ج: سرزد ہو جاتا ہے ،ان الفاظ پر غو رکیجیے ، یعنی جذبات کے غلبے میں آدمی خود پر قابو نہیں پاسکا ، خدا سے ڈرتا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو لیکن پھسل گیا ، یہ سرکشی نہیں ہے ، اس کے بعد ایسا آدمی نادم ہو گا اور فورا رب کی طرف رجوع کرے گا ، معافی مانگے گا ، اور اللہ تعالی نے قرآن میں کہا ہے کہ جب کوئی آدمی اس طرح جذبات کے غلبے میں آکر کوئی گنا ہ کر لیتا ہے اور فورا معافی مانگ لیتا ہے تو اللہ نے لازم کر رکھاہے کہ اس کی توبہ کو قبول کرے ، یہ خدا کی بڑی رحمت اور بڑا کرم ہے لیکن آدمی اگر منصوبہ بندی کر رہاہو کہ گناہ کر کے معافی مانگ لوں گا تو یہ بڑی سرکشی کی بات ہے ، ایک چیز ہے انسان سے ہو گئی اور ایک چیز وہ کرنے پر مصر ہو گیا تو ان دونوں میں بڑا فرق ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ‘سرزد ہو جاتا ہے’ ،ان الفاظ پر غو رکیجیے ۔ یعنی جذبات کے غلبے میں آدمی خود پر قابو نہیں پاسکا ، لیکن وہ خدا سے ڈرتا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو لیکن پھسل گیا ۔یہ سرکشی نہیں ہے ، اس کے بعد ایسا آدمی نادم ہو گا اور فوراً رب کی طرف رجوع کرے گا ، معافی مانگے گا ۔اور اللہ تعالی نے قرآن میں کہا ہے کہ جب کوئی آدمی اس طرح جذبات کے غلبے میں آکر کوئی گنا ہ کر لیتا ہے اور فوراً معافی مانگ لیتا ہے تو اللہ نے لازم کر رکھاہے کہ اس کی توبہ کو قبول کرے ۔ یہ خدا کی بڑی رحمت اور بڑا کرم ہے لیکن آدمی اگر منصوبہ بندی کر رہاہو کہ گناہ کر کے معافی مانگ لوں گا تو یہ سرکشی ہے۔ ایک چیز ہے کہ انسان سے ہو گئی اور ایک چیز ہے کہ وہ کرنے پر مصر ہو گیا۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: جرم کی سزا دراصل، اُس کی شناعت اور اُس کی سنگینی کی بنا پر ہوا کرتی ہے، نہ کہ مدتِ جرم کی بنا پر۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ مدتِ جرم بھی جرم کی سنگینی میں اضافے کا باعث ہوتی ہے، لیکن جرم کی سنگینی کی واحد وجہ اُس کی مدت نہیں ہوتی ۔ بعض جرم چند لمحوں کے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے بے پناہ اثرات چھوڑتے ہیں۔ مثلاً کسی کو قتل کرنے کا جرم۔ چنانچہ اصل مسئلہ جرم کی شناعت کا ہے۔اگر کوئی شخص اپنے شفیق اور مہربان والدین کو قتل کر دیتا ہے، تو آپ بتائیے کہ اُس کے جرم کی سنگینی کس درجے کی ہے۔ ایک دوسرے پہلو پر غور کریں۔نیکی کے بدلے میں نیکی کی جائے، تو یہ خوبی ہے۔ لیکن اگر وفاکے بدلے میں بے وفائی کی جائے، ایثار کے بدلے میں لُوٹ لیا جائے،خدمت کرنے کے بدلے میں بے گار لی جائے، محبت کرنے کے بدلے میں دشمنی کی جائے، تو یہ سراسر ظلم ہو گا ، بہت بڑا ظلم۔اور اسی لحاظ سے سنگین بھی قرار پائے گا۔
خدا انسان کا خالق بھی ہے اور رب بھی، اُس کا منعم بھی ہے اور محسن بھی۔ انسان محض اور محض خدا کے فضل کے سہارے کھڑا ہے۔انسان کے ساتھ خدا کا رویہ انتہائی احسان کرنے والے کا ہے۔ اُس کے ساتھ انسان کا معاملہ برابر کانہیں ہے۔ انسان خدا کے بل بوتے پر قائم ہے۔ وہ اُس کا سراپا محتاج ہے ۔ چنانچہ پھر انسان کی طرف سے اتنے اچھے اور اُس کی زندگی میں اتنی اہمیت رکھنے والے خدا کے ساتھ، ایک لمحے کی سرکشی بھی اپنے اندر لا محدود سنگینی رکھتی ہے۔ اِس لیے کہ یہ مخلوق کی اپنے خالق کے ساتھ سر کشی ہے۔ یہ بندے کی اپنے رب کے ساتھ سر کشی ہے اِس جرم کی شناعت ماپی ہی نہیں جا سکتی۔ انسان جب فی الواقع مجرم بن کر جرم کرتا ہے تو اُس کی اپنی جانب سے جرم زماں و مکاں کی حدوں میں محدود نہیں ہوا کرتا۔ فرعون نے اپنے ارادے اور اپنی نیت کے اعتبار سے کسی محدود وقت تک کے لیے فرعونیت اختیار نہیں کی تھی اور اپنی طرف سے اُس نے اپنی فرعونیت کا دائرہ صرف ملکِ مصر تک محدود نہیں کیا تھا ۔ اُسے خدا نے جتنا موقع دیا تھا، اُس میں اُس نے فرعون ہی بن کر دکھایا اور جتنا علاقہ دیا، اُس سب میں اُس نے فرعون ہی بن کر دکھایا تھا۔ خدا اگر اُس کے لیے مواقع اور علاقے کو لامحدود کر دیتا تو کیا خیال ہے کہ ہم اُسے آج ایک مہربان بادشاہ کے طور پر دیکھ رہے ہوتے، نہیں بالکل نہیں۔ خدا سے سرکشی اپنی اصل ہی میں زماں و مکاں سے بالا ایک لا محدود جرم ہوتا ہے۔سرکشی کرنے والا ایک خاص مدت کا تعین کر کے سرکشی نہیں کرتا۔اسے اگر مزید موقع ملتا تو وہ مزید سرکشی کرتا گویا اس کی نیت لامحدود ہی کی ہوتی ہے ۔اس لیے اس کی سزا بھی لامحدودہے۔
(محمد رفیع مفتی)