نافذ کرنے کے لیے ہم میں سے ہر شخص تیار ہوتا ہے۔ یہ اخلاقی انحطاط انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ یہ اخلاقی انحطاط جب تک ہم دور نہ کریں گے قرضوں کی لعنت سے چھٹکارانہیں مل سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)